سنگت کانگریس

ہر کانگریس کی طرح اس بار بھی سنگت اکیڈمی کی دسویں کانگریس کے لیے 2023کے آخری مہینے وقف کیے گئے۔ یہ آخری دو تین ماہ ہر دو سال بعد آجاتے ہیں ۔ تب ہم سنگت اکیڈمی کے معمول کے کام یعنی ادبی نشستیں ، بلوچستان سنڈے پارٹی کی نشستیں، اور دیگر اداروں کی میٹنگیں معطل کر دیتے ہیں اور کانگریس کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں 17ستمبر کو سنگت اکیڈمی کی سنٹرل کمیٹی کا توسیعی اجلاس منعقد ہوا ۔ چونکہ حال ہی میں بلوچی کے بڑے شاعر مبارک کاضی کا انتقال ہوگیا تھااس لیے نجیب سرپرہ کی قیادت میں دعا فاتحہ کی گئی ۔ دوستوں نے اس کے فکرو فن کو خوب سراہا۔
سابقہ میٹنگ کے منٹس پڑھے گئے اور ان کی منظوری دی گئی ۔سنٹرل کمیٹی کو بتایا گیا کہ نئی سیکرٹری رپورٹس تمام ممبرز کو بھیجی گئی تھیں ، جس پر کسی بھی ممبر نے کوئی ترمیم یا تجاویز نہیں دیں۔ سنٹرل کمیٹی میٹنگ کے سامنے سیکریٹری رپورٹ، سیاسی رپورٹ اور فنانس رپورٹ پڑھی گئیں۔ بحث مباحثہ ہوا، تجاویز و ترامیم پیش کی گئیں۔ اور اس طرح رپورٹس کو آخری شکل دے کر منظور کیا گیا جن کو آئندہ کانگریس کے کلوز سیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جانا تھا۔
اسی طرح سنگت اکیڈمی کے منشور میں ترامیم و تجاویز کے کیے بھی ممبرز کی طرف سے کوئی تجاویز نہیں پیش کی گئیں اس لیے اس منشور میں بغیر کسی تبدیلی کے سنٹرل کمیٹی نے منظور کیا۔ اسے بھی کانگریس کے کلوز سیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
سینٹرل کمیٹی نے سنگت کے اگلے دو سال کے لیے الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن قائم کیا۔ الیکشن کمشنر کے لیے جئیند خان جمالدینی کو نامزد کیا۔ اس نے اپنی معاونت کے لیے دو ارکان لیے: جاوید اختر اور ڈاکٹر حسن خان عیسیٰ زئی ۔ الیکشن کے حوالے سے طے پایا کہ سنٹرل کمیٹی سیکریٹری جنرل ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل ، ڈین فیکلٹیز اور فیکلٹیز چئیر پرسن کے لیے کاغذات نامزدگی 22 ستمبر 2023 بروز جمعہ تک الیکشن کمیشن میں جمع کی جاسکتی ہیں۔ امیدوار اپنا نومینیشن فارم پُر کرکے 22 ستمبر تک الیکشن کمیشن میں جمع کریں گے۔
سنیٹرل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ دسویں ڈیلیگیٹس کانگریس کا پہلا سیشن یعنی اُس کا کلوز سیشن 24 ستمبر2023 کو منعقد ہوگا ۔ ہر ڈیلیگیٹ تین ممبر پر منتخب کیا جائے گا۔ جبکہ 8 اکتوبر 2023 کو کانگریس کا اوپن سیشن ہوگا جو کہ صبح 10 بجے پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوگا۔ جس میں سنگت اکیڈمی آف سائنسزز کی کتابوں کا سٹال بھی لگایا جائے گا جس کی ذمہ داری ڈاکٹر مبین کو سونپ دی گئی۔
انتظامی کمیٹی میں نجیب سرپرہ ، جمیل بزدار اور علی عارض مقرر کیے گئے۔ جو سٹیج ، بینرز، سائونڈ ،وڈیو سسٹم اور کانگریس کی دیگر انتظامات کے ذمہ دار ہوں گے۔ جبکہ گانگریس کے پریس ریلیز اور کوریج کی ذمہ داری ڈاکٹر عطااللہ بزنجو کے ذمہ لگایا گیا۔
سنگت اکیڈمی کے فنانس کے حوالے سے تمام ممبر زسے کانگریس فنڈ کے لیے 100 روپے ، جبکہ سی سی ممبرز کو مزید رقم جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ علاوہ ازیں کچھ دوستوں کے عطیہ کردہ سات آٹھ ہزار کو بھی قبول کیا گیا۔
سنٹرل کمیٹی اجلاس کے فیصلوں کو کانگریس میں پیش کرنا ایک آئینی تقاضا تھا۔ چنانچہ 24ستمبر کو سنگت اکیڈمی کی کلوزڈ ڈیلی گیٹس کانگریس سنگت اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عطاللہ بزنجوکی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس حوالے سے کلوزڈ سیشن میں سنگت اکیڈمی کے سیاسی ، تنظیمی اور فنانس رپورٹ پہ بحث کرکے اسے حتمی شکل دی جانی تھی۔
اسی طرح سنگت اکیڈمی کی اگلی سنٹرل کمیٹی کا انتخاب کیا جانا تھا۔اور یہ دونوں کام ہوگئے ، بہت ہی احسن طریقے سے ۔عطااللہ بزنجو نے سیکریٹری جنرل رپورٹ میں سنگت اکیڈمی کی دوسالہ سیاسی، تنظیمی اورفنانشل صورتحال بتائی۔ تجاویز اور ترامیم پہ اچھی خاصی بحث کی گئی اور بالآخر ایک متفقہ صورت سامنے آئی اور اُس شکل میں رپورٹس کی منظوری دی گئی۔
الیکشن کمشنر جئیند جمالدینی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صرف ایک فارم ڈین فیکلٹیز کے لیے موصول ہوا ۔ سنگت منشور میں درج ہے کہ اگر کسی عہدے کے لیے کوئی امیدوار سامنے نہ آئے تو اس صورت میں سنٹرل کمیٹی اپنی طرف سے ایک لسٹ تجویز کرتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ یوں مہیا کی گئی مجوزہ متبادل امیدواروں کی لسٹ پیش کی گئی۔متفقہ طور پر کانگریس کے کلوز سیشن نے ایک 9رکنی سنٹرل کمیٹی کا انتخاب کیا جس میں اگلے سیکریٹری جنرل، ڈپٹی سیکریٹری جنرل، اور ڈین فیکلٹیز کا انتخاب بھی شامل تھا۔
