کلام ِ اقبال ، دو حصوں میں

ہر شاعر کی طرح اقبال کو بھی اُس کی شاعری کے حوالے سے دیکھنا ہوگا۔ یعنی اس کی شاعری کی شعری ساخت، اور اس میں موجود مواد یعنی فکر فلسفہ اور سماجی پیغام ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شاعر کی شاعری پہ بات نہ ہو اور محض اُس کے فلسفہ کو لے کر اُسے شاعر مانا جائے۔ چنانچہ اقبال کو ہم دو الگ الگ ( مگر باہم پیوستہ ) صورتوں میں دیکھیں گے:
-1 فن
-2 فکر

پہلا حصہ۔
فن

بلاشبہ اقبال ایک زور دار لفظیاتی نظام کا مالک ہے ۔ اُس کی شاعری بہت رواں ، پُر معنی ، اور مترنم ہے ۔ ایسی فنکاری کہ ثانی ممکن نہیں۔وہ بلاشبہ ایک بہت بڑا شاعر تھا ۔ بالخصوص اردو میں تو وہ چوٹی کے نیم درجن شعرا میں شمار ہوتا ہے ۔ دوام اور بقا رکھنے والا بڑا شاعر۔
اقبال کے بارے میں توبچہ بچہ جانتا ہے کہ اُس کا فلسفہ قابلِ گرفت و نقد ہے، مگر اُس کی شاعری ، اُس کا فن نہیں۔ اُس کے فلسفے میں بہت ٹیڑھ بہت سقم ہے مگر اُس کی شاعری حسن و ترنم و روانی سے مالا مال ہے۔ پُر اثر شاعری۔
اقبا ل فلا سفر ہے یا نہیں،فیوڈل دانشوروں نے اس بحث کو بہت آلودہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اقبال اُن چند شاعروں میں سے ہے جن کی ”شاعری “پہ سرکار، پیر، جاگیردار ، مولوی ، سکول ماسٹر، سرمایہ داراور اُس کا دانش ور، اوراس کے زیرِ اثر عوام النا س اتنی بحثیں نہیں کرتے جتنا کہ اس کی ”فلاسفی “پہ ۔اُسے فلاسفر تک قرار دیا جاچکا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر وہ فلاسفر ہے توکیا اس نے اپنا کوئی فلسفہ استوار کیا یا وہ مروج فلسفیانہ نظاموں میںسے کسی ایک کے ساتھ منسلک ہوگیا ۔ اُس کے تو، مبہم و مدھم اور دھندلائے ہوئے ” خودی “نامی موضوع کو ایک الگ فلسفیا نہ خانہ بنا دیا گیا۔
اب یہی اقبال جسے ہم اٹھتے بیٹھتے فلاسفر فلاسفر کہتے رہتے ہیں خود فلسفہ کے بارے میں کس قدر عجب بات کہتا ہے :
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہیگل کا صدف گہرسے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
بھلا یہ کوئی بات ہے کہ اُس علم کو برا سمجھا جائے جس کی بنا پر انسان زندگی اور اُس کے سرچشموں کو سمجھنے کے قائل ہوا؟۔ خرد کو بے حضور ٹھہرانے کا اور کوئی مطلب نکلے یا نہیں، اُس کی تذلیل اور تمسخر تو صاف نظر آرہا ہے۔
