1984

جارج آرویل کا ناول”1984″دنیا کے مشہور ترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ادب،سیاست ،سماجیات اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی فرد اس سے بے خبر ہو۔ اس ناول کا پلاٹ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی ممکنہ صورتحال پر مبنی ہے جسے ایک مغربی جمہوریت پسند ادیب نے ایک مخصوص تنقیدی نکتہ نظر سے تخلیق کیا ہے۔یہ تخلیق دراصل جارج آرویل کے ایک ڈسٹوپیا پر مبنی ہے جس میں وہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ اگر ون پارٹی سسٹم کا تجربہ کامیاب ہوگیا تو صورتحال کیسی ہوسکتی ہے۔ہم جارج آرویل کے مبالغہ آمیز مفروضے پر مبنی تخیل سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن کہیں کہیں یہ ناول ہمیں تیسری دنیا میں آمریت کی گود میں پلتی نحیف و نزار جمہوریتوں سے متعلق آج کی کہانی سناتا بھی نظر آتا ہے۔میرے نزدیک ناول وہ اہم ترین اور متاثرکن صنف ہےجس کا قاری اگر متن،کہانی یا کسی کردار سے اپنا تعلق جوڑ لے تو اس سے نکلنا یا بچنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ 1984 کے ڈسٹوپیائی پلاٹ نے مجھے ایسا متاثر کیا کہ میں متن میں چھپے معنوں کی تلاش میں سرگرداں رہی۔
1984جارج آرویل نے 1948 میں لکھا تھا اور اس نے 48 کو 84 میں بدل کر اس کا نام رکھ دیا۔ناول نگارنے ایک ایسی دنیا کا نقشہ کھینچا ہے جس میں تین طرح کے ریاستی یونٹس ہیں جو ہر وقت جنگی صورتحال میں رہتی ہیں۔ یہ جنگ کیوں جاری ہے اس کی اصل وجہ کسی کو معلوم نہیں۔عالمی نقشے میں دکھائے گئے متنازعہ علاقوں پر قبضہ گیری ہی دراصل اس جنگی صورتحال کی ایک وجہ بھی ہے۔ناول کاہیرو برطانیہ اور امریکہ کے علاقوں پر مبنی سب سے بڑی ریاست اوشیانا کا باسی ہے اورلندن کا رہائشی ہے۔اوشیانا میں قائم جو طرز حکومت قائم ہے اسے انگساک کہا جاتا ہے جو کہ انگلش سوشلزم سے بنایا گیا ہے۔حکومت کو دی پارٹی کہا جاتا ہے جس کا نگران بگ برادر ہے۔بگ برادر کی تصویریں ہر جگہ اس اطلاع کے ساتھ آویزاں ہیں کہ "بڑا بھائی تمہیں دیکھ رہا ہے”۔
اوشیانامیں جگہ جگہ نصب ٹیلی سکرینز اور مائیکروفون چہروں کے تاثرات اور دل کی دھڑکنوں تک کو ہر وقت مانیٹر کررہے ہوتے ہیں۔اس ریاست میں دوست بنانے اوربلاوجہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حتٰی کہ دوسرے شہر آمد و رفت کے لیے بھی حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔مر د اور عورت کے باہمی تعلق کے بجائے افراد کا مجرد رہناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہاں یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ شہری جب آپس میں بات کرتے ہیں تو صرف پارٹی اور بگ برادر کی تعریف یا اس سے اپنی محبت کا اظہار ان کی اولین ترجیح ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہر وقت مانیٹر کیے جانے کا احساس آج کے دور میں ہرکسی کو ہے۔ آج فون، سوشل میڈیا اور ای میل پر مشتمل آڈیو وڈیو ڈیٹا کے ریکارڈر کے ذریعے لوگوں کی سرگرمیوں پرنگاہ رکھنا کچھ مشکل نہیں۔شاید اسی لیے میلان کنڈیرا نے اپنے ناول میں کہا ہے کہ پرانے انسان کی نگرانی خدا کرتا تھا اور آج جدید انسان کی نگرانی پر کیمروں کو فائز کیا گیا ہے۔
