ترقی پسند ادب اور اکیسویں صدی

” حضرات ، 31 دسمبر 1999کی آدھی رات گزر چکی ہے . پرانا دستور نئے دستور کے لیے جگہ چھوڑ رہا ہے . افلاس اور بیکاری ، قومی اور ملکی حد بندیاں ، جھوٹے عقیدے اور جھوٹے گھمنڈ ، سماج کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دینے والے مختلف فرقے ، مختلف طبقے اور مختلف حکومتیں ، غرض کہ جہالت ، ظلم اور فساد کی تمام رسمیں دنیا سے جا رہی ہیں . نئی صدی کی پہلی پو پھٹ رہی ہے . زندگی اور ادب صحت کی انگڑائی لے کر اٹھ رہے ہیں . جن خطروں کی بدولت زندگی اور ادب کو خون کے گھونٹ پینا پڑ رہا تھا وہ ختم ہو چکے ہیں اور ان کے تلخ تجربات نئی تہذیب اور نئے ادب کے خوشگوار جز بن گئے ہیں . کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندگی کیا ہو گی اور وہ ادب کیسا ہو گا . لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت کی زندگی اور اس وقت کا ادب بھی گزشتہ زندگی اور گزشتہ ادب کے صرف بدلے ہوئے بھیس ہوں گے .وہ لوگ بڑے دھوکے میں ہیں ”
(مجنوں گورکھپوری .ادب اور زندگی . ص205)

مجنون گورکھ پوری نے نصف صدی سے بھی پہلے یہ خوش کن پشین گوئی کی تھی کہ اکیسویں صدی میں انسانی سماج کوتقریباً درپیش بیشتر مسائل اور مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا . اور انسان ایک بہتر ماحول میں بہتر زندگی گذارے گا . لیکن آج صورتحال مجنوں گورکھپوری کے اندازے اور پشین گوئی کے بالکل بر عکس ہے . پوری دنیا اور بالخصوص ترقی پزیر ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کنٹرول میں ہیں . جس سے انسانوں کی ایک کثیر آبادی بھوک اور افلاس میں اضافہ ہوا ہے . ان کا مستقبل اندیشوں ، خوف اور وسوسوں کی زد میں ہے . ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی معاشی پیدا وار میں نمایاں اضافے کے باوجود عوام کی معاشی حالت میں کوئی واضح بہتری نہیں ہوئی ہے . انہیں بے روزگاری ، مہنگائی اور رہائشی مشکلات کا سامنا ہے . قومی اور ملکی حد بندیاں ختم نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوا ہے . ایک ملک کئی ممالک اور ایک قوم کئی قوموں میں تقسیم ہوکر باہم دست و گریبان ہیں . مذہبی منافرت اور مذہبی شدت پسندی اور جنون میں اضافہ ہوا ہے .ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہالت ، ظلم اور فساد کی تمام رسمیں دوبارہ زندہ کی جا رہی ہیں .
نئی صدی کی پو پھٹ چکی ہے . لیکن انسان کے دکھوں ، مایوسی اور خوف میں اضافہ ہوا ہے .اقتصادی بد حالی اور تباہی سے لے کر نیو کلیئر ہتھیاروں اور ایٹمی جنگ تک کا خوف ۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے دنیا میں کمیونسٹ اقتصادیات کے آغاز اور فروغ نے دلوں میں جو یہ امید بلکہ یقین پیدا کر دی تھی کہ اکیسویں صدی کے آتے آتے دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام رخصت ہو جائے گا .اس یقین کو ، مارکس کے اس تاریخی شواھد کے مطالعہ کی بنیاد پر حاصل شدہ نتائج کو عقیدے کا روپ دینے نے بھی ، مستحکم کیا . جس کی رو سے غلام دار سماج سے جاگیر دارانہ سماج اور جاگیر دارانہ سماج کے بطن سے سرمایہ دارانہ سماج کی تشکیل ہوئی ہے . مارکس نے جس محنت اور ریاضت سے تاریخ کے ارتقاءاور معاشی معاشرتی تشکیلات کے اصول دریافت کیے انہیں اتنی ہی آسانی اور عقیدت پر مبنی سادگی کے ساتھ ، مارکسی سائنس کے نام پر Dogma میں تبدیل کر کے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا گویا یہ سماجی سائنس کی بجائے Science Exact یا فطری سائنس کے اصول ہیں . جنہیں ہر حال میں اسی طرح وقوع پزیر ہونا ہے۔ جس طرح مارکس نے بیان کیا ہے . اس ضمن میں وہ تاریخ کی تشکیل میں انسان کی شعوری طبقاتی جدوجہد (جسے تاریخ میں فرد کے رول سے موسوم کیا جاتا ہے )۔ مزدوروں کی root Grass سیاسی جماعت اور اس سے بڑھ کر اپنے دور کے اقتصادی ، سماجی و سیاسی حالات اور مظاہر کا طبقاتی تناظر میں گہرا سائنسی اور معروضی مطالعہ اور تجزیہ ، اور اس کے مطابق مزدور طبقہ کی سیاست کے رخ کا تعین . جو غالباً سب سے زیادہ مشکل اور محنت طلب کام ہے ، کو نظر انداز کر گئے ۔
تاریخی عمل میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور تاریخ کو اپنی منشاء اور خواہش کے مطابق رخ دینے کے لیے حالات کا ٹھیک ٹھیک طبقاتی معروضی تجزیہ کے بغیر عمل سعی رائیگاں کے سوا اور کچھ نہیں ہے . کیونکہ اس حال میں نتائج توقعات اور خواہشات کے بالکل بر عکس نکلتے ہیں ۔ اینگلز یوٹوپیائی سوشلسٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں . جس کا اطلاق ہمارے ملک کے بیشتر مارکسسٹوں پر بھی ہوتا ہے .
” ان سب کے نزدیک سوشلزم مطلق صداقت ، عقل اور عدل کا مظہر ہے .بس ایک دفعہ سوشلزم کے دریافت ہونے کی دیر ہے پھر وہ خود ہی اپنی طاقت کے بل پر تمام دنیا کو مسخر کر لے گا ” .
اب صورتحال یہ ہے کہ سوشلزم نے دنیا کو مسخر نہیں کیا . بلکہ 1917سے 1990تک وجود پذیر ہونے والی ریاستیں ، ایک دو ریاستوں کو چھوڑ کر ، تحلیل ہو گئی ہیں . کیا اس سے فوکو یاما کا اختتام تاریخ کا تصور درست ہے ؟۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ طرز زندگی یعنی سرمایہ دارانہ معاشی معاشرتی تشکیل ابدی حقیقت ہے ؟ طبقات ، مقابلہ ،اجارہ داری زندگی کی فطری اور لازمی بنیادیں ہیں ؟ اور یہ کہ ایسے سماج کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے ” جس میں لوگ بورژوا نہ رہیں ” ؟۔ اسے آپ میری ظفلانہ رجائیت پسندی سمجھ لیجئے یا مارکسی فلسفہ سے ذہنی وابستگی کا نام دیجئے کہ میں سرمایہ دارانہ نظام اور طرز زندگی کو مطلق اور ابدی نہیں سمجھتا کہ ” جدلیاتی فلسفہ مختتم اور مطلق سچائی کے تمام نظریات اور اس سے مطابقت رکھنے والی انسانیت کی ساری مطلق حالتوں کے تصورات کو ختم کر دیتا ہے .جدلیاتی فلسفہ کے لیے کچھ بھی مختتم ، قطعی اور مقدس نہیں ہے . وہ ہر چیز میں اور ہر چیز پر لازمی زوال کی چھاپ دیکھتا ہے .ہستی اور نیستی کے متواتر عمل ، نیچے سے اوپر کی طرف بلند ہونے کے لا محدود عمل کے سوا اور کوئی چیز اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی ”
اس وقت پوری دنیا پر عالمی سرمایہ کی بلا شرکت غیرے حکومت کے باوجود اس زمین پر انسانی زندگی زیادہ تکلیف دہ ، مسائل و پریشانیوں سے پر اور بد صورت ہوتی جا رہی ہے . امریکہ اور ترقی یافتہ یورپین ممالک کو پوری دنیا کے ماڈل کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا ہے . ترقی پذیر ممالک کے عوام ایک مستقل بے چینی کا شکار ہیں . یہ بے چینی کوریا و ملیشیا سے لے کر پاکستان تک ہر جگہ نظر آئے گی . جہاں تک افریقی ممالک کا تعلق ہے تو وہاں اقتصادی بدحالی کے علاوہ قیام امن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے .بقول شخصے ہم ایک ڈری اور سہمی دنیا میں جی رہے ہیں . جسے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی جنگ سے لے کر کسی بھی لمحے دنیا کے کسی بھی اسٹاک ایکسچینج کے کریش ہونے کا خوف لاحق ہے . یہ دنیا سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد مکمل طور پر عدم توازن کا شکار ہے . سرمایہ دارانہ نظام جس نے اپنے آغاز کے زمانے میں آزادی کا مژدہ سنایا تھا اور اس تصور کو فروغ دیا تھا کہ دولت اور آسائش کا حصول سب کے لیے آزادانہ مسرت کا باعث ہو گا . بالآخر ایک خاص طبقے کی آزادی ، مسرت اور کامرانیوں کی صورت میں ظاہر ہوا . اور یہ طبقہ بلا شرکت غیرے تمام آزادی ، مسرت اور کامرانیوں کا حق دار ٹھہرا . مارکسزم نے اس صورتحال کی تبدیلی کی امید بندھائی تھی . سوویت یونین اور سوشلسٹ بلاک کی موجودگی نے اس امید کو یقین کے مرحلے تک پہنچا دیا تھا . اور یہ خیال ذہنوں میں راسخ ہو گیا تھا کہ اکیسویں صدی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی زوال اور سوشلسٹ اکانومی کے عروج کا زمانہ ہو گا . مجنوں گورکھپوری کے الفاظ اسی خیال کا بازگشت ہیں .
ابھی تک ہم نے مجنوں گورکھپوری کے دیئے اقتباس کے صرف ایک حصے پر نظر ڈالی ہے . جو سماج کی اقتصادی سیاسی اور تہذیبی صورتحال سے متعلق تھی .اسے ہم نظری یا نظریاتی کہہ سکتے ہیں .دوسرا حصہ ادب سے متعلق ہے . ان کے الفاظ میں ” کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندگی کیا ہوگی اور ادب کیسا ہوگا . لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس وقت کی زندگی اور اس وقت کا ادب بھی گزشتہ زندگی اور گزشتہ ادب کے صرف بدلے ہوئے بھیس ہوں گے وہ بڑے دھوکے میں ہیں ” ۔ مجنوں کا یہ تصور ادب اور زندگی اس مفروضہ خیال پر ہے . جس کے مطابق ” جن خطروں کی بدولت ادب کو خون کے گھونٹ پینا پڑ رہا تھا . وہ ختم ہو چکے ہیں اور ان کے تلخ تجربات نئی تہذیب اور نئے ادب کے خوشگوار جزو بن گئے ہیں ” . لیکن ظاہر ہے یہ مفروضہ صرف مفروضہ ہی ثابت ہوا . وہ خطرے ختم نہیں ہوئے بلکہ بڑھ گئے ہیں . جن کی بدولت زندگی اور ادب کو خون کا گھونٹ پینا پڑ رہا تھا . اس کے معنی یہ ہوئے کہ سماجی ، سیاسی ، تہذیبی اور معاشی حالات جوں کے توں ہیں .ان میں کسی نوعیت کی بنیادی کیفیتی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے .اس لیے 1936کی ترقی پسندی کا ادبی نظریہ آج بھی relevent ہے . اس استدلال میں جزوی سچائی کی موجودگی کے باوجود جو بے خبری پر مبنی سادگی ، تجزیئے اور نتائج اخذ کرنے کا مارکسزم کے روپ میں جو غیر مارکسی طریق کار اور رویہ کارفرما ہے . اس نے اردو ادب میں ترقی پسندی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے . مارکس اور اینگلز کے لئے سماج اور اس کے مختلف مظاہر اور تشکیلات اتنے سادہ کبھی نہیں رہے . اور نہ ہی مارکسزم اس قسم کی تساہلانہ جہالت پر مبنی سادگی کا متحمل ہو سکتا ہے . اینگلز ایک خط میں جوزف بلوخ کو لکھتے ہیں . ” بد قسمتی سے یہ اکثر ہوتا ہے کہ کسی نظریے کے خاص اصولوں کو سمجھ لینے کے بعد ( انہیں بھی ہمیشہ صحیح نہیں سمجھا جاتا ہے) لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اب ہم پورے عالم ہو گئے ہیں . اور اس لمحے سے زیادہ بکھیڑا مول لئے بغیر ، اسے استعمال میں لا سکتے ہیں . میں اس الزام سے زیادہ تر حالیہ مارکس وادیوں کو بری نہیں مان سکتا .کیونکہ یہاں بھی کافی فضولیات کی تخلیق ہوئی ہے ” .