شاعراقبال کو، فلسفی اقبال کے نرغے میں ڈال دیا گیا۔ ایسا فلسفہ جسے ایک طبقاتی، کثیر القومی اور ذات پات میں پڑے ہر شخص کو قابلِ قبول بنانے پر سو سال ، اربوں روپے اور وسائل لگا لیے گئے ہیں ۔ بھئی۔ اُسے آزاد کرو۔ اس کی لاجواب ، متحرک کر دینے والی شاعری کو اُس کے دشمنوں کے گھیرے سے باہر نکال دو۔
یاروں نے اسے ایسا بنا دیا کہ گویا اقبال بس فکر ہی فکر رہا۔ اُس نے گویا شاعری کی ہی نہیں۔ سب فکر ہی فکر کا ذکر کرتے رہے۔یہ درست کہ اقبال اردو کے اُن چند شاعروں میں سے ہے جس نے خالص فکری موضوعات کو شعر کے قالب میں ڈھالا۔کسے انکار ہے کہ اقبال نے فکر کے بغیر کوئی ایک شعربھی نہیں کہا ہے ؟۔ مگر شعر کی نوعیت کس قدر ارفع واعلیٰ ہے، اُس کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا ۔ رواں ، تازہ ،ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور کرنے والا شعر ،جھومنے پہ مجبور کردینے والا شعر ۔
خواب اور فلاسفر بنابنا کر اقبال کو اس قدر متنازعہ بنا دیا گیا ہے کہ اقبال کے دلدادوں اور دلداروںکے لےے فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اقبال کا مطالعہ کس زاوےے سے کیا جائے۔
اقبال کی شاعری پڑھیں تو اس میں آپ کو فنی جمالیات کی فراوانی ملے گی۔ شعری جمالیات، تشبیہات، تخلیقی توانائی ،استعارات ، تضمینوں ، تراکیب اور تلمیحات کا اس خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔ وہ صناعی ، مر کبا ت، بدائع اور لفظیات کو انتہائی ہنر مندی سے Place کرتا ہوا اپنی شاعری کو مرصع بناتا جاتا ہے ۔وہ اظہارِ مطالب کے نئے نئے اور متنوع سانچے بنانے کا استاد شاعر ہے ۔ جس طرح کا خوبصورت زبان و بیان اقبال کے کلام میںموجود ہے اب تک اردو شاعری میں کسی اورکے حصے میں نہ آسکا ۔ نقش گر ہے اقبال، مصورہے، کاریگر ہے، لفظوں کا مالک و مختار ہے۔اس کی فنی عظمت کا ثانی مشکل سے ملے گا۔
فیض احمد فیض کے بقول ”اقبال اُن معدودے چند شعرا میں سے ہے جو محض جذباتی خلوص کے بل پر ایک فلسفیانہ پیغام کو شاعری کی حد تک پہنچانے میں کامیاب ہوا“(1)۔
اقبال فنی میدان میں اتنی بلندی پہ ہے کہ اس کی شاعری کو ہمارے خطے کے ادبی شاہکاروں میں بہترین قرار دیا جاتا ہے ۔
بھئی اقبال کے فلسفے میں نقص نکالے جاسکتے ہیں، اُس کو غلط صحیح کہا جاسکتا ہے۔ مگر ذرا کوئی مائی کا لعل اُس کی شاعری میں کوئی جھول، برائی، خامی نکال کر دکھائے۔ اقبال کی شاعری کی تسلیم شدہ خوبصورتی بیان کرنا اپنا اور اپنے قاری کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔آئیے سب مل کر مان لیں کہ اقبال بہت بڑا شاعر تھا اور بہت زمانوں تک بڑا شاعر رہے گا۔