اسی طرح قراردادوں کی منظوری دینے کے بعد ہفتہ بعد منعقد ہونے والی کانگریس کے اوپن سیشن کے انتظامات کے لیے مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں، ذمہ داریاں بانٹی گئیں اور عارضی وٹس ایپ گروپ بنائے گئے تاکہ سارے کام احسن طریقے سے انجام پائیں ۔ اور یہ ہفتہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ جگہ تو پروفیشنل اکیڈمی کا بڑا ہال چنا گیا ۔ سٹیج ،بینرز ، ڈائس اور ہال میں کرسیاں لگادی گئیں۔ ساﺅنڈ سسٹم کا انتظام ہوا، کتابوں کا سٹال سجا ، پانی کا انتظام ہوا۔ یوں کانگریس سے ایک شام پہلے سب انتظامات حتمی شکل اختیار کر گئے۔
یہ تو اب سنگت کی روایت بن چکی کہ کانگریس کی کاروائی بلوچی میں ہوگی براہوی اور پشتو بھی لازم ہیں۔ حلف برداری میںبھی ہرشخص اپنی مادری قومی زبان میں حلف لے گا۔ چونکہ پروگرام سارا آن لائن لائیو ہونا تھا اس لیے ہم اپنی زبانوں کو ترقی دینے کی ترغیب سب دیکھنے سننے والوں کو دے رہے تھے۔

سنگت اکیڈمی ہر ماہ دو بار بک سٹال لگاتی ہے ، مہینے کے پہلے سنڈے کو (بلوچستان سنڈے پارٹی کی نشست میں ) اور آخری سنڈے (پوہ زانت نشست میں ) ۔اب جب دسویں دو سالہ کانگریس ہورہی تھی تو بڑے پیمانے کا بک سٹال لگانے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ ایک شام پہلے ہی ایک زبردست سٹال لگایا گیا۔ جہاں سنگت اکیڈمی کی کتابیں نصف قیمت پر رکھی گئیں۔۔۔۔ ۔ اور اگلے دن کے پہلے پہر نے دیکھا کہ سٹال کی میزوں پہ خالی جگہیں پیدا ہوتی جارہی تھیں ۔ کانگریس کے اختتام تک دوستوں نے بتایا کہ وہ ہزاروں روپوں کی کتابیں فروخت کر چکے ہیں۔ یہ تو پہلے سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ بک سٹال سے حاصل شدہ رقم صرف نئی کتابیں چھاپنے کی مد میں خرچ کی جائے گی۔
حساس لوگوں کی رات جوں توں گزری اور صبح سویرے کانگریس ہال میں اُن کی حاضری بڑھتی رہی۔ ساڑھے گیارہ بجے کانگریس نے شروع ہونا تھا اور پندرہ منٹ لیٹ یعنی پونے بارہ بجے ہماری نشستیں بھر گئی تھیں اور کاروائی شروع کی گئی۔
سنگت دو سالہ کانگریس ہمیشہ گل خان نصیر کی اپنی آواز والی دعا سے شروع ہوتی ہے ، اس بار بھی ایسا ہوا:

یا خداوند ا بلوچانا چشیں مردم بہ دئے
پُر دماغ و جاں نثار و زندہ دل روشن خیال
سر بہ بیت خالی چہ کہن و گندگیں رسم و راج
دپ بہ بیت کندوک آوانی پہ ہر رنج و ملال
دل مزارانی بہ سندنت او جگر شیر نرئے
پہ غریباں دست آوانی بی بیت غیبی کمک
پکر آوانی بہ بیت روژنا تراچ مہر منیر
کورمہ بیت چو شے و ملایاں ہماوانی ضمیر

سیکریٹری جنرل اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل اپنی نشستوں پہ براجمان ہوئے توسٹیج سیکریٹری جمیل بزدار نے اکیڈمی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عطاءاللہ بزنجو کو ”سیکریٹری جنرل رپورٹ “پیش کرنے کے لیے سٹیج پہ بلایا۔ رپورٹ کا خلاصہ یوں تھا:
سیکریٹری جنرل رپورٹ کے سیاسی حصے میں کہا گیا کہ تقریباً ساری دنیااس وقت کپٹلزم میں ہے۔ یہ حریص نظام ہمہ وقت جنگیں کرواتا رہتا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کے پیچھے بھی کپٹلزم کا باہمی جھگڑا تھا۔ وہ مختلف بلاکوں کی شکل میں اپنی اجاراداری قائم کرنے کے لیے خون بہاتے رہے۔ حالیہ برسوں میں کورونانے بھی بین الاقوامی معیشت کو بری طرح زمین بوس کیا ۔ اس کے مہلک اثرات پوری دنیا پر اور خصوصاً امریکا اور یورپی ممالک پر پڑے جو کہ معاشی و سیاسی طور پر پوری دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ اس طرح پوری دنیا متاثر ہوئی۔
مگر چالاک سامراجی طاقتیں اپنے لیے راستہ نکال ہی لیتی ہیں۔ یہ عالمی طاقتیں پھر سے نئی صف بندی کی طرف رواں دواں ہیں۔ امریکہ اور مغربی یورپ ایک طرف ہیں تو دوسری طرف چائنا، ایران اور روس ہیں جو اپنے ساتھ دیگر ممالک کو بھی ملانے کا کام کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک اپنی خارجہ پالیسی پر بڑے پیمانے پر نظر ثانی کر رہے ہیں ۔ بھارت ایشیاءمیں نمبرون طاقت بننے کی سخت جد و جہد کر رہا ہے۔
