تئوکلی مست سے متعلق عوامی قصے

بگٹی قبیلے کی مسوری شاخ میں ایک پھلی روازانی کے نام سے ہے ۔ یہ لوگ بہت خوشحال امن پسند ، شریف اور خوش طبع اور کاروباری وتجارتی لوگ ہیں اور اِس وقت علاقہ پھیلاوغ میں بمقام بوڑ ، بیکٹر اور جھالار میں آباد ہیں اور اچے خاصے زمیندار ہیں۔
روازانی کی خوشحالی کا راز ایک واقعہ میں پوشیدہ بتایا جاتا ہے کہ ایک بار علی شیر روازانی مریوں کے مہمان تھے کہ اُسی رات مریوں کی خیمہ بستی پر غالباً موسیٰ خیل پٹھانوں نے حملہ کردیا۔ اسی بستی میں تﺅکلی مست کی محبوبہ مائی سمو کا خیمہ بھی موجود تھا۔ پٹھان چونکہ زیادہ تھے اور منصوبہ بندی کر کے آئے تھے وہ مریوں کا مال ہنکانے لگے اور جوشخص مزاحمت کرتا اُس کو قتل کردیتے ۔حالات کی نزاکت کو دیکھ کر علی شیر پٹھانوں کی یلغار کو تو نہ روک سکا البتہ تلوار سنبھال کر سمو کے گھر کے قریب کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اس گھر اور اس کے مال مویشیوں کی پائمالی میں کرنے نہیں دوں گا ۔اگر کسی نے اس طرف آنے کی کوشش کی تو وہ مری سے نہیں بگٹی سے لڑ رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر پٹھان اُس گھر کے قریب نہیں گئے اور یوں سمو کا گھر اور اُس کا مال پٹھانوں کی یلغار سے محفوظ رہا۔ کسی نے جا کر تﺅکلی مست کو اِس بات سے آگاہ کیا تو اُس نے بے ساختہ کہا ” ہمے مُڑد ئَ ھُذا سیر ءُ سَو کاکناث“ یعنی ” اس آدمی کو اللہ خوشحال و آسودہ حال رکھے “۔ اتفاق کی بات ہے کہ علی شیر اُسی سفر سے واپس آرہے تے کہ اُس نے راستے میں چمڑے کی ایک بھری پوٹلی دیکھی ۔ اُس نے پوٹلی اٹھایا اور کھول کر دیکھا تو پوٹلی سونے اور چاندی کی اشرفیوں سے بھرا ہوا تھا ۔ اُس نے جب ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو اُسے اور تو کچھ نظر نہ آیا البتہ ایک گھوڑے کے قدموں کے نشانات ملے ۔ وہ گھوڑے کے قدموں کے نشانات کے ساتھ ساتھ آگے گیا تاکہ گمشدہ پوٹلی کو ملک کے حوالے کر دے لیکن تھوڑی دُور جا کر گھوڑے کے قدموں کے نشانات پُر اسرار طور پر غائب ہوگئے وہ پیچھے مڑا تاکہ گھوڑے کی آمد کے نشانات پر اُسے تلاش کیا جائے ۔ وہ جب قدموں کے نشانات پر پیچھے گیا تو چند گز کے فاصلے سے آگے گھوڑے کے قدموں کے نشانات پھر غائب ہوگئے اور کافی تلاش و بسیار کے باوجود نہ ملے یوں اشرفیوں سے پھری اس پوٹلی کے مالک کا کوئی سُراغ اور اتہ پتہ نہ ملا تو اُس نے اسے ایک غیبی رزق ، امداد اور مست کی نیک دُعا سمجھ کر خود استعمال کیا ۔ اللہ نے اُس کی رزق میں وہ برکت عطا کی جو اُس کی نسلوں تک جاری و ساری رہی اور آج تک جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت روازانی پورے مسوری میں آسودہ حال اور خوشحال لوگ ہیں۔
2
اُچ کی سرزمین پر بگٹیوں کے پیروزانی طائفے اور جمالی قبیلے کے مابین اکثر اوقات زمینی تنازعات پر جھگڑے اور لڑائیاں ہوتی تھیں لیکن ہر دفعہ پیروزانی شکست کھا کر لوٹتے تھے ۔ ایک دفعہ وڈیرہ مراد پیروزانی (اول) نے مست سے عرض کیا کہ ہمیں دُعا کیجئے کہ ہم جمالیوں پر فتح پالیں اور اُچ پر قابض ہوجائیں ۔مست نے اپنی لکڑی والی کنگھی مراد کو دے دی اور کہا کہ اس کو اپنی داڑھی پر لگا کر جنگ پر جاﺅ۔ انشاءاللہ فتح تمہاری ہے “۔ چنانچہ مراد اور اُن کے رفقاءنے اپنی داڑھی پر مست کی کنگھی لگائی اور جنگ کے لیے چلے گئے اور فتح یاب ہو کر لوٹے ۔ مست نے کنگھی دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ جب بھی کسی دُشمن کے مقابلے کے لیے جاﺅ تو کنگھی داڑھی پر پھیر کے جاﺅ انشاءاللہ فتح تمہاری ہوگی کہتے ہیں کہ وہی کنگھی آج تک وڈیرہ مراد پیروزانی کے خاندان کے ہاں محفوظ ہے ۔

