سید علی عباس جلالپوری

(19اکتوبر1914۔ 7دسمبر1998)

پاکستان کی آج کی پوری نسل کو خرد افروزی ، روشن خیالی اور استدلال بخشنے میں جن چند لوگوں کا ہاتھ ہے ، ان میں سے ایک سید علی عباس جلالپوری تھا۔ جلال پور ضلع جہلم میں واقع ہے ۔ وہ وہاں 1914میں اکتوبر کی 19تاریخ کو مصنف مزاج شخص سیدن شاہ کے گھر پیدا ہوا۔ والد علم دوست شخص تھا ۔
علی عباس نے 1931میں میٹرک کیا۔ 1934میں وہ پطرس بخاری کا شاگرد بنا گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے بعد بی ٹی کا کورس کر کے سکول ٹیچر بنا۔ دوران ملازمت ایم اے اردو کر لیا اور لیکچرار بن گیا ۔ اور پھر تو ایم اے ڈگریوں کی لائن لگادی۔ فارسی میں ایم اے مع گولڈ میڈل ۔ اسی امتیاز کے ساتھ فلسفہ میں ایم اے کر ڈالا۔ جرمنوں نے پی ایچ ڈی وظیفہ کے ساتھ کرنے کی پیشکش کی ۔ مگر وہ نہ گھریلو ذمہ داریوں کے باعث نہ جاسکا“۔
اور وہ لکھتا رہا ۔ پبلش ہوتارہا ۔ پڑھتا رہا پڑھاتا رہا ۔کہتے ہیں کہ صرف کوٹیشنوں اور اقتباسات پر مشتمل پندرہ ہزار صفحات پر مشتمل اُس کی ڈائری ہے ۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنا پڑھنے والا شخص تھا۔
سید ایک بسیار نویس انسان بھی تھا۔ دلچسپ یہ ہے کہ صرف میں نے ہی نہیں بلکہ ہماری عمر کے بہت کم لوگوں نے اسے دیکھا تھا ۔دراصل وہ تعلقات عامہ قائم کرنے اور اپنی شہرت پھیلانے والا انسان تھا ہی نہیں ۔سب لوگ اسے اس کی کتابوں کے حوالے سے جانتے تھے ۔ اس کی تحریروں نے بلا مبالغہ ہزاروں انسانوں کو علمی ، ادبی، نظریاتی اور فکری طورپر پختگی عطا کی ۔
میری خوش قسمتی کہ میں اُس کے بیٹے سمیت سارے مریدوں کا دوست بن گیا۔ ہم نے رج کے اس کے بارے میں باتیں کیں ۔ اس سے متعلق واقعات سنے ۔ اُس کے پاک اطوار، مقدس اخلاق اور اعلیٰ شعور کے میدان کے طواف کیے۔ اس عالم وفا ضل سید نے مرشد پرست بلوچ کو بن دیکھے اپنا گرویدہ بنایا۔ اور یہ گرویدگی استدلالی ہے ۔ یہ گرویدگی عمر گزرنے کے ساتھ کم نہ ہوئی۔ علی عباس جلالپوری ہر مارکسسٹ کے دل کی الماری کے اوپری خانوں میں محترم مقام میں براجمان ہے۔
علی عباس جلالپوری کی فکر رجائی ہے ۔ اسے انسان اور اس کے مستقبل سے بہت امیدیں ہیں۔ دوسرا یہ یقین کہ انسان ہر قسم کی مثالیت پسندی اور توہم پرستی جیسے منفی اور موت پرور تصورات سے نکل کر سائنس کی مثبت دنیا میں آجائے گا اور روشن خیالی سے رہنمائی حاصل کرے گا۔