روس یو کرین جنگ نے سرمایہ دار ممالک کے درمیان دشمنیوں کو ہوا دی ہے اور دنیا میں نئے معاشی بحران کا آغاز کر دیا ہے، جس سے پوری انسانیت متاثر ہوئی ۔ مہنگائی ، افراط ز،ر غربت و افلاس میں اضافہ ہوا۔ اس جنگ نے بالخصوص ایندھن اور اناج کے شعبوں میں ترقی پذیر ممالک کے معاشی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں بیلنس آف پاور بھی متاثر ہوئی ہے۔ سرمایہ دار ممالک اپنے خطے کے معاشی، سیاسی اور سٹرٹیجک مفادات کے تحت اتحاد کے مراحل طے کر رہے ہیں اور پرانے اتحاد شکست وریخت کا شکار ہور ہے ہیں ۔
حکمران طبقات کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کے سبب پاکستان میں ایک بار پھر حکومت کی مدت پوری نہیں ہونے دی گئی ۔ اب ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والی پی ٹی آئی کی اپنی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنایا گیا۔ بورژوازی ہی کی مخلوط حکومت آئی ۔ اس لیے مثبت تبدیلی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ انتظامی و آئینی بحران پیدا ہوا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وقت سے پہلے نگران حکومتیں آئیں جب کہ باقی صوبوں نے آئینی مدت پوری کی۔ عوام کنفیوژن کا شکار ہوئے۔ نوے دن میں الیکشن والی بات ہوا ہوگئی۔ لہذا دونوں حکومتیں ہر لحاظ سے ناکام ٹھہریں۔ یہاں جمہوریت عسکریت زدہ ہے۔معاشی اور سیاسی پالیسیاں انٹرنیشنل کپٹلزم کی نمائندہ آئی ایم ایف کے احکامات پہ بنائی جانے لگیں ۔ سابقہ قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے جارہے ہیں۔ امداد کے لیے چین و عرب پہ نظریں ہیں۔ مگر دفاعی اخراجات میں اضافہ بدستور جاری ہے۔ شاہ خرچیوں میں کمی نہیں آئی۔ جاگیرداری کو کچھ نہ کہاگیا۔زرعی ملک ،اجناس کی کمی کا شکار ہوا۔ ملکی زرعی پیداوار سرکارکی اپنی منظوری سے سرحد پار ”سمگل “ کی گئی اور یہاں عوام کے لیے مہنگائی تخلیق کی گئی۔ساحل اور سائل سے آمدنی کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ حکومت عوام کوٹیکس، مہنگائی اور غربت وبے روزگاری کے تحفے دیے جارہی ہے۔ اس سب کے نتیجے میں معاشی و سماجی اور سیاسی بحران بڑھتا جارہا ہے۔عوام خود کشی پہ مجبور ہورہے ہیں ۔ وہ انتہائی کسمپرسی، معاشی بدحالی اور ذلت کی زندگی جی رہے ہیں۔ اُن کی نمائند ہ سیاسی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے وہ عوام دشمن پارٹیوں کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔ محنت کشوں اور کسانوں کی کوئی نہیں سن رہا۔ روشن مستقبل کا خواب لیے طلباءکوفیسوں میں بڑھوتری، کتابوں کی گرانی، آن لائن ٹیسٹوں میں دھاندلی نے عذاب میں ڈالا ہے۔ لیکن منظم مزاحمت کا فقدان ہے۔
یہاں جاگیرداروں نے کسی کسان تحریک کو ابھرنے نہیں دیا ہے۔ اور کسانوں کے معمولی احتجاجی مظاہروں کو طاقت کے ذریعے نہ صرف دبائے رکھا ہے بلکہ ان کے قائدین کو قتل کیا گیا۔
دوسری طرف سرکاری رجعتی اور آمرانہ ہتھکنڈوں کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس کی ملک گیر حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ یہ ٹکڑیوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور اس میں انقلاب کے بجائے پیشہ وری بری طرح سرایت کر چکی ہے۔ محنت کشوں کی کوئی تحریک نہیں ابھر سکی اور نہ ہی کسانوں کی کوئی تحریک میدان میں آئی۔ طلبہ کی ملک گیر تحریک اور عورتوں کی باقاعدہ اور منظم تحریک نہ بن سکی۔ ٹریڈ یونینز طلبہ تنظیموں اور عوامی سیاسی تحریکوں پر ریاستی پابندیاں ہیں اس وجہ سے گھٹن کا ماحول برقرار ر ہا۔
بلوچستان کا دوسرا نام محرومی ہے۔اس صوبے کے وسائل کو بری طرح لوٹا جاتا ہے ، اسے جان بوجھ کر محروم رکھا جا تاہے۔حالیہ مردم شماری میں اس کی آبادی کو کم کردیا گیا۔ کئی دہائیوں سے یہاں سے امن پرواز کرچکا ہے۔ نسل پرستی اور تعصب کی ہوا نے سینکڑوں لوگوں کی جان لی، ہزاروں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ مسخ شدہ لاشوںکا سلسلہ نہیں تھما۔
سرکاری نوکریاں اقربا پروری کی نظر ہورہی ہیں۔ یہ نوکریاں سرِ عام بکتی ہیں ۔دیہی بلوچستان میں خصوصاً کچھی نصیر آباد میں کسانوں، کھیت مزدوروں اور موروثی بزگروں کی حالت بھی جوں کی توں ہے اور صدیوں سے ان کی زندگی میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوئی ۔
بلوچستان میں سکولوں کی حالت ابتر ہے۔ سڑکیں برائے نام ہیں۔گیس، بجلی اور پانی کی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں،ہسپتال اور ہیلتھ سنٹرز دور دور تک ناپید ہیں اگر کہیں ہیں بھی تو نہ ان میں عملہ ہے، نہ دوائی اور نہ دیگر علاج معالجے کی سہولتیں۔
