عہدِ حسیں کی صورت

حضرت ابو ذر غفاری اور حبیب جالب صاحب کے نام کچھ دنوں سے مسلسل میرے ذہن پر چھائے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ علی سردار جعفری صاحب کی کہی ہوئی ایک بات ہے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”حبیب جالب جس شہرت اور مقبولیت کے مستحق ہیں وہ انہیں ملی لیکن ان کا مقدر تنہائی ہے البتہ میں اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتا“۔ جعفری صاحب نے وضاحت نہ کرنے کا کہہ کر دراصل سب کچھ واضح کردیا۔

حضرت ابو ذر غفاری تو تنہا جیئے اور جب اس جہان سے رخصت ہوئے توایک ویران وادی میں فقط ان کی اہلیہ ان کے ساتھ تھیں۔لیکن حبیب جالب تو پر ہجوم شہروں میں بے شمار ساتھیوں اور لاتعداد چاہنے والوں کے درمیان جیئے اور ان کے درمیان فوت ہوئے۔تو پھر علی سردار جعفری صاحب نے ان کا مقدر تنہائی کو کیوں بتایا؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے شاید ہمیں پہلے تنہائی کو جاننا پڑے گا۔ تنہائی ایک تو اُسی قسم کی ہوتی ہے جسے ہم عموماً تنہائی کہتے ہیں یعنی دوست نہ ہونا، ساتھی نہ ہونا، پیار کرنے والا نہ ہونا۔ لیکن جس طرح کی تنہائی حبیب جالب صاحب کا مقدر ہوئی وہ اُس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے نظریے، آدرش، اور کمٹمنٹ کے ساتھ سوفی صد سچا ہو۔ اور اتنا سچا کہ کوئی دوسرا اُس حد تک نہ پہنچ سکے۔ ایسا انسان جب کسی راہ پر چل نکلتا ہے تو اُس کے ساتھ سفر آغاز کرنے والے اپنی اپنی ہمت اور برداشت کے مطابق کسی نہ کسی منزل پر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں یا اگر ساتھ ہوتے بھی ہیں تو فقط واہ واہ کرنے، حوصلہ افزائی کرنے اور بڑھاوا دینے کی حد تک۔ جب آزمائشوں کا لاوا ایسے آدمی کو گھیرلیتا ہے تو پھر تنہائی مقدر ہوتی ہے۔ دھکتے لاوے میں تن تنہا جلنا پڑتا ہے۔

یہ ندیمِ یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے(فیضؔ)۔

حبیب جالب سراپا شاعر تھا، حبیب جالب سراپا مزاحمت تھا، گفتار میں بھی عمل میں بھی، سماجی معاشی عدم مساوات کے خلاف، بھوک اور افلاس کے خلاف، جبر کے خلاف، نا انصافی کے خلاف وہ باغی تھا معاشرے کے خود ساختہ خداؤں کا۔

جالب کو بہ حیثیت شاعر اور بہ حیثیت مزاحمت کار الگ الگ کر کے دیکھنا اور سمجھنا مشکل ہے اور غلط بھی۔ سوچ اور عمل کی یہی یکتائی انہیں یکتا اور تنہا بنادیتی ہے۔ اپنے آدرش سے ایک فی صد بھی نہ ہٹنے والے لوگوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے۔ لالچ، دھونس، دھمکی، دھوکہ، قیدوبند، لاٹھی چارج، بدنامی جیسے ہر داؤ کے سامنے ایستادہ رہنے والے شاعر ادیب، ادب کی تاریخ میں کتنے ملتے ہیں اور جالب کی سطح پر توشاید یہی کوئی مثال میسر ہو۔ہاں البتہ ایک مثال جو میرے ذہن میں ہے وہ بلوچستان کے ہفت زبان شاعر مُلا مزار بنگلزئی کی ہے جو اپنے نام کی طرح شیر ثابت ہوا۔