ریفرنسز

1۔فیض،احمد فیض۔میزان 2012۔اردو اکیڈمی سندھ۔ کراچی۔ صفحہ134

دوسرا حصہ

فکر

ایک بات کھل کر، اور شروع ہی سے واضح کردوں کہ اقبال کا کلام صفحہ نمبر ایک سے لے کر آخری صفحے تک اور” الف “ سے لے کر ” ی “تک خالص نظریاتی ہے ۔ (1)اور لفظ نظریاتی کا مطلب ہے کہ وہ زندگی سے متعلق ایک نظریہ نظریات رکھتا ہے جسے وہ اپنے فن میں استعمال کرتا ہے۔ یوں اقبال زندگی کے بارے میں ، انسان کے بارے میں ، اور انسانی معاشرے کے بارے میں شاعری کرتا ہوا تخلیق کار ہے :
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کانفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
آیئے،اقبال خوانی اور اقبال فہمی کے لےے ایک گُربنا لیتے ہیں۔ اور وہ یہ،کہ ہر بڑے فلسفی کی طرح، اقبال کا تجزیہ کرتے ہوئے اُس کی فکر کے عمومی مجموعی رجحا ن کو دیکھنا چاہےے۔اس لیے کہ محض ایک آدھ شعر یافقر ہ اُس بڑے حجم والے شاعر کی نمائند گی نہیں کر سکتا ۔ وجہ یہ ہے کہ اقبال اُن دانشو ردں میں سے ہے جو کبھی کبھی اپنی سوچ ، نظر ےے حتیٰ کہ عقا ئد کے خلاف بھی بول پڑتا ہے ۔ چنا نچہ ہمیں اُس کے ہاں موجود اس تضاد کو اپنے مطالعے میں حارج ہونے نہیں دینا چاہےے۔
آ یئے ہم پہلے اُ ن مو ضو عا ت پہ با ت کر یں جن پہ آ ج کی نسل اقبا ل سے متفق نہیں ہے۔
اِس حصے کا نا م میں رکھ رہا ہو ں: ثریا تک ٹیٹرھی دیوار۔
دوسرا اور بہت ضخیم حصہ وہ ہے جہا ں اقبا ل ہما رے تجزیے میں مد د دیتا ہے ، جد و جہد کے لیے اکسا تا ہے، راہ کے انتخا ب میں گا ئیڈ کر تا ہے اور ہما رے سا تھ قد م سے قد م ملا تا ہے۔ اُس حصے کانا م میں نے رکھا ہے : نجا ت کا شا عر،اقبا ل۔

1۔ثریاتک ٹیڑھی دیوار

اقبال کے ”فلسفے “ کاایک بہت ہی دُھرایا گیا لفظ ہے : ” خودی“۔ اس کبھی بھی نہ سمجھے جاسکنے والے خودی کا شور وغوغاسن سن کرتین چارنسلیں پگھل اور گزرگئی ہیں ۔ یہ ایک ایسی دیگ ہے جس میں نوح کی کشتی کی مانندسب کچھ ڈال دیاگیا ہے۔ یہاں آپ کو چرند بھی ملیں گے، پر ند بھی ،نیزنباتات وحجرات کی ہرور ائٹی ملے گی۔۔۔ لہذا کچھ بھی نہیں ملے گا۔
مگر نام میں کیا رکھا ہے ۔ خودی رکھےے یا بے خودی ، اصل بات تو Content کی ہے۔ اس لےے کنفیوژن میں لپٹی اِس اصطلاح کو چھوڑ کر ، آئیے اقبال کے فکر و فن سے متعلق وہ موٹی موٹی باتیں دیکھتے ہیں، جو سائنسی اور روشن فکر نہیں ہیں،مگر پھر کہیں خود ہی اُن کو مسترد کرتے ہوئے خرد افروز بات کرتا ہے۔

آئیڈ یلز م ،تقد یر پر ستی

آئیے اقبال کا ایک بہت ہی ضروری شعر پڑ ھتے ہیں ، اُس کے بعد اپنی با ت کرتے ہیں :
تقدیر کے قا ضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سز ا مرگِ مفاجات

یہ شعر اس لیے پیش کیا کہ قاری اس بڑے شاعر پہ کٹر رجعتی ہونے کا فوری فتوی نہ لگائے ۔

