نہ ان کی ہارنئی ہے نہ اپنی جیت نئی

سائیکوٹ اور پائیکس کی تقسیم کے بعد عربوں کے حصے میں بادشاہ آئے اور ان کے حاکموں کے حصے میں تیل۔ یہ تیل سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ نہیں لگا کیونکہ وہ اس وقت خلیفہ خلیفہ کھیل رہے تھے۔ عرب بادشاہت کے تخلیق کار جانتے تھے انہیں اس خطے میں مستقل سکونت کے لئے ایک بغل بچہ ریاست چاہیے، انہیں عرب بادشاہت پر پورا یقین تھا کہ وہ اپنے حاکموں کے مفادات کا تادم مرگ بادشاہت دفاع کریں گے۔ لیکن ان کو یہ یقین بھی تھا کہ جب عوام جاگے گی تو بادشاہت ہمارے دروازے پر پناہ کے لئے بچاﺅ بچاﺅ کی صدا لگائیں گے۔ اس تیل کے قبضے اور عرب خطے میں مستقل سکونت کے لیے اسرائیل کی ریاست کو گھڑا گیا۔ وہ عرب جو خود اس خطے میں اپنی معاشی و سماجی بقا کے لئے اس خطے کے صدیوں سے رکھوالے تھے، وہ بادشاہت کے زیر نگیں ہوئے اور ان کا تیل ان ہی کی بادشاہت کے رکھوالوں کی معاشی مالش کی بنیاد بنا۔
ایک وہ زمانہ تھا کہ عرب اور یہودی ایک ہی ریاست میں شیرو شکر رہے، وہاں کبھی ایسے فسادات نظر نہیں آتے جیسے مملکت خداداد میں اکثر ہندوو¿ں یا عیسائیوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہاں کبھی ایسے الزام نہیں لگائے گئے جیسے یہاں لگا کر آبادیاں اجاڑی جاتی ہیں۔
یہاں تک کہ جب مغربی بادشاہت و چرچ کو یہ خطہ اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لئے مذہبی جنگ کے لئے موزوں لگا ۔تب بھی اس خطے کے باشندے ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے دشمن سے لڑتے رہے۔
انہیں معلوم تھا کہ کسی زمانے میں کوئی فرڈنڈ اور ایزابیل آئے تھے، انہوں نے مقامیوں کا بلاتفریق رنگ و مذہب قتل عام کیا۔
لیکن اس بار ان کی بدقسمتی دوہری تھی، ایک بادشاہت کی تلوار جو عوام کے سر مستقل کاٹتی رہی اور دوسرا عذاب یہ کہ تیل نکل آیا تھا۔ جس کے حصول کے لیے مستقل جنگ لازمی تھی۔ اس جنگ نے عوام کا تیل بھی نکالنا تھا۔
مغرب کے سرمایہ دار و ساہوکار جانتے تھے کہ اس خطے میں مستقل سکونت ہی اس جنگ کے لئے لازمی ہے۔ سو اسرائیل کی تخلیق لازمی تھی۔ انہیں ماضی کی مذہب کے نام پر معاشی جنگوں کی شکست کا اندازہ تھا کہ مستقل سکونت کے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا۔
اس لئے پوری دنیا سے یہاں آبادکاری کی آبیاری کی گئی۔ ان آبادکاروں کے ہاتھ میں ایک کتاب اور جھنڈا دے کر بھیجا گیا۔ یہاں موجود بادشاہتوں نے خاموشی اختیار کی اور تیل کے سوداگر بستیاں جلاتے رہے۔
وہ عرب جو اس خطے کو اپنی شناخت کی مرکزیت جانتے تھے، وہ بادشاہ کی تلوار کے زیر سایہ خاموش ہوئے اور جن کی زمین چھینی گئی وہ جنگ کا ایندھن بنتے رہے۔
اسرائیل کی تخلیق نے فلسطین میں موجود عوام کو تقسیم کیا، وہ جن کی سماجی و معاشی قدریں اور مفادات مشترک تھے، وہ قوموں میں تقسیم ہوگئے، عرب فلسطینی بن گئے اور یہودی اسرائیلی۔ اس تقسیم کے لیے لازمی تھا کہ عرب بادشاہت کو بھی دوام حاصل ہو، اور ان کی مستقل امداد بھی جاری رہے۔ مغرب پوری دنیا میں عوامی جمہوری حکومت کا قیام چاہتی ہے، لیکن وہ اس خطے میں بادشاہت کا مستقل قیام بھی چاہتی ہے۔ تاکہ ہر عوامی ابھار کو روکا جا سکے۔
