عجیب پارسل

میں پھول پھول سفر کر رہی تھی خوابوں کا
پھوار لائی تھی تحفہ نئے گلابوں کا۔۔۔۔۔

آگ برساتا سورج ایسے لگا جیسے اپنی ساری بھڑاس آج ہم کراچی والوں پر نکالنے کی ٹھان کر ہی نکلا تھا۔ٹھیک اسی طرح جیسے کے الیکٹرک والے (گالیاں )۔ کچی آبادیوں کے غریب مکینوں پر بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی صورت بم گراتے ہیں جہاں بجلی کسی عاشق کی حسین دلربا کی طرح آنچل منہ میں دبائے رخ مہتاب کا ادھ ادھورا دیدار کراوتے ہوئے جھٹ سے دروازے کی اوٹ میں چھپ جاتی ہو ۔۔۔ (ہائے کنبخت تیرا یوں آنا جانا) ایسی صورتحال میں گرمی کی شدت سے سر اور گھر چکراتا دکھائی دیتا ہے میں نے بھی میاں سے کہہ دیا کہ جلتی دوپہر میں گھر کی روٹی کی فرمائش دل میں دبا ئے رکھنا کیونکہ اس گرمی میں جیتے جی دوزخی ہونے کا کوئی شوق نہیں (شدید گرمی میں گھر کا باورچی کا منظر ) حبس نے سانس دوبھر کی تو ہاتھ اٹھا کر رب سے التجا کی میرے کریم کوئی ایسا کرم فرما ،کہ چلے کوئی ایسی ہوا ،بنے جو غم کی دوا ، ہوا جو پر بہار ہو ، پھولوں سی مہکار ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میری دعا لمبی ہوتی بچے نے آکر کہا آنٹی نیچے گیٹ پر کوئی آدمی آپ کا پوچھ رہا ہے ۔ہائیں ؟ مجھ سے ملنے کوئی آآآآ دمی ۔۔ خاوند کو دیکھ کر شرارتی مسکراہٹ پاس کرتے ہوئے کہا ” ہائے میں زیادہ مشہور ہوگئی کہ لوگ ملنے آنے لگے وااہ جی ۔۔
جا کر دیکھا تو ڈاک بابو تھا پارسل آیا تھا ۔پارسل رسیو کرتے ہوئے حیرت کہ کس نے بھیجا ہے ،یک دم صورتحال مسرت میں بدل گئی۔ صاف پتہ چل رہا تھا کچھ دیر پہلے گرمی سے مرجھایا چہرا اب خوشی و مسکراہٹ سے چار سو واٹ کے بلب کی طرح جگمگا رہا تھا۔ پارسل کیا تھا جناب گویا فقیروں کے ہاتھ خزانہ تھا ۔ کوئٹہ سے شاہ محمد مری صاحب نے دو کتابیں، عشاق کے قافلے نمبر 27 عورتوں کی تحریک اور مہتاک سنگت کا تازہ شمارہ بھیجا تھا ۔ تبھی تپتی دوپہر میں دل باغ بہار ہوا۔۔ شاہ محمد مری کے بارے میں کیا لکھوں۔۔

بڑا وسیع ہے اس کے جمال کا منظر
وہ آئینے میں توبس مختصرسارہتاہے

مری قبیلے کا ایسا بلوچ جس کے سر پر روایتی بلوچ پگڑی نہیں ہے مگر وہ دانشوری میں بلند مقام رکھتا ہے۔ تلوار کی جگہ قلم سے مارکسی نقطہ نظر لیے مزدوروں کا ادیب اگلی صف میں کھڑا سالاری و رہبری کے سبھی اصول اپنائے سرمایہ داری نظام سے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے ۔ کپٹلزم اور بورژوا طاقتوں کے خلاف مزاحمت کا عَلم اپنے عِلم سے سر بلند رکھنے والا مرد مجاہد جو اپنی دھرتی کے رومینس میں سر تا پا مبتلا ہے ۔ اس نے اپنے پالنے میں مست کے گیت لوریوں کی طرح سُنے اور جوانی میں اسی مست کے عشق کا جام ایسا پیا کہ شاہ محمد سے مست ہوگیا ۔