اسی طرح فرانس مہرنگ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں .
” اس کے علاوہ اس کتاب ( داستان لیسنگ . از پاو¿ل بارتھ ) میں صرف ایک ہی بات کی کمی ہے .جس پر مارکس اور میں نے اپنی تحریروں میں کافی زور نہیں دیا .اور اس کے بارے میں ہم سب برابر کے قصور وار ہیں .کہنا یہ ہے کہ ہم سب نے پہلے سیاسی ، قانونی اور دوسرے نظریاتی تصورات کے ذریعے پیدا ہونے والے اقدامات کی تشریح پر ، معاشی واقعات کے پیش نظرہی خاص زور دیا ہے . اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہئے تھا . لیکن ایسا کرتے ہوئے ہم نے ‘ مواد کی خاطر ‘ ہیئت کے پہلو ‘ یعنی ان طریقوں اور ذریعوں کو نظر انداز کر دیا جن سے یہ تصورات وغیرہ پیدا ہوتے ہیں . اس کی وجہ سے ہمارے مخالفین کو غلط فہمیوں اور توڑ مروڑ کا اچھا موقع مل گیا ” .
مواد کی خاطر ہیئت کے پہلو کو نظر انداز کرنے کا عمل ، جو مارکس اور اینگلز کی بعض مجبوریوں کی وجہ سے تھا . ترقی پسندوں کے ادبی نظریہ میں بھی در آیا ۔ اس لئے تھیوری کی سطح پر شاندار مقاصد کے باوجود ادب اور آرٹ کے ڈسکورس میں ترقی پسندوں پر ادب اور آرٹ ، اس کی داخلی ساخت ،اس کی مختلف Categories کو غیر ادبی زاویہ سے دیکھنے کا الزام در آیا ۔ انہوں نے بلا شبہ مواد کی خاطر ہیئت کے پہلو کو ایک حد تک پس پشت ڈال دیا تھا جس سے ادب کی تخلیق اور تفہیم کا ایسا آسان اور سادہ کلیہ وجود میں آ گیا تھا جس نے مارکسی یا ترقی پسند ادبی نظریہ کے نام پر مارکس ازم کی جدلیاتی اور تخلیقی استعمال کی جہت کو خاصا نقصان پہنچایا . اور باقی کسر مخالفین نے توڑ مروڑ کر اور غلط فہمیوں کے ذریعے پوری کر دی . اس لیے سوویت یونین کے انہدام سے بہت پہلے (60 کی دہائی سے ) اردو میں ترقی پسند ادب سوالات کی زد میں تھا کہ اپنے relevant ہونے کا جواز پیش کرے ۔ بیسویں صدی کے خاتمے پر یہ سوال اور زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ اکیسویں صدی میں ترقی پسند ادب کا جواز کیا ہے .؟ کیا ترقی پسند ادب بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ثقافتی تاریخ کا ایک خاص مظہر نہیں تھا . جو ایک خاص تاریخی تناظر اور پس منظر میں وقوع پزیر ہوا . ذہن و فکر کے تمام گوشوں ، بشمول ادب ، ثقافتی زندگی کے تمام پہلووں پر مخصوص قسم کے اثرات مرتب کرنے اور اپنا تاریخی فریضہ ادا کرنے کے بعد اس کی افادیت ختم ہو گئی ہے .اس لئے اس کا کوئی جواز نہیں ہے ؟۔ یہ موجودہ زندگی ( عصر حاضر ) اور آنے والے دور ( مستقبل )کے لیے مکمل طور پر irrelevant ہے ؟
کیا ترقی پسند ادب کا سوال اتنا ہی مضحکہ خیز اور مسخرگی کا حامل نہیں ہے جیسا کہ مارکس نے کسی تاریخی واقعہ اور شخصیت کے دوبارہ رونما ہونے کے ہیگل کے تصور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا .
” ہیگل نے کسی جگہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ایسے واقعات اور ہستیاں جو تمام دنیا کی تاریخ میں اہمیت کی مالک ہوں دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں . یہاں وہ اتنا بڑھانا بھول گیا کہ پہلی بار ٹریجیڈی کی شکل میں اور دوسری بار مسخرے پن کے روپ میں ” .
کیا ترقی پسند ادب کو تاریخی تسلسل میں زندہ رکھنے کی خواہش یا اس کے زندہ ،موثر اور متحرک ہونے کا دعوی پہلے المیہ کے اسی مسخرے پن کا اظہار نہیں ہے ؟۔ کیا ہمارا یہ اقدام صریح تبدیلی اور بحرانوں کے دور میں ڈر اور جھجک کے ساتھ ماضی کی روحوں کو اپنی مدد کے لیے پکارنا تو نہیں ہے ؟ تاکہ ” ان کے پچھلے ناموں سے اپنا کام نکالیں . ان کے جنگی نعروں اور لباسوں کو اپناتے ہوئے تاکہ ماضی کی مقدس پوشاک میں اور مانگی ہوئی زبان کی مدد سے دنیا کی (ادب کی ) اسٹیج پر نیا منظر نامہ پیش کریں ” ؟
یا ہمیں نیا منظر نامہ پیش کرنے کے لئے نئے جنگی نعروں ، نئی پوشاک اور نئی زبان کی ضرورت ہے .؟ یعنی نئے اسلوب ، نئی ٹیکنیک اور زبان کا زیادہ تخلیقی استعمال ۔ میرا خیال ہے کہ نئے حالات کے تناظر میں ہمیں سب کچھ ” نئے ” کی ضرورت ہے . سوائے جدلیات اور طبقاتی سوال کے ۔
اس ” نئے ” کو کچھ ترقی پسندوں نے یوں پا لیا ہے کہ وہ بیک وقت حکمران و حکمران طبقہ اور عوام کا آدمی ہو گیا ہے ۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں وہ اس کی داد لیتا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے . اور اس نے صحیح توازن پا لیا ہے .کیونکہ وہ سب سے خوشگوار تعلقات رکھتا ہے . ادب میں اپنی کتاب کا دیباچہ ، مقدمہ یا فلیپ کسی رجعت پسند سے لکھواتا ہے .تنقید لکھتے وقت تمام حلقے کے ادیبوں کو خوش کر نے کی کوشش کرتا ہے . اور اخباری کالم کو حکمرانوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے . اور کامریڈ کہلاکر خوش ہوتا ہے . میں اس ” نئے ” کی بات نہیں کر رہا ہوں ۔میں جس نئے کی بات کر رہا ہوں وہ ادبی تھیوری اور ادبی تنقید کے حوالے سے نیا ہے ۔ انگریزی ، فرانسیسی اور دوسری ترقی یافتہ زبانوں میں مارکسی ادبی تھیوری اور ادبی تنقید بہت آگے ہے .لیکن اردو اور بالخصوص پاکستان میں اس کی حالت افسوسناک ہے . اب ترقی پسندی کو زیادہ گہرے فلسفیانہ اور تجزیاتی علم کی ضرورت ہے ۔ اب ان دستمالی تصورات کے محض بیان سے کام نہیں چل سکتا ہے . جس کی رو سے فن کے بارے میں صرف یہ کہہ دینا کافی سمجھا جاتا رہا ہے . کہ
…… فن صداقت کے انعکاس کی ایک شکل ہے .
…….طبقاتی سماج میں فن طبقاتی کردار کا حامل ہوتا ہے . یہ جانب دار ہوتا ہے .
……..خالص فن اور ادب برائے ادب یا فن برائے فن نام کی کوئی چیز نہیں ہے . یہ تصورات رجعت پسندانہ ہیں . اور بورژوا سماج کی خدمت کرتے ہیں .