3
ڈیرہ بگٹی میں پیریں نامی ایک مراثی اکثر اوقات مست کے اشعار سَریندا اور دنبورہ پر گاتے تھے۔ ایک بار وہ مست کے اشعار گا رہے تھے کہ مست جوش کے ساتھ اُٹھے اور کہنے لگے ”مانگ پیریں کیا مانگتا ہے ؟“
پیریں نے کہا”حضور! دَغا کیجیے خُشک روٹی سامنے نہ آئے ۔
مست نے کہا” تمہارا گھر دو دھ، مکھن ، گھی اور دہی سے بھرا رہے گا“۔
کہتے ہیں کہ پیریں کے گھر ہر وقت بکری گائے وغیرہ کا دودھ ، مکھن ، گھی اور دہی ہر وقت ملتا تھا اور آج تک پیریں زئی ( جو ڈیرہ بگٹی کے قریب پیر کوہ میں آباد ہیں) کے گھر دودھ ، مکھن ، گھی اور دہی سے خالی نہیں ہیں۔
بہت خوشحال اور مالدار لوگ ہیں او جی ڈی سی ایل میں پکے ملازم ہیں۔

4
ایک دفعہ تﺅکلی مست پیر کوہ سے براستہ پوہلی نالہ ڈیرہ بگٹی کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں اُس نے ایک بڑا پتھر دیکھا تو اُس سے کہنے لگا” سمو گرانڈ بیا دیروّ ئَ بروں“ یعنی” آ، سمو کا دُنبہ آﺅ ڈیرہ بگٹی چلتے ہیں“۔ تو وہ پتھر رینگ رینگ کر مست کے پیچھے جانے لگا۔ پوہلی کے دہانے پہنچ کر مست نے پتھر کو رکنے کا اِشارہ کیا تو وہ وہاں رُک گیا۔ وہ پتھر آج تک پہلی نالہ میں موجود ہے اور ”مست ئَ کوہ “ یعنی ” مست کا پتھر “ کے نام سے مشہور ہے“۔

5
ایک دفعہ تئوکلی مست نے زین کوہ پر کریہہ کا ایک بڑا درخت دیکھا تو اُس کے جی میں آیا کہ کیوں نہ ا،سے کاٹ کر ایک اونچی جگہ پر کھڑا کردوں تاکہ یاد گار رہے ۔
چنانچہ اُس نے ایک چرواہا جو قریب ہی اپنا مال چرا رہا تھا جس کا نام علی دوست تھا اور بگٹی قبیلے میں چند رانزئی شاخ سے تعلق رکھتا تھا کو بُلا کر کہا کہ ” آﺅ اِس کلیر کو کاٹتے ہیں۔ چنانچہ مست اور علی دوست نے اُسے کلہاڑی سے کاٹا اور ایک اونچی جگہ پر گھڈا گھود کر کھڑا کردیا۔ وہ خشک لکڑی آج تک اُسی جگہ پر کھڑا ہے جو ”مست ئَ دار“ یعنی” مست کی لکڑی “ کے نام سے مشہور ہے یہ لکڑی چونکہ ایک اونچی جگہ پر کھڑا کردیا گیا ہے جہاں پر بیٹھ کر خوشگوار موسم میں دریائے سندھ کا بخوبی نظارہ کہا جاسکتا ہے “ مست بھی وہاں بیٹھ کر دریائے سندھ کا نظارہ کرتے تھے۔ لوگ وہاں پر مال مویشی خیرات کرتے ہیں اور بارش کے آنے کی دُعائیں کرتے ہیں۔