اپنی مٹی اپنی دھرتی اپنی قوم کی محبت اس کی عظمت اور قدیم تہذیب کو قائم رکھنے کے لئے پیپلز ہسٹری آف بلوچستان کی کئی جلدیں لکھ ڈالیں ۔ساتھ ہی صفحہ قِرطاس پر عشاق کے قافلے میں شریک سنگتوں کو سدا امر کرنے والا قلمکار عبدالکریم شورش ، سے لے کر کارل مارکس کی داستانِ حیات اور کمیونسٹ مینی فیسٹو سے لےکر میکسم گورکی ،فیڈل کاسترو،چے گویرا ،ماوزے تنگ ،ہوچی من ، سپارٹیکس اور سیکڑوں دیس بدیسی دانشوروں پر ہزاروں مضامین تصانیف لکھیں۔ دنیا جہاں کے نامور فلاسفر ،ادیب ،مفکر ،روس جرمنی افغانستان سے لے کر چین آشنائی تک ۔مست توکلی سے شاہ لطیف ، سے فیض تک اس کی گہری نگاہ اس کے وسیع مطالعہ کی غماز ہے۔ جسے اس نے دماغ کی تجوری میں بند کرنے کے بجائے کتاب کی صورت خیرات باٹنا شروع کردی اور نئی نسل کو مالا مال کرنے لگا ۔ اسے مست توکلی اور سمو سے عشق و عقیدت نے عورت کی ذات کی مَسلی ہوئی مسخ شدہ تصویر کو گل بی بی ،کروپسکایا اور جینی کے خطوط میں نکھارا ،اسے فہمیدہ ریاض سے لے کر نسرین انجم بھٹی تک سنوارا۔ میں خود بھی ایک عورت ہوں اور سرائیکی عوامی تریمت (خواتین ) تحریک سے وابسطہ ہوں ۔سو عورتوں کی تحریک کتاب کو بڑے ندیدے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھولا اور اس کے پنوں میں کھو گئی۔۔۔
شاہ محمد مری نے عورتوں تحریک میں جس خوبصورتی سے اس موضوع کا احاطہ کیا ہے میرے خیال میں ایک مضمون اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مثال ہوگا آئیے کچھ جھلکیاں دیکھتے ہیں:
” مردانہ بالا دستی والے فیوڈل اور ماقبل سماجوں کادورانیہ بہت طویل رہا۔تاریخِ انسانی میں عورت بہت کم مذہبی پیشوا رہی ،بہت کم سردار،ہیرو اور لیڈر رہی ۔اس کی شاعری اور دیگر تخلیقی صلاحیتوں اور کارناموں کو سامنے نہ آنے دیا گیا بالخصوص عورتوں کی ان تحریکوں اور شخصیات کے بارے میں تو مخاصمانہ رویہ رکھا گیا جنہوں نے طبقاتی سماج کے اٹوٹ حصے کے بہ طور موجود پیڑیارکی کے مروج میں کسی طرح کی تبدیلی کا کام کیا۔تاریخ میں تمام ضعیف طبقات کی طرح بہت کم بولا اور لکھا گیا ہے۔ جب فیوڈل معاشرے کے اندر سے انڈسڑ یلائزیشن کی ابتدا ہوئی تو عورت صنعتی معاشرے کی ضروریات کے تحت گھر کی چار دیواری سے باہر جاسکتی تھی اور پیداواری عمل میں حصہ لے سکتی تھی ۔اس نے فیکڑیوں میں مردوں سے کم تنخواہ پر کام کیا ۔گزشتہ تمام ادوار کی نسبت کپٹلسٹ دور میں اس پر کہیں زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا۔انقلاب کے نتیجے میں جب کپٹلزم میں سے سوشلزم پھوٹا تو وہاں عورت کی نجات کی تمام رکاوٹیں ٹوٹیں ۔اب سماج کے اندر صدیوں سے غلام بنائی گئی عورت ہڑبڑا کر جاگ گئی اور چھلانگوں پھلانگوں سے خوشی اوررضا کے جذبے اور شوق سے ایک مکمل انسان کی طرح اپنا حصہ ڈالتی رہی۔عورت نجات کا یہ نظام دنیا کے 52ممالک میں رائج ہوا اور پون صدی تک رائج رہا “۔
مجھے ”عورتوں کی تحریک “ کے پیش لفظ میں ایک بڑے سوال کا جواب ملا وہ سوال جو ہر ابھرتی ہوئی تحریک جس نے عورتوں کے حقوق کی بات کی تو اس کے گلے میں فیمینسٹ کے لفظ کا طوق پہنا کر اندھروں میں دھکیل دیا جاتا رہا۔ یہ جانے بنا کہ فیمینزم اصل سے نقل تک کی کہانی کیا تھی ۔مری صاحب نے کیا خوب خلاصہ کیا وہ لکھتے ہیں :” اگر آپ عورت کے حقوق کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس میدان میں فکری گم راہی کا غدر مچا ہوا ملے گا ،ٹرمنالوجیوں کاڈھیر لگاہواملے گا۔عورت حقوق پرکام کرنے کے لیے لبرلز نے لفظ فیمنزم کی بہت سی شاخیں اور قسمیں منوفیکچر کرکے مارکیٹ میں پھینک دیں۔مگر مجموعی طور پر یہ نظریہ سماج کی بنیاد کو چھیڑے بنا عورت کی برابری کے ہوائی تصورکی گھنٹیاں بجاتا رہتا ہے ۔