نکولائی چرنی شیوسکی

(1828۔ 1889)

روسی انقلابی جمہوریت پسند ، مصنف، سکالر اور ادبی نقاد اور روسی سوشل ڈیمو کریسی کا ایک پیش رو نکولائی گا در یلووچ چرنی شیو سکی 24 جولائی 1828 کو ایک پادری کے ہاں پیدا ہوا۔ اس نے سات برس کی عمر سے اپنے فاضل والد کی نگرانی میں تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔
اس لڑکے کی روحانی نشو و نما میں کتابوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ گھر میں مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد چودہ برس کی عمر میں وہ ساراتوف میں پادریوں کی درس گاہ میں داخل ہوا۔ یہ ادارہ اپنے طرز تعلیم میں مذہب کی منطقی تشریح اور اپنے اساتذہ کی اکثریت کی جہالت کی وجہ سے بہت ”مشہور“تھا۔ یہ بات بالخصوص پڑھا لکھا چرنی شیو سکی جانتا تھا۔ وہ کئی مضامین میں اچھا خاصا مطالعہ رکھتا تھا اور درس گاہ میں داخلہ لیتے وقت اسے لیٹن، گریک ، فرنچ ، مہرانی، پولش اور جرمن زبانوں پر پہلے ہی عبور حاصل تھا۔ درس گاہ میں اس نے تاتار اور عربی پر بھی دسترس حاصل کرلی۔ اس کے ساتھی نہ صرف اس کی ذہانت اور علم کی وجہ سے اس کی عزت کرتے تھے بلکہ اس لیے بھی کہ وہ ہر وقت دوسروں کی دوستانہ انداز میں مددکرنے کو تیار رہتا تھا۔
اٹھارہ برس کی عمر میں اس نے یہ درس گاہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ سینٹ پیٹرس برگ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ و لسانیات میں داخل ہو گیا۔ اس کے والد نے پادری نہ بننے کی اس کی خواہش کی حمایت کردی۔
یونیورسٹی میں ایک اور طالب علم میخا ئلوف کے ساتھ اس کی دوستی ہوگئی۔ میخائلوف نے بعد میں ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے بہت شہرت پائی اور بالآ خرقید با مشقت کاٹتے ہوئے فوت ہو گیا۔ میخائلوف شعوری طور پر نجات یافتہ ایک کسان کا پوتاتھا۔ چرنی شیو سکی کو اس میں ایک مقدس ساتھی اور عالمی ادب کا ایک صاحب ذوق انسان نظر آیا۔ ان کے یکساں سماجی تصورات بھی انہیں ایک دوسرے کے قریب لائے۔ چرنی شیو سکی بعد میں کہا کرتا تھا کہ اسے ذہنی نشونما کی طرف پہلا دھکا میخائلوف ہی نے دیا۔ اس کی دوستی کی بدولت ادب اور سیاست کے معاملات پر چرنی کو وسیع النظر ی عطا ہوئی۔
وہ ایک مترقی استاد اور عالم و فاضل انسان ، ویدنسکی کے حلقے میں شامل ہو گیا۔ جس سے اس کے انقلابی خیالات بہت زبر دست انداز میں متاثر ہوئے۔ یہاں پر اسے فرانسیسی مفکر فیور ئیر اور سماج کی مبنی بہ انصاف تعمیر نو سے متعلق اس کی تعلیمات میں عظیم سچائیوں کی باتیں ملیں۔ گو کہ ان کی تعلیمات میں صوفیانہ نقطہ نظر موجود تھا مگر اس نے فیورئیر کی تصانیف میں مفید سماجی تصورات کے منابع تلاش کر لیے تھے جنہیں اس نے خود اپنی عظیم کتاب ” کیا کیا جائے ؟” میں مزید ترقی دی۔
اس نے جرمن فلسفہ بالخصوص ہیگل اور فیور باغ کا تفصیل سے مطالعہ کیا۔ فیور باخ کے میٹیریلزم اور مذہب میں اس کی تنقید کے مطالعے سے چرنی شیوسکی خود اپنے خیالات کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہو گیا اور لہٰذ اوہ 1850 تک ایک پکا اور جنگجو دھر یہ بن گیا تھا۔
