طرزِ پیداوار اور سماجی نشوونما

تاریخی مادیت کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس کی اصل خصوصیت یہ قضیہ ہے کہ طرز َپیداوار سماج کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انسان، غذا، لباس، مکان اور دیگر ضروریات زندگی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن قدرت یہ ساری چیزیں کسی شاپنگ بیگ میں قرینے سے سجا کر ہمیں نہیں دیتی۔ انہیں پیدا کرنے کے لیے انسانوں کا کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ چناچہ محنت سماجی زندگی کی بنیاد اور انسان کی ایک قدرتی ضرورت ہے۔ محنت کے بغیر، پیداواری سرگرمی کے بغیر،خود انسانی زندگی بھی ممکن نہیں تھی۔ تو معلوم یہ ہوا کہ مادی دولت کی پیداوار سماجی نشو و نما میں ایک خاص عامل ہے۔
طرز پیداوار دراصل پیداوار کے دو عناصر یعنی پیداواری قوتوں اور پیداواری تعلقات کا مجموعہ ہے۔

پیداواری قوتیں
محنت کے سلسلہ عمل میں انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے قدرتی اشیا کی شکل بدل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مشین بنانے کے لیے خام لوہا کان سے باہر نکالا جاتا ہے ، اسے مناسب درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا ہے اور پھر فولاد میں تبدیل کر کے کسی مطلوبہ مشین کی شکل دی جاتی ہے۔
مادی پیداوار اشیائے محنت اور وسائل محنت کے بغیر ناممکن ہے۔
اشیائے محنت وہ چیزیں ہوتی ہیں جن پر انسانی محنت لگائی جاتی ہے۔ وسائل محنت ، مشینیں، آلات، اوزار، پیداواری عمارتیں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ ہوتے ہیں۔ اشیائے محنت اور وسائل محنت مل کر پیداوار بنتے ہیں۔
آلات پیداوار جن سے عوام اشیائے محنت پر عمل کرتے اور انہیں تبدیل کرتے ہیں ، محنت کے اہم ترین وسائل ہوتے ہیں۔ آلات محنت کے بغیر پیداوار ناقابل تصور ہے کیونکہ قدرت اپنے ذخیروں سے آسانی سے دست بردار نہیں ہوتی اور انہیں محض خالی ہاتھوں سے حاصل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اپنی معاش ان آلات کی مدد سے ہی حاصل کر سکتا ہے اور یہ آلات جتنے بہتر ہوں گے اتنی ہی زیادہ معاش حاصل ہوگی۔
آلات محنت از خود مادی دولت پیدا نہیں کرتے۔ ضروری ہے کہ انہیں صرف بنایا ہی نہ جائے بلکہ انہیں استعمال بھی کیا جائے۔ کامل ترین مشین بھی آخر کار دھات کا ایک ڈھیر بن جائے گی اگر اسے انسانی ہاتھ نہیں چھوتے۔ صرف انسان ہی ایک آلے کو حرکت میں لانے اور مادی پیداوار منظم کرنے کا اہل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پیداوار کا ایک بنیادی عنصر ہے۔
پیداواری قوتیں۔۔۔۔ وسائل پیداوار اور بالخصوس آلات محنت پر جو سماج کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور عوام پر جو مادی دولت پیدا کرتے ہیں، مشتمل ہوتی ہیں۔ پیداواری قوتیں قدرت کے ساتھ انسان کے تعلقات اور قدرت پر انسان کے اختیار کا تعین کرتی ہیں۔ محنت کش عوام پیداواری قوتوں کا اصل عنصر ہوتے ہیں۔ عوام کی تعمیری محنت ان کے بنائے ہوئے آلات کو حرکت میں لاتی ہے اور اسی محنت کے ذریعے عوام نوع انسانی کو بے پایاں مقدار میں ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں۔