………فن کا تعلق عوام سے ہے . اس کی جڑوں کو محنت کش عوام کے درمیان گہرائی کے ساتھ پیوست ہوناچاہئے ۔
………فن ایسا ہونا چاہئے کہ عوام اسے سمجھیں اور اس سے محبت کریں .
………فن طبقاتی جدوجہد کا ایک اہم ہتھیار ہے .ترقی پسند ادیب کو اسے عوام کے شعور کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے .
………بورژوا فن کار سرمایہ داری کو حسین بنا کر پیش کر تے ہیں . اور حقیقی سماجی مسائل کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں .
………. عصر حاضر کا بورژوا فن کار سرمایہ دارانہ بنیاد کو تقویت پہنچاتا ہے . یہ ایک ایسے سماج کے وجود کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے جو نجی ملکیت اور استحصال پر مبنی ہے .
………. عصر حاضر کا فن سرمایہ دارانہ بنیادوں کو تقویت پہنچاتا ہے . یہ ایک ایسے سماج کے وجود کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے .جو نجی ملکیت اور استحصال پر مبنی ہے .
ان میں سے بعض تصورات ایسے ہیں جنہیں بدیہی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے . انہیں کلشے کی شکل دے دی گئی ہے ۔ لیکن اب مسئلہ اس سے آگے کا . یعنی آرٹ اور آئیڈیالوجی کی اندر کے ڈسکورس کا ہے . جس میں تنقید کے تمام نئے رحجانات ، نظریات اور طریق کار بھی شامل ہیں اور نئی شعریات اور شعری جمالیات کی دریافت بھی ۔
ترقی پسندی ایک مخصوص نظریہ کا نام ہے . جس کی جڑیں مارکس ازم میں پیوست ہیں ۔ یوں تو ہر نظریہ ایک مخصوص نظریہ ہی ہوتا ہے۔عام انسانیت کی ہمہ گیر نظریہ کا دعوی کرنے والے بھی ایک مخصوص نظریہ کا ہی پرچار کرتے ہیں ۔ اس وقت سب سے زیادہ توجہ تھیوری یا نظریہ سازی پر ہے ۔ یہاں تک کہ مابعد جدیدیت جسے اس کے علمبردار ایک صورت حال یا Condition سے تعبیر کرتے ہیں ۔گویا وہ تھیوری کے مقابلے میں praxis ہے ۔ میں اسے تھیوری سے ماوراءتصور نہیں کرتا ہوں کیونکہ جب بھی ہم اسے بیان کریں گے ہم تھیوری میں داخل ہوں گے ۔ گوپی چند نارنگ کے خیال میں ” تھیوری پر اس غیر معمولی توجہ سے طرح طرح کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں ۔ مثلاًصدیوں سے چلے آرہے ہیومنزم ( انسان دوستی ) اور آئڈیلزم (عینیت پسندی )کی بنیادیں ہل گئی ہیں . اور بہت سے مابعدالطبیعاتی تصورات کی معنویت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے .نیز جن خیالات پر زور دیا جا رہا ہے ان کے ڈانڈے یا تو بائیں بازو کی ترجیحات سے مل جاتے ہیں یا نسوانیت کی تحریک سے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان دونوں کا موقف سیاسی ہے ” .