اس کے سیاسی خیالات بھی تبدیل ہوئے۔ ایک وقت تھا جب وہ 1840 کی دہائی کے وسط میں خود کو تعلیمی کام کے لیے وقف کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا مگر اس دہائی کے آخر تک اور بالخصوص مغربی یورپ میں انقلابی واقعات کے بعد اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی ساری توانائیاں انقلابی خیالات کے لیے بروئے کار لاے گا۔ تا کہ راز شاہی کا تختہ الٹانے کے لیے عوام کو تیار کیا جاسکے۔
وہ سوشلسٹوں ، کمیونسٹوں کا پکا حامی بن گیا۔ 1848 کے انقلابی تجربے کا تجزیہ کرکے اس نے اخذ کر لیا کہ پر امن ذرائع سے سماجی تبدیلی ناممکن ہے اور یہ کہ محنت کش عوام کو غلامی کی زنجیروں سے آزادی صرف اور صرف انقلاب سے نصیب ہو سکتی ہے۔
اس نے تبدیلیوں کی پیش بینی کی اور ان کے لیے خود کو تیار کر لیا۔ ماضی اور حال کے واقعات کے بارے میں اس کا ادراک مزید گہرا ہو گیا اور مستقبل کے بارے میں اس کا شعور مزید نکھر گیا۔ عظیم یوٹوپیائی سوشلسٹوں اور جرمن فلسفیوں کی تصانیف کے گہرے مطالعے کے نتیجے میں اس کے اندر آمریت ، رعیتی غلامی اور مطلق العنانی کے خلاف شدید نفرت پروان چڑھی۔
فائنل کے امتحان سے ایک ہفتہ قبل اسے معلوم ہوا کہ ساراتوف میں ایک مدرس کی اسامی خالی ہے۔ 1851 میں ادب کے اس استاد نے ساراتوف کی متعین سرحدوں کو پار کر لیا۔ اس دم گھٹا دینے والے سیاسی ماحول میں چرنی شیو سکی کے لیکچر غیر معمولی طور پر نئے اور دلچسپ ہوتے تھے۔ ہر روز وہ شاگردوں کے مجمعے میں گھرے گھر لوٹتا تھا جن کے ساتھ وہ دوستانہ ماحول میں گفتگو جاری رکھتا تھا۔ جنوری 1853 میں ایک عزیز کے ہاں اس کی ملاقات اولگا سو کر اتو ونا سے ہوگئی۔ اور فروری میں اس نے اولگا سے شادی کی درخواست کر دی۔ اس کی درخواست کے الفاظ عجیب اور غیر متوقع تھے۔ اس نے اپنے مستقبل کی بیوی سے کہا ” مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی وقت مسلح سپاہی نمودار ہو کر مجھے سینٹ پیٹر سبرگ لے جاسکتے ہیں اور خدا جانے کتنے لمبے عرصے تک مجھے کسی قلعے میں رکھیں گے۔ یہاں پر میری سرگرمیاں مجھے قید با مشقت ہی کی طرف لے جارہی ہیں“۔ اولگا سوکراتو ونا مستقبل کی مشکلات سے نہیں گھبرائی اور اس کی درخواست قبول کر لی۔
شادی ( جو اس کی ماں کی اچانک موت کی وجہ سے غم میں بدل گئی تھی) 1853 کے موسم بہار میں ہو گئی۔ جلد ہی یہ جوڑا سینٹ پیٹر سبرگ منتقل ہو گیا جہاں چرنی شیوسکی کو بے شمار منصوبے مکمل کرنے تھے۔ ادب کے میدان میں خود کو آزمانے کی خواہش سب سے اہم تھی مگر اسے معلوم تھا کہ اس کے لیے وقت اور تیاری کی ضرورت ہے۔ لہذا ایک نصابی ڈگری کا حصول اس کا پہلا مقصد ٹھہر ا۔ اس نے ایک مدرس کی حیثیت سے کام شروع کیا اور محکمہ تعلیم کو ماسٹر ڈگری کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت کے لیے درخواست دے دی۔