1984 کا بگ برادر شہریوں کی زندگی میں ہر طرح سے ملوث ہے۔یہاں تک کہ ان کی ذاتی زندگی بھی سرکار کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ناول کا مرکزی کردار ونسٹن سمتھ ناول کے آغاز میں ہی ریاست سے بغاوت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے روزمرہ کے معاملات کے اندراج کے لیے سیکورٹی کیمروں سے بچ کر ایک ڈائری خریدتا ہے تاکہ "پارٹی”کے اقدامات پر اپنی بھڑاس نکال سکے۔یہاں سمتھ کے احساسات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے دوستوفسکی کے ناول "جرم و سزا”کے ہیرو راسکولینکو (Raskolnikov)کے قتل کے بعد تھے۔ونسٹن سمتھ بھی سخت احساس گناہ کا شکار ہے لیکن زیادہ دلچسپ منظر اس کے بعد کا ہے جب وہ گھر میں موجود ٹیلی سکرین سے چھپ کر ڈائری میں کچھ لکھنا چاہتا ہے تو اسے یاد آتا ہے کہ وہ لکھنا بھول چکا ہے کیونکہ ایک مدت سے اسے کبھی کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ لیکن کچھ کوشش کے بعد وہ لکھنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن خوفزدہ ہے۔ونسٹن کی یہ جھجک اس لیے بھی ہے کہ ریاست ایک نئی زبان تشکیل دے رہی ہے جسے وہ نیو سپیک(New speak)کا نام دیتی ہے۔اس نئی زبان کا مقصد پہلے سے موجود زائد الفاظ کو ترک کرنا ہے تاکہ الفاظ کی Vocabulary کو محدود کردیا جائے اور ذومعانی یا کثیر معانی الفاظ کو متروک کیا جاسکے اور ایک واضح اور صاف زبان بولی جائے۔اس ڈسٹوپیا میں بھی حملہ آور اپنے قدم جمانے کے لیے پہلا حملہ زبان پر ہی کرتا ہے۔پارٹی کی پالیسی یہی ہے کہ وہی بولا جائے جو وہ سننا چاہتی ہے۔
ونسٹن سمتھtruth of Ministry میں کام کرتا ہے۔ناول نگار نے اداروں کا نام تخلیق کرتے ہوئے پیراڈوکس کا استعمال کیا ہے جو نہایت دلچسپ ہے جیسے محکمہ صداقتدرحقیقت یہ تاریخی حقائق میں ردو بدل کا کام کرتا ہے،محکمہ محبت)(Ministry of Love) مجرموں کو سزا دینے کا ادارہ ہے، joy campقید با مشقت ہے اورMinistry of
peaceجنگ کے سدباب کا ادارہ ہے۔محکمہ صداقت جہاں ونسٹن کام کرتا ہے ریاست کے تاریخی ریکارڈ کی تصحیح اور Updatingکا کام ہے۔جیسے فرض کریں کہ اگر روزمرہ کی کوئی شے مہنگی کرنی ہے تو اس کی قیمت کا اندراج پچھلے تمام ریکارڈز میں زیادہ کردیا جاتا ہے اور یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ وہ شے سستی ہوگئی ہے۔یعنی ریاست چاہتی ہے کہ تاریخ میں کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہ ہو جو ان کے خلاف جاتا ہو۔ اسی لیے وہ اپنے ہر فیصلے کے ساتھ ماضی کے ریکارڈ کو بھی اپنے مطابق درست کرتی جاتی ہے۔اس پہلو کو تو ہم بھی بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہماری نصابی کتابیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی چلی جاتی ہیں۔بڑے واقعات غائب ہوجاتے ہیں۔عظیم ہستیوں کے ریکارڈ کو مٹادیا گیا ہے اور صرف جنگی ترانے محفوظ رہتے ہیں۔