***
سنگت سیکریٹری جنرل رپورٹ کا اگلا حصہ اس کی تنظیمی صورتحال پہ وقف تھا۔ رپورٹ کے مطابق سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے اِن دو برسوں میں باقاعدگی سے ماہانہ ادبی نشستیں یعنی پوہ زانت نشستیں منعقد کیں۔ اسی طرح سنٹرل کمیٹی اور جنرل باڈی کے اجلاسوں کا ریگولر انعقاد کیا گیا۔ اس سلسلے میں پوہ زانت کی 24میں سے 18 نشستیں ہوئیں جبکہ سینٹرل کمیٹی کے 6 اجلاس ہوئے ،جنرل باڈی کے 3 اور فیکلٹیز کے 2 اجلاس منعقد ہوئے۔
فیکلٹیز ،سنگت اکیڈمی کی جان اور جڑیں ہیں، انہیں مضبوط ہونا چاہیے، انہیں کام کرنا چاہیے تاکہ یہ کاروان آگے بڑھتا جائے۔ ان کی قیادت نو جوانوں کو دی گئی۔ اعادہ کیا گیا کہ تمام فیکلٹیز اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ ہر فیکلٹی پوہ زانت کے لیے کم از کم ایک مقالہ اور قرار داد ضرور دے گی۔ مگر فیکلٹیز سست روی کا شکار ہوگئیں، کمزور پڑ گئیں۔ اس پہ کچھ وقت کے لیے عمل نہ ہو سکا، لہذا مجبور اً کچھ فیکلٹیز کو بند کرنا پڑا۔
سنگت اکیڈمی کی گزشتہ کابینہ کے پاس بہت سی فیکلٹیز تھیں جیسے آرٹ، پوہ زانت، لٹریچر، ہیلتھ، کلچر، ایجوکیشن، جینڈر، پولٹیکل سائنس، اور میڈیا وغیرہ۔ لیکن بہت کوششیں اور تجربات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ ساری فیکلٹیز کو فی الحال نہیں چلایا جاسکتا۔ اس لیے پوہ زانت فیکلٹی کے علاوہ ، بس ایک ہی فیکلٹی ہوگی یعنی آرٹ، لٹریچر، کلچر اینڈ ایجوکیشن فیکلٹی۔اس طرح اس کابینہ کی دو سالہ مدت میں صرف آرٹ، لٹریچر، کلچر اینڈ ایجوکیشن فیکلٹی ہی فعال رہی۔ اس تجویز کو بھی منظور کیا گیاتھا کہ حاضری شیٹ میں بلڈ گروپ، اور ممبر شپ فیس کی ادائیگی کے بارے میں کالم شامل کیا جائے گا۔اس پہ عمل بھی ہوا۔اور ہمارے کئی سنگت بلڈ ڈونیٹ کرچکے ہیں۔
سنگت پوہ زانت اجلاسوں میں مضامین ، شاعری اور افسانے کے سیشنز منعقد ہوتے رہے۔ اجلاسوں میں پیش کی جانے والی تخلیقات کے متعلق سامعین سوالات اور تبصرے کرتے رہے۔ اس سے نہ صرف اصلاح کا پہلو نکلا بلکہ باقی سامعین کو سیکھنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ سائنس اور فلسفہ پر لکچرز کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔
سنگت اکیڈمی آف سائنز کی ماہانہ ادبی علمی نشستوں کی رپورٹیں باقاعدگی کے ساتھ روز نامہ اخبارات بالخصوص جنگ کے ادبی صفحات میں شائع ہوتی رہیں ۔اس کے علاوہ یہ ماہتاک سنگت کی زینت بنتی رہیں اور سوشل میڈیا پر آتی رہیں۔
سنگت کا یہ فیصلہ خوش آئند تھا کہ سینٹرل کمیٹی میٹنگ میں اپنے آپ پہ بھی تنقید کا سیشن چلے۔ ہم اپنے بارے میں بے رحم تنقید کرتے رہے ۔اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے کسان، مزدور، خواتین اور محکوم طبقات کی جدوجہد کا ہمیشہ ساتھ دیا۔چنانچہ یہ بات سنگت کی روایات میں شامل ہے کہ متاثرین کے ساتھ یکجہتی کرے۔ہم عوامی مظاہروں، ہڑتالوں، دھرنوں اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ہم نے سانحہ بارکھان کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ان کے احتجاجی کیمپ میں سنگت کے دوستوں نے شرکت کی۔ اسی طرح ساحل بلوچ کے ماہی گیروں کی طویل اور مقبول عام تحریک میں ہمارا حصہ رہا ہے ۔ بلوچستان بھر کے مزدور یونینوں کی 13 روزہ جمہوری جدوجہد میں وفود بھیج کر رفیقانہ حصہ ڈالتے رہے۔ مذہبی اقلیتوں اور سرکاری سماجی سطح کی نفرت کے خلاف بلوچستان سے لے کر سندھ کے ہندوئوں اور پنجاب کے مسیحیوں کے ساتھ روار کھے گئے انسانیت سوز مظالم کے خلاف ہماری آواز مدہم نہیں رہی۔
بلوچستان سنڈے پارٹی نامی علمی نشستوں کے اجلاس با قاعدگی سے ہر ماہ جاری رہے ۔ اس میں ممبرز کے علاوہ ہر ادب دوست شرکت کرتا رہا۔ اس پلیٹ فارم کا مستقل موضوع ”حالات حاضر ہ“رہتاہے۔ اور ضروری نہیں کہ حالاتِ حاضرہ صرف ” سیاسی “ ہوں۔ بہت سے سیشن معیشت پر منعقد ہوتے۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و بین الاقوامی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔ بی ایس پی کے سیشن بھی اس دوسالہ دور میں بلا ناغہ با قاعدگی سے جاری رہے۔
ہمیں ایک فکری جدوجہد کا سامنا بھی رہا۔ایک عام تاثر یہ پھیلایا گیا کہ قراردادیں بس بہت حقیر چیزیں ہوتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ادبی علمی تنظیم اپنے اور اپنے عوام کے مطالبات اگر قراردادوں کے ذریعے نہیں تو کس طرح بتائے گی۔ سنگت اکیڈمی نے ہمیشہ عوامی مسائل کو اجاگر کیا۔ اس سلسلے میں ہر پوہ زانت ،بلوچستان سنڈے پارٹی کی ہر نشست اور اکیڈمی کے اداروں کی ہر میٹنگ کے بعد باقاعدگی سے قراردادیں پیش ہوتی رہیں۔
