بلوچی زبان کے لہجے

بلوچ اتحاد کے نیک اور صاف دل حامیوں اور زبان کو سٹینڈرڈائز کرنے کرنے کے لبے فکرمند لوگوں سے ایک بات کہنی بہت ضروری ہے :فطرت اتفاق و اتحاد کے حق میں توہے ، مگر یہ اس اتحاد و اتفاق کے لیے ون یونٹی طریقوں کے سخت خلاف بھی ہے۔
جس زبان میں مختلف لہجے نہ ہوں، یا اُس میں لہجے کم تعداد میں ہوں تو جان جائیے کہ وہ زبان نہ تو عظیم کہلائے گی اور نہ ہی دیر تک زندہ رہ سکے گی۔ ہم اور ہماری زبان اس لیے زندہ رہیں گے کہ بلوچ دنیا کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔اور بے شمار ”بلوچیاں“ بولتے ہیں ۔ اس حدتک کہ کبھی کبھی تو انتہائی مشرقی بلوچ انتہائی مغربی بلوچ کی بلوچی سمجھتا ہی نہیں ۔
ایک بہت ہی بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی ، اور باہمی میل جول اور رسل و رسائل کی نایابی میں بلوچی زبان فطری طور پر ایک سے زیادہ لہجوں پر مشتمل ہے ۔ علاقوں( میدانی، پہاڑی، سمندری اور صحرائی) میں فرق اور وہاں کے موسموں میں تغیر انسانی رنگ روپ اور خدوخال کی طرح زبان میں بھی تبدیلیاں لاتے ہیں۔مغربی بلوچستان کے سمندری علاقوں کی بلوچی ظاہر ہے محاوروں، اصطلاحوں ، ضرب الامثال، اور لہجے میں زرعی نصیر آباد والی بلوچی سے بہت مختلف ہوگی ۔ اسی طرح افغانستان و ایران کی بلوچی ڈیرہ غازی خان کی بلوچی سے یکسر مختلف ہوگی۔ بات صرف فاصلوں ہی کی نہیں ہے ۔ فاصلوں کو چھلانگنے پھلانگنے والے ذرائع آمدورفت کی غیر موجودگی بھی ہے ۔ مشترکہ مارکیٹ کا نہ ہونا بھی ہے۔ باہمی تجارت کی غیر حاضری بھی ہے۔ اور بلوچی کو ریاستی،تعلیمی ، تجارتی اور میڈیائی زبان نہ بنانے کی بھی ہے ۔
بلوچی زبان توکیا‘اس کا کوئی لہجہ بھی ابھی تک سٹنڈرڈائز نہیں ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بلوچی ذریعہِ تعلیم نہیں ہے۔ ترکمنستان میں سوویت یونین کے عہد کو چھوڑ کر ، افغانستان میں ثور انقلاب کے عہد کو چھوڑ کر ،پاکستانی بلوچستان میں بیسویں صدی کے آواخر کے دو تین سال کو چھوڑ کر،اوراسی طرح سکنڈے نیویائی ملکوں کو چھوڑ کر باقی تمام عرصے میں بلوچی زبان بولنے والوں کو سکول میں کسی دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرنا پڑا ۔
چونکہ تدریسی اور سرکاری زبان بلوچی نہ رہی ‘اِس لیے اس ”دو زبانی “ نے بلوچی کی تیز رفتار ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ڈالے رکھی۔ نہ صرف بلوچی زبان کی ترقی گڑبڑ ہوگئی ، بلکہ عمومی طور پر بلوچ غیر زبان میں تعلیم پانے کی وجہ سے اپنے ہم جماعت دوسرے تمام اُن لوگوں سے پیچھے رہ گیا ۔جو اُس زبان کے ”ا ہل زبان “ تھے۔