جالب ہونا مشکل کیوں ہے؟۔ ہم سوچ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ جب کسی افلاس زدہ شخص کو ذرا سی منافقت کے بدلے زندگی کی ہر سہولت ملنے کا یقین ہو لیکن وہ نہ لڑ کھڑائے۔ رہنے کو گھر نہ ہو بیوی بچوں کو کھانے پینے اور پہننے کو کچھ مناسب نہ ملتا ہو۔ بیماری کی صورت میں علاج کروانے کی سکت نہ ہو، اولاد کو روز گار نہ مل رہا ہو، بچیوں کی شادیوں کے لیے پیسہ نہ ہو، بے علاج مرنے والے بچے کے سوئم کے دن گرفتاری ہو اور انسان تب بھی نہ جھکے تو پھر وہ انسان حبیب جالب کہلاتا ہے۔ ہر عہد کے خدا سے ٹکرانے، ہر وحشی پر حرفِ حق برسانے والا شخص تنہا ہوتا ہے یعنی جالب ہوتا ہے۔ دیومالائی کرداروں کی طرح محیرا لعقول شخص جس کے کھرے پن پر شاید یقین ہی نہ آتا اگر کئی ادوار، اور ان گنت لوگ گواہ نہ ہوتے۔ کیا کوئی اپنی کمٹمنٹ سے اتنا مخلص بھی ہوتا ہے جب کہ یہ کمٹمنٹ پسے ہوئے دبے ہوئے لوگوں سے ہو۔ اور بات اور عمل اُن طبقات کے خلاف کرنا ہو کہ جن کے نزدیک خود اُن کے علاوہ باقی مخلوق اتنی بھی اہمیت نہ رکھتی ہو جتنی جانوروں میں کیڑے مکوڑے۔

یکتائی کے حوالے سے خود جالب کا وہ جملہ یادگار ہے کہ جب کسی نے جالب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضیا کے خلاف تحریک میں جالب صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے تو جالب نے کہا تھا کہ میں ”بھی“ نہیں تھا بلکہ میں ”ہی‘‘ تھا۔

اب ایک اور بات جو کئی ذہنوں میں آتی ہے کہ جالب جو کچھ کرتا تھا یعنی ہر آمر، ہر ظالم، ہر غلط قیادت سے ٹکرا تا تھا تو آخر کیوں؟۔پیسے کے لیے تو ہر گز نہیں کیوں کہ اس کی زندگی اور اس کے اہلِ خانہ کی حالت اس چیز کی گواہ ہے۔

دوسری بات شہرت کے لیے؟۔ تویہ بھی غلط ہے۔ کیوں کہ اوّل تو وہ اس وقت بھی خاصے مشہور تھے جب وہ روایتی عاشقانہ شاعری کر رہے تھے دوسرے یہ کہ شہرت کے لیے اس طرح کا ”ایڈونچر“ ایک آدھ بار کر کے بعد میں دھیمے سروں میں ”اعلائے کلمتہ الحق“ کیا جاسکتا تھا۔ شہرت کو کیش کروا کے بہتر لائف سٹائل حاصل ہوسکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کے بچوں پر پولیس تشدد ہوتادیکھ کر سڑک پر ہی زارو قطار رونا شروع کر دے وہ اتنا کٹھور کیسے ہوگا کہ محض شہرت کے لیے تمام عمر اپنے بچوں کو فاقے کرتے اور بے علاج مرتے ہوئے دیکھے گا۔

جالب پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ تخلیقی اور فن کارانہ سطح پر کم زور شاعر تھا اس لیے اس نے احتجاج، مزاحمت اور نظریے کا سہارا لیا (یہی الزام اکثر ترقی پسند لکھنے والوں پر لگایا جاتا ہے)۔

اس بارے میں یہی کیا جاسکتا ہے کہ بات دراصل اُلٹ ہے۔ حبیب جالب کی شاعری کی پرکھ بہ طور ”شاعری“ اسی لیے زیادہ نہیں کی گئی کیوں کہ اُن کے احتجاجی کردار پر لوگوں کی توجہ زیادہ رہی۔ اگر چہ بقول پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی لکھنے والا بہر حال ترقی پسند ہی ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم جالب کی غیر مزاحمتی اور ”’غیر ترقی پسند شاعری“ کو دیکھیں تو بھی وہ ہمیں ایک اہم درجے پر ملتے ہیں۔ جالب صاحب نے کبھی عالم فاضل، اور منفرد نظر آنے کے لیے اجنبی، غیر مانوس موضوعات اور غیر ضروری ”کاریگرانہ“ داؤ پیچ سے کام نہیں لیا۔ اگر چہ صرف شعری محاسن پر دسترس سے اچھی شاعری وجود میں نہیں آتی بلکہ امداد ؔاثر نے تو اسے ڈھکو سلہ کہا ہے لیکن صناعی بھی شعر کے حُسن میں حصہ رکھتی ہے اور جالب صاحب کے ہاں صنائع وبدائع کا استعمال نہ صرف موجود ہے بلکہ کمال ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ چونکہ انہیں گفتگو ”عوام“ سے تھی اور نشانہ ”خواص“ تھے اس لیے انہوں نے زیادہ توجہ خیال وفکر اور ان کی ترسیل پر دی۔ ورنہ ان کا شاید ہی کوئی شعر ہوکہ جس میں قواعد کی پابندی نہ ہو ان کے ہاں رمزیت، ایمائیت اور مختلف شعری صنفوں کا استعمال ہمیں ملتا ہے۔ الفاظ کی بازیگری سے سجے اشعار ہمیں اس شاعر کے ہاں بھی ملتے ہیں جوکہ براہِ راست عوام کی سمجھ میں آنے والی زبان میں شعر کہتا تھا (ویسے یہ عوام اور خواص کی ترکیب بذاتِ خود ایک دل آزار لطیفہ ہے)

