صاحب نظرے پیدا شُد

2012 کے اوائل میں جب سردار خیر بخش کے قبیلے کے ایک شخص نے اُس کو پیغام بھیجا کہ 29 فروری کو وہ کوئٹہ میں اپنے اس بزرگ کی سالگرہ پر ایک دنبہ خیرات کرے گا۔ ساتھ میں اُس نے یہ خواہش کردی کہ وہ (سردار) بھی اُس روز ایک دنبہ کاٹ کر جشن منائے۔ اس لےے کہ اس کی اگلی سالگرہ چار برس کے بعد آئے گی۔ اور چار برس کس نے دیکھے ؟۔
واضح رہے کہ سردارخیر بخش مری زندگی بھر 29 فروری 1929کو اپنی سالگرہ قرار دیتا رہا۔
قبائلی کی خواہش پر اُس نے پیغام لے جانے والے سے کہا تھا:” میں تواپنی سالگرہ کبھی نہیں مناتا، مگر اُس سنگت کی خواہش ہے ۔اور وہ میری سالگرہ اتنی دور اور اتنی ” دل لوٹائی “ سے منا رہا ہے تو میں بھی اِس بار ایک دنبہ ذبح کر کے منا لوں گا“۔
لیکن اُسی سال بعد میں وہ شخص جب کراچی گیا تو خیر بخش سے ملاقات میں ایک ایسی بحث چھیڑ دی کہ سردار کو اپنی کیلکولیشن کی غلطی ماننی پڑی۔خیر بخش کو اپنے سالِ پیدائش کے بارے میں بالکل بھی کوئی کنفیوژن نہ تھی ۔ یعنی اس کی پیدائش کا سال 1929 ہی تھا ۔ مگر جب اگلا شخص کاغذ قلم اور کیلنڈر کے ہتھیار استعمال کرنے لگا تو بوڑھا سردار قائل ہوگیا کہ 1929 تو لیپ کا سال تھاہی نہیں۔تو 29فروری کہاں سے آگیا۔
یوں خیر بخش مری نے آخری عمر میں اپنی تاریخ پیدائش 28 فروری1929کو قرار دیا۔ اور آئندہ دو برس اُسی روز اپنی سالگرہ قرار دے کر اُسے منانے یا نہ منانے لگا۔
خیر بخش ، مری قبیلے کے سردار مہر اللہ کے ہاں، کاہان میں پیدا ہوا۔ Happeningsکی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ اسباب وعلل کی اپنی نیرنگیاں، اٹھکیلیاں اور راہیں ہوتی ہیں۔ عجب بات ہے کہ خیر بخش مری ابھی دودھ پیتا بچہ تھا کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔اُس کی ماں زرکون قبیلے سے تھی ، نیاز محمد زرکون کی بہن ۔اِس شیر خوار بچے کی ماں مر گئی تو کنیزوں اور سوتیلی مائوں کے دودھ اور دیکھ بحال کی بدولت وہ مرنے سے تو بچ گیا مگر فطری بات ہے کہ مامتا سے محرومی کا کُچلا تو دل و دماغ کے ریشے ریشے میں سما جانا تھا۔ اس نے کئی بار مجھ سے اس کا اظہار بھی کیا۔ کس قدر تلخی کے ساتھ وہ خود کو ” چوری“ ( یتیم) کہا کرتا تھا۔” میں ایسا بد نصیب کہ ماں مر گئی، باپ سارا دن سرداری اور مردانہ کاموں میں باہر مصروف رہتا۔ سوتیلی یا نوکرانیوں نے جہاں چاہا دھوپ میں پھینک دیا، جو چاہا پلا دیا“۔
اُس کا نام اس کے سامراج دشمن دادا کے نام پر رکھا گیا ۔ سامراج دشمن دادا کے اس پوتے نے بڑا ہو کر اس کے نام کا خوب لحاظ رکھا اور ہر طرح کے ظلم نا انصافی کے خلاف لڑنا تھا۔
ہم ذکر کر چکے کہ شیر خواری میں ماں کے انتقال کر جانے پر اُسے تربیتی لوریاں کہاں نصیب ہوئی ہوں گی؟ ۔مگر آسمان یہیں پر بس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ آفت تو پھر آفت ہوتی ہے ۔ کیا حد کیا حساب ؟۔ 1933 ءمیں جب وہ ابھی محض چار سال کا تھا کہ والد (مہر اللہ ) کا بھی انتقال ہوگیا۔لہٰذا اگر کوئی نام کی پدری شفقت میسر بھی تھی تو وہ بھی چھن گئی۔ ویسے بھی چار سال کے بچے پر باپ کا سایہ کیا رہتا اور نہ ہی باپ چار سالہ بچے کی کوئی تربیت کرسکتا تھا۔یہ ننھابچہ ایک گھپ تاریک دنیا اور دھند میں لپٹی گردابی مقدر کے حوالے ہوگیا۔
دوسری طرف سردار مہر اللہ خان کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کے حوالے سے وہی سردار بننے کا اہل تھا ۔ اس لیے اُس ننھے بچے کی دستار بندی تو لازمی ہونی تھی ، ہوگئی۔ مگر،چونکہ وہ کم سن تھا اس لیے قبیلہ کے امور نہیں چلا سکتا تھا۔ چنانچہ رواج کے مطابق قبیلہ اُس کے جوان ہونے تک اُس کے چچا دودا خان کی قائم مقام سرداری (ریجنٹ) میں چلا گیا ۔ننھا خیر بخش اس ہری بھری دنیا میں دوہری یتیمی کی گود میں ابلتا پلتا رہا۔
خیر بخش کی ابتدائی تعلیم اپنے گاﺅں کاہان کی تھی(1)۔ جہاں میر مٹھا خان اس کا استاد تھا۔ اسی لےے ہم نے بہت بار دیکھا تھا کہ وہ اسے اپنا استاد مانتا بھی تھا اور اُس کی اُسی انداز میں عزت بھی کرتا تھا ۔
بعد ازاں وہ کوئٹہ کے گرائمر سکول میں پڑھا۔

ریفرنسز
1۔نجات ،کراچی۔ 25 مئی1935 ۔ صفحہ3

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*