غربت کی وجہ سے بھی تعلیم ممکن نہیں ہوتی ۔ یا کم از کم اسے جاری رکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ مال چرائی یا کاشتکاری میں خاندان کا ہاتھ بٹانا زیادہ منافع بخش ہوتا ہے بہ نسبت فیسیں بھر کر تعلیم حاصل کرنے کے ۔نوکریاں دس بارہ لاکھ سے کم پہ ملتی نہیں ۔ اس لیے تعلیم حاصل کرنا تو شاید ہماری سماجی ضرورت ہی نہیں رہی ۔
لہجوں کی بات کریں تو صرف اُن ناموں کو دیکھیے جو ہمارے بادیہ نشین اور کوہ گرد شاعر اپنے اشعار میں لائے ہیں تو ہماری مفروضاتی لغت کی ضخامت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ بلوچی میں صرف پہاڑوں سے متعلق بیسیوں نام ملتے ہیں۔ پہاڑوں کی قسمیں ،چٹانوں کی ساخت، چٹانوں کی انواع، گھاٹیاں اور ان کی قسمیں، پتھروں کے مختلف نام ،غرضیکہ پہاڑ سے متعلق کوئی ایسی چیز نہیں جو ذرا بھی مختلف ساخت کی ہو اور اس کا کوئی مخصوص نام نہ ہو : مات کوہ، ما بند، کوہ، جُمپ ، پب ، شوریا، شِیر، تلانگ ، تلار ، چُٹوخ، اَشی ، درنگ، گر، گٹ، بن، سر، نہ، لک،رُنگ……..(1) ۔
ہاں کئی ایسے سخت جان الفاظ ہیں جو بلوچی کے سارے لہجوں میں زندہ رہے ہیں، بغیر اپنی شکل بدلے ۔ ان الفاظ میں بنیادی اعضا کے نام (چم، گوش، پونز) شامل ہیں۔ وگرنہ تو بنیادی قریبی ترین رشتوں تک میں ”ف“ اور ”پ “ ث، ت اور ”س “کے درمیان طویل جنگ جاری ہے ۔جن میں پث، ماث، براث کے نام اور آس آف جسے قدرتی مظاہر شامل ہیں۔
بلوچی زبان تین بڑے لہجوں میں منقسم ہے ۔
1۔ مشرقی بلوچی
کوہِ سلیمان سے تعلق رکھنے کے حوالے سے اسے ”سلیمانی بلوچی“ بھی کہا جاتا ہے۔یہ لہجہ مشرقی بلوچستان یعنی ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان ،ڈیرہ غازی خان،راجن پور، تونسہ اور پواد ،مری بگٹی ، سبی ،نصیر آباد‘ مچ ومشکاف ، نرمک وجوہان ،جیکب آباد ، لاڑکانہ ، شکار پور، سانگڑھ اور نواب شاہ میں بولا جاتا ہے ۔
مشرقی بلوچی کی ایرانی زبان کی پڑوسی انڈو ایرین زبانوں ،بالخصوص سندھی اور سرائیکی کے ساتھ زبردست لین دین موجود ہے ۔سندھی اور بلوچی میں آنو (انڈہ)،بانگ(اذان)، بھَت (چاول) ، و چھیر(گائے کا ایک سال کا بچھڑا ) ، ہُش (اونٹ کو بیٹھ جانے کا حکم)، زال(بیوی) وغیرہ(2) جیسے الفاظ باہم مشترک ہیں۔ اسی طرح لیڑو (اونٹ)،پُرّ اف، رمغ ، گورم، گٹ ، اولاک ، مم ، تغڑد، ڈاہ، زہم ، لغور ، نشار ،جمرّ، تہار۔۔۔۔ہم مل کر استعمال کرتے ہیں۔ اب اس بحث میں پڑنے کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں کہ یہ الفاظ اصل میں کس کے ہیں۔ کوئی انہیں بلوچی یا سندھی سے نکال کر تو دیکھے، دونوں زبانیں مل کر اُس کے ہاتھوں کا منہ توڑ دیں گی