دارالحکومت میں ازدواجی زندگی کے اخراجات بہت زیادہ تھے۔ اس لئے اس نے خود کو محض تدریس تک محدود نہ رکھا بلکہ پرائیوٹ طور پر بھی پڑھانے لگا، پروف ریڈنگ بھی کرنے لگا اور رسالوں میں بھی کام کرتا رہا۔
تھیسز پر اس کا کام کامیابی سے جاری تھا۔ اس کے تھیسز کا موضوع تھا ” سچائی کے ساتھ آرٹ کا جمالیاتی رشتہ”۔ اس نے اپنے تھیسز میں آرٹ کے آئیڈیلسٹ نظریات کے رجعتی جو ہر کو دکھانے اور روس میں ترقی یافتہ فلسفیانہ سوچ کی روایت کی عکاسی کرتے ہوئے انقلابی جمالیات کے ساتھ ان کا موازنہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے مئی 1855 میں اپنے تھیسز کا دفاع کیا۔ وہ آرٹ کے میٹر یلسٹ نظریہ کے لیے اپنے دلائل پیش کرنے والا اولین شخص تھا۔
1853 کے خزاں میں اس نے ”ہم عصر “نامی میگزین میں کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ میگزین جمہوری حلقوں میں بہت مقبول تھا۔ اس کے اولین مضامین بے پناہ علمیت ، سوچ کی گہرائی اورمستقل مزاجی کے ساتھ جمہوری رویوں جیسی اعلیٰ خصوصیات کے حامل تھے۔ ان مضامین نے اسے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اس نے نسبتاً قلیل عرصے میں داخلی اور خارجی پالیسیوں، فلسفہ، تاریخ ،سیاسی معیشت اور ادب کے بارے میں بے شمار مضامین لکھے جن میں ” گوگول کے عہدے کے روسی ادب پہ مضامین”، ” لیسننگ، مشترکہ ملکیت کے خلاف فلسفیانہ تعصب کا ناقد ” ،” جولائی کی بادشاہت "اور "سرمایہ ومحنت” بہت مشہور ہیں۔
چرنی شیو سکی رسالے کے نظریاتی اساتذہ میں سے ایک بنا۔ اس نے سرف ڈم کے نظام پر تنقید ، انقلابی خیالات کے پر چار اور کسانوں کی کثرت انبوہ کے مفادات کے دفاع کے لیے بے شمار مضامین لکھے۔ خاص طور پر اپنے مضمون "زمین کی ملکیت پر "میں وہ بتاتا ہے کہ زراعت کے لیے ملکیت کی بہترین شکل وہ ہے جو مالک منیجر اور مزدور کو ایک شخص کی طرح اکٹھا کرے۔ اس کی رائے میں اجتماعی ملکیت والی ریاستی ملکیت کا نظام اس کے آئیڈیل کے قریب ترین ہے۔
اپنے مضمون ”بغیر پتے کے خطوط “میں چرنی شیوسکی نے 1861 کی اصلاحات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے غیر جمہوری پن اور غارت گری کو بے نقاب کیا۔ اس مضمون کو سنسر کر لیا گیا اور یہ 1847 میں کہیں جا کر بیرون ملک چھپ سکا۔
جب انقلابی جمہوریت پسندوں کو احساس ہوا کہ عوام ابھی تک انقلاب کے لیے تیار نہیں ہیں تو انہوں نے اپنے خیالات پھیلانے کے لیے قانونی اور غیر قانونی ذرائع ( جو کچھ اس کے بس میں تھا ) استعمال کیے۔ چرنی شیوسکی کے بقول انہوں نے کسانوں کو متاثر کرنے کے لیے سخت جدو جہد کی اور کسان کے دل میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی کہ ملک کو آمریت سے نجات دلانے کے لیے اسے عظیم کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ صورت 1861 کے گیارہویں شمارے میں شائع ہونے والے اس کے مضمون” کیا یہ تبدیلیوں کا آغاز نہیں ؟ “میں واضح طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔ "ہم عصر” کی انقلابی روح حکمرانوں کی نظروں سے نہ چھپ گئی۔ اور جون 1862 میں رسالہ پر اس کے "نقصان دہ رحجان” کی بناء پر پابندی لگا دی گئی اور چرنی شیو سکی کو گرفتار کر کے پیٹر اور پال کے قلعے میں بند کر دیا گیا۔
