کانٹوں کے بیچ

 

خوابوں کو طشتری میں سجاکر

تعبیروں کے سامنے

بولیاں لگانے رکھ دیا گیا.

صبح کے نوکیلے دانت آزمانے کے لیے

نرم خو ارادوںُ کو

ان کے منہ میں دے دیا گیا.

نوحوںُ کے تسلسل سے آسمان کیُ چھاتی اب تک چھد جانی چاہیے تھی

مصلوں میںُ لپٹی امیدیں

طاق پر رکھی رکھی سوکھے چمڑے میں ڈھل گئی ہیں

اختیار کو پر باندھ کر ہوا میں اڑا دیا گیا ہے.

آذادی کبوتروں کے پیروں میں درد کے چھلے پہنے دڑبوں میں چہل قدمی کر رہی تھی.

محبت ہجر کا سوال کاسے میں لیے پرانے فریم میں فٹ کر دی گئی ہے

سانس بھاری اور بھاری ہوئی جا رہی ہے

دعا بھی اختیاری ہوئی جا رہی ہے.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*