سنگت گل حسن کلمتی

گل حسن کلمتی کراچی کی پہچان تھے یا کراچی ان کی پہچان تھی؟ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ وہ دونون لازم و ملزوم بن چکے تھے، جہاں ایک کا نام آتا وہاں دوسرے کا نام بھی لازماً آ جاتا۔ گل حسن کلمتی اپنے لئے جپسی کا نام استعمال کرتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ سفر کرتے رہتے، کبھی بلوچستان کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر تو کبھی تھر کے ریگستانون میں، کبھی سندھ کی زرخیز وادیوں میں تو کبھی سمندر میں لیکن ہمیشہ تاریخ کے چھپے گوشوں کی تلاش میں محو سفر رہتے۔ ان کی جستجو یا ان کے اپنے الفاظ میں رولاکی کا ختم نہ ہونے والا ایک سلسلہ تھا جو آخر کار 17 مئی کی رات زندگی کے خاتمے سے ختم ہوگیا۔
کلمتی صاحب کی ولادت جولائی 1957 میں گڈاپ کے م±لا حاجی عرضی بلوچ گوٹھ میں ہوئی۔ انکے والد کا نام محمد اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ گل حسن کلمتی نے پرائمری تعلیم گڈاپ کے رادھو جوکھیو گوٹھ اور مڈل کونکر کے سرکاری اسکول میں حاصل کی۔ جبکہ میٹرک کا امتحان میمن گوٹھ میں دیا۔ بعد میں ایس ایم آرٹس کالج کراچی سے انٹر میڈیٹ کی سند حاصل کی اور جامعہ کراچی میں صحافت کے شعبے میں ماسٹر کیا۔
گل حسن کلمتی کچھ وقت صحافت سے منسلک رہے، پھر درس و تدریس سے وابستہ رہے بعد میں انہوں نے سندھ حکومت کے محکمہ بلدیات میں ملازمت اختیار کی جہاں سے وہ 2017ع میں ریٹائر ہوئے۔
گل حسن کلمتی سیاست کے میدان میں نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن، بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کا حصہ رہے، بعد میں سندھ کی قومپرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی میں شامل ہوئے لیکن بعد کی زندگی میں وہ کسی پارٹی کا باقاعدہ کارکن ہونے کے بجائے عوامی اشوز پر تمام قومپرست و ترقی پسند جماعتوں سے ہم خیال و ہم سفر رہے۔ عمر کے آخری حصے میں بحریہ ٹائون و دیگر ہاو¿سنگ سکیمز کی قبضہ گیریت کے خلاف یوسف مستی خان کے ساتھ انڈیجینئس رائٹس الائنس کے پلیٹ فارم سے آواز بلند کرتے رہے۔
گل حسن کلمتی ترقی پسند سوچ رکھتے تھے، وہ تمام مذاہب کا احترام کرنے والے تصوف و سماع کے دلدادہ تھے، منگھو پیر، بھنبل پیر، درگاہ شاہ لطیف، لاھوت، ہنگلاج میں نانی مندر کی زیارت کرنا، نذرانہ و پرساد بانٹنا یا کھانا، رقص کرنا ان کی زندگی کے معمولات میں سر فہرست تھے۔