کئی اجلاسوں میں ممبرز بالخصوص سینیئر ممبرز کی عدم شرکت پہ شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ۔دیکھا گیاکہ ممبرز اجلاس اور نشستوں کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور بغیر اطلاع کے غیر حاضر رہتے ہیں۔ یہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا آئین کے تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ جو سنگت بغیر بتائے متواتر تین نشستوں میں حاضر نہیں رہا/رہی اس کی ممبرشپ ختم کی جائے گی۔ اور جس سنگت نے سالانہ ممبرشپ فیس جمع نہیں کی، اس کو اگلے پوہ زانت تک مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی فیس اور حاضری کو یقینی بنائیں وگرنہ ان کی ممبرشپ ختم کی جائے گی۔
26 مارچ 2022 کے جنرل باڈی اجلاس میں طے پایا کہ وہ اراکین جو مسلسل تین ماہ سے بنا اطلاع کے غیر حاضر ہیں اور جنہوں نے سالانہ فیس اب تک ادا نہیں کی، آئین کی رو سے ان کی ممبرشپ منسوخ ہو چکی ہے۔ اس طرح 15 ممبرز کی رکنیت منسوخ کی گئی۔ مزید فیصلہ ہوا ان میں سے جو سنگت دوبارہ ممبرشپ لینا چاہے، اسے اب جنرل باڈی سے رجوع کرنا ہو گا۔علاوہ ازیں اجلاس نے طے کیا کہ کوئٹہ سے باہر کے سینئر احباب سنگت اکیڈمی کے نان ووٹنگ یعنی اعزازی ممبر ہوں گے۔ ان پر سالانہ فیس کی ادائیگی اور پوہ زانت میں شرکت کی شرائط لاگو نہیں ہوں گی۔ اس فہرست میں اب 15 ممبرز ہیں۔ اس دوران نئے ممبرز بھی شامل ہوتے رہے۔ کچھ دوست صوبے سے باہر اپنی نجی و تعلیمی مصروفیات کے سبب شرکت نہیں کرسکے تاہم جب جب وہ کوئٹہ آئے انہوں نے اجلاسوں میں شرکت کی۔ ممبرشپ فیس 400 رویے رہی جبکہ سنٹرل کمیٹی ممبرز کی فیس 600 تھی۔
عوام دوست، روشن فکر اور انقلابی دانشوروں، اور رائیٹر ز کا فریضہ سماج کو باشعور بنانے اور عوام کی تنظیم سازی کرنے کا ہے، جو ہم طرح نہیں کر رہے ۔ اس حوالے سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز اپنے آئین کے مطابق تمام کمزوریوں کے باوجود اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے دو سالہ دور میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ سنگت اکیڈمی کی پیش قدمی پر اب تک ملک کی تقریبا 25 کے قریب روشن فکر اور ترقی پسند تنظیمیں کم سے کم نکات پر آپس میں قریبی رابطے میں ہیں۔ یہ کام ابھی تک طفلی مرحلے میں ہے۔ اسے مزید وسیع اور مضبوط کرتے رہنے کے لیے مسلسل عمل چاہیے ۔اس سلسلے میں ورکرز اور لیڈرشپ کی حد تک مزید محنت، سنجید گی اور بے انتہا افہام تقسیم کی ضرورت ہے۔

سنگت میگزین کو سنگت اکیڈمی کے گویا ترجمان کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک پالیسی اور نظریے کے تحت تسلسل سے جاری یہ میگزین ہماری کابینہ کی مدت کے اختتام پر اپنی اشاعت کے ستائیسویں سال میں داخل ہورہا ہے ۔رسالہ شاندار مضامین، شاعری ، افسانوں اور رپورٹوں سے مزین ہوتا ہے۔ آئین کے مطابق ہرسنگت رکن کا فریضہ ہے کہ اسے پڑھے، اس میں لکھے، اس پر رائے دے اور اس کی تشہیر و فروغ کر کے اس کے نئے نئے ممبر بنائے۔تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ آزاد، خود مختار اور خود کفیل بنایا جاسکے۔ سنگت رسالے پر پوہ زانت میں ریویو سیشن ہوتا رہا۔ ہر اجلاس میں ایک ممبر کے ذمے تھا کہ میگزین پر تبصرہ کرے۔ بعد میں اس میں تبدیلی لائی گئی اور فیصلہ ہوا کہ پوہ زانت یا پھر سنڈے پارٹی میں سنگت اداریہ پیش کیا جائے گا اور اس پہ بحث ہوگی۔ یہ سلسلہ بھی چل پڑا۔
سنگت مطبوعات میں نئی کتابیں اور پرانی کتابوں کے نئے ایڈیشن شامل ہیں۔ان دو برسوں میں سنگت اکیڈمی نے سولہ کتابیں شائع کیں۔فیصلہ کیا گیا کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں سنگت اکیڈمی اپنی پبلشنگ کا کام جاری و ساری رکھے گی۔
کسی بھی ادارے میں مالیات اور آڈٹ اہم مقام رکھتے ہیں۔ سنگت اکیڈمی کی سرگرمیاں اپنے ممبروں کے مالی تعاون سے چلتی ہیں۔ تمام اخراجات ممبرشپ فیس سے پورے کیے گئے جبکہ کانگریس کے لیے رقم کی عدم دستیابی کے سبب سینئر ممبرز سے خصوصی چندہ وصول کیا گیا ۔ گزشتہ کانگریس کے لیے کسی سے چندہ نہیں لیا گیا کیونکہ مطلوبہ فنڈز دستیاب تھے۔ موجودہ کابینہ نے تواتر سے پوہ زانت اجلاس اور دیگر میٹنگز کا انعقاد کیا جن پر خاطر خواہ اخراجات آئے۔