لینن نے چرنی شیو سکی کا ذکر ایک انقلابی جمہوریت پسند کی حیثیت سے کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ”سنسر شپ کی ساری پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود کسان انقلاب کرنے اور پرانے حاکموں کا تختہ الٹ دینے کے لیے عوامی جد و جہد کے تصور کی وکالت کر کے ایک انقلابی تاثر پیش کرنے کا اہل تھا۔ چرنی شیو سکی کا ایمان تھا کہ روسی انقلاب قریب ہے اور اس کا بر پا ہونا ناگزیر ہے۔ وہ رعیتی غلامی کے خاتمے اور محنت کش کسانوں کے حق میں زرعی مسئلے کو انقلابی جمہوریت کا فوری ہدف سمجھتا تھا۔ مگر اس کی حتمی منزل سوشلزم تھی۔ پہلی انقلابی صورتحال کے برسوں میں اس کی سرگرمی خاص طور پر متاثر کن تھی جب لینن کے بقول سارا ملک چرنی شیوسکی کی طاقتور اپیلوں کو غور سے سن رہا تھا جو سنسر شدہ مضامین کے ذریعے بھی حقیقی انقلابیوں کو تربیت دینے کے قابل تھیں“۔
اس نے اپنے مضامین میں رعیتی غلامی اور راز شاہی پر زبر دست مکے برسائے اور 1861 کی اصلاحات کے فوائد کے بارے میں بورژوا لبرل خوش فہمیوں کو بے نقاب کیا۔ اس نے اپنے مضامین میں خود کو صرف ایک کسان انقلاب برپا کرنے کے تصور کے پر چار تک محدود نہ رکھا بلکہ غیر قانونی مضمون ”کسانوں کو ان کے بہی خواہوں کی جانب سے مبارکباد“ کے ذریعے عوام سے براہ راست خطاب کیا۔ اس میں اس نے راز شاہی کو بے نقاب کیا اور کسانوں کو سمجھایا کہ جاگیرداری ، راز شاہی کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اس نے ان سے بغاوت کے لیے تیاری کرنے اور اصلاحات کی امید ترک کرنے کو کہا۔
اپنے ”بغیر پتے کے خطوط “میں کسانوں کی ”نجات “کے نتائج کو مجتمع کرتے ہوئے چرنی شیوسکی نے واضح کیا کہ اصلاحات عوام کے مفادات کی دشمن ہیں۔ اشرافیہ نے اصلاحات پر اپنے مفادات کے مطابق از خود عمل کرنا شروع کر دیا۔ محض صورت بدل گئی اور جاگیر دار اور کسان کے مابین تعلقات کا جو ہر جوں کا توں رہا۔ اس نے اصلاحات کو پرانے لباس میں پیوند کاری سے تشبیہ دی۔ جس طرح کہ ایک پیوند، گلے سڑے لباس کو تار تار ہونے سے نہیں بچا سکتی۔ اسی طرح اصلاحات دقیانوسی آمرانہ جاگیرداری نظام کو نہیں بچا سکیں گی۔
راز شاہی کی حکومت نے چرنی شیو سکی اور اس کے حامیوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ 14 دسمبر 1861 کو اُسے سائبیریا میں بارہ سال قید بامشقت کی سزا ہوئی ۔مگر پیٹر اور پال کے قلعوں میں بھی اس نے ہتھیار نہ ڈالے ۔جیل کے اندر چار ماہ کے عرصے میں اس نے ” کیا کیا جائے؟“ نامی ناول لکھا۔
