فلم بازار اور عورت کی منڈی

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے بلکہ بنا دی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں انسانی جذبات چولہے پر چڑھے رہتے ہیں۔ گھڑی گھڑی نراس کا تڑکا لگنے سے مداخلت کی کڑوی بدبو چاروں اور پھیلنے لگتی ہے۔ ازل سے ہی مرد اور عورت کے عشق کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں۔ آج جی کر رہا ہے انڈین فلم بازار کی بات کی جائے۔ بازار میں محبت بھی ہے اور سْلگتے جذبات بھی۔ بازار میں بِھیگتی راتوں کے چاند کا ذکر بھی ہے۔ بازار میں کھلے دروازے سے داخل ہونے والے محبت کے نام نہاد خریدار بھی ہیں۔ بازار کی کہانی بس ایک بازار ہی کی کہانی۔ بالکل ویسے جیسے آپ بازار سے اپنے لیے چند جوڑے خریدنے کو گئے اور چار دکانوں پر پھر کے اپنی پسند حاصل کر لی۔ اس فلم میں مختلف کردار ہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار نجمہ ہے۔ عورت اور انسان ہونے کے شرف سے محروم ہونے کے باوجود نجمہ نے انسانیت سے اپنا اعتماد کھویا نہیں۔ شاید اسی وجہ سے وہ فلم میں سلیم کو اختر علی خان اور شاکر جیسے خریداروں کی فہرست سے الگ رکھتی ہے۔ نجمہ اختر سے دل میں شادی کی اْمید رکھتی ہے۔ اسے اختر کے دوست شاکر کے لیے اپنے ہی جیسی ایک لڑکی ”بازار“ جا کر دیکھنی ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے آبائی شہر حیدر آباد کے لیے رختِ سفر باندھ کر وہ اپنی واپسی کا ٹکٹ بھی خرید لیتی ہے تو شاکر علی خان اس سے کہتا ہے۔ ”آپ ساڑھی لینے جاتی ہیں تو پوری مارکیٹ چھان مارتی ہیں۔ یہ لڑکی کا معاملہ ہے۔“ نجمہ جلتے ہوئے لہجے میں جواب دیتی ہے۔ ”شاکر بھائی! آپ کے بازار میں سب سے سستی کوئی چیز ہے نا تو وہ عورت ہے۔“ ریل کے اس سفر میں نجمہ کو ماضی کی یادیں آتی ہیں۔ کئی سال پہلے سلیم نے نجمہ کا ہاتھ مانگا اور اس کے گھر والوں کے ہاتھوں ذلت اْٹھائی تھی۔ نجمہ کا ایک مکالمہ ہے۔ ”یہاں آکر آپ اپنی بے عزتی کیوں کراتے ہیں؟ آپ اس شہر کے مشہور شاعر ہیں کچھ تو اپنا پاس رکھیے۔“ ”نجمہ اگر میں شاعر نہ ہوتا۔، کوئلے، پتھر اور مٹی کا بیو پار کرتا تو تم سے ملنے کے لیے مجھے کوئی نہ روکتا۔“ نجمہ کہتی ”میرے گھر والوں کو ڈر ہے کہیں یہ سونے کی چڑیا اْڑ نہ جائے۔“ اگلا سین حیدر آباد کا ہے جہاں شاکر علی خان کے لیے چاند سی دْلہن کے لیے بازار سجا چاہتا ہے۔ جہاں تھکے بجھے اور جواں جسموں کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ کسی خریدار، گاہک اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ عزت، غیرت، شرافت سب اس بازار میں نیلام پر چڑھ رہی ہے۔ پردہ دار شریف بیبیاں بھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔ نجمہ سے یہ منظر برداشت نہیں ہوتا۔ چھپ کے بھاگتی ہے لیکن کوئی جائے پناہ نہیں۔ کیونکہ شاکر علی خان اختر کا ان داتا ہے اور اختر سے نجمہ کو شادی کرنی ہے لہٰذا یہ زہر اسے پینا ہی ہوگا۔ بدقسمت نجمہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنے ہی سجو بھیا کی محبت کو خریدنے جارہی ہے۔ جس کی قیمت ہے صرف پانچ ہزار روپیہ۔ شبنم درد سے کراہتی ہے۔ ”نہیں، نہیں اماں! نہیں۔ تب سلیم درد سے کراہ اْٹھتا ہے۔ ”آج ہم بصرہ، قاہرہ، بغداد کی روایت کو دہرا رہے ہیں اور نیلام گھر جو سڑکوں، بازاروں، چوراہوں پر لگا کرتے تھے آج ہم انہیں اپنے گھروں میں لے آئے ہیں۔“ یہ فلم مجھے آج اس لیے یاد آئی کہ فروری کا مہینہ محبت کا مہینہ مانا جاتا ہے۔ لیکن آج بھی محبت سے گندھی عورت کی خریدو فروخت جاری ہے۔ ذرا ایک راجن پور کے گرد و نواح کا ہی منظر دیکھیے۔ وہاں کی عورت کہتی ہے۔ ”ہم تڑکے ہی اْٹھ کے کپاس اور تمباکو کے کھیتوں میں کام کو جاتی ہیں۔ ہم چند بکریاں اور مرغیاں خرید کر ان کے انڈے، دودھ اور گوشت بیچ کر گزر بسر کرتی ہیں۔ خاوند بس شاید اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شادی تو رچا لیتے ہیں مگر کمائی کرنے کے لیے ان کی ہڈیوں میں آرام پڑا رہتا ہے۔“ ایک اور عورت کہتی ہے۔ ”ایک من کپاس چْننے پر صرف پچاس یا سو روپے ہماری ہتھیلی پر رکھ دیے جاتے ہیں۔ زمینوں پر چلتے چلتے اگر پاؤں کسی دوسرے کی زمین پر پڑ جائے تو بات قتل تک جاپہنچتی ہے۔ ہم مجبور عورتیں اپنی بیماریوں اور مصیبتوں کے حوالے سے کھاتے پیتے زمین داروں کی بے حسی، طعنہ زنی اور کمینگی کا شکار رہتی ہیں۔ حق تلفی کے یہ دائرے اور بھی تنگ ہوتے جاتے ہیں جب پتہ چلتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی ماؤں کے ساتھ جاتی ہیں۔ وہ کم نصیب اپنا جہیز چْھٹپنے ہی سے خود اکٹھا کرنے لگتی ہیں۔ مگر جب شادی کی بات آتی ہے تو بولیاں لگتی ہیں۔ زیادہ تر بدلے کی شادیاں ہوتی ہیں۔ ”آؤ بھئی! دیکھو ابھی سولہواں سن نہیں لگا۔“ اس کی بیٹی کے بدلے میں اس کے چاچے یا بھائی کو اپنی چودہ برس کی لڑکی دے دو۔ صرف اتنا ہی نہیں حاملہ عورتیں اپنی اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے ساتھ بچے پر بچہ پیدا کرتی چلی جاتی ہیں۔ وجہ پوچھو تو بتاتی ہیں۔ ”جی اس طرح کم از کم چِلّے میں دیسی گھی، پنجیری اور اچھی خوراک وغیرہ تو کھانے کو ملتی ہے۔“ صاحب! بات یہیں ختم نہیں ہوتی انہیں اپنے گھروں، کھیتوں، چوراہوں اور کام کرنے کی جگہوں پر جنسی حراسگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ اس معاشرے میں مردوں کی جھوٹی عزت کو ہی مائی باپ سمجھنے کا رواج ہے۔ جب کوئی دلیر عورت اس کے خلاف آواز اْٹھاتی ہے تو اسے کارو کاری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان مجبور عورتوں کے لیے نہ تو کوئی سرکار کام کرتی ہے اور نہ ہی تحریکیں۔ جب سے وہاں این۔ جی۔ اوز والے آئے وہاں کا مرد اور نکما ہوگیا ہے۔ اب تو وہ بے حیائی سے عورت کو آگے کر دیتا ہے۔ اس کی پچکی ہوئی گالیں اور برسوں کی مزدوری کا بوجھ ڈھوتا جسم دکھا کر باقاعدہ کہتا ہے ’جی ہمیں کیا ملے گا؟“ اگر ہم بینکوں سے ملنے والے سرکاری قرضوں کی بات کریں تو بینکوں والے بھی بس پیسے والوں کو ہی قرضہ دیتے ہیں۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد بستیوں کی عورتیں دشوار زندگی گزارتی ہیں۔ تمباکو کے کھیتوں میں پتے چْننے کے لیے پَو پھٹنے سے پہلے جب شبنم پتوں پر گری ہو تو جانا پڑتا ہے۔ پھر وہ پتے ایک بند عمارت میں لے جاتی ہیں جہاں آٹا پیسنے والی چکی کی طرح کی چکی میں اسے پیسا جاتا ہے۔ ناک منہ لپیٹے اْڑتے دھوئیں میں صرف عورتیں ہی یہ کام انجام دیتی ہیں۔ جی تو کرتا ہے ان عورتوں کے خریداروں کو جو محبت کے نام سے انہیں خریدتے ہیں اور جنسی حراسگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کو چوراہے پر کھڑے کر کے کوڑے لگوائے جائیں۔ بچوں سے سنگسار کروایا جائے۔ فلم بازار کی طرح آج کے جدید دور کے بازار کی بھی بہت پرتیں ہیں۔ خریداری کے اس سفر میں اب عورت کی روح کچلی جاچکی ہے۔ اس معاشرے کا مصنف، شاعر اور مصور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ لکھتا ہے۔ کراہتا ہے۔ لیکن اس جنگ میں شاید اس کا کردار بھی خاموش تماشائی کی طرح کا ہے۔ محبت کرنیوالوں کی بھی منڈیاں لگتی ہیں۔ شادی کے نام پر جہیز کی کریہہ شکل میں دام لگتے ہیں۔ حکومت کو عورتوں کے تحفظ اور معاشی ترقی کے لیے محض کاغذی نہیں لاگو شدہ نظام بنانے چاہئیں۔ دیہاتوں میں یْو۔ سی کے حوالے سے مزدور عورتوں کی باقاعدہ رجسٹریشن ہو اور مفت علاج کے لیے ان سب کے پاس صحت کارڈز ہوں۔ کام کاج پر جانے کے لیے ذرائع آمدورفت کا بہترین انتظام ہو۔ غیرت کے نام پر تنی جھوٹی چادروں کو چیر کے نکلنا ہوگا۔ اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو ہماری یہ مزدور عورتیں نا انصافی کے اس درد سے اپنے درد کو بجھانے کی کوشش میں اپنے دلوں کی کالک کو کبھی اتار نہیں پائیں گی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*