فیس کی مد میں25000روپے جمع ہوئے جو سابقہ رقم کے ساتھ مل کر 50450روپے جمع ہوگئے ۔ جیسے کہ سنگت مالی اُمور کے شیٹ میں دیا گیا ہے کہ اس رقم میں سے 40510روپے خرچ ہوئے ۔ اس وقت سنگت کے پاس 27040کے روپے موجود ہیں ۔
***
سیکریٹری جنرل رپورٹ مفصل تھی ۔ سامعین نے کمال توجہ سے سنی ۔ہر سیگمنٹ کے بیچ ہماری فوک موسیقی بجتی رہی ۔ جمالیات بھرے اس اکٹھ میں اگر ایک طرف ہلکا پن نہ تھا تو اس میں چہروں پہ بارہ بجانے کی کیفیت سے بھی پرہیز کیا گیا۔ ایک ادبی شگفتکی کی چادر اوڑھے یہ کانگریس ادب آداب کی چوکھٹ کے اندر چلتی رہی۔ کوئی حکم احکامات نہ تھے ، کوئی تم تڑاک بھی نہ تھے۔ باہمی احترام نے سینئر جونیئر کو یکساں تبرک و تقدس کی اوڑھنی اوڑھا رکھی تھی ۔ وقفوں میں ایک دوسرے کی مزاج پرسی عجیب کیفیت پیدا کر رہی تھی۔ دور بیٹھے ہوﺅںکو ہاتھ اٹھا کر سلام کیا جارہا تھا۔ بوڑھے لوگوں نے یہ صلاحیت حاصل کر رکھی تھی کہ وہ اگلے کے محض ہاتھ بلند کر کے سلام دعا سے معلوم کر لیتے تھے کہ وہ کس علاقے کا آدمی ہے ۔
قریب بیٹھے لوگ اپنی اپنی زبانوں میں خیر خیریت معلوم کرتے جارہے تھے۔ زبانوں کا میوزیم بن چکا تھا ہماراہال۔
کتنا اچھا تھا کہ کلاس روم ڈیکورم کی طرح اس کانگریس ہال کے اندر سگریٹ نوشی نہیں ہورہی تھی۔ باادب ہو کر تمباکو پرست لوگ ہال سے باہر جاتے ،اپنا نشہ پورا کرتے اور اسی خاموشی کے ساتھ واپس اپنی نشست پہ بیٹھتے ۔ پانی کا انتظام بھی ہال کے باہر تھا۔ اس طرح نہ تو ہال کا کونا آب آلود ہوا، اور نہ نلکے سے جھرنے کی آواز نے کارروائی کو ڈسٹرب کیا۔
کانگریس تو ہمارا میلہ تھا اور میلہ میں انسان اچھے اجلے لباس ہی میں جاتا ہے ۔ چنانچہ لباس و پاپوش وچہرہ ہر لحاظ سے استری میں تھے ۔ خوشگواریت کا احساس دوران ِ خون کا حصہ بن چکا تھا ۔ مہذب اکٹھ تھا ۔ کلچرڈ نشست و برخواست تھی۔
یہ تو اب سنگت کی روایت بن چکی ہے کہ کانگریس کے اعلانات بلوچی براہوئی اور پشتو میں ہوتے ہیں ۔ چونکہ کانگریس کا سارا پروگرام لائیو جاتا ہے اس لیے ہم اپنی مادری قومی زبانوں کو ترقی دینے کی ترغیب اپنے دیگر دیکھنے سننے والوں کو دیتے ہیں۔
چنانچہ جب نئی سنٹرل کمیٹی کو حلف دینے کے لیے بلایا گیا تو حلف دینے والے نے پہلے اُن سے کہا کہ وہ چاہیں تو اردو میں حلف لیں اور چاہیں تو اپنی قومی اور مادری زبان میں حلف لے لیں۔
9رکنی سنٹرل کمیٹی نے حلف اٹھایا: سنگت نجیب سرپرہ(سیکرٹری جنرل )۔ سنگت عابدہ رحمن (ڈپٹی سیکریٹری جنرل )۔سنگت جمیل بزدار( ڈین فیکلٹیز) ،سنگت انیس بلوچ، سنگت احمد مجتبی، سنگت علی عارض، سنگت جیند جمالدینی ، سنگت منیر رئیسانی، اور سنگت عطاءاللہ بزنجو۔
حلف نامہ یوں تھا:
”سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے اس اعلیٰ ترین ادارے یعنی سنٹرل کمیٹی میں منتخب ہونے پہ فخر کے ساتھ میں عہد کرتا ہوں کہ:
میں اکیڈمی کی تمام فیکلٹیز کے اندر تحقیق اور اس تحقیق کی نشرو اشاعت کی حوصلہ افزائی کروں گا۔
میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ممبر شپ بڑھانے ، فیکلٹیز کو فعال بنانے،اور اس میں ڈسپلن اور شعور بڑھانے کے لیے کام کروں گا۔
میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے وقار میں اضافہ کرتے رہنے میں سرگرم رہوں گا“۔

حلف برداری کے بعد ہمارے سابقہ عہدیداروں نے سٹیج چھوڑ دی اور نیچے ہم عام ممبروں میں آکر بیٹھ گئے ۔ آئین کی روسے سابقہ سیکریٹری جنرل آئندہ آٹھ سال تک عام ممبر رہے گا۔عہدوں پہ الیکشن نہیں لڑ سکے گا۔ ہے ناں ظلم کی بات! ۔
سیشن نئے سیکریٹری جنرل نجیب سرپرہ اور عابدہ رحمن کی صدارت میں چلا۔ جس میں نئے سیکریٹری جنرل نے اگلے دو سالوں کے لیے اپنے عزائم کا اظہار کیا۔ یہ گویا پندرہ نکاطی ایجنڈہ بنا:

1۔ ہم 1920 کے فکری تسلسل کو اسی کمٹمنٹ کے ساتھ جاری رکھیں گے، جو ہمارے اکابرین عبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی ، محمد حسین عنقا ،صمد خان اچکزئی اور امین کھوسہ کی راہِ عمل رہی۔جس کے بعد عبداللہ جان جمالدینی، ڈاکٹر خدائیداد، سائیں کمال خان شیرانی، نادر قمبرانی نے اسی فکر کا تسلسل ہمارے موجودہ بزرگ نسل کو سوپنا تھا۔
2۔ سنگت کی علمی و ادبی نشست یعنی پوہ و زانت ہمارا مستقل ایونٹ ہے۔ جہاں کلچر، مائتھالوجی، آرکیالوجی اور لٹریچر سمیت مختلف موضوعات پر مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ شاعری سننے کو ملتی ہے، فکشن پڑھا جاتا ہے۔سیاست، ثقافت سمیت مختلف مسائل کو نثر و شاعری کی صورت سامنے لایا جاتا ہے۔ ہم اس ایونٹ کے تسلسل میں کوئی کمی نہیں آنے دیں گے۔ ہم مزید نوجوان لکھاریوں کوسنگت پوہ زانت کی طرف مائل کر تے رہیں گے۔
