ایچی سن کالج

انگریز کا زمانہ تھا ۔اُس کالونیل سرکار کا دستور تھا کہ جب کسی قبیلے کا سردار فوت جاتا اور اُس کا بڑا بیٹا ابھی کمسن ہوتا تو انگریز اُس کم سن یتیم کی ساری زمین اور جائیداد کو سرکاری انتظام میں لے لیتا ۔ اور اُس کی اپنی جائیداد کی آمدن سے اُس یتیم سردار زادے کو بہترین سکول میں تعلیم دلاتا ۔وہاں بچے کو فیوڈل تعلیم کے ساتھ ساتھ فیوڈل اشغال مثلاً گھڑ سواری، جنڑی والے سپورٹس ، کھانے پینے اور پہننے کے آداب ،گفتگو کے مراسم ، مطالعہ، فلم بینی اور جدید ایڈمنسریشن سکھائے جاتے ۔ گویا انگریز کے زیر سایہ اسے جدید ترین سرداری /حکمرانی کی تربیت دی جاتی ۔ اِس سارے نظام کو ”کورٹس آف وارڈز “کہتے تھے ۔
چنانچہ مری قبیلہ کے اِس کمسن یتیم سردار خیر بخش کی جائیداد ”کورٹس آف وارڈز “میں چلی گئی اور وہاں سے حاصل شدہ آمدن سے انگریز نے اپنی نگرانی میں اُسے لاہور کے ایچی سن کالج میں پڑھایا۔یہ1940 کی دَہائی تھی۔ یوں ، خیر بخش بلوچستانی گرم گود کی تربیت سے باہر ایک ایسے سکول میں تھا جہاں فیوڈلوں کے بچے پڑھتے تھے۔ شاہانہ کروفروالے ، دولت و حشمت والے، فیشن و دبدبے والے، شراب و شباب و کباب والے…….. شرطیہ کہتا ہوں کہ ایک ایسے ماحول میں اپنی اشرف المخلوقاتی کو بچائے رکھنا غیر معمولی بات ہوتی ہے۔
خیر بخش کے پاس مہنگی گاڑیوں ، خوش پوشی کے شوق اسی ایچی سن کالج سے آئے ، کوئٹہ کلب ، جوڈو کراٹے اور جم خانہ جا کر سکوائیش کھیلنے کا شوق بھی وہیں سے ساتھ آئے ۔لیکن یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ زندگی بھر ساتھ رہنے والی عاجزی بھی وہیں سے ساتھ آئی۔ حیرت ہوتی ہے کہ بعد میں کتے ، ریچھ اور مرغے لڑانے کا شوقین یہ شخص ، اپنی کالج لائف میں حتیٰ کہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں تک پر بھی رحم کرتا تھا۔
اُس نے 1946کو وہاں سے میٹرک کرلیا۔
پھر 1947 سے 1950تک اسے” بلڈاپ کورس “ سے گزرنا پڑا ۔اُس کے تحت اُسے مسلح افواج کے تینوں شعبوں یعنی ، برّی ، بحری اور فضائی افواج کے علاوہ پولیس، ریونیو اور انتظامیہ وغیرہ میں کچھ عرصہ تربیت حاصل کرنا تھی۔ پہلے اس نے کراچی کے نیول ہیڈ کواٹرز میں بحریہ کی تربیت حاصل کرنا شروع کی۔
پانچ ماہ بعد ایک دلچسپ واقعہ ہوا ۔
ہوا یوں یہ کہ خیر بخش تربیت کے دوران کراچی میں آغا خان پیلس میں مقیم تھا ۔ اُن دنوں معروف مسلم لیگی رہنما قاضی عیسیٰ اور اس کا بڑا بھائی قاضی موسیٰ (بعد میں جس کی دختر نواب مری سے بیاہی گئی) بھی آغا خان پیلس میں رہائش پذیر تھے ۔ خیر بخش مری کو اس کے سینئر افسر مسٹر حسن نے اجازت دے رکھی تھی کہ وہ شام کو اپنی قیام گاہ پر جایا کرے۔ ایک شام کو کیا ہوا کہ بحریہ کی پولیس کا ایک دستہ آغا خان پیلس پہنچ گیا اور خیر بخش مری کو بتایا گیا کہ وہ تومفرور ہو کر یہاں پہنچا ہے۔ اس لیے یہ دستہ اُسے گرفتار کرنے کے لیے آیا ہے ۔ سردار خیر بخش نے انہیں بتایا کہ وہ تو رہتا ہی یہاں ہے ، اُسے گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ خود ہی جانا پسند کرے گا۔ سردار مری جب بحریہ کے ہیڈ کوارٹرز پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے سینئر افسر نے اُسے قواعد کے تحت نہیں ، بلکہ دوستی کے جذبے کے تحت شہر میں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ سردار خیر بخش نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خیر خواہ سینئر افسر کے کیرئیر کو تباہ نہیں ہونے دے گا اور سارا قصور اپنے ذمے لے لے گا۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا ۔ سزا کے بطور اس پر بہت سی پابندیاں لگ گئیں اور چُھٹی کے دن بھی اس جزیرے سے باہر جانے کی اجازت نہ ملتی تھی، جہاں نیول ہیڈکوارٹر تھا۔
کراچی سے واپس کوئٹہ آکر وہ ایک برس تک بلوچ رجمنٹ سے متعلق رہ کر انفنٹری (پیدل فوج) کی تربیت لیتا رہا ۔ اُن دنوں کوئٹہ کے انفنٹری سکول میں اور بھی کافی زیر تربیت افسر تھے ، جنہیں بعد میں وہ زندگی کے آخر تک یاد کرتا تھا ۔ سردار خیر بخش کو تربیت کے اختتام پر فوج میں کمیشن کی پیش کش کی گئی۔ لیکن اس نے اُسے قبول نہ کیا ۔ اس کے بعد سال بھر وہ پولیس ، ریونیو اور انتظامی امور میں تربیت کے لیے کوئٹہ میںان محکموں سے منسلک رہا۔ پھر اُسے ایئر فورس میں اٹھارہ ماہ کے تربیتی کورس کی دعوت دی گئی ، لیکن مری قبیلے میں کچھ ایسے حالات رونما ہوگئے کہ اُسے بطور سردار وہاں اپنے فرائض سنبھالنا پڑے۔
حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر ایلیٹ کورسز سے گزرنے کے باوجود بھی وہ بعد میں عجیب قسم کا مارکسسٹ بنا۔ وہ سادہ سے کپڑے پہننے ، اپنے قبیلے کو سیاست میں منظم کرنے اور ایک منصفانہ نظام قائم کرنے میں لگ گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*