یہ آیڈیلسٹ اپروچ عورت کی محکومی کے ٹھوس اسباب نہیں دیکھتا۔چونکہ یہ اسباب بہت گھمبیر ہیں اور ان کو دور کرناایک ہمہ گیر سیاسی جدوجہد کا متقاضی ہوتا ہے اس لیے اس بورژوا نظریہ نے لوگوں کو گمراہی کے لیے سیدھا مرد اور عورت کا تنازعہ بنا دیا ہے۔یہ نظریہ سماجی طبقاتی ساخت نہیں دیکھتا۔فیمنزم عورتوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کو دوام دینے والا نظریہ ہے۔ آج فیمینزم کا مطلب عورتوں کے نام پر عورتوں کی فرقہ بازی ہے ،سماج میں عورتوں کامردوں سے میچ کرواتے رہنا ہے۔اس طرح فیمنزم ظالم و مظلوم ،بالا دست و محکوم اور امیر و غریب طبقوں کی بنیادی لڑائی سے توجہ ہٹانے کے بندوبست کا نام بن گیا ہے “۔
اس کتاب میں عورت تحریک کی شروعات سے لے کر پدر شاہی اور مادری نظام تک کھل کر گفتگو کی گئی ہے ۔فیوڈل دور کی تشریح کی گئی فیوڈلز غلام داری کا گلا گھونٹ کر سماج پر مکمل طور پر غالب ہوگیا مگر غلام داری کے مقابل اس بظاہر پروگریسیو فیوڈلزم نے تو اندھیر ہی مچادی ،عورت کے استحصال میں پہلے ادوار کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوگیا۔ یہودیت فیوڈل پدرانہ معاشرے کا سب سے بڑا چوکیدار رہا۔
اگر آپ نے ماضی قریب کی تاریخ میں عورتوں کے بارے میں سب سے وحشت ناک سماج دیکھنا ہے تو وہ چین ہے۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا ،یورپ اور ایشیا میں فیوڈلزم میں چھپی تباہ کاریاں عصمت فروشی تک کتاب کا پہلا باب اسقدر تفصیلی و تحقیقی تھا کہ کیا کہنے ۔ میں پھر اپنی بات دھراﺅں گی کہ اس کتاب پر ایک مضمون لکھنا اونٹ کے منہ میں زِیرہ ہوگا۔ ابھی مجھے بلوچ عورت نجات کی پہلی‘ دوسری اور تیسری و چوتھی لہر پڑھنی ہے۔ رابعہ خضدار ی ،ہانی ،گوہر ،منہاز ،شاہ لطیف ،سمو بیلی کی لازوال داستانوں سے امرت پیتا ہے، کپٹلزم میں عورت کی جدوجہد سے نئی منزلوں کے نشاں ڈھونڈے ہیں ، عورت جدوجہد مارشل لاوں سے جمہوریت تک ، میں مکروہ چہروں سے نقاب ہٹانے کامنظر دیکھنا ہے ۔طلوع آفتاب کا نظارہ کرنا ہے۔ ابھی تو بلوچ خواتین پینل ، سموراج ونڈ مومنٹ ، بلوچ گہار مومنٹ ، ہزارہ عورتیں ، بلوچ عورت روایت شکن سے سبق یاد کرنے ہیں ۔کِتاب ابھی باقی ہے میرے دوست ، مطلب مضمون ادھورا ہے ابھی۔۔۔
ارے۔۔۔مجھے تو بھول ہی گیا کہ میں نے تو شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھنا شروع کیا تھا ۔ اس عظیم ہستی کا شکریہ جو تاریخ و تہذیب کا امین ہے ۔شاہ محمد مری صاحب کی بے حد ممنون و مشکور ہوں جنہوں نے مجھے کتابوں کا خوبصورت تحفہ بھیجا اور مجھ نِکمی رائٹر کونہ صرف یاد رکھا ، بلکہ ہمیشہ اپنی سنگت کا حصہ مانا۔یہ سنگت کا لفظ بھی کتنا بھاگِوان ہے ، سنگت اکیڈمی ،مہتاک سنگت ماہنامہ رسالہ ،سنگت سوشل میڈیا گروپ جہاں گیان بٹتا ہے جہاں پھول کھلتے ہیں۔ سنگت میں بوڑھے ،جوان ، مرد اور عورت کی تفریق ہی مِٹ گئی۔ سنگت واٹس ایپ گروپ جس میں سندھی ،سرائیکی، بلوچ اور پشتون سبھی شامل ہیں ،اگر آپ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں شعور کا دیا جلانا چاہتے ہیں تو، تو مبارک ہو کہ پھر آپ بھی سنگت ہیں ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*