پھر یہ بھی سچ ہے ہے کہ اقبال خارجی معروضی زندگی اور اس کے تمام شعبوں اور امور سے متعلق کبھی کبھی تو بور کرنے کی حد تک منفی رویہ رکھتا ہے اور فردِ واحد کی من کی دنیا کی سرمستیوں اور سر شاریوں کو ہی مثبت قرار دیتا ہے:
من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی ، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا ، مکر و فن
سو دو سودا،اور مکر وفن کی دنیا کو مستر دکرنے کے لےے ایک بڑے ہتھیا رکی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر اقبال کوتو بنا بنا یا ہتھیا ر مل گیا تھا۔ اس نے ” آئیڈیلسٹ (عینیت پرست )ایشیا“میں جابجا موجود تمام عناصر و الفا ظ و اصطلاحات کو چُن کراپنی شاعری میں ڈال دیا ۔
اور یہی آئیڈیلزم ، آخرتک اقبال کے قاری کا پیچھا نہیں چھوڑ تا۔ وہ اسی آئیڈیلزم کی پابندی کو گھما پھر ا کر پختہ ہی بنا تا رہا ۔دلچسپ ہے کہ وہ اس آئیڈیلزم کے پاﺅں چھوتا رہتا ہے مگر اگلے لمحے اس کا گلا بھی دباتاہے۔ مگروہ سینچتا اِسی کو ہے ۔ اقبال ہمہ وقت دنیا وی فیصلوں کومادی دنیا سے کہیں باہرتلا ش کرتاہے ۔ حا لا نکہ وہ انسان کی تعریفیں بھی کرتا ہے مگر مجموعی طور پر انسان کے اپنے ہاتھ کچھ بھی نہیں رہنے دیتا ، تقدیر سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ اور اگر اقبال خود کبھی عینیت پسندی یا آئیڈیلزم کے ایک شعبے کو وقتی طور پر مسترد کر بھی دیتا ہے ، تو اسی نظریے کے اندر موجود دوسرے شعبے کو گلوری فائی کرلیتا ہے ۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
مومن تو خود ایک مجسم تصور ہے، جو کھڑا ہی تقدیر پہ ہے ۔باطل ، بیضا ، مقدر، معجزہ ، پر دِہ غیب ، فرنگ،اقبال کا یہ بہت ہی مخصوص ڈکشن آئیڈیلزم کی چوکھاٹ میں رہتا ہے ۔
اقبال کو دس لا کھ روپے دے دوبھی وہ آپ کو زندگی ،اس کی مادی ضرورتوںاور عوامل سے دوستی کرانے کو کبھی بھی تیا ر نہیں ہو تا ۔ وہ ترقی ، ماڈرن طرز ِحیات ، سائنس ،ٹکنالوجی ، جمہوریت ، اورآزادی جیسی نعمتو ں کو، لفاظی میں خوب ملفوف کرکے صلوا تیں سناتارہتاہے ۔ دیکھےے:
مشامِ تیز سے ملتا ہے صحرا میںنشاںاُس کا
ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تا تاری
مجھے تہذیب ِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے ، باطن میں گرفتاری
اقبال مستقبل کے لیے لاکھ اچھی باتیں کرے مگر وہ کہیں بھی آئیڈیلسٹ ماضی پرستی سے نکلنے پہ آ ما دہ نہیں ہو تا ۔ گھما پھر ا کر عقید ے میں لپیٹ کر اُس کو سر ا ہنے ،اس کی تو صیف کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔” ساقی نامہ“ میں اس کی فکری بے بسی دیدنی ہے:
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
محمد بن قا سم اور محمو د غز نو ی کے دورِ عروج کو زمان و مکاں کے مادی متعلقات سے جدا کر کے اقبال اپنے تصوراتی سومنات کا خود مجاور بن جاتاہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ کسی بھی نظامِ فکر جسے ابدی یا دائمی قرار دیا جاتا ہے ، اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انسانی سماج کے حقائق بھی ابدی رہیں۔(2)۔مگر سما ج تو ہمہ دم بد لتا رہتا ہے، اس کے رشتے ہمہ وقت بد لتے رہتے ہیں۔تو پھر وہی جام گردش میں کیسے لایا جاسکتا ہے جس کا سارا پیراڈائم فوت ہوچکا ہو۔
اور پھر ایک مسئلہ یہ ہے کہ اقبال کے ہا ں قدیم اصطلاحات خود کو دھند اور گر د میں لپیٹ لیتی ہیں اور تیل میں ڈالا کو ڑا بن کر قاری کو مارتی رہتی ہیں ۔ مثلاً : عشق کی اصطلا ح۔ مجھے لگتا ہے کہ اقبال نے اس لفظ ” عشق تیل میں ڈالا “ کو نئے زمانے میں عینیت پسندی کا سائن نہیں بلکہ بِل بورڈ بنا دیا ہے۔
حافظ بھی یہ لفظ استعمال کرتا ہے۔
از صدائے سخن عشق ندیدیم خوشتر
یادگارے کے دراین گنبد دوار بماند
ترجمہ :
میں نے صدائے عشق سے زیادہ خوشتر بات نہ دیکھی
جو اِس گنبد میں ہمیشہ یادگار رہنے والی ہے ۔