مشرقی بلوچی میں زرعی آلات و اصطلاحات سب کی سب سرائیکی زبان سے اشتراک رکھتی ہیں۔ اس لئے کہ حالیہ زمانوں میںسرائیکی علاقوں کے ساتھ بلوچوں کا لین دین بہت رہا۔
صرف سرحدی علاقوں سے پشتو کے بے شمار الفاظ و ضرب الامثال مشرقی بلوچی کا حصہ نہیںبن چکے ہیں۔بلکہ ان دونوں زبانوں کی اپنی مشترکہ جڑیں بھی کئی الفاظ کا بٹوارہ کرنے میں مزاحم ہوئیں۔ گاوانڈی، توپک، بُز ، پونز ، برنج، بروت، کھر، مرگی ، دیغر ، نماشام، گوزم، مرکہ، میش ، سفک ، ماہی ، مار ، شف ، ڈکال ، بانگ ، پیشین، اوڈھر ، لتاڑ، مستغ، تہار نیم، جانا ور ، ریخ، مستر ، ڈول ، بالشت، کار ، زِڑد، بھیڈی، پٹاٹہ، پوہ ، دروغ، کندغ۔۔۔۔۔ الغرض بے شمار بلوچی کے الفاظ ہیں جنہیں چاہو تو اسی طرح استعمال کرو یا ذرا سی انجینئرنگ کر دو ، پشتو بن جاتے ہیں ۔ بھئی زبانوں کا وصل تو بہت انڈر گراﺅنڈ ہوتا ہے اور یاری صدیوں پر مشتمل ۔ زبان شاید انسان سے بھی زیادہ سنجیدہ ”عاشق “ ہوتی ہے ۔زبانوں کے باہمی عشق میں رقیب نہیں بننا چاہیے اس لئے کہ ناکامی مقدر ہوتی ہے ۔اور عشاق زبانیں سزا بھی بڑی اور تکلیف دِہ دیتی ہیں، آپ جس زبان سے نفرت کرتے ہیں کیا خبر وہ آپ کی اپنی زبان کی محبوبہ ہو۔
بلوچی کا یہ لہجہ کلمات کو مختصر بنانے میں کافی ماہر ہے۔ اسی لئے اس میں مغربی بلوچی کے ”اَنت“”اِنت“ کے بجائے آں، ایں بن جاتے ہیں۔
ہماری پوری کلاسیکل شاعری اسی لہجے میں ہے ۔ پھر بالاچ سے لے کر رحم علی تک اورمست تئوکلی سے لے کر جوآں سال تک بلوچی کا سارا ادبی ورثہ مشرقی بلوچی میں ہے۔اور یہ تحریری صورت میں ہے ۔ انگریز نے اس وقت ڈیرہ غازیخان میں یہ کام کیا جب بلوچی ابھی لکھی ہی نہیں جاتی تھی ۔ انگریز نے رومن میں اسے آج سے ڈیڑھ سو سال قبل جمع کیا تھا۔ سینیر تحریری لہجہ!!۔

2۔رخشانی لہجہ :
رخشانی لہجہ قلات ، نوشکی ، خاران ، افغانستان ‘ ایران والے بلوچستان اور ترکمانستان میں بولا جاتا ہے ۔یہ بلوچی بہت میٹھی بلوچی ہے۔ نرم ، رواں اور سنٹرل ایشیا کے” آےئے گا‘ جاےئے گا“ جیسی تکلفات سے بھری ہوئی ۔ ایران اور افغانستان کی فارسی سے لین دین رخشانی بلوچی سے بہت ہے ۔رخشانی بلوچی گذشتہ پچاس برس سے بلوچی کا تقریباً سب سے زیادہ استعمال میں آنے والا لہجہ چلا آرہا ہے۔ عاقل خان ، گل خان نصیر، عبدالرحمن پہوال،آزادجمالدینی، عبداللہ جان جمالدینی، منیر احمد بادینی، گوہر ملک اور خان محمد سماجی نے اتنا کچھ لکھا کہ حالیہ پوری نصف صدی میں رخشانی لہجہ تقریباً تقریباً دوسرے لہجوں پہ چھایا رہا۔ ریڈیو ایران، ریڈیو کابل ،کابل ٹیلیویژن ، رسائل،اخبارات، تدریس اور سوشلزم اسی لہجے میں بولتے رہے ہیں۔
ترکمانستان کے بلوچوں نے روسی یا ترکمن زبانوں کو بلوچی کے بڑے برتن میں لا کر ملایا ۔لفظ ٹاراکسٹر(ٹریکٹر)، کارُسکا(روسی میں کروز کا) یعنی مگ(3)وہاں کی بلوچی میں بلا تکلف استعمال ہوتے ہیں۔
3 ۔مغربی لہجہ :
پاکستان میں مکران ڈویژن اور کراچی، خلیجی ممالک اور ایرانی بلوچستان میں یہ لہجہ بولا جاتا ہے۔ اس لہجے پر جدید فارسی کے زبردست اثرات موجود ہیں۔یہ فقرہ میں نے تکلفاً استعمال کیا ہے ۔ دو جڑواں بہنوں کی یکساں شکل و شباہت بھلا کوئی انکشاف کی بات ہے ؟۔ میرے اس فقرے میں صرف لفظ ”جدید “ اہم ہے ۔ اس لئے کہ ایرانی بلوچی میں بالخصوص اور پاکستانی مکران کی بلوچی میں بالعموم جدید فارسی کے اصطلاحات بہت ملتے ہیں۔۔۔۔اور یہ کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔ جو زبان دوسری زبانوں سے لین دین نہیں کرتی وہ جواں مرگ ہو جاتی ہے…….. اور بلوچی زبان ہرگز ہرگز جواں مرگ نہیں رہی ۔ بہت ہی برے حالات میں اس نے خود کو زندہ رکھا ہے ۔
کچھ ساحلی علاقوں کا لہجہ ،مکرانی ہوتے ہوئے بھی مشرقی بلوچی لگتا ہے۔
مغربی لہجے میں مشرقی بلوچی کے اندر بہت استعمال والے ،”غ“، ”ف“، ”ث“ ،”ذ“، ”ژ“ جیسے حروف اپنی نزدیکی لسانی آوازوں میں بدل جاتے ہیں ۔ گ، پ اور ت ، س میں ۔
******
یہ سب لہجے بلوچی زبان کی آنکھیں ہیں۔ ہر لہجے میں کمال ادب تخلیق ہوا ہے۔ اور بہت متین ادب سامنے آیا۔ لہجوں کے بارے میں فیوڈل تفاخر و تعصب غیر انسانی ہے۔
بدقسمتی سے یہ تفاخرو تعصب یونیورسٹیوں، اکیڈمیوں کے اندر وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سکالرز کے ہاں سب سے زیادہ ہے ۔
زبان کرامت رکھتی ہے۔ جس نے زبان کی ( یا اُس کے کسی لہجے کی ) توہین کی زبان اور لہجہ اُسے ضرور مار کھلائیں گے۔جب بچہ بولنا سیکھتا ہے تو وہ سٹینڈرڈائزڈ بلوچی نہیں سیکھتا ، اپنے لہجے کی بلوچی سیکھتا ہے ۔ اور یہ لہجہ اس کی بلوچی بول چال اور تحریر و تقریر میں اس کے ساتھ چیکا رہتا ہے ۔ زندگی بھر کا ساتھی ۔ حتیٰ کہ اس کی موت کی رسومات بھی اس کے اپنے لہجے میں ادا ہوتی ہیں۔
ایک اچھا کام یہ کیا جاسکتا ہے کہ تمام بلوچ خود پہ لازم کر دیں کہ وہ اپنے تمام لہجوں میں کم از کم اس قدر شُد بد رکھیں کہ سمجھنے سمجھانے کے لیے غیر بلوچی زبان بولنے کی نوبت نہ آئے۔

ریفرنسز

-1نصیر گل خان بلوچی عشقیہ شاعری۔ 1997 ۔ بلوچی اکیڈمی کوئٹہ ۔صفحہ10
2۔ سندھی، حیدر1990-۔ سندھی زبان و ادب کی تاریخ۔ مقتدرہ قومی بان ۔ صفحہ77۔
3۔ ایکسی نوف ۔The Balochi Language of 2006. Turkmenistan۔ اپسالا۔صفحہ 51

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*