3۔ ہم اپنی ممبر شپ بڑھانے کی محنت کریں گے۔ فکری اور تنظیمی سطح پر خود کو امیر کریں گے۔ خواتین کی شمولیت اور تنظیم کاری پر محنت کریں گے۔ فیکلٹیزاور ان میں موجود ممبروں کا شعور اور ڈسپلن بڑھانے پر زور دیں گے۔ نیز پوہ زانت میں قراردادوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
4۔ سنگت اکیڈمی کا کتابوں کا اشاعتی سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
5۔ سنگت اکیڈمی اس وقت ملک بھر کی کافی تنظیموں کے ساتھ پیپلز رائٹرز الائنس میں شامل ہے۔ ہم اس الائنس میں مزید تنطیموں کی شمولیت کے لیے کام کریں گے۔ نیزالائنس میں موجود تنظیموں کے بیچ مفاہمت و ہم آہنگی بڑھانے کی محنت کریں گے۔
6۔ ماہتاک سنگت کی اشاعت کو 27 برس ہو چکے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ سنگت اکیڈمی کے اراکین رسالے میں مستقل لکھیں اور اس کے مضامین پہ بحث مباحثہ کریں۔ سنگت کے آن لائن ایڈیشن اور سوشل میڈیا پیجز کو مزید وسعت دینے کی کوشش کی جائے گی۔
7۔ ہماری تنظیم محنت کشوں، مظلوموں، ٹریڈ یونینز، عورتوںکی تحریک، قومی جمہوری تحریک اور طلبا تحریک کی جدوجہد میں بدستور حصہ لے گی۔
8۔ سنگت اکیڈمی ہرفیوڈل اور بورژوا حکومت کا حزب اختلاف رہے گی اور بطور تنظیم حکومتی گرانٹ ، تمغات و مراعات سے دور رہے گی۔
9۔ سائنسی معلومات اور دیگر موضوعات پر سپیشلسٹوں کو مدعو کر کے اُن کے لیکچرز کرانے کے جاری سلسلے کو برقرار رکھا جائے گا۔
10۔ ہم بلوچستان کے کلچر، آرٹ، ڈرامہ اورمیوزک کے فروغ پر خصوصی توجہ دیں گے۔
11۔ہم اپنی صلاحیتوں کو فیکلٹیز کو فعال بنانے میں بروئے کار لائیں گے۔ آرکیالوجیکل اور بلوچ مائیتھالوجیکل سائٹس کی حفاظت پہ توجہ دیں گے۔
12۔ ہم اکتوبر انقلاب ، عالمی یومِ خواتین، اور یکم مئی کے علاوہ اپنے اکابرین کے ایام منانے کی اپنی اس روایت کے تسلسل کا بھی عزم کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ہر پوہ و زانت میں اُس ماہ کی اہم فکری شخصیات کو یاد کیا جائے۔
13۔ بلوچستان سنڈے پارٹی (BSP)ایک اکٹھ ہے احباب کا جو تسلسل کے ساتھ 28 سال سے جاری ہے۔ ہم اس محفل کی روانی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیں گے۔
14۔ سنگت اکیڈمی اپنی اور دوسری ہم خیال تنظیموں کی تقریبات میں اپنا بک سٹال لگاتی ہے ۔ پبلک لائبریریوں کو کتابیں فراہم کرتی ہے۔ اس کیمپین میں اب تک تین ہزار سے زائد کتابیں دی جا چکی ہیں۔یہ سلسلہ ہم مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔
15۔ ہماری کوشش ہوگی کہ بلوچستان بھرمیں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے یونٹس کھولیں۔
***
عمران بلوچ نے قراردادیں پڑھیں اور کانگریس سے منظوری لی۔
دسویں سنگت کانگریس:
1 ۔جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور مسنگ پرسنز کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے
2 ۔مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے
3 ۔ہمسایہ ممالک سے خوش ہمسائیگی کی پالیسی اور ان سے تجارت کرنے کا مطالبہ کرتی ہے
4 ۔ملک میں جنرل الیکشنزبروقت اور صاف شفاف طریقے سے کرانے کا مطالبہ کرتی ہے
5 ۔بلوچی زبان کے نامور شاعر مبارک قاضی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتی ہے اور ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
***
سنگت اکیڈمی کے نئے منتخب سیکریٹری جنرل نجیب سرپرہ نے سابقہ سیکریٹری جنرل کو اُن کی کابینہ کی دو سالہ کارکردگی پہ شیلڈ پیش کیا۔ جبکہ سابقہ سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عطاءاللہ بزنجو نے عبدالقادر قادری کو سنگت اکیڈمی کے ساتھ اس کے مستقل و مسلسل تعاون پہ شیلڈ پیش کیا۔
***
دسویں کانگریس کی کلاس کمپوزیشن میں ذرا سی بہتری آئی ۔ ڈیلیگیٹوں میں صنعتی مزدور تونہ تھے مگر کچھ لوگ لوئر اور لوئر مڈل کلاس سے ضرور تھے۔ یہ بہت خوش آئند بات تھی۔ البتہ جینڈر کمپوزیشن میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ ڈیلیگیٹ عورتیں موجود تو تھیں مگر تعداد بالکل بھی اطمینان بخش نہ تھی۔
سنگت کانگریس میں ایک اور عجیب بات یہ ہوتی جارہی ہے کہ اس میں ہمارے سینئر ممبرز کی دلچسپی اور تعداد کم ہوتی جارہی ہے جبکہ نوجوان ڈیلیگیٹوں کی تعداد اور جذبہ دونوں بڑھتے جارہے ہیں۔