اس کتاب میں اس نے سوشلسٹ نظریات ( جو اس نے اپنی نظریاتی تصانیف میں پیش کئے تھے ) کو آرٹ کے انداز میں پیش کیا۔ یہ ناول قارئین کی کئی نسلوں کے لیے زندگانی کی نصابی کتاب تھی اس لیے کہ اس میں اٹھائے گئے سوالات وہی تھے جو روسی دانشوروں کو درپیش تھے۔ یعنی یہ کہ ملک کو سرف ڈم یعنی رعیتی غلامی اور مطلق العنانی کے جوئے سے کس طرح آزاد کیا جائے؟۔
خیال کی وسعت کے ساتھ اس نے ”پرانے“کی تصویر کشی ،ان کی سرد مہری ، بزدلی، حرص اور منافع خوری کے ساتھ کی اور ”نئے لوگوں “کو جمہوریت پسند کی حیثیت دی۔ اس ناول کی سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت رحمت کی ہے، جہاں مصنف نے روسی ادب میں پہلی بار ایک انقلابی کی عکاسی کی جو عوام کی خاطر جدوجہد میں ہر قسم کی آزمائش میں کود پڑنے کے لیے تیار ہے۔ اس نے اس میں دکھایا کہ صرف اور صرف ذاتی اور سماجی مفادات کو یکجا کرناہی شخصی مسرت کو ممکن بنا سکتا ہے۔
مستقبل کا سماج ( یعنی سوشلسٹ سماج ) مثالی سماج ہے۔ منصف آزادانہ طور پر قاری سے گفتگو کرتا نظر آتا ہے۔ وہ ناول کے کردار کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے اور بار بار "ادراک والے قاری”. کے ساتھ مناظروں میں مصروف ہوتا ہے۔ قاری جو کہ ایک اجتماعی شخصیت ہوتا ہے اور اس میں وہی خیالات ہوتے ہیں جو اُس وقت کے رجعتیوںاور لبرلوں کے ہوتے ہیں ۔اس طرز نے چرنی شیوسکی کو لبرل با تو نیوں کا مذاق اڑانے کے قابل بنا دیا۔
”ہم عصر “ میں شائع ہونے کے بعد سنسر نے اس ناول پہ پابندی لگادی اور اس طرح یہ ناول 1905 تک دوبارہ چھپ نہ سکا۔ رسالے کی جن اشاعتوں میں یہ ناول چھپا تھا وہ شمارے نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔
” کیا کیا جائے ؟“کی تکمیل کے پانچ ماہ بعد چرنی شیوسکی نے اپنی کہانی ”الفرییف نئے لوگوں کے بارے میں یادداشتوں سے “کے نام سے لکھی۔ وہ بہ یک وقت ترجمے کے کام میں بھی جتا ہوا تھا۔ قلعے میں اس نے جر و نیس کی لکھی ہوئی "انیسویں صدی کی تاریخ”، میکالے کی کتاب ” تاریخ بر طانیہ “کی دو جلدوں اور سکلاسر کی تصنیف ” تاریخ عالم "کی دو جلدوں کے ترجمے کیے۔ اس نے 29 شارٹ سٹوریز لکھیں اور اپنی ایک سوانح عمری تحریر کی۔ اس کے علاوہ ”پولٹیکل اکانومی کے اصول “نامی تصنیف بھی اسی کی ہے۔ تراجم اور بے شمار دیگر عظیم علمی تصانیف کے علاوہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے سلسلے میں اسے بے شمار عدالتی بیانات، توضیحات اور خطوط لکھنے پڑے تھے۔ کام کے لیے اس قدر بے پناہ صلاحیت نے ایک بار پھر گواہی دی کہ چرنی شیو سکی کو اپنے کازسے کس قدر لگاو¿ تھا اور وہ پیٹر اور پال کی تاریک دیواروں میں رہ کر بھی واقعات کے وسط میں موجود رہنے کی تمنار کھتا تھا۔