6
زین کوہ پر ”مست دار“ کے قریب مست نے اپنے عصا کا سرا زمین میں گھونپ کر چشمہ جاری کیا ۔ قریب ہی ایک چندرانزئی کی زمین تھی جس میں وہ فصلیں کاشت کرتا تھا چشمے پر پرندے اور مال مویشی پانی پینے جاتے تھے اور فصل کا تھوڑا بہت نقصان کرتے تھے ۔ ایک دن اُس چندرانزئی نے چشمے کے منہ پر پتھر اور مٹی ڈال کر اُسے بند کردیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مست پاگل ہے اُس نے یہاں چشمہ نکالا ہے پرندے اور مال مویشی میری فصل کا نقصان کرتے تھے جب مست تک یہ بات پہنچی تو اُس نے کہا’ بے زبانوں کو پانی پینے نہیں دیتا خود بھی پانی نہیں پی سکے گا۔ چنانچہ چند روز کے بعد اُس کے گھر کی عورتیں جب پانی بھرنے کے لیے ایک کمب (پہاڑی جھرنا) میںگئیں تو اُس کی بیوی سمیت تین عورتیں کمب میں ڈوب کر مرگئیں۔

7
زین کوہ میں ایک جگہ مست نے تین پتھر رکھے اور اُس پر توے کی طرح کا ایک بڑا سا پتھر رکھا۔ اُس جگہ آپ مالداروں سے مویشیاں خیرات کرواتے اور بارش کے آنے کی دُعائیں کرتے اور گوشت اُسی پتھر پر رکھ کر تقسیم کرتے ۔ سب سے پہلے سمو راج (عورتوں کا حصہ) نکالتے ۔
اُس جگہ پر مست جونہی خیرات کرواتے بادل اُمنڈ کر آتے اور بارش برسنے لگتی ۔ایک دفعہ ایک چندرانزئی نے وہ پتھر پھینک دیا تو اُس کے جسم پر خارش ہونے لگی اور وہ بے چین ہو کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔
لوگوں نے پوچھا یہ بیماری تمہیں کب سے ہوگئی ہے ۔ اُس نے کہا میں نے مست کاتوا الٹ دیا تھا ۔ اُس وقت سے میرے جسم پر خارش ہونے لگی انہوں نے کہا” تم نے بڑی غلطی کی ہے جاﺅ توے کو سیدھا کر کے پتھروں پر رکھ دو اور توبہ کرو تاکہ اِس مصیبت سے تمہاری جان چھوٹے۔ چنانچہ اُس نے جا کر مست کا توا سیدھا کر کے پتھروں پر رکھ دیا اور توبہ کی ۔ تب سے اُس کی خارش جانے لگی۔ وہ جگہ آج بھی ”مست ئَے تافع “ یعنی مست کا توا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ آج بھی لوگ جب وہاں مویشیاں خیرات کر کے بارش کی دعائیں کرتے ہیں تو فوراً آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں اور بارش برسنے لگتی ہے ۔

8
زین کوہ پر پلپل کا ایک بہت بڑا سایہ دار اور سرسبز و شاداب درخت موجود ہے جس کو مست ئَے پلپل ” یعنی “ مست کا پلپل “کہتے ہیں۔ مست موسمِ گرما میں سندھ کی طرف جاتے ہوئے کبھی کبھی اسی پلپل کے سائے میں آرام فرمایا کرتے تھے ۔ اسی پلپل کے شاخوں کو مست نے سمو کی بل کھاتی ہوئی سانپ جیسی پتلی کمر اور چمکنے والی پتوں کو سمو کے چہرے سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ۔
زینہ کوہا من پلپل ئِے دیثہ
دار چو ماران چوسمل ئِے سرینا
تاخِ بلکاں چو سملہ دیما
نیں دہنڑاراں من گڈغا دیثہ
نیں لواراں من شوشغا دِیثہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*