شریف آدمی تھا ۔ پنجاب جیسے بنیاد پرست خطے میں اُس نے اقبال پہ لکھا۔ ظاہر ہے کہ اُس نے اقبال کو فلاسفر وغیرہ نہیں مانا۔ اور اس کو متکلم ثابت کیا۔ بس پھر کیا تھا۔ پنجاب کی مخصوص ادا، عادت اور ماحول کے تحت اُس پر فتووں کی برسات ہوئی او رموت کی سزا دینے کے لیے جلوس نکالے گئے۔ مگر سید صاحب اپنے نظریات پر سختی سے کار بندر رہا ۔ اپنے طلبا اور دیگر عوام الناس کو سچ اور سچائی پہنچاتا رہا ۔وہ آخر وقت تک اپنے خیالات میں معذرت پسندانہ اور مدافعانہ انداز کے بجائے بڑی سختی اور پیش قدمی کا رویہ رکھے رہا ۔اُس کے کچھ عزیز بڑے عہدوں پہ تھے ۔ انہوں نے فتوے بازوں کو سرکاری ڈنڈا دور سے دکھایا تو جھاگ بیٹھ گئی۔ ”اقبال کا علم کلام“ انہی مضامین پر مشتمل کتاب ہے ۔
ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ جہلم میں تحریرو تحقیق کے کام میں جتا رہا اور بے شمار معرکتہ الآرا کتابیں تخلیق کیں۔
اُس کی ایک کتاب ”وحدت الوجود تے پنجابی شاعری “ کے نام سے ہے ۔ اُس کتاب میں پنجاب کی تاریخ ‘ تصوف اور پنجابی شاعری پر اس کے سیر حاصل مضامین شامل ہیں۔ اس کی ہر کتاب کی طرح یہ بھی ایک مقبول تصنیف ہے اور اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
اس کی ایک دوسری کتاب ”روایات فلسفہ“ یہ کتاب 1969میں چھپیہے جس نے نوجوان قارئین کی سمتیں ہی بدل ڈالیں۔ یہ کتاب فلسفہ پہ بنیادی بحثیں کرتی ہے ۔اور آسان الفاظ میں ایسا کرتی ہے ۔ ساری اصطلاحات اور فلسفہ کی شاخیں نہایت معقول اور عام فہم انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ جنہیں ہم سید صاحب کے قلم سے نہ پڑھتے تو وہ ہمارے لیے جنّوں اور اژدھاﺅں کی صورت اختیار کرتے ۔ عنوانات دیکھیے : وجودیت ، جدلیاتی مادیت ، نو فلاطونیت ، موجودیت ، تجربت، مثالیت پسندی ، ارتقایت ۔۔۔۔اس کتاب میں ڈائلیکٹیکل میٹریلزم تو بالخصوص بہت اچھی طرح بیان ہوا ہے ۔
کوئی مجھ سے پوچھے تومیں تو یہی کہوں گا کہ وارث شاہ کی شناخت اور شناس کے لیے سید صاحب کی مقبول کتاب” مقاماتِ وارث شاہ“ سے دوسری بہتر اور عام فہم تصنیف موجود ہی نہیں ہے اور نہ ممکن ہے ۔یاد رہے کہ وارث شاہ پنجاب میں مقبول ترین فلاسفر شاعر ہے ۔ اور پنجاب کا مطلب تو کسان ہیں۔عباس جلال پوری نے ”مقامات وارث شاہ“ 1972میں لکھی۔ اس نے اسے وطن عزیز کے” جیالے کسانوں کی جدوجہد کے نام “معنون کیا۔ یہی جذبہ اور نقطہِ نظر فکری مظالطوں کو دور کرنے کی کوشش میں بھی کار فرماہے۔
سید علی عباس جلالپوری کی ایک کتاب مقالات جلالپوری (حصہ اول ودوئم ) ہے ۔درجن بھر علمی مقالوں پہ مشتمل یہ علمی ادبی اور عقلی کتاب غالب ، فرید، فرائڈ ، ژونگ اور کافکاکو سمجھنے کے لیے بہت مددگار ہے ۔ اُن کے نظریات کے حوالے سے نہایت مدلل مقالات اس کتاب میں شامل ہیں ۔ روحِ عصر، روایات تمدن قدیم ،

کائنات اور انسان، نامی کتاب مائتھالوجی کے بارے میں ہے ۔ یہ کتاب مِتھ اور جادو، اور دیومالائی قصوں،اور تواہمات کا پوسٹ مارٹم کرتی ہے ۔ روح اور جادو کا پیچھا کرتی ہے ۔ کتنا مشکل ہے انسان کو اِن باتوں سے نکالنا!
