جمعہ سیٹی والا

ڈھاڈر شہر پورے بلوچستان میں اپنے سرسبز کھیتوں سایہ دار درختوں اور بہتی ندیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں کے بازار صبح سویرے ہی آس پاس کے دیہات سے آئے لوگوں سے کھچا کھچ بھر جاتے ۔ کوئی بکریاں مرغیاں اور دیسی انڈے بیچنے کو صدا لگاتا تو کوئی چھوٹی مکھی کا شہد اور گائے کا اصلی گھی اٹھائے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتا۔جہاں انسانوں کا رش ہو وہاں اُنھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کو دیس بدیس کے مداری طبیب اور جادو گر نہ آئیں یہ کیسے ممکن تھا ؟۔تو صبح سے ہی ڈھاڈر کی سٹرکوں پر رنگ برنگی دوکانیں سج جاتیں ۔ کوئی جادو کے کمالات دکھا کر دیہایتوں پر سحر طاری کرتا تو کوئی اپنے گرد سانپ بگلے اور سانڈے رکھے شیشے کی بوتلوں میں رنگ برنگے مشروبات سجائے لوگوں کو سو سو سال جینے اور ہمیشہ جوان رہنے کے ہزاروں سال پرانے نسخے بتا کر رقم بٹورتا۔
جون کا مہینہ سارے ملک میں شدید گرمی لے کر آتا ہے، مگر ڈھاڈ رشہر چونکہ سبی کے پڑوس میں واقع ہے تو حقِ ہمسائیگی ادا کرتے ہوئے کوئٹہ سے سبی جاتے مسافروں کو گرمی برداشت کرنے کو ذہنی طور پر تیار کررہاتھا۔ خان قلات کے باغات میں آم اور جامن پک چکے تھے مگر کوئل اور بلبل اِس شہر سے کہیں کوچ کر گئی تھیں کیونکہ کئی مہینے ہوئے نا کوئل کی درد بھری کوک اور نہ بلبل کے شوخ اور چنچل نغمے سنائی دیے تھے۔ صبح کی تازہ ہوا بھی سہمی ،ڈری ڈری بوجھل ،کبھی بہنے لگتی تو کبھی کسی دیوار کی اوٹ لے کر خوف سے تیز چلتی سانسوں کو بحال کرنے ٹھہر جاتی۔ شہر کے باسی خالی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے کاروبار اور دفاتر کو جا رہے تھے۔ کیونکہ قصبے میں پے درپے پیش آنے والے واقعات نے ہر انسان کے دل پر اِک خوف طاری کر رکھا تھا۔کوٹ کھائی ، دوپاسی اور دیگر قریبی دیہات سے خستہ حال بسیں لوگوں کو لا کرشاہی کیمپ ڈھاڈر میں اتار رہی تھیں ، ہرسواری بس سے اترتے ہی ایسے اپنے چاروں طرف دیکھتی جیسی ابھی کسی کیکر کی اوٹ سے کوئی آدم خور نکل کر اُسے کچا چپا جائے گا۔ مگر اس خوف ناک صورت حال کے باوجود سب مداری ،جادوگراور کرشما ساز اپنی روٹی روزی کمانے کو نت نئے طریوں سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے مگرسب حربوں کے باوجو و وہ اتنی بھیڑ جمع نہ کر پاتے جتنی جمعہ سیٹی والے کی ایک سیٹی پر جمع ہو جاتی۔
جمعہ سیٹی والا لمبے قد کادبلاپتلا ادھیڑعمر آدمی تھا۔ وہ ہمیشہ خاکی فوجی وردی زیب تن کرتا۔ سر پر فوجی ہیٹ لگاتا اور گلے میں لٹکتی سیٹی اُس کی پہچان ہوتی۔وہ زور زور سے سیٹی بجاتا اور لوگوں کے جمع ہونے پر ملکی حالات کا انتہائی سختی سے تجزیہ کرتے ہوئے حکمرانوں کو اُن کے منصوبو ں او ر خارجہ پالیسی پر صلواتوں کے ساتھ شدید تنقید کرتا۔