رومی بھی لفظ ” عشق “ کی مہملی میں اضافہ کرتا جاتا ہے :
ہر چہ گویم عشق را شرح و بیان
چوں بہ عشق آیم خجل باشم ازاں
ترجمہ: میں عشق کی تشریح اور بیان جو کچھ کرتا ہوں
جب عشق میں پڑتا ہوں اس سے شرمندہ ہوتا ہوں
”عشق “ایک بہت ہی غیر حتمی لفظ ہے ۔یہ بہت غیر مخصوص اصطلاح اور بہت مبہم تصور ہے۔ یہ رومانوی فیوڈل ازم کے عہد کی سب سے رومانوی اصطلاح ہے ۔ یہ اصطلاح دیگر آئیڈ لسٹ دانشوروں کی طرح ہمارے اقبال کو بھی بہت سُوٹ کرتی ہے ۔ آپ نے جس بات سے توجہ یہاں وہاں کرنا ہو، اور جامع کو ابہام کے دبیز جامے پہنانے ہوں تو ” عشق“ جیسے لفظ بہترین کام آتے ہیں:
زبان اگرچہ دلیر است و مدعا شیرین
سخن زعشق چہ گویم جزیں کہ نتواں گفت
سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اُس کے ہاںیہ جو عشق ہے ناں ، یہ بدبخت، عقل سے بھی برتر ہے۔ ادھر ہی تو مارکھاتا ہے ہمارا بزرگ فلسفی۔
شاید ”عشق“ لفظ کو سماجی اور کار آمد معانی فیض نے بخشے ہیں۔ عشق کا ابہام کچھ کچھ چھٹ جاتا ہے ۔
ہم جا بجا دیکھیں گے کہ اقبال کی موسیقی بھری شاعری میں بہت ساری آفاقی باتیں موجود ہیں۔ ایسی کہ جن کی نظیر ملنی بہت مشکل ہے ۔ مگراِن ساری اچھی باتوں کے بعد پھر اچانک اِس گھڑ سوار کو کچھ ہوجاتا ہے اور اس کا گھوڑا بلا کسی اشتعال اور سبب کے بدک کر آئیڈیلزم کے گڑھے میں چاروں شانے چت جا گرتا ہے …….. وہ نہ صرف خود بلکہ ہم جیسے دلداد گانِ اقبال کو بھی گڑھے کے پیندے میں ساتھ لے جاتا ہے۔مثلاً:

حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گو نا گوں
ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستی و شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں
علاج آتش ِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اقبال انسانی زندگی کو نظر کی مجذوبی قرار دیتا رہاہے۔وہ باطن کے نہاں خانوں کارا ہی ہے ۔بہت جگہوں پر وہ سائنس و سائنسی طرز کو توہین کے ساتھ رد کرتا ہے ۔(3 )۔
اس کا فلسفہ زمانے کی حرکت اور تغیر سے بے نیاز ہے ، نہ اس کے ساتھ موازنہ جائز ہے اور نہ ہی اس سے مکالمے کی خواہش مند ہے ؛ نہ اُس سے خوش اور مطمئن ہے اور نہ اُسے بدلنا چاہتا ہے ۔ اس لیے کہ وہ سماج بدلنے کے لےے لازمی حالات ، اوزار و آلات اور اسباب وعلل سب کچھ کو مسترد کرتا ہے ۔ بندہ¿ خدا بندہ¿ زمانہ نہیں ہوسکتا :
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن، یا بندہ¿ زمانہ
سمپل ۔ دوٹوک ۔ واضح ۔ …….. لوہار کا ہتھوڑا، اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ۔
مگر،اقبال توبلاشرط اور بلا امتیاز اور بلاواسطہ ماضی کی طرف بھی نہیں لوٹنا چاہتا ۔اس لیے کہ وہاں بھی اسے اُن لوگوں کی تلاش تھی جو اسباب و علل پہ یقین نہ رکھتے ہوئے ایقان کے زور سے چلتے تھے ۔ روحانیت کے آنکھ بندھے گھوڑے پر سوار اُسے سرپٹ دوڑاتے جاتے تھے ۔ عقل، دلیل، مَیٹر ، سائنس ، اور شعور اقبال کے سکول آف تھاٹ میں ممنوعہ علاقے ہیں۔ اقبال جدید علم ، جدید سولائزیشن اور جدید آرٹ و کلچر کو کچھ اس انداز سے دیکھتا ہے کہ جیسے عالم انسان سے کوئی بھیانک جرم سرزد ہوگیا ہو (4)۔ وہ ستا روں پر تصوراتی کمندیں ڈالنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔وہ کا ئنات کی تسخیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے مادی وسائل کی بدولت نہیں ،بلکہ محض باطنی حوالے سے کرنے کو کہتا ہے، مائتھالوجیکل قوتوں کے ذریعے، دیو، پری، جن ، راکھشس جیسے تصوراتی ذرائع سے ۔
وہ اپنے اس موقف کی خاطر زبان و لفظ و شعر کی لٹھ لے کر دندناتا رہا کہ روحانیت سے روگردانی گویا زوالِ اکبر ہے، اور میٹریلزم یعنی تعلیم کی طرف رغبت گویا انسانیت کی بربادی ہے۔( تو پھر آج اُس کی پیروکار ریاست اُن عناصر کو کیوں برا کہتے ہیں جب وہ سوات اور پنجگور میں سکول اڑاتے ہیں اور سوراب میں سکول بنانے نہیں دیتے؟)۔
وہ سارے میٹریلسٹ علوم ، جن کی بنیاد تشکیک ،تجربے، مشاہدے اور عقل پر انہیں وہ اپنے پیروکاروں کے لئے زہر سمجھتاہے ۔
صبح ِازل یہ مجھ سے کہا جیرئیل نے
جوعقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
مندرجہ بالا شعر پڑھ کر انگشتِ حیرت تو کیا بازوئے حیرت دانتوں میں چلا جاتا ہے۔وہ اقبال جو بہت ساری جگہوں پر ہمارا ساتھی لگتا ہے،عقل و خرد کی ہنر کاری کااتنا بڑا دشمن بنتا ہے۔
ٍٍیہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا
کہوں کیا ماجرا اِس بے بصر کا
نہ خود بیں، نے خدا بیں، نے جہاں بیں
یہی شہکار ہے ترے ہُنر کا
اقبال نے کہیں تو انسانی علوم کو الحاد قرار دے دیا اور کہیں ان کو مردِ مومن کے ذوقِ یقیں کی تسکین کا ساماں قرار دے دیا ۔ نظم ” طلوعِ اسلام“ میں اقبال مردِ مومن اور اس کے یقین کی سربلندی کے لئے ایسے ہی فکری الجھاﺅ کی چوٹی پہ بیٹھا ہے:
جب اِس انگارہ¿ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال و پر روح الا میں پیدا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ولایت ، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں ، فقط اک نکتہِ ایماں کی تفسےریں

لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ نوجوانوں کی نگاہ ستاروں پر ہے اور پاﺅں زمین سے بندھے ہوتے ہیں۔ آئیے سٹیفن ہا کنگ کے ایک فقر ے سے اِس عنو ان کو ختم کر تے ہیں :
”میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ یہ اصرار کرتے ہیں کہ ہر چیز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے، اور ہم اُسے تبدیل نہیں کرسکتے، وہ بھی سڑک پار کرنے سے پہلے دونوں جانب دیکھتے ہیں“۔

ریفرنسز

1۔سبطِ حسن ، ادیب اور سماجی عمل ۔ ایڈیٹر جعفر احمد ،مکتبہ دانیال ،کراچی۔2016صفحہ 103۔
-2درویش،صلاح الدین۔فکرِ اقبال کا المیہ۔کتابی سلسلہ”آج“۔اپریل جون2013،صفحہ155
3۔ایضاً۔ صفحہ161
4۔ایضاً۔۔صفحہ 162۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*