جالب کی ایک غزل کے یہ اشعار پڑھیے اور الفاظ کے استعمال کی فن کارانہ چابکدستی کی مثال جانیے

جیون کا ہر اک پل ہمیں بے آس مِلا ہے

ہم رام نہ تھے کیوں ہمیں بن باس مِلا ہے

جس چاند کو دیکھا وہ بجز داغ نہ تھا کچھ

جو پھول ملا ہے ہمیں بن باس ملا ہے

ساقی تو بجھا پائے گا نہ پیاس ہماری

ساغرہی نہیں خم بھی ترا پیاس ملا ہے

ان اشعار میں ایک جیسی ترتیب میں ڈھلے ایک ہی قسم کے حروف سے بنی دو مختلف تراکیب کا کیا خوب استعمال ہے یعنی بَن باس اور بِن باس۔ اسی طرح قافیہ اور ردیف کے الفاظ مِلا کر ترکیب بنانا یعنی ”پیاس مِلا“ اگر کسی غیر جالب“ شاعرنے کیے ہوتے تو ”خواصِ ادب“ داد کے ڈونگروں کی برسات کر دیتے۔

حبیب جالب کے کچھ اور اشعار دیکھیے کہ جن کو باہمی انسانی روابط سماجی رویوں اور ذاتی قلبی واردات کے حوالے سے دیکھا جائے تو حُسن کاری کی کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔

اُن کے آنے کے بعد بھی جالب

دیر تک اُن کا انتظار رہا

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

اُن کی دانست پہ آتی ہے ہنسی

جو ہماری بھی دعا چاہتے ہیں

کہیں سلاسلِ تسبیح اور کہیں زنّار

بچھے ہیں دام بہت مدعا کے رستے میں

جالبؔ تمام عمر ہمیں یہ گماں رہا

اُس زلف کے خیال سے آزاد ہم ہوئے

اب زلف کو زنجیر سے تشبیہ دینا شاعری میں عام سی بات ہے لیکن زنجیر کا ذکر کیے بغیر زلف کی قید کی بات کرنا اور اس سے آزاد ہونے کے خیال کو تمام عمر گماں خیال کرنا کیا کمال کی حسیت نگاری ہے۔ ذہن ایک دم غالب کی طرف جاتا ہے۔

قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

ہاں کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا

اگر مرصع غزل کی مثال ڈھونڈنی ہوتو جالب صاحب کی یہ غزل پڑھیے جس کا مطلع اور مقطع یہ ہیں

پھر دل سے آرہی ہے صدا، اُس گلی میں چل

شاید ملے غزل کا پتا، اُس گلی میں چل

جالبؔ پکارتی ہیں وہ شعلہ نوائیاں

یہ سرد رُت، یہ سرد ہوا، اُس گلی میں چل

حبیب جالب صاحب کی شخصیت میں ہر آدمی کی طرح یقینا کمیاں بھی ہونگی، کچھ عیب بھی ہونگے۔ اسی طرح اُن کا فن بھی عیوب سے مبرّا نہیں ہوگا۔ اُن کے عمل میں بھی کمزوریاں ہونگی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اُن کے فن، اُن کے عمل اور اُن کی شخصیت میں کونسا پہلو حاوی ہے۔ خیر کا یاشر۔ کا اور جالب کے فن، عمل، کردار میں سب سے حاوی پہلو خیر کا تھا۔ اتنا زیادہ کہ باقی پہلو اگر ہوں گے بھی تو غیر اہم ہوگئے ہیں۔لفظ قربانی یعنی Sacrificeاگر اپنے درست معنوں میں سمجھ آتا ہے تو جالب کی زندگی کو دیکھ کر اور اُس کی شاعری پڑھ کر۔ جن مقاصد کے لیے اُنہوں نے تکلیفیں، دکھ، آزار برداشت کیے اُنہیں یقین تھا کہ وہ جنت وہ دنیا کبھی نہ کبھی وجود میں آئے گی۔ اور ضرور آئے گی۔

میں ضرور آؤں گا اک عہدِ حسیں کی صورت

دُکھ میں ڈوبے ہوئے دِن رات گزر جائیں گے

کوئی تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے گا ہمیں

پیار کے رنگ ہر اک سمت بکھر جائیں گے

پیار اُگائے گی نگاہوں کو سکوں بخشے گی

یہ زمیں خلدِ بریں کی صورت

میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*