19 مئی 1864 کو چرنی شیوسکی کو سزا دینے کی نمائش سینٹ پیٹر سبرگ کے ایک چورا ہے پر منعقد کی گئی۔ قرون ِوسطی کے اس جشن کا مقصد چرنی شیوسکی کی بے عزتی کرنا تھا۔ اسے گھٹنوں کے بل جھکایا گیا اور ایک تلوار اس کے سر پر تو ڑ دی گئی۔ اُس وقت وہاں مسلح افواج کا زبر دست پہرہ تھا مگر اس کے باوجود نوجوان طلباءنے دل کھول کر اس ”ریاستی مجرم“ کی پذیرائی کی اور اس پر پھولوں کے گلدستے پھینکے۔ 20 مئی 1864 کو شام کو مسلح دستوں کے پہرے میں اسے سائبیریا روانہ کر دیا گیا۔ طویل اور کٹھن سفر کے بعد اس کی صحت تباہ ہوگئی تھی اور ڈاکٹروں کے اصرار پر اُسے ”کا دیا“ کے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں اس کی ملاقات اپنی جوانی کے دوست اور عوامی کاز کے لیے جدو جہد میں اپنے ساتھی میخا ئلوف سے ہوئی۔ زار کی مشقت بھری جیلوں اور قہر آلود موسم نے میخائلوف کی صحت برباد کر دی تھی۔ چھ ماہ بعد جب چرنی شیوسکی کی معدنی کانوں میں جانے سے قبل اُسے الوداع کہنے آیا تو وہ شاعر اُس دنیا میں محض چند مہینوں مہمان تھا۔
چرنی شیوسکی ”کا دایا “کی کانوں کے علاقے میں ایک خستہ جھو پٹری میں رہتا تھا۔ اس نے بیس سال سائبیریا میں قید بامشقت کاٹی جن میں سے سات سال تک وہ ”جرچنسک “ کی کانوں میں کام کرتا رہا تھا۔ چوبیس گھنٹے اس کی نگرانی کی جاتی تھی۔ جیل کے حکام نے فرار کی اس کی ساری راہیں مسدود کر دی تھیں۔
1868 میں سینٹ پیٹر سبرگ کے حکام نے نر چنسک کے جیل کے افسروں کو اطلاع دی کہ سات سال کی مدت سزا ختم ہونے کے بعد بھی اُسے رہانہ کیا جائے۔ راز شاہی نے اُسے مزید بارہ سال قید با مشقت جھیلنے کے لیے ویلیوئی جیل بھیج دیا۔ ایسی غیر مساوی جنگ میں صحیح سلامت نکلنا آ ہنی دل گردوں کے بغیر ناممکن ہوتا ہے۔ دریں اثناءانقلابی حلقوں نے اسے رہا کرانے کی کئی کوششیں کیں مگر یہ سب کوششیں رائیگاں گئیں۔ چرنی شیو سکی نے بے مثال جرات اور بہادری کے ساتھ نر چنسک میں مشقت کی ساری تکالیف اور ویلیوئی جیل کے تنگ و تاریک سیل میں قید تنہائی کی ساری صعوبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس نے تقریبا بارہ سال مسلح فوجیوں اور کا زکوں کی نگرانی میں گزارے۔ زندگی بہت اجیرن تھی۔ قید تنہائی جھیلتے ہوئے عملی سرگرمیوں سے جدا رہ کر اور عملاً زندہ در گور ہو کر بھی اس نے طویل مدت وقار کے ساتھ گزاردی۔
اس کے باوجود کہ اُس کی ساری تحریروں پر پابندی تھی اور اخبارات میں اُس کے نام لینے کی بھی اجازت نہ تھی۔ پھر بھی حتی کہ جلا وطنی میں بھی اُس نے لکھنے پڑھنے کا کام جاری رکھا۔ کتابوں کا ہر پارسل اسے بے حد خوشی بخشتاتھا۔ اس نے علم کے کئی شعبوں کے بارے میں لکھا۔ اپنے رشتہ داروں کو لکھے گئے اُس کے خطوط نے جلد ہی بنیادی نظریاتی مطالعات کی حیثیت حاصل کرلی۔ یہ خطو ط فلاسفی ، ہسٹری ، نیچرل سائنس اور پولٹیکل اکانومی کے بارے میں ہوتے تھے۔ اُن خطوط سے اُس کے عظیم علم، انقلابی استادی اور اس کے نظریات کی پختگی کے معراج کا اندازہ ہوتا ہے۔
سائبیریا میں جلا وطنی کے دوران لکھا گیا اس کا ناول ” تمہیدی نظم ” اس کی سب سے ممتاز تصنیف بن گیا۔ جس میں 1857 کی کسان اصلاحات کے دور کا تذکرہ ہے۔ وہ سینٹ پیر سبرگ کے معاشرے کی مختلف تہوں کی عکاسی کرتا ہے اور لبرل اور جاگیرداروں کے خلاف انقلابی جمہوریت پسندوںکی تیز نظریاتی جد و جہد کو بیان کرتا ہے اور مسلح بغاوت کے تصور کا پرچار کرتا ہے۔