ونسٹن سمتھ کی دوسری بغاوت یہ ہے کہ وہ ایک لڑکی جولیا سے محبت کر بیٹھاہے اور ٹیلی اسکرین اور مائیکروفون سے بچ کر اس سے ملاقاتیں کرتا ہے۔وہ اپنی اس محبوبہ سے ملنے کے لیے ایک کمرا بھی کرایے پر لیتا ہے۔سمتھ کی یہ بغاوتیں اور ایک عورت سے محبت اس کے اعتماد کو مزید پختہ کردیتی ہیں۔وہ اپنے سوالوں پر بھروسہ اور پارٹی پر مزید شک کرنے لگ جاتا ہے کہ اوشیانا کے کچھ علاقوں میں ہر وقت جنگ کی صورتحال کیوں رہتی ہے؟کون وہاں پر بم گراتا ہے؟اور اس ریاست کا اصل دشمن کون ہے؟ایک عرصے تک جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ اوشیانا کا دشمن یوریشیا ہے لیکن وہاں ایک دن اچانک اعلان کر دیا جاتا ہے کہ دشمن یوریشیا نہیں ایسٹ ایشیا ہے اور ساری عوام ایسٹ ایشیا کے خلاف نعرے لگانے لگی۔سمتھ کا کام چونکہ تاریخی حقائق کی درستی ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ دشمن ممالک بدلتے رہے ہیں اور یہ کہ جو آج دشمن نظر آرہے ہیں وہ کبھی دوست تھے اور جو دوست ہیں وہ کبھی بھی دشمن بن سکتے ہیں۔
سمتھ اپنے دفتر میں ایک شخص کو پسند کرتا ہے جس کا نام اوبرائن ہے جو پارٹی کے قریبی حلقے سے تعلق رکھتا ہے۔ سمتھ کو لگتا ہے کہ وہ اوبرائن سے اپنے دل کی بات کرسکتا ہے۔ یعنی وہ پارٹی کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار اور اپنے سوال اس کے سامنے پیش کرسکتا ہے کیونکہ یہ بات بھی عام ہے کہ پارٹی کے خلاف کچھ باغی ہر وقت سرگرم رہتے ہیں،سمتھ ان میں شامل ہونا چاہتا ہے۔سمتھ کی محبوبہ جولیا اسے مشورہ دیتی ہے کہ وہ اوبرائن سے بات کرے کیونکہ اگر اسے یہ لگتا ہے کہ وہ باغی گروہ میں شامل ہے تو ممکن ہے ایسا ہی ہو۔وہ اور جولیا اوبرائن سے مل کر اسے اپنے خیالات سے آگاہ کردیتے ہیں۔اوبرائن باغی جماعت کی ایک کتاب اسمتھ کو مطالعے کے لیے دیتا ہے اور پھر اسے دوبارہ ملاقات کے لیے کہتا ہے۔لیکن جلد ہی جب سمتھ اپنے فلیٹ میں اس کا مطالعہ کررہا ہوتا ہے کہ اچانک فلیٹ کا دروازہ توڑ کر سمتھ اور جولیا کو گرفتار کرکے Ministry of Peaceمیں قید کردیا جاتا ہے۔ انہیں اس وقت تک ذہنی و جسمانی اذیت دی جاتی ہے جب تک وہ اس بات کا اقرار نہ کردے کہ دو جمع دو پانچ ہوتے ہیں۔اور سب سے آخر میں اس کے چہرے کو چوہوں والے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آخر کار وہ خوف کی حالت میں چیختے ہوئے کہتا ہے کہ یہ سزا مجھے نہیں جولیا کو دو۔ناول کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ اب سمتھ بگ برادر سے محبت کرتا ہے۔
1984ایک سیاسی ناول ہے اور ایک ڈسٹوپیا کے ذریعے سے مستقبل کے خدشات و امکانات کو دکھانے کی کوشش کرتاہے۔یہ پہلو بھی بہت واضح ہے کہ ناول نگار نے اپنے مقصد یا پیغام کی ترسیل کے لیے بلاشبہ جتنے بھی وسائل اختیار کیے ہیں ان میں کہیں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگرچہ اس پیغام کے پس منظر میں جو پروپیگنڈا ہے اس کا ہدف بھی نہایت آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہے۔سرمایہ دار ممالک جمہوریت کی جیت اور انسانی حقوق کے احترام کو وَن پارٹی سسٹم کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ الزام بادشاہت اور آمریت کی حامل حکومتوں پر کبھی نہیں لگایا گیا۔بادشاہت سے لے کر جمہوریت کے ارتقا تک مغربی جمہوریت پر بھی شدید تنقید ہوتی رہی ہے۔ لیکن ایک ایسی حکومت جو فاشسٹ اور آمرانہ رویوں کی حامل ہو وہ ہر حال میں عوام کی توہین تصور ہوتی ہے۔ اردو فکشن ابھی تک ایسے کسی بڑے سیاسی ناول کا منتظر ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*