سوال یہ ہے کہ کون سا نظریہ اپنے موقف میں غیر سیاسی ہے .؟ جدیدیت کے زمانے میں ڈینیل بیل Bell Daniel کیThe End of ideology ہو یا دور مابعدجدید کے فوکویاما کی The End of Historyتھیوری و فلسفہ کی آڑ کے باوجود ان کے سیاسی موقف تک رسائی مشکل نہیں ہے۔ انگریز مارکسی نقاد ٹیری ایگلٹن کے خیال میں خالص ادبی نظریہ محض ایک اکیڈمک متھ ہے۔ اس کے خیال میں مفروضہ ٹیکنیکل evident-self بدیہی شواھد ، سائنٹیفک اور عالمگیر سچائی کے اصولوں میں مخصوص وقت کے ،مخصوص طبقات کے مخصوص مفادات کے عکس کو دیکھا جا سکتا ہے . اس لیے وہ ادبی تھیوری کو سیاسی کہتا ہے ۔ ٹیری ایگلٹن کا کہنا ہے کہ ادبی تھیوری محض اس وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے کہ وہ سیاسی ہے .بلکہ وہ قابل اعتراض اپنی سیاست کی نوعیت کی وجہ سے ٹھہرایا جاتا ہے ۔
اس کے خیال میں ” یہ سوچنا گمراہ کن ہے کہ تھیوری زندگی سے الگ ہٹ کر کسی چیز کا نام ہے . جہاں زندگی ہے وہاں تھیوری ہے ۔زندگی کے کسی پہلو یا کسی عمل کے بارے میں غور کیجئے اس کے پس پشت کچھ نہ کچھ تھیوری ضرور ملے گی ۔ تھیوری ناگزیر ہے .سماجی زندگی کے جملہ مظاہر نظریاتی معنویت رکھتے ہیں . یعنی کسی نہ کسی تھیوری کا حصہ ہیں ……………… ادبی تھیوری کلی تھیوری یا میٹا تھیوری کا صرف ایک حصہ ہے ۔ ادبی تھیوری غور فکر کرتی ہے ادبی تنقید کے بارے میں اور ادبی تنقید غور و فکر کرتی ہے ادب کے بارے میں اور ادب غور و فکر کرتا ہے زندگی کے بارے میں . چنانچہ تھیوری ہو یا ادبی تھیوری معاملہ کی تہہ میں جو مسئلہ ہے وہ زندگی کا ہے
( گوپی چند نارنگ . ساختیات پس ساختیات اورمشرقی شعریات . ص 450)
اس لیے اکیسویں صدی میں بھی ادب کا موضوع زندگی ہی رہے گا ۔ لیکن یہ زندگی ادبی فن پارہ میں ظہور پذیر ہو تو اس کے حسن و قبح کو پرکھنے اور اس کا معیار مقرر کرنے کے لئے ادبی تنقید کو بروئے کار لانا ہو گا . نہ کہ ادبی نظریہ کو ۔ اردو میں یہ ترقی پسند ادب کا المیہ رہا ہے کہ نظریہ / موضوع پر بہت زیادہ زور دینے کی وجہ سے مخالفین کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا کہ ترقی پسند نظریہ سے ادبی تنقید کا کام لیتے ہیں . حالانکہ صف اول کے ترقی پسند نقادوں احتشام حسین ، مجنوں گورکھپوری ، ممتاز حسین اور بعد کی نسل کے بعض نقادوں کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ بات بہت حد تک غلط ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن اس الزام میں جزوی سچائی نمایاں طور پر موجود تھی کہ مجموعی اعتبار سے ترقی پسند نقادوں اور تخلیق کاروں نے ادبی تنقید کے بجائے ادبی نظریہ کو کسی تخلیق کے پرکھنے کے معیار کے لئے استعمال کیا . اور ادب کے وسیع ترہوکر نئے امکانات کو جذب کرنے کے حامی اور اسلوب ، ہیئت اور موضوع تینوں اعتبار سے تخلیقی جدت کے حامی اور علمبردار ہونے کے باوجود ایک وقت ایسا آیا کہ ترقی پسندی تخلیقی جدت کی ضد کے طور پر پہچانے جانے لگی . جدیدیت پسندی ( بحیثیت رحجان )اور تخلیقی جدت میں فرق کیے بغیر ہر نئی اور مختلف تحریر کو رجعت پسندی گرداننے لگے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ساٹھ کی دہائی اور اس کے بعد کے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ایک بڑی تعداد ترقی پسند ہونے کے باوجود خود کو پرانی نسل کی ترقی پسندوں سے Identify نہیں کرتی تھی .اور پرانی نسل محض ان کے اسلوب یا ہیئت یا موضوع کے ساتھ غیر روایتی ٹریٹ منٹ کے سبب بیشتر کو ترقی پسند ماننے سے انکاری تھی ۔ یہاں پس منظر کے طور پر منٹو کے ساتھ ترقی پسندوں کے سلوک اور رویے کو ذہن میں رکھئے . اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی پسند تحریک کا دائرہ سکڑنے لگا . اور ترقی پسندی نے ایک Dogma کی شکل اختیار کرلی ۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مارکس و اینگلز نے ادبی تنقید و جمالیات کے لیے باقاعدہ اصول وضع نہیں کیے تھے . اس لیے جب مارکسی نقطہ نظر سے ادب کو دیکھنے کا مسئلہ آیا تو پریشانی لاحق ہوئی . کیونکہ اس کا تعلق مارکسزم کی جدلیاتی دوسرے الفاظ میں حقیقی و تخلیقی استعمال سے تھا .جو مارکسزم کا سب سے زیادہ مشکل اور نزاعی پہلو بھی ہے .عالمی سطح پر اس کا واضح ترین اظہار لوکاچ ، بریخت ، اڈورنو ، بنجامین اور ارنسٹ بلوخ کے درمیان ہونے والے مباحث اور روس میں اس کا اظہار ٹراٹسکی اور رشین فرمولسٹ Formalists Russian وکٹر شکلوفسکی ، رومن جاکوبسن وغیرہ کے درمیان اختلاف اور نزاع میں ہوتا ہے .