ملک چند سال پہلے ہی دو لخت ہو ا تھا اور ایک بار پھر ملک کے سیاسی قائدین کو حراست میں لے کر ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی گئی تھیں۔ ٹی وی تو تھے ہی ناپید، اب اخبارات اور ریڈیو بھی بند کروائے جا رہے تھے ۔ کسی شخص کو ملکی معاملات پر بات کرنے کی ہرگز اجازت نہ تھی۔ عوام سے معلومات کے تما م زرائع چھین لیے گئے تھے۔ سر شام لوگ گھروں میں دبک کر ریڈیو کانوں سے لگا کر سیربین اور بی بی سی کی خبریں سنتے اورسرگوشیوں میں اُن پرتبصرے ہوتے، مگر حکومت بھی عوام کی اِس ملک دشمن سازش سے باخبر تھی تو پوسٹ آفس کے ریڈیو انسپکٹر گھر گھر چھاپے مار کر لائسنس نہ ہونے کے بہانے ریڈیو ضبط کر نے لگے۔ سیاسی سماجی اور مذہبی رہنماوں کی تقاریر پر پہلے ہی پابندی تھی اور جب عوام کے پاس موجود معلومات کا واحد ذریعہ بھی چھین لیا گیا تو ظلمت کے اِس تاریک دور میں لوگ جمعہ سیٹی والے کو ہی اپنا ترجمان سمجھنے لگے ۔ وہ سر بازار انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے عوام پر مسلط ظلم پر تنقید کرتا تو لوگوں کی دلی تسکین ہوتی ۔
مگر آج کی صبح اِس قصبے کی دیگر صبحوں جیسی نہ تھی ۔گو کہ بازار میں رش تھا ،لوگ روٹی زوری کی تلاش میں آ تو گئے تھے لیکن اُن کی چال اور لین دین میں تیزی بتا رہی تھی کہ ہر شخص جلد از جلد با خیر و عافیت اپنے گھر لوٹ جانا چاہتا ہے لیکن اُنھیں معلوم تھا کہ اگر جمعہ سیٹی والے کو سنے بنا واپس چلے گئے تو ساری رات نفرت کی آگ پرسلگتے رہیں گئے لہذٰاسب کو بے چینی سے جمعہ سیٹی والے کا انتظار تھا۔دراصل کل دوپہراِس قصبے پر جو قیامت ٹوٹی تھی ایسی ظلم و جبر کی کہانیاں صرف انگریز کے دور میں ہی سننے کو ملتی تھیں ۔کل چند سیاسی ، کاروباری ، مولویوں ، اساتذہ اور طالبعلموں کو اِسی چوک میں کم تولنے، ذخیرہ اندوزی کرنے ،سیاسی تقاریر اور سیاسی تبصروں کا بہانہ بنا کر کوڑے مارے گئے ۔ہر شخص غم وغصے کا شکار تھا مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اِس ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکے، اِس لیے ہر نگاہ جمعہ سیٹی والے کو تلاش کر رہی تھی کہ وہ کل کے واقعے پر حکومت وقت کو کھری کھری سنا کر لوگوں کے دلوں میں بھڑکتی آگ ٹھنڈی کر ے۔ سبزل کے ہوٹل کے قریب سے گزرتے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں جمعہ سیٹی والے کے بارے معلوم کرتے ،مگر ہر شخص بتاتا کہ وہ ابھی بازار میں داخل نہیں ہوا۔ ہر آنکھ رندعلی سے شاہی چوک اور شاہی چوک سے ڈھاڈر تک رو ڑ پر اُسے تلاش کر رہی تھی مگر آج نہ اُس کی سیٹی اور نہ ہی اُس کی بارعب آواز سنائی دی ۔ کنڈیکٹر نے بازار میں پھیلی بے چینی دیکھتے ہوئے واپسی کو آواز لگانی شروع کردی،سواریاں اپنی اپنی بسوں اور ویگنوں کے قریب جمع ہو گئیں مگر اندر بیٹھنے سے پہلے سب حسرت بھری نگاہوں سے رندعلی کی طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید جمعہ سیٹی والا کہیں سے نمودار ہو۔ کنڈیکٹرز اور بس ڈرائیوروں کو سفید کپڑوں میں ملبوس دو چار آدمیوں نے گھیر رکھا تھا، اُن کے اندازِ گفتگو سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اُنھیں لو گوں کو لے کر جلد ازجلدبازار سے لے کر روانہ ہونے کو کہہ رہے ہیں۔کنڈیکٹرز نے دوبارہ با آوازِ بلند لوگوں کو بس کے روانہ ہونے کی اطلاع دی ۔ چندمسافر مایوس چہروں کے ساتھ بس میں جا بیٹھے مگر بار بار دی آوازوں کے باوجود بس سواریوں سے نہ بھری تو ڈرائیور نے بس آگے نہ بڑھائی ۔
’’آج جمعہ بازار نہیں آیا ناں؟ ‘‘چاچا پھریا نے دھیر ے سے ساتھ بیٹھے ترک علی سے پوچھا۔