1871 میں وہ ” تمہیدی نظم ” نامی ناول، ”ایک لڑکی کا فسانہ “نامی کہانی ”باربروسا کی نسل “نامی کہانی کے پہلے تین ابواب اور دوڈراموں کے مسودے اپنی بیوی کو بھیجنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان میں سے صرف ”تمہیدی نظم “کا پہلا حصہ 1877 میں کہیں جا کر لندن میں شائع ہو سکا۔ باقی سب تصانیف اس کی وفات کے بعد چھپیں۔
اگست کو اُسے ارکٹسک لے جایا گیا جہاں پر اُسے معلوم ہوا کہ اُسے استراخان منتقل کیا جارہا ہے۔ 22 اکتوبر کو دو ماہ کے سفر کے بعد وہ اپنے آبائی وطن ساراتوف پہنچا جہاں اسے اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے مختصر قیام کی اجازت دی گئی۔ چرنی شیوسکی کے لیے لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو جانے اور گڑبڑ ہو جانے کے خوف کی وجہ سے اسے چھاو¿نی میں کرنل کے گھر پر رکھا گیا اور یہیں پر وہ اپنی بیوی سے ملا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی بیوی اگلے دن دخانی جہاز کے ذریعے آستراخان کے لیے روانہ ہو جائے۔ خود وہ وہاں 27 اکتوبر کو پہنچا۔ اس کے فورابعد اس کے بیٹے (جنہیں اس نے اس وقت چھوڑا تھا جب وہ بچے تھے ) سینٹ پیٹر سبرگ سے پہنچے ۔الیگز انڈ راب 29 اور میخائل 25 برس کا تھا۔
سائبیریا کی جلاوطنی سے والگا منتقلی کے بعد اس نے ایک میگزین نکالنا چاہا جس کے ذریعے وہ بہترین ادبی صلاحیتوں کو اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ مگر پولیس نے ان منصوبوں میں رکاوٹیں ڈال دیں۔
1888 میں اس نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ”زندگی کے لیے جدوجہد کے نظریے کی ابتدائ“ ۔ اس مضمون میں اس نے مالتھس کے مشہور نظریے کو تنقید کا نشانہ بنایا جس نے بورژ و نظام کو جائز ثابت کرنے کے لیے محنت کش لوگوں کی غربت اور مصائب کی وضاحت ” عوام میں پیداواریت کے متعلق احساس کی کمی” سے کی۔ نوجوان نسل کو 1860 کی دہائی کی عظیم شخصیتوں سے متعارف کرنے کے لیے اس نے نکر ازوف اور ڈوبر ولیو بوف کے بارے میں اپنی یاداشتیں لکھیں اور ”ڈوبر ولیو بوف کی سوانح عمری ، کے لیے مواد “کو تیار کر لیا۔ یہ بیش بہا کتاب 1890 میں اس کی موت کے بعد چھپی۔
چرنی شیو سکی کی حقیقی سرگرمیاں اسی سمت میں جاری رہیں جو سمت مارکس اور اینگلز نے اختیار کی مگر نیم جاگیردارانہ روس میں معاشی و سیاسی حالات ترقی یافتہ مشرقی یورپ کے ممالک کے معیار زندگی سے بہت پیچھے تھے۔ پرولتاریہ کی تشکیل ابھی شروع ہو رہی تھی۔ اور کسانوں کی انقلابی جدوجہد ابھی تک خودرو اور بے یارومددگار ابھاروں کی سطح سے اوپر نہ ابھری تھی۔
بہر حال ساجی ، معاشی اور سیاسی رشتوں کے ماضی کے باوجود چرنی شیوسکی ڈائلکٹیکل میٹریلزم کے قریب آگیا اور اس نے سماجی سوچ کی نشو و نما میں قابل داد حصہ ادا کیا۔
وہ کپٹلزم کا ایک صلح نہ کرنے والا ناقد اور کمیونزم کا زبردست حامی تھا۔ اس نے کپٹلزم کے ہاتھوں تباہ حال محنت کش لوگوں کے دفاع کنندہ کی حیثیت سے بور ژوا نظام کا جائزہ لیا۔ اس نے اُس وقت یہ دانشمند انہ انداز ہ لگایا کہ سوشلزم کا آنا اس لیے ضروری اور نا گزیر ہے کہ یہ سماجی پیداوار کی فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس نے کہا۔۔۔ ”اگر پیداواری عمل کی خصوصیت بدل جائے تو پھر محنت کی خاصیت بھی بدل جاتی ہے اور نتیجے میں محنت کے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کی بہتری کی ناگزیریت خود پیداواری عمل کی نشو و نما میں پہلے ہی موجود ہوتی ہے“۔
اس نے مزید لکھا کہ زندگی میں عام لوگوں کو اولیت حاصل کرنی چاہیے ۔ اور صرف انہی لوگوں کے لیے سوشلزم نامی نظام مفید بھی ہے اور ضروری بھی۔ مگر 1860 کی دہائی کے روس میں سماجی معاشی رشتوں کی پس ماندگی کی وجہ سے چرنی شیو سکی یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ صرف کپٹلزم کی ترقی اور پرولتاریہ ہی سوشلزم لانے کے لیے حالات اور سماجی طاقت پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ ایک یوٹوپیائی سوشلسٹ تھا اور فطری طور پر پدری نظام والے کسان کمیون کا تصور کر سکتا تھا اور اسی سے ہو کر سوشلزم تک پہنچنے کوممکن سمجھتا تھا۔
اس کے باوجود کہ چرنی شیوسکی اور اس کے پیروکار انقلابی جمہوریت پسند (انقلابی کسانوں کے نظریہ دان ) یوٹوپیائی سوشلسٹ رہے مگر وہ ماقبل مارکسی عہد کے سارے مفکروں کی بہ نسبت سائنٹفک سوشلزم کے زیادہ قریب آگئے تھے۔ وہ عوام کی آزادی کے لیے آمریت کے خلاف بہادری سے لڑے۔ چرنی شیوسکی کی انقلابی جمہوریت پسندی اس کے مٹیریلزم کے فلسفے پر استوار ہوئی جو رجعت اور لبرل ازم کے خلاف جدو جہد کے دوران ترقی پا گئی تھی۔ لینن نے کہا :”چرنی شیو سکی بلا شبہ وہ واحد روسی لکھاری ہے جو 1850 کی دہائی سے لے کر1888 تک ، ایک وابستہ و پیوستہ فلسفیانہ میٹریلزم کی سطح برقرار رکھنے کے قابل تھا اور جس نے مثبتوں ، ماخسٹوں ، کانٹ کے جدت پسند مریدوں اور دوسرے فاطر العقل خانہ خرابوں کو بھگادیا“۔
چرنی شیوسکی نے آسترا خان میں جلاوطنی کے اپنے آخری برسوں میں بہت سخت محنت کی ۔ اس نے وہاں پر پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا۔ اس کے عزیزوں اور دوستوں کی مسلسل کاوشوں کی برکت سے اسے 1889میں اپنے آبائی وطن ساراتوف واپس جانے کی اجازت ملی۔ مگر وہ وہاں محض چار ماہ گزار سکا۔ 17اکتوبر 1889کو وہ فوت ہوگیا۔ اس کا جنازہ ایک عظیم جلوس کی شکل اختیار کرگیا ۔ سارا توف میں تعزیت کے خطوط اور ٹیلی گراموں کی برسات ہوئی ۔ محکمہ پولیس نے مقامی حکام کو کفن دفن کی تقریب پر پابندی لگانے اور راہنماﺅں کو تلاش کر کے گرفتار کرنے کو کہا ۔ تجہیز وتکفین کی رسم پر پولیس نے کڑی نگرانی رکھی ۔لوگوں کا ایک عظیم اجتماع خاموشی کے ساتھ میت کے ساتھ ساتھ چلا۔ 1905۔1907کے انقلاب کے وقت تک چرنی شیوسکی کا ”خطرناک نام “ لینے تک کی اجازت نہ تھی۔
نکولائی گاور یلو وچ چرنی شیوسکی اس کاز کے برحق ہونے پر گہرا یقین رکھتا تھا جس کی خاطر اس نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*