خردنامہ جلالپوری ، سمجھیے ایک علمی اور تحقیقی لغات ہے ۔ سید کی دیگر ساری کتب کی طرح اس میں بھی روشن فکری اور وسعت قلبی کی باتیں موجود ہیں۔
ایک اور کتاب کا نام ہے :روایاتِ تمدنِ قدیم۔پونے تین سو صفحات کی اس کتاب میں دُور دنیا کی قدیم تہذیبوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ وہ ہمیں چین ، ہندوستان، ایران ، یونان، مصر اور عراق کی سولائزیشنز کے آغاز سے لے کر انہدام تک کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرتا ہے ۔ وہاں کیا مائتھالوجی تھی، کلاسز کی نوعیت کیا تھی، اور عمومی کلچر کیسا تھا۔
اور سبد گلچیں (حصہ اول ودوئم) اس کی دیگر مشہور کتابوں کے نام ہیں۔
مگر،جلال پوری کی جس کتاب نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑدیے اُس کا نام ہے :”عام فکری مغالطے “ ۔اس کتاب میں اُس نے عام عوام میں موجود مثالوں، ضرب الامثال اور فقروں میں شامل بے شمار باتوں کو غلط اور باطل ثابت کیا ۔ یہ ایک بنیادی اور نصاب والی کتاب کا درجہ رکھتی ہے ۔ اسی کتاب نے سید کی عظمت کو پکا کردیااور بلاشبہ ، اسی کتاب نے لوگوں کے اندر موجود روایتی خیالات اور فرسودہ رجحانات کو کھرچ کھرچ کرنکال دیا۔ اس کتاب میں سید صاحب نے اس مقولے کی سختی سے تردید کی کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے ۔
اس کے خیال میں یہ فکری مغالطہ کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ زبان کے دولابی تصور سے یادگار ہے ۔قدما، زمان کو غیر حقیقی سمجھتے تھے اور اس کی دولابی حرکت کے قائل تھے۔ غیر حقیقی سے ان کا مطلب یہ تھا کہ زمان کا نہ کوئی آغاز ہے ورنہ انجام۔کائنات قدیم سے اسی صورت میں موجود ہے اورابدالآ باد تک اسی طرح رہے گی اس لیے کہ زمان اورمادہ غیر مخلوق ہیں۔ زمان کو حقیقی مانا جائے تو اس کا ایک نقطہ آغاز تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کے ارتقا اور انجام کو بھی ماننا پڑے گا۔
سب سے پہلے اطالوی مفکر ویجو نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ ہر قوم ایک دائرے میں چکر لگاتی ہے۔ اس کا آغاز بربریت عہد شجاعت سے ہوتا ہے۔ پھر وہ تمدن کے معراج کمال کو پہنچ کر عقلی تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔ جسے اس نے” فکر کی بربریت” کا نام دیا ہے۔ یہاں دائرے کا ایک سرا دوسرے سے مل جاتا ہے اور قوم اپنا سفر شروع کر دیتی ہے ۔البتہ اب کے اتنا فرق ضرور ہوتا ہے کہ اس میں سابقہ تمدن کا شمول ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ویجو لکھتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی رہتی ہے۔ بعض مورخین نے یونانی و رومی تاریخ کے حوالے سے اس چکر کو یوں پیش کیا ہے کہ عہد بربریت میں کسی قوم میں پنچائت کا نظام موجود ہوتا ہے جب یہ قبائل معاشی دباو ¿ کے تحت تنزل پذیر تمدنوں پرتاخت کرتے ہیں تو فوجی سردار برسراقتدار آ جاتے ہیں جو بعد میں بادشاہ بن جاتے ہیں۔شا ہیت کا دور گوناں گوں برائیوں کی پرورش کرتا ہے۔اور سامان عیش کی فراوانی قوم کے عزم و عزیمت کو سلب کر لیتی ہے۔ حکومت کی طرف سے عائد کی ہوئی محصولات عوام کا خون چوس لیتی ہیں۔جس سے وہ سر کشی پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔شاہیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور جمہوریت کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ جمہوریت کے پردے میں چندخاندان متحدہوکر طاقتور بن جاتے ہیں اور اپنے اقتدار کوبحال رکھنے کے لئے سازشوں کا جال بچھا دیتے ہیں۔ ملک کی دولت پر متصرف ہو جاتے ہیں ۔عوام کی حالت بدستور زبوں رہتی ہے ۔انہیں نجات دلانے کے بہانے کوئی نہ کوئی ڈکٹیٹر برسراقتدار آ جاتا ہے۔ اس شخص کے مرنے پر پھر انتشار و خلفشار ہوتا ہے اور یہ چکرکسی طرح چلتا رہتا ہے۔
جبریت کا یہ نظریہ گہری یاسیت کو جنم دیتا ہے ۔جب انسان کو پہلے سے بنی اپنی تمام کوششوں کی بے حاصلی اور بے ثمری کا یقین ہو جائے تو اس کا ولولہ اقدام اور جوش عمل سرد بڑ جاتا ہے اور وہ تسخیر فطرت پر کمر بستہ ہونے کی بجائے فنا اور موت پر غور کرنے لگتا ہے۔ مزید برآں جبرمطلق کا یہ تصور ترقی کے خیال کو باطل کر دیتا ہے۔ جب عمل تاریخ کی گردش دولابی ہوگی تو ارتقا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ عمل ارتقا کا تو دائرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
نظرغور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تاریخ کے اپنے آپ کو دہراتی رہنے کا مغالطہ ژولیدگی فکر کا نتیجہ ہے ۔جو مورخین اس کے قائل ہیں انھوں نے تمدن نوع انسان کے ار تقا کا سیرحاصل مطالعہ کرنے یا اس کے مقدر کا من حیث المجموع جائزہ لینے کی بجائے مختلف اقوام کی تاریخ کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کیا ہے اور جو نتائج اس کوشش سے حاصل ہوئے ہیں انہیں نوع انسان کے مقدر پر چسپاں کردیا ہے ۔انہوں نے انسانوں کو بچپن شباب کہولت اور موت کے مراحل سے گزرتے ہوئے دیکھ کر یہ نتیجہ تو اخذ کر لیا کہ تمام انسان فانی ہیں لیکن اس نتیجے سے صرف نظر کرلی کہ انسانوں کے مرتے رہنے کے باوجود انسان غیرفانی ہے ۔بالفاظ دیگر وہ اقوام و ملل کے آغاز، عروج اور خاتمہ پر تو بحث سے کرتے رہے لیکن یہ نہ سوچا کہ ان مختلف تمدنوں کے فنا ہو جانے کے باوجود تمدن نوع انسان باقی و برقرار ہے۔۔۔۔
صنعتی انقلاب کو برپا ہوئے صرف ڈیڑھ دو سو برس گزرے ہیں اس کے اثرات زرعی معاشرے میں ہر کہیں نفوذ کرچکے ہیں اور آہستہ آہستہ اسکے نظام کو کھوکھلا کر چکے ہیں۔ صنعتی انقلاب کا آغاز انگلستان میں ہوا تھا ۔چند ہی برسوں میں اس کا شیوع تمام مغربی ممالک میں ہوگیا ۔جابجا کارخانے کھل گئے ۔کلوں کی ایجاد نے صنعت و حرفت میں انقلاب برپا کردی۔ کارخانوں کے لیے کچے مواد کی ضرورت تھی اور مصنوعات کی فروخت کے لئے منڈیاں درکار تھیں۔ چنانچہ مغربی اقوام نے ایشیا اور افریقہ پر بزور شمشیر قبضہ کیا ۔ملوکیت نے تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا تواس نے ایک نئی قسم کی ملوکیت کو جنم دیا جسے تجارتی یا اقتصادی ملوکیت کہا جاسکتا ہے۔ نوآبادیوں کی تقسیم پر مغربی اقوام میں چپقلش کا آغاز ہوا جو عالمگیر جنگوں پر منتج ہوا۔ یہ جنگ بظاہر آزادی اور اخلاقی قدروں کے تحفظ کے لیے لڑی گئی تھی لیکن اسکے پس پردہ ملوکیت کا دیو پائے کوب تھا۔ صنعتی انقلاب کی روز افزوں اشاعت کے ساتھ ہر کہیں بڑے بڑے کارخانے قائم ہوگئے ۔کلوں نے دستکاریوں کا خاتمہ کردیا تھا کاریگروں اور مزدوروں نے جوق در جوق کارخانوں کا رخ کیا ایک دن میں مزدور اور کاریگر اپنی اجرت سے کئی گناہ زیادہ قیمت کی جنس پیدا کرتا تھا جس سے کارخانہ داروں کو بے انتہا منافع ہونے لگا۔ کاریگر اور مزدور کی حالت بدستور زبوں ر ہی۔ وہ دن بھر کی محنت شاقہ سے صرف اتنا کما سکتا تھا جس سے اس کی ابتدائی ضروریات بمشکل پوری ہوتیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کپ سرمایہ داروں اور مزدوروں میں کشمکش شروع ہوگئی۔ یہ کشمکش ابھی جاری ہے لیکن طوفان کے پیشرو تنکے بتا رہے ہیں کہ نتیجہ کیا ہوگا۔
صنعتی انقلاب کے برپا ہونے سے شاہی استبداد کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ جو دو چار بادشاہ باقی ہیں انکی حیثیت بھی شاہِ شطرنج سے زیادہ کی نہیں۔جمہوریت کا ہرکہیں فروغ ہو رہا ہے عوام بیدار ہوگئے ہیں اور ان میں اپنے حقوق کی طلب اور پاسبانی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ سائنس کی ایجادات نے صنعتی انقلاب برپا کیا تھا ۔صنعتی انقلاب نے سائنس کی ایجاد و انکشاف کی رفتار کو تیز کر دیا۔ چنانچہ گذشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں سائنس کو جتنی ترقی نصیب ہوئی ہے اتنی پچاس صدیوں میں بھی ممکن نہیں تھی۔ سائنس کی روشنی نے جہالت کی اتھاہ تاریکیوں کو چاک کر دیا ہے اورانسان پر بجلی کی کڑک کے ساتھ یہ انکشاف ہوا ہے کہ سائنس کی برکات سے وہ اپنے سیارے کو جنت میں تبدیل کرنے پر قادر ہے۔صدیوں کے ستم رسیدہ اور مقہور عوام آزادی کا سانس لینے لگے ہیں۔صنعتی انقلاب کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ عورت مرد کی غلامی سے آزاد ہو گئی ہے۔ آزادی نسواں نے کثرت ازدواج کا خاتمہ کردیا اور اب عورت مرد کی تفریح طبع کا سامان نہیں رہی بلکہ اسکی برابر کی شریک حیات ہے۔

صنعتی نقلاب کے بعد علوم و فنون کی اشاعت کے بے شمار امکانات پیدا ہوگئے ۔تحصیل علم پر کسی خاص طبقے کا اجارہ نہیں رہا ۔عوام بھی چشمہ علم سے فیضیاب ہونے لگے ہیں۔ جس طرح زرعی انقلاب نے شکار کے عہد کی قدروں کی تنسیخ کی تھی اسی طرح صنعتی انقلاب کے شیوع سے زرعی معاشرے کی قدریں بدلتی جارہی ہیں ۔آئندہ صدیوں میں دنیا بھر کے ممالک میں صنعتی معاشرہ قائم ہو جائے گا تو یہ لازماً اپنے لئے نئی نئی سیاسی اقتصادی علمی اور فنی قدروں کی بھی تخلیق کرے گا۔معاشرے کی خارجی تبدیلیوں کو تو صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن داخلی تبدیلیاں نا محسوس طور پر رونما ہوتی ہیں۔ مثلا عہد بربریت میں جب نظام معاشرہ مادری تھا تو عورت قبیلے کا محور و مرکز تھی۔ بیٹے اس کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور مرد کی حیثیت محض فروعی اور ضمنی تھی۔ زرعی انقلاب کے بعد پدری نظام معاشرہ قائم ہوا تو مرد کو سیادت حاصل ہوگئی اور عورت بھیڑ بکریوں کی طرح ذاتی املاک بن کر رہ گئی۔ صنعتی معاشرے کے قیام سے یہ صورتحال بدل جائے گی ۔تاریخ کے اس مرحلے پر قیاس آرائی سے کام لینا قبل ازوقت ہے۔لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ نئے معاشرے میں زرعی معاشرے کی اخلاقی اور عمرانی قدریں باقی و برقرار نہیں رہ سکیں گی۔
تصریحات مذکورہ سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ تاریخی عمل ایک دائرے میں چکر نہیں لگا رہا ۔انسان کا دوروحشت اس زمانے سے یقینا بہتر ہے جب اس کے آباو ¿ اجداد درختوں پر بسیرا کرتے تھے اور بربریت کا دور ،وحشت کے زمانے سے بہتر ثابت ہوا کہ اس میں آگ دریافت کرلی گئی تھی اور دھاتوں کا استعمال رواج پا گیا تھا۔ زرعی انقلاب کے بعد جو معاشرہ صورت پذیر ہوا وہ ہر لحاظ سے دور بربریت سے افضل و برتر تھا ۔اسی طرح صنعتی انقلاب کے بعد انسان پورے دماغ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ترقی کے اس کٹھن سفر میں بیشک خطرات اور ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن انسان بہرصورت اپنی روشن منزل کی طرف برابر قدم بڑھا رہا ہے۔ زرعی نظام معاشرہ کے بعد صنعتی معاشرے کا قیام اتنا ہی لازمی ہے جتنا کہ دور وحشت کے بعد دور بربریت اور دور بربریت کے بعد زرعی معاشرے کا قیام لازم تھا۔ تہذیبیں ملتی رہتی ہیں۔ تمدن دم توڑتے رہتے ہیں لیکن ان کی ترقی پرور اور حیات افروز روایات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ عمل ارتقاءکی مزاحمت کی جا سکتی ہے، اس کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے لیکن اسے کسی خاص مرحلے پر روک دینا تو کسی کے بس کی بات نہیں۔ زمانہ عہد بہ عہد آگے چلتا جاتا ہے، کبھی کبھار ملتے جلتے واقعات رونما ہو جاتے ہیں لیکن تاریخ اپنے آپ کو ہر گز نہیں دہراتی۔
***
علی عباس جلالپوری اس بات کا بھی مذاق اڑاتا ہے کہ ”ماضی اچھا زمانہ تھا“ ۔ اس نے اسے لغو اور گمراہ کن ضرب المثل قرار دیا۔ اس نے سماج میں ”فلسفہ کی سکرات “کا فتوی بھی باطل قرار دیا ۔ اس نے انسانی فطرت کو ”پکا اور حتمی اور غیر تغیر پذیر “نہیں کہا۔ تبدیلی کے بغیر بھلا کوئی دنیا چلتی ہے ؟ ۔اسی طرح اس نے مقبولِ عام ”وجدان کی عقل پہ بالادستی اور برتری “ والی بات کو مسترد کیا۔ ایک اور بات کو اُس نے باطل کردیا۔ اس کی نظر میں ”مسرت کی وجہ دولت “نہیں ہے ۔زیادہ کی ہوس حاصل کا لطف بھی نہیں لینے دیتی۔
یہی موقفِ ایسا ڈورا ڈنکن کا تھا جس کے مطابق: میں نے جانا کہ مال و دولت اور عیش و عشرت اطمینان پیدا نہیں کرتے۔ امیر لوگوں کے لیے زندگی میں کوئی سنجیدہ کام پورا کرنا خصوصاً مشکل ہوتا ہے (1)۔۔۔سارا پیسہ اپنے ساتھ ایک عذاب لاتا ہے ، اور جو لوگ یہ پیسہ رکھتے ہیں 24گھنٹے کے لیے خوش نہیں رہ سکتے ۔ (2)اس کا کہنا تھا کہ ”میں نے ایک کمیونسٹ بننے کی طرف جھکاﺅ تب محسوس کیا جب میں نے اکثر اپنے لیے اس حقیقت کو مثال بنا کر پیش کیا کہ ایک امیر آدمی کے لیے مسرت تلاش کرنا ایسا ہے جسے سِسی فَس دوزخ سے اپنا پتھر او پرکی جانب لڑھکا کر لے جانے کی کوشش کرے (3)۔
***
سید علی عباس جلالپوری نے ایک اور ضرب المثل کو فکری مغالطہ قرار دیا۔ اُس نے ”عشق کو ایک مرض “نہ مانا ۔ ہائے رے مشرق، تیری ادائیں ۔ عشق جو مقدس ترین انسانی سرگرمی ہے، ہم نے اسے ”دل و دماغ کا خلل“ قرار دے رکھا تھا ۔ سید علی عباس جلالپوری نام کے مستری نہ ہوتے تو ہمارا سماج تاریکی کے بہت گہرے درجے میں ڈبکیاں کھا رہا ہوتا۔
اُس نے ملّا اور ملک اور معتبر کی اِس بے بنیاد بات کو دلیل سے مسترد کیا کہ گویا ”اخلاقی قدریں ابدی ہیں“۔ اس نے ثابت کیا کہ غلام داری سماج کی اقدار اور روایات فیوڈل دور میں نہیں چل سکتیں ۔ اور قبائلی عہد کے رواج یورپ اور امریکہ میں قائم کپٹلزم کے سامنے شکست ہی کھائیں گے ۔
وہ عورت مرد کے بارے میں مردوں کی گھڑی ہوئی ساری مقبول باتوں کونہیں مانتا تھا ۔ اُس کی نظر میں ”عورت مرد سے کسی صورت بھی کمتر نہیں ہے“ ۔ وہ اس مقولے کو بھی استرداد کے نشانے پہ رکھتا ہے جس کے تحت ”انسان فطرتاً خود عرض ہے “۔ اسی طرح وہ ریاست اور مذہب کو علامہ اقبال کے ہم فکروں کی طرح ”باہم لازم و ملزوم “ نہیں سمجھتا تھا ۔ اُس کی نظر میں ریاست اور مذہب کو اکٹھے نہیں چلایا جاسکتا۔الگ الگ باتیں قرار دیتا تھا۔
علی عباس جلالپوری کی فکر کا محور یہ عقیدہ ہے کہ زندگی مقدم ہے ، وہ سب نظریات سے بلند وبالاہے۔ آخری فتح زندگی کی ہی ہوگی ۔ اس کے فلسفے کی بنیاد انسان کی مثبت صلاحیتوں پر مکمل ایمان ہے ۔ اسی لیے وہ ذہنوں میں رچے بسے مغالطوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ سوچنا ہی کہ زندگی کا انجام خوفناک ہوگا ایک مظالطہ ہے ۔
وہ زندگی میں مقصدیت کا قائل ہے اور اس لیے آزادی اور بے راہ روی میں تمیز پر زور دیتا ہے۔ اس طرح ماضی پرستی ، عقل دشمنی نا قابلِ تغیر فطرت انسانی ، دولت کا شرطِ مسرت ہونا ، تصوف کا جزو مذہب ہونا، عشق کا مرض ہونا ، حتمی اخلاقی قدریں ، عورت پر مردکی فضلیت ، فن برائے فنکارکا تصور اور انسان کا فطر تاً خود غرض ہونا اور مذہب کو سیاست کی بنیاد قرار دینا، یہ سب فرسودہ اور نا معقول رویے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک بدنیتی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انسان اپنی خود غرضیوں کو نظریات اور فلسفے کا نام دے کر ان کے لیے جواز مہیا کرنے کی کوشش کر تا ہے ۔
جلال پوری کی اس کتاب میں دلیل اور تفصیل کے ساتھ ان باتوں کی بھی تردید ہے کہ وجدان کو عقل پہ برتری حاصل ہے ، دولت مسرت کا باعث ہے ، تصوف مذہب کا جزو ہے ، عشق ایک مرض ہے ، اخلاقی قدریں ازلی وابدی ہیں، عورت مرد سے کم تر ہے ، فن برائے فنکار ہے ، انسان فطرتاً خود غرض ہے ، یا ، ریاست اور مذہب لازم وملزوم ہیں۔تاریخ خود کو دہراتی ہے ۔ یہ سارے فقرے ، یہ سارے مقولے عام لوگوں میں ، پڑھے لکھوں میں اورحتیٰ کہ دانشوروں میں بھی بڑے مقبول ہیں اور وہ انہیں روز مرہ انداز میں استعمال کرتے ہیں ۔ مگرسید علی عباس جلالپوری ان ساری باتوں کو ، ان سارے مقولوں کو مسترد کرتا ہے اور دلائل سے ان کو باطل قرار دیتا ہے ۔
علی عباس کی نظر میں انسان کا دورِ وحشت ، اس کا دورِبربریت ، زرعی انقلاب کا دور،اورصنعتی انقلاب یہ سارے ادوا ر درجہ بدرجہ ترقی کے ادوار تھے ۔ انسان جب ایک دور سے نکل گیا تو اس نے پھر مڑکر اس کی طرف دیکھا نہیں۔ انسانی زندگی کبھی بھی دائر وں کی اسیر نہیں رہی ۔
یہ کتاب بلاشبہ سماجی تحریک کی بنیاد بنی۔ اور آئندہ بھی صدیوں تک یہ کتاب ترقی کی جانب انسانی مارچ میں فکری بنیادیں مہیا کرتی رہے گی ۔”عام فکری مغالطے “ بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے ۔
اسی طرح ، اس کی ”جنسیاتی مطالعے “بھی پڑھنے کے قابل تصنیف ہے ۔اس موضوع پہ بات کرنا بہت برا سمجھتا جاتا رہا ہے ۔ اور اگر کبھی اس موضوع کو چھیڑا بھی گیا تو بازاری موضوع کی صورت۔ جلالپوری صاحب نے اس موضوع پر اپنے زمانے میں موجودسائنسی علم سے نوجوانوں اور اُن کے والدین کو معلوم دار کیا۔اور جنس، محبت اور رومانس کو علمی اور سنجیدہ طور پر زیرِ بحث لایا۔
ارے ایک زبردست کتاب تو رہ گئی: روحِ عصر۔ یوں تو اُس کی ہر کتاب بہت ایڈیشنوں میں شائع ہوئی مگر روحِ عصر الگ الگ گیٹ اپ کے ساتھ کئی اشاعتوں میں میرے پاس موجود ہے ۔ اس میں مائتھالوجی ، اوہام اور شرک و پال کے موضوعات کو چھیڑا گیا ہے ۔ ہر مائتھالوجیکل داستان کے پس منظر والے تاریخی ماحول کو کھنگال کر اُس نے بات کی ۔ مقصد تو انسانی شعور کے ارتقا کو بیان کرنا تھا ۔ وہ مائتھالوجی سے لے کر آج کے سائنسی زمانے تک انسان کے افضل مقام کا جواز بیان کرتا ہے ۔ بڑا انسان تھا وہ!
علی عباس صرف اسی فلسفے کو سچا اور جائز فلسفہ سمجھتاہے جس کا مقصد انسانیت کی فلاح ہے ۔ اس کے نزدیک مطالعے اور تحقیق کا بے لاگ ہونا ضروری ہے لیکن یہ کوئی میکانکی عمل بھی نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کے پیچھے ایک مثبت جذبے کا کار فر ماہونا ضروری ہے ۔ صرف حقائق بطور حقائق کوئی اہمیت نہیں رکھتے، اصل بات زندگی پر ان کے اثرات کی ہے ۔ علی عباس جلال پوری Empiricalمفکر نہیں ہے ۔ وہ اعداد وشمار میں نہیں آتا ۔ اس کا نقطہ نظریہ نہیں ہے کہ کتنے فیصد لوگوں کو کھانا پینا میسر ہے ۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ کن لوگوں کہ یہ میسر ہے اور کن لوگوں کو نہیں۔
سید علی عباس جلالپوری ایک نابغہ ، ایک جینئس تھا۔ وہ مجسم علم اور تحریک تھا ۔ وہ انسانیت کے بارے میں لکھتا تھا۔ اس نے آسان لکھاجو عام لوگوں کو سمجھ آسکے ۔ اس نے بنیاد پرستی پر چر کے لگائے ۔ گزشتہ ربع صدی بلامبالغہ اس کی کتابوں اور افکار کی ربع صدی رہی ہے ۔ موجودہ نسل میں ایسا کون سا سوچنے اور فکر کرنے والا شخص ہوگا جس نے جلالپوری کی تحریروں سے اپنی فکر کو وسعت نہ بخشی ہو۔ جلالپوری کی تعلیمات اس خطے کا مستقبل ہیں۔
اس کی ساری کتابیں” خرد افروز ‘ پوسٹ بکس نمبر25،جہلم“ سے ملتی ہیں ۔میں اپنے دوستوں کو بتا دوں کہ جہلم کا بہترین تحفہ اور جہلم کی زبردست سوغات اُس کی عالمی اور ملکی ڈنڈے ماری نہیں ہے ۔تشدد کا آلہ جہلم کا چہرہ نہیں۔ بلکہ جب بھی آپ سے کوئی جہلم کی نازک ترین خصوصی چیز کا پوچھے تو کہہ دیجیے : سید علی عباس جلالپوری کی کتابیں۔ اور جہلم کے بہترین انسان کے سوال کے جواب میں آنکھیں بند کرکے اعلان کیجیے : جلالپوری۔
آﺅ ہم آپ ایک خواب دیکھتے ہیں۔ ”ایک ایسی بشر دوست حکومت قائم ہوچکی ہے جس نے بڑے بڑے جاگیرداروں سے زمین چھین کر بے زمین کسانوں میں مفت تقسیم کردی۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے تمام فیوض ونعمتیںانسانوں کو مہیا کردیں۔ سارے آئی ایم ایفی قرضے دینے سے انکار کردیا۔ عورتوں کے سارے بنیادی انسانی حقوق مہیا کردیے۔ بلوچی کو بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دے دیا۔ گوادر کی ساری ملکیت بلوچوں کے حوالے کردی۔ معدنیات کو بلوچ عوام کے حوالے کردیا۔ آبادی میں پیشوں کے حساب سے اسمبلی سیٹیں رکھ دیں“۔۔۔ تو اگلی حقیقت میں بتاتا ہوں : وہ حکومت علی عباس جلال پوری کی کتابوں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بناچکی ہوگی ۔اور ہر یونیورسٹی میں علی عباس جلال پوری چیئر قائم کر چکی ہوگی۔
جون 1984پر کو اس کو فالج ہوگیا۔ دایاں لکھنے والا ہاتھ باغی ہوگیا۔ یوں بقیہ 14سال وہ کچھ نہ لکھ پایا۔
لیکن ”تاریخ کا نیا موڑ “ کا بہت پہلے سے تیار شدہ مسودہ اُس کی ایسی مفلوج حالت میں چھپ کر اسے ملا۔ وہ کتنا خوش ہوا ہوگا!۔عام فکری مغالطے کے بعد جس کتاب نے مقبولیت کے بام کو چھوا وہ یہی ”تاریخ کا نیا موڑ“ تھی ۔اس کمال کتاب میں اس نے بہت مدلل انداز میں انسان کی ابتدا اور ارتقا کی کہانی بیان کی ۔اس کتاب میں بنی آدم کے ارتقا کے سفر میں آنے والی مصائب سے انسان کے نمٹنے کا حسین قصہ بیان کیا ہوا ہے ۔ یہ کتاب آج کے سائنسی دور تک انسان کے سفر کی داستان ہے ۔
تاثیر بھرا یہ استاد اور مبلغ 7دسمبر 1998میں انتقال کر گیا۔

ریفرنسز
1۔ ایسا ڈورا ڈنکن۔ مائی لائف ۔ صفحہ143
2۔ ایضاً۔صفحہ144
3۔ ایضاً۔صفحہ153

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*