یوں ہماری کانگریس کا وہ حصہ پورا ہوگیا جہاں ہم نے اپنی دو سالہ سیاسی تنظیمی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا۔ نیز اس کی اگلی قیادت نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کی ابتدا کردی ۔اگلے دو سالہ عزائم کی بات بھی کانگریس کے شرکاءتک پہنچ گئی ۔
اب تو کثیر السانی مشاعرے کی باری تھی ۔
کثیر السانی مشاعرہ سنگت کانگریس کے اوپن سیشن کا ایک اہم ترین جزو ہوتا ہے ۔ چونکہ شاعر بہت حساس ہوتے ہیں، جینوئن مشاعروں کے مواقع بہت کم ملتے ہیں اور پھر، فیوڈل /ٹرائبل باقیات ابھی موجود ہیں اس لیے یہ سگمنٹ ” ہینڈل وِدھ کیئر “ والا ہوتا ہے ۔ ذرا ذرا سی بات کا رنجشوں کے فالٹ لائن میں جانے کا اندیشہ آخر تک رہتا ہے ۔ اور یوں عالمی جنگ چھڑنے کا امکان ہمہ وقت الرٹ رہنے کو مجبور کرتا ہے۔
حالانکہ ہم برسوں سے اپنی کانگریس میں پانچ چھ زبانوں والے اس مشاعرے کے شرکا کے نام پہلے سے فائنل کرتے ہیں۔ اور سٹیج پہ باقاعدہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ سنٹرل کمیٹی کے منظور شدہ ناموں میں تبدیلی اب نہیں ہوسکتی۔ مگر پھر بھی چٹ ، موبائل میسیج ، نیز شخصی درخواستیں فرمائشیں جاری رہتی ہیں۔ اور اگر ذرا بھی ڈھیل دی تو نہ صرف وہی مشاعرہ بدمزہ ہوجاتا ہے بلکہ جو سابقہ ریاضت بطور تنظیم ،ہم کر چکے ہوتے ہیں وہ بھی غارت ہوجاتی ہے ۔ اس لیے ہم اپنی سختی پہ قائم رہے اور شاعر لوگ اپنی شاعری سنانے کے لیے ذرائع ڈھونڈتے رہے ۔
دوسرا معاملہ مراتب کا ہوتا ہے ۔ کون پہلے پڑھے گا کون بعد میں ۔ اس کے لیے ہم نے فیصلہ مشاعر ے کے انچارج کو دے رکھا ہوتا ہے ۔ انچارج خود منجھا ہوا شاعر ہوتا ہے اس لیے غلطی کے چانسز کم رہتے ہیں۔ اس بار مشاعرہ کا بار ہم نے افضل مراد کے کندھوں پہ ڈال دیا ۔جب سینئر شاعر اندازے سے زیادہ آگئے ۔ تو ہم حیران ہوئے کہ افضل مراد کس طرح نمٹے گا۔
جب افضل مراد نے صدارت کے لیے بیرم غوری کا نام لیا تو دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔حالانکہ انتخاب اُس کا بہت درست تھا۔ مگر فوراً ہی اس نے مہمان خصوصی کا نام لیا: درویش درانی ۔ یہ ایک لحاظ سے اچھا ہوا ۔ درویش ہی کو مہمانِ خصوصی ہونا چاہیے تھا۔بس پھر خیریت ہی رہی۔
سنگت مشاعرے میں ہم مزید حتمی بناتے ہیں کہ اس میں ہزارہ شاعر ضرور شامل ہوں اور آزدگی شاعری سنی جائے ۔
دوسری اہم بات عورت شاعروں کی حصہ داری کی ہوتی ہے ۔
افضل مراد میزبان تھا ۔اس لیے رواج کے مطابق اُس نے اپنی شاعری سب سے پہلے سنادی۔ پھر محمود کھوسہ( بلوچی) ، مہتاب جکھرانی(بلوچی) ،حسن ناصر (براہوی) ، نور خان محمد حسنی ( براہوی اور سندھی)، محمود ایاز (پشتو) ، وصاف باسط (پشتو) ، عابد میر (سرائیکی) نور بابل (آزرگی)، رفیق مغیری(بلوچی) ، ڈاکٹر رحیم مہر( بلوچی)، محترم حمیر اصدف (براہوی، اردو )، ڈاکٹر عصمت درانی(پشتو)، محسن شکیل (اردو)، درویش درانی (پشتو) ۔اور بیرم غوری (اردو)۔ آزرگی شعرا کے نام یہ تھے : ایاز بے نامی ، مصطفی ایلخانی، مہدی اپناغ۔
بہر حال آزرگی ، براہوی، پشتو، اردو ،بلوچی اور سرائیکی شاعر آتے رہے ،اپنی شاعری سناتے رہے ۔ ایک ترنم والا شاعر رفیق مغیری سو میل دور بھاگ نامی علاقہ سے آیا تھا۔
سینیئر شاعروں پہ پابندی کون لگا سکا ہے لیکن محض تین توسیع پسند شاعروں نے ایک سے زیادہ چیزیں پڑھیں۔ ورنہ اچھے لوگ تھے اپنی ایک چیز پیش کر کے چلے جاتے ۔
اِن نیک لوگوں نے ایک اچھائی یہ کی کہ خود کو صرف مشاعرہ پڑھنے تک محدود رکھا۔ اور ساتھ میں تقریر کرنے سے اجتناب کیا۔ ایک آدھ کمنٹ تو چلتا رہتا ہے ۔
***
تین چار ماہ کی hecticمحنت کے بعد کامیاب کانگریس کے انعقاد پر تنظیم کے دوستوں کے چہروں پہ اطمینان کی مسکراہٹ نمایاں ہوتی گئی۔ ہر سیگمنٹ بہت اچھا چلا۔ سنجیدگی کی حاکمیت رہی ۔ استدلال کا بول بالا رہا ۔ معروضیت دلیل کو وزن دار بنا گئی۔
کانگریس کی کاروائی ختم ہوئی تو ساتھ میں اعلان کیا گیا کہ نئی سنٹرل کمیٹی کے منتخب دوست موجود رہیں تاکہ اُس کی اولین میٹنگ ہوسکے۔ گروپ فوٹو وغیرہ لیے گئے ۔ دور دراز کے مندوب اپنے ضروری کام نمٹا رہے تھے ۔ ہدایات و پیغامات ہورہے تھے ۔ اور یہ ایک قسط میں نہ ہوا۔ ہال خالی ہوا تو نچلی منزل پر ”ون آن ون “میٹنگیں بھی جاری رہیں اور باجماعت گپ شپ بھی۔ تیسری ملن گاہ خود باہر سڑک بن گئی تھی۔ جدا ہونا بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ لیکن بہر حال جدا ہونا ہی ہوتا ہے ۔ سو جدائی۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*