’’نہیں چاچا وہ نہیں آیا ۔ میں آج صبح سفیدی پھوٹتے ہی کھیت سے ٹماٹر چن کر بازار آ گیااور سارے ٹماٹر بکنے کے باوجود اب تک یہیں موجود رہا کہ دیکھوں جمعہ سیٹی والا کل کے واقعے پر حکومت کو کیسا سناتا ہے؟ مگر چاچا لگتا ہے وہ بھی ڈر گیا ہے‘‘۔ ترک علی نے منہ دوسری طرف کیے کیے جواب دیا۔
’’نہیں وہ ڈر نے والا نہیں ۔ وہ دلیر اور خوددار انسان ہے۔ اُسے کیا یہ حکومت ڈرائے گئی؟ ڈرتے تو ہم جیسے غریب لوگ ہیں کہ اگر ایک ہفتہ جیل گزارنا پڑ گیا تو بچے بھوکے مرجائیں ۔‘‘ چاچا پھریا نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’درست کہہ رہے ہو چاچا ، آپ نے دیکھا ہو گا کہ جمعہ کیسے فخر سے اپنی نوٹوں سے پھولی جیبیں دکھاتا ہے اور جب مستی سے ناچتا ہے تو اُس کی پینٹ کی جیبوں میں موجود سکوں کی چھنچھناہٹ دور تک سنائی دیتی ہے۔‘‘ترک علی نے بات کرتے کرتے چونک کر بس کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔’’ چاچا تمہیں سیٹی سنائی دی؟‘‘
مگر ساتھ والی سیٹ خالی تھی۔چاچا پھریا اُس سے پہلے ہی سیٹی کی آواز سن کر بس سے چھلانگ لگا چکا تھا۔
ترک علی بھی جلدی جلدی بس سے اترا اور بھیڑ کے ساتھ تیزی سے سیٹی کی آواز کی جانب چل پڑا۔۔جمعہ سیٹی والا حسب معمول ملک فضل داد عرضی نویس کی دوکان کے چبوترے پر کھڑا سیٹی بجا بجا کر لوگوں کو اپنی جانب بلا رہا تھا۔ سیٹی کی آواز سنتے ہی بازار میں موجود ہر شخص اُس اونچے چبوترے کے گرد جمع ہو گیا ۔ دوکاندار بھی اپنی دوکانیں چھوڑ کر مجمع میں شامل ہو گئے۔
بازار کے ساتھ موجود گھروں کے کواڑ کھل گئے اور خواتین دروازوں پر پردے کو لٹکی چادروں کی اوٹ لے کر جمعہ سیٹی والے کی حکومت پر تنقید سننے آکھڑی ہوئیں۔ ابھی جمعہ سیٹی بجا ہی رہا تھا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس دو ہٹے کٹے اشخاص نے زبردستی اُسے سیٹی بجانے سے روکا اور اپنے ساتھ لیے ہوٹل کے کمرے میں چلے گے۔ چوک میں موجود چند دانش مندوں نے دیگر کو اِس مسئلے سے دور رہنے اور اپنی روٹی روزی کی فکر کرنے کا کہتے ہوئے گھروں کو جانے کا مشورہ دیا۔ مگر مجمع اپنی جگہ جمارہا۔
کچھ دیر بعد جمعہ ہوٹل کے برآمدے میں نمودار ہوا اور زور زور سے سیٹی بجانا شروع کی، اب کی بار اُس کی سیٹی میں اِک عجیب سی تڑپ تھی ،ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی انسان کو صدیوں بعد زبان ملی ہو اور وہ خود پر ہونے والے مظالم بنانے کو بے تاب ہو۔ جمعہ کو دیکھتے ہی مجمع میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔وہ سینہ پھلائے مغرور چال چلتے ہوئے واپس چبوترے پر آ کھڑا ہوا اورایک ہاتھ کی ہتھیلی کو فون بنا کر دوسرے ہاتھ کو ڈیل کی طرح گھما نے لگا۔
’’ٹرن ٹرن۔۔۔ ٹرن۔۔ ٹرن۔۔‘‘ جمعہ نے منہ سے بیل کی آواز نکالی ۔
’’رنگ جا رہی ہے، فون اٹھا لینے دو اُسے آج۔‘‘ اُس نے مجمع کی بے تابی دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہیلو ۔۔ ہیلو۔۔ ارے اوموچھڑ سو رہے تھے کیا؟، میں تمہارا باپ جمعہ سیٹی والا بول رہا ہوں۔یہ تم نے ملک کو اپنے دادا کی جاگیر سمجھ رکھا ہے؟ کیا عوام کو تم گدھا سمجھتے ہو ؟‘‘
’’نہیں نہیں کیا؟‘‘مجھے جوا ب دیتے