اس وقت ہم بدلتے ہوئے تناظر میں ترقی پسند ادب کے تقاضوں کی بات کر رہے ہیں . تھیوری یا مقصد کی سطح پر ان تقاضوں کو بیان کرنا آسان ہوگا . کہ یہ تقاضے 36کے تقاضوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں . جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں ۔ لیکن ادبی تخلیقات میں ان کا استعمال اور تنقیدی سطح پر ان کی پرکھ اور اس کی جمالیاتی اور فنی قدر و قیمت کا تعین آسان نہیں ہوگا . کیونکہ ہمیں نئے اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نئے شعری اور نئے تنقیدی معیارات کی ضرورت ہے . اس سلسلے میں 36اور اس کے بعد کا بندھا ٹکا تنقیدی رویہ قطعاَ کارآمد ثابت نہیں ہوگا .اس لیے ہمیں اپنے دور کے دیگر ادبی تنقید اور تھیوریز سے برافروختہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے . نئی تنقید و ساختیات سے لے کر رد تشکیل و قاری اساس تنقید تک اور لسانیات سے لے کر مظہریات و Hermeneutics اور تانیثیت پسندی تک ۔ ادبی تھیوری اور ادبی تنقید کے ڈسکورس میں جو نئی جہتیں اور نئے زاویے سامنے آئے ہیں اس میں شمولیت اور اس ڈسکورس کا حصہ بنے بغیر اکیسویں صدی میں ترقی پسند ادب کی تنقید اور تھیوری کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے ہیں .
جہاں تک ترقی پسند تخلیق کا تعلق ہے میں اس کے لیے کسی گائیڈ لائن کے حق میں نہیں ہوں اور نہ ہی تخلیق کے لیے موضوعات کے انتخاب میں کوئی گائیڈ لائن دی جا سکتی ہے ۔اسی طرح تخلیق کی تنقید ، تفہیم اور تعبیر کے لیے بھی کسی مخصوص منہاج Methodology اور طریق کار پر زور نہیں دوں گا . کیونکہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ شعر ، کہانی ، افسانہ اور ناول کی تفہیم اور تنقید کا کوئی ایک اصول یا طریق کار ہو سکتا ہے ۔ ایک ترقی پسند نقاد تنقید کے لئے کسی بھی ایک یا ایک سے زائد منہاج یا طریق کار کو بروئے کارلا سکتا ہے .اسی طرح ایک ترقی پسند تخلیق کار کے لیے جدت اور تجربے کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں .
ہمیں علوم Sciences اور فن میں ترقی پسندی کے اظہار کے فرق کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے . علوم میں ترقی پسندی کی شناخت نسبتا آسان اور سادہ ہے . تخلیق میں پیچیدہ ، متنوع اور مشکل ، بلکہ بعض اوقات سطحی اور سرسری طور پر دیکھنے سے وہ نظر بھی نہیں آتی ہے کہ وہ فن کے رنگین پردوں میں لپٹی اور چھپی ہوئی ہوتی ہے . اس کے لئے زیادہ علم کے ساتھ ایک تخلیقی بصیرت کی بھی ضرورت ہے . جو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتی ہے .

تا نہ بخشد خدا اے بخشندہ .

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*