میں نے پہلی بار ان کا جو مضمون پڑھا وہ منگھو پیر کے بارے میں تھا، سندھی زبان کے معروف مخزن ماہنامہ سوجھرو میں شایع ہوا تھا۔ ان سے میری پہلی ملاقات گلشن حدید کے آفیسرز کلب میں ہوئی جب وہ ہمارے دوست مرحوم ساقی شاہ کی کتاب کے تقریب رونمائی میں آئے تھے۔ میں نے ان کی پہلی کتاب رٹھل شہر جی کہانی مہران لائبریری میں پڑھی۔ میں نے پہلی بار ان کی کتاب کراچی سندھ جی ماروی پر مضمون لکھا جو روزنامہ ھلال پاکستان میں شائع ہوا۔ گل حسن کلمتی کی آخری کتاب سسی جی واٹ شاہ لطیف چیئر کراچی یونیورسٹی کے جانب سے شایع کی گئی، مجھے پہلی بار ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ تقریباً ایک ماہ تک ہم اکھٹے کام کرتے رہے۔ آخر کتاب شایع ہوئی اور پھر آرٹس کاو¿نسل کراچی میں تقریب رونمائی ہوئی۔

میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ادبی تقاریب میں منتظمین کی لاکھ کوششوں کے باوجود زیادہ تر کرسیاں خالی ہوتی ہیں، لیکن شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر کی جانب سے منعقدہ گل حسن کلمتی کی کتاب کے اس تقریب رونمائی میں آرٹس کونسل کراچی کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھر گیا اور جتنے لوگ بیٹھے تھے اتنے لوگ کھڑے تھے۔ یہی بات ان کے عوامی تاریخدان کی گواہی دیتی ہے۔
تاریخ اور گل حسن کلمتی کی دوستی مثالی تھی لیکن افسوس میں کبھی ان سے یہ معلوم نہ کر سکا کہ ان کی دوستی کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟۔ بہرحال ہم نے جب بھی انہیں دیکھا تو تاریخی حقائق و شواھد کی کھوج میں دیکھا، تاریخ پر گفتگو کرتے سنا۔ کلمتی صاحب سے مختلف تاریخی مسائل و حقائق کے بارے میں سیکھنے کی کوشش کی جاتی تو وہ بڑے دھیرج سے ہر سوال کا مختصر لیکن جامع جواب دیتے۔ سوال وجواب کے درمیان وہ ہنستے ہنساتے رہتے۔ اگر ایسے موقع پر ڈاکٹر رخمان گل پالاری بھی موجود ہوتے تو پھر کچہری کو چار چاند لگ جاتے۔
ان کی پہلی کتاب کراچی کی تاریخ پر مبنی تھی جس کا نام تھا رٹھل شہر جی کہانڑی! یعنی روٹھے ہوئے شہر کی کہانی۔ لیکن کراچی کس سے روٹھی تھی؟ ماما عرضی بلوچ سے، حاجی چاکر واڈھیلو سے، گل حسن کلمتی سے، یوسف مستی خان سے، سائین خدا ڈنو شاہ سے، حفیظ بلوچ سے؟ جوکھیو برادری سے، گبول برادری سے، پالاریوں سے برفتوں سے؟۔ ایسا بلکل نہیں ہے۔ کراچی بھلا کیوں ان سے روٹھتی جنہوں نے لاڈلی بچی کی طرح اس کی پرورش کی، اس کے ناز نخرے اٹھائے، اس کی زیبائش میں اپنی زندگی گذار دی۔ سکندر اعظم کی فوج سے پورچوگیز کے قذاقوں سے اس کو بچایا، مغلوں سے اس کی حفاظت کی، انگریز کے سامنے اسلحہ پھینکنے کے بجائے مرنا پسند کیا، ڈالمیا کے پہاڑوں پر پھانسی کا پھندہ زیور سمجھ کر قبول کیا، بوری بند لاشوں والی دھشت گردی کا مقابلہ کیا، چاکر کلمتی سے چاکر جوکھیو تک اور عبداللہ مراد سے ماما فیضو گبول تک یوسف مستی خان سے گل حسن کلمتی تک اپنی زندگی و آسائشوں کا بلیدان دیا۔ کراچی بھلا ان سے کیسے روٹھ سکتی ہے!