پیداواری تعلقات
پیداواری قوتیں مادی پیداوار میں واحد عامل نہیں ہیں۔ انسان ایک سماج میں منظم ہو کر صرف مشترکہ طور پر ہی پیداوار کر سکتے ہیں کیونکہ انسان کا کردار سماجی ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ مارکس نے لکھا ہے©: ” انسان پیداوار کی غرض سے ایک دوسرے کے ساتھ معینہ روابط اور تعلقات قائم کرتے ہیں اور انہیں سماجی روابط اور تعلقات کے اندر قدرت پر ان کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے، پیداوار وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ”
پیداواری سلسلہ عمل میں انسانوں کے تعلقات پیداواری تعلقات کی تشکیل کرتے ہیں اور پیداواری تعلقات مادی اشیا کا ایک لازم جزو ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک خاص تاریخی طرز پیداوار، پیداواری قوتوں اور ان سے مطابقت رکھنے والے پیداواری تعلقات کے درمیان ناقابل شکست اتحاد کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے۔
انسان، قدیم سماج کی ابتدا میں محنت کے ذریعے ایک دوسرے سے وابستہ تھے۔ مثلا خانہ بدوش شکاری قبیلوں میں یہ تعلق ساتھی شکاریوں کا تعلق تھا۔ جب پیداواری قوتوں میں اضافہ ہوا اور تقسیم محنت بڑھی تو انسانوں کے درمیان تعلقات زیادہ سے زیادہ متنوع ہوتے گئے۔ فصل اگانے والوں اور گلے بانوں ، کسانوں اور دستکاروں، دستکاروں اور سوداگروں وغیرہ کے درمیان تعلقات قائم ہوئے۔ مشینی صنعت کے فروغ کے ساتھ پیدا کنندوں کے درمیان تعلقات خاص طور پر متنوع اور کثیر الطراف ہو گئے۔
پیداواری تعلقات ملکیت کی شکل پر، یعنی وسائل پیداوار ( زمین، اسکے معدنی وسائل، جنگلات، پانی، خام مال، فیکٹریوں کی عمارتیں، آلات محنت وغیرہ) کے ساتھ انسانوں کے تعلق پر مبنی ہوتے ہیں۔ ملکیت کی شکل پر، پیداوار میں مختلف سماجی گروہوں کی غالب یا مغلوب حیثیت کا ، پیداواری سلسلہ عمل میں ان کے تعلق باہمی کا، یا، جیسا کہ مارکس نے کہا ہے کہ،
” ان کی سرگرمی کے باہمی تبادلے کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر ملکیت عوامی ہو یعنی وسائل پیداوار مزدور طبقے کی ملکیت ہوں، تو پیداواری تعلقات استحصال سے آزاد انسانوں کے درمیان تعاون اور باہمی اعانت کی نوعیت اختیار کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ سوشلزم کے تحت ہے۔ اگر ملکیت نجی ہو ، یعنی وسائل پیداوار استحصالی اقلیت کی ملکیت ہوں، تو پیداواری تعلقات غالب اور مغلوب کے درمیان تعلقات کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ سرمایہ داری نظام کے تحت۔۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک مخاصمانہ طبقاتی سماج میں محنت کش عوام وسائل کی پیداوار سے محروم ہوتے ہیں اور مجبور ہوتے ہیں کہ ان استحصال کرنے والوں کے لیے کام کریں جو ان وسائل کے مالک ہوتے ہیں۔ ”
تقسیم کی شکل بھی وسائل کی پیداوار کی ملکیت کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ نجی سرمایہ دارانہ ملکیت سرمایہ داری کے تحت سماج کی مادی دولت کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم متعین کرتی ہے۔ وسائل پیداوار کا مالک ، پیدا شدہ دولت کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو جاتا ہے۔ باوجودیکہ وہ خود پیداوار میں براہ راست کوئی حصہ نہیں لیتا۔ سوشلسٹ سماج میں عوامی ملکیت کام کے مطابق تقسیم دولت کے اصول کو یقینی بناتی ہے جو سارے محنت کش عوام کے مفادات کے مطابق ہوتا ہے۔ سوشلزم کے تحت تمام پیدا شدہ دولت عوام کی ہوتی ہے۔
پیداواری تعلقات کا دائرہ وسائل پیداوار کی ملکیت کی شکلوں اور اس کے نتیجے میں پیداوار میں مختلف سماجی گروہوں کی حیثیت اور مادی دولت کی تقسیم کی شکلوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پیداواری تعلقات معروضی طور پر ، انسانوں کی منشا اور مرضی سے آزاد، تشکیل پاتے ہیں۔ پیداواری سلسلہ عمل میں انسانون کے مابین معینہ تعلقات صرف اس وقت ظہور پذیر پوتے ہیں اگر وہ پیداواری قوتیں جن سے یہ تعلقات مطابقت رکھتے ہوں، پختہ ہو گئی ہوں۔
استفادہ:
1. the struggles of the working class during the Industrial Revolution in Europe.
2. Marxist Philosophy… V.
Afanasyev

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*