جہاں جہاں عوامی ابھار نے مغرب کے مسلط بادشاہت کو مسترد کیا وہاں مغربی سرمایہ دار نے ڈکٹیٹرشپ مسلط کی، لیکن ڈکٹیٹر کے پاس حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی جواز تو تھا نہیں، لہذا اس نے اپنی ڈکٹیٹڑشپ کی بقا کے لیے کئی خود ساختہ نعرے دئے۔ انہوں نے پہلے قومی بنیادی گھڑیں اور اس میں مذہب کی جذباتی آمیزش کو یقینی بنایا۔ اور پھر اسرائیل پر چڑھ دوڑا تاکہ عوام کو بنیادی مسائل کے لیے سوچنے کی مہلت نہ دی جائے، جدوجہد سے روکا جائے۔
دوسری طرف مغربی آشیرباد سے اسرائیل، جو خود جرمن گھیٹوز سے نکلا تھا، فلسطینیوں کے لئے غزا اور ویسٹ بینک نامی گھیٹو بناتا ہے، اور انہیں مستقل ان گھیٹوز میں رکھنے کے لئے ان کا معاشی گھیراو¿ کرتا ہے اور پھر ان پر آبادکار مسلط کرتا ہے۔
یہ وہ خطہ ہے جہاں پہلے سنگل سٹیٹ کی بات فلسطینی و مقامی یہودی کرتے ہیں اور پھر مغربی دباو¿ میں فارمولا بھی بن جاتا ہے۔ لیکن مغرب اچھی طرح جانتا ہے کہ ٹو سٹیٹ تھیوری کہیں جمہوری بنیادیں نہ پیدا کر دے، کہیں اس فارمولے نے اس کی بے لگام بادشاہت کے لئے خطرے پیدا کر دیے تو یہ خطہ بمعہ تیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
لہذا اس قبضے کے لئے لازمی ہے کہ فلسطین میں یہودی اور مسلمان تقسیم کو برقرار رکھا جائے۔ تاکہ خطے میں امریکی موجودگی امریکی و مغربی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔ تاکہ عرب بادشاہت کو مستقل مستحکم کیا جا سکے۔
پہلی و دوسری عرب اسرائیل جنگ سے مغرب بالخصوص امریکہ یہ جان چکا تھا کہ اسرائیل کے پڑوسی کسی بھی وقت تیسرا حملہ کر سکتے ہیں، لہذا عراق کی تباہی لازمی تھی کہ وہاں گلتی سڑتی ڈکٹیٹڑشپ اب ابلنے اور بدبو پھیلانے لگی تھی۔ شام کو جنگی لیبارٹری بنانا بھی لازمی تھا کہ جمہوری ہونے لگا تھا۔
یہ خطرہ امریکہ کو تب محسوس ہوا کہ جب عرب بہار کی خوشبو پھیلی، امریکہ بھلا کب چاہے گا کہ اس خطے کے عوام سوچنے لگےں، امریکہ بھلا کب چاہے گا یہ یہاں لوگوں کا اکٹھ ہو۔ امریکہ تو ہر عوامی شعوری اجتماع پر دفعہ 144 لگاتا آیا ہے۔ امریکہ تو ہر جمہوری انقلاب پر تھری MPO لگاتا رہا ہے۔ امریکہ تو ہر عوامی تحریک کا قاتل ہے۔
جو قتل عام اس وقت اسرائیل امریکی و مغربی آشیرباد میں فلسطین کی عوام کا کر رہا ہے، جس کی پشت پناہی عرب بادشاہت کا تیل کر کر رہا ہے، اس نے اپنے انجام پر پہنچنا ہے۔ نہیں معلوم کہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مغربی ممالک کے عوامی احتجاج کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ لیکن عرب خطے کے مظلوم عوام جو اب دیکھ رہے ہیںاور سوچ رہے ہیں کہ ان پر مسلط کردہ مغربی بادشاہتوں کا مقابلہ کیے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ مسئلہ عرب عوام کا ہے، ان ہی کی جدوجہد اس مسلے کا حل نکالے گی۔ ان کی جدوجہد کی کامیابی یقینی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*