کراچی کو ہم سے چھینا گیا، اغوا کیا گیا، روٹھنا تو اغوا کار کا رچایا گیا ڈرامہ تھا۔ جیسے ہندو بچیوں کو اغوا کرکے ان کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے، پھر ان کی زبان سے والدین کے خلاف بیان دلا کر اپنے جرم کو قانونی حیثیت فراہم کی جاتی ہے، بلکل ایسے ہی ہماری کراچی کو ہم سے چھین کر اس کو ہم سے دور کیا گیا۔ سیاست کی چال بازیوں اور جھوٹے تاریخی دلائل سے اس کے چہرے اور رنگت سے ہر اس نقش کو مٹانے کی کوشش کی گئی جو اس کا ہمارے کنبے سے ہونے کا پتا دیتا تھا۔ اس جسم سےحقیقی ورثا سے ملنے والا ہر نشان مٹایا گیا۔ یہ سلسلا کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔
گل حسن کلمتی اس اغوا کے خلاف مزاحمت کا نام تھا، احتجاج کا نام تھا، غصے کا نام تھا اور سب جانتے ہیں کہ مزاحمت کی آنچ دھیمی ہوتی ہے لیکن بجھتی نہیں ہے۔ احتجاج سکرات سے پھر جوانی کی جانب لوٹتا ہے ا±سے موت نہیں آتی، غصے کا جسم ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ اس لیے گل حسن کلمتی آج بھی زندہ ہے۔
گل حسن کی دوسری کتاب کا نام سندھو جی سفر کہانڑی ہے، جو صنف کے لحاظ سے سفرنامہ ہے۔ یہ کتاب رضا علی عابدی کی زبانی بی بی سی کے پروگرام پر مشتمل ہے، رضا علی عابدی بی بی سی پر قسط وار سندھو دریا اور سندھو تہذیب کی کہانی سناتے تھے اور گل حسن کلمتی ریڈیو سامنے رکھ کر وہ قسط سندھی میں ترجمہ کرتے۔ رضا علی عابدی کی یہ کتاب اردو زبان میں شیر دریا اور گل حسن کا سندھی ترجمہ سندھو جی سفر کہانڑی کے نام سے شایع ہوئی۔
گل حسن کلمتی کی تیسری کتاب کراچی سندھ جی ماروی ہے جو پہلی بار 2007ع اور دوسری بار 2014ع میں شایع ہوئی۔ اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ڈاکٹر امجد سراج نے 2023 میں Glory Of The Eastکے نام سے کیا۔ یہ ضخیم کتاب کراچی کی تاریخ پر مشتمل ہے، رٹھل شہر کی کہانڑی کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ رسول بخش پلیجو نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا میں لوگوں سے بہت کم متاثر ہوتا ہوں لیکن پہلی بار شاہ لطیف اور اس کتاب کو پڑھنے کے بعد گل حسن کلمتی سے متاثر ہوا ہوں۔۔ اس کتاب میں بیان کی گئی کچھ باتوں سے مجھ سمیت کئی لوگوں کو اختلاف ہے، سائنس و تحقیق میں اختلاف کی گنجائش تو رہتی ہے، اس لئے ہم سنگت کی رائے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ لیکن سنگت گل حسن کلمتی کے کردار کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں اور کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے جو بہتر اور سچ سمجھا وہ تحریر کیا، محبت و سچائی سے لکھا۔ پروفیسر ڈاکٹر رخمان گل پالاری نے کیا خوب کہا کہ گل حسن کلمتی کی کتاب کراچی سندھ جی ماروی ہمارا شناختی کارڈ ہے۔
گل حسن کلمتی کی دیگر شایع شدہ کتابوں میں عشق جوں گلیوں (مجموعہ مضامین) کراچی جا لافانی کردار (شخصیات)، سندھ جا سامونڈی بیٹ (تاریخ و جفرافیہ) کراچی: انگریز دور جوں عمارتوں (تاریخ) سسی جی واٹ ( کیچ کی جانب سسی کے سفر کی روداد) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گل حسن کلمتی نے ملیر کی زراعت، ملیر میں ہائوسنگ پروجیکٹس کے بارے میں کتابچے بھی لکھے۔ گل حسن کلمتی نے 2004 میں شہید ہونے والے ملیر کے عوامی ایم پی اے شہید عبداللہ مراد کی شخصیت پر ایک کتاب مرتب کیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*