چندن راکھ

کتاب۔ چندن راکھ
موضوع۔ افسانے
کل صفحات۔ 128
قیمت۔ 400 روپے

دن بارہ بجے کا وقت اور میں کمپیوٹر پر آنکھیں جمائے نہ جانے کیا پڑھ کر سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک سے سائلنٹ موڈ پر پڑی موبائل گرر گرر کرنے لگی ، میں نے سکرین پر غور نظر گھماتے ہوئے کال ریسیو کردی۔ دوسری طرف سے آواز آئی ” صفدر بات کر رہے ہو "۔ ” جی ہاں ” میں نے اثبات میں بولا۔ پھر کہنے لگا ” وہی اپنا والا کلاس فیلو ؟ ” میں نے حیرانگی سے پوچھا ” پہچان نہیں پایا تعارف کردیں ” کالر ذرا چِلا اٹھا ” جانی میں عمر بات کررہا ہوں عمر ” میں تو چونک اٹھا ” بھئی تو نے اپنے کو کیسے ڈھونڈا ” کہنے لگا ” بعد کی بات ، تو ایسا کر آ جا ڈاک خانے تیرے نام کوئی ڈاک آئی ہے ، زکریا خان نے ساہیوال سے بھیجی گئی ہے ”
میری خوشی کی انتہا نہ رہی فورًا چپل پیر میں کئے مین گیٹ کی اور لپکا تو دوبارہ کال ریسیو ہوئی ” جانی تو ایسا کر جمعہ نماز کے بعد آنا ” میری بلڈ پریشر لو اینڈ ہائی سے یکدم ہائی ہوگئی ، ہونٹ دانتوں تلے دبائے دوبارہ کرسی پر دراز ہوکر منتظر تھا کہ کب تین بج جائیں نماز سے فراغت ملے انکو۔
خیر آخر کار ڈاک خانے کے اندر داخل ہوتے ہی عمر کو گرمجوش گلے لگا دیا اور سائیڈ پر پڑے لفافے پر نظر گھما کر منمنانے لگا ‘ زکریا خان بہت شکریہ ‘۔ ہماری گپ شپ ختم ہوئی تو گھر آکر فورًا کتاب کھول کر زکریا خان کی طرف ایک فلائنگ کِس بھیج دی۔ کتاب کی نام چندن راکھ اور نبشتہ کار (رائٹر) کا نام مصباح نوید پڑھ کر سر ورق پر بنی اداس پینٹنگ پر نظر گھمانے کے بعد شروعات میں پیش لفظ پڑھ کر گمان سا ہوا کہ یہ بندہ آشنا سا لگتا ہے پڑھتے پڑھتے پیش لفظ اختتام پذیر ہوئی تو نیچے ‘ شاہ محمد مری ماوند ‘ پڑھ کر مسکرایا: اوہ یہ تو اپنا شان گل! ڈاکٹر مری ہیں۔ اور پھر میں اور کتاب اپنی زبان میں نہ جانے کہاں کہاں سیر کرتے گئے۔ ٹوٹل سولہ افسانوں پر ایک سو تیئس صفحات پر مشتمل یہ شاہکار مجھے کبھی آنکھیں گھورنے ، کبھی مسکرانے ، کبھی آنکھیں نم کرنے ، کبھی قہقہہ لگانے ، کبھی کرنٹ سی لگنے کی کیفیت میں مبتلا کرتی۔
ذرا پڑھیں تو
” دوپہر تک میت نہا دھو کر سپید کپڑے میں لپٹی ہوئی خوشبو لگی جنازے کے لیئے تیار تھی۔ صغرٰی (فوت شدہ کی نام) کو بھی عرصے بعد صاف کپڑے اور نہانا نصیب ہوا ” افسانہ گھوم چر خڑا گھوم صفحہ نمبر 61 .
اس افسانے میں سماج میں پسماندہ لوگوں کی حالت اس انداز سے بیان کی گئی ہے کہ حساس آدمی کی آنکھیں نم ہی ہوجائیں۔
افسانہ ‘ پچاس منٹ ‘ صفحہ نمبر 79 تو الگ ہی نظارہ کشی کرتا ہے جو ہر عورت کو بھگتنی پڑتی ہی ہے۔
مصباح نوید کی کتاب مجھے دو پہر میں نویدِ یوم کی طرح پسند آئی۔
قہقہہ تو تب لگایا کہ جب افسانہ ‘ کونج ‘ صفحہ 93 پڑی۔ آئیے قہقہہ لگاتے ہیں ”

"ولی اللہ کسے کہتے ہیں ؟ ماں ! ”
ستارہ نے اپنا سوال دہرایا۔
ماں نے رسان سے کہا ” اللہ کے دوست کو کہتے ہیں "۔
ستارہ نے سمجھداری سے سر ہلایا ” اچھا ! جیسے ٹامی میرا دوست ہے ”
ماں نے چپل اتار کر ستارہ کے ٹانگوں سے چپکے ہوئے ٹامی کو نشانہ لیا۔ لیکن ٹامی بھی چپل کے تیور خوب پہچانتا تھا۔ وہ تو پھرتی سے رخ بدل گیا۔ چپل سیدھی ستارہ کی ٹانگوں پر لگی۔
” حرام جانور گھر میں رکھا ہے اِسکی وجہ سے گھر سے برکت ہی اٹھ گئی ہے ” ماں غصے سے بولی۔
ستارہ نے جلدی سے اٹھا کر ٹامی کو اپنی گود میں چھپا لیا۔ آنکھوں میں آنسو لاکر بولی ” ماں ! تعویذ والا پانی تھوڑا سا آپ بھی پی لیا کرو ہوسکتا ہے کہ دل میں ذرا سی محبت معصوم ٹامی کے لیے بھی پیدا ہوجائے ”

اس قدر باریک بینی !!! کمال ہے یار۔ بے حد حسین۔
تمنا ہے کہ مصباح نوید اپنی قلم چلاتی ہمیں افسانے پڑھنے کے مواقع مہیا کریں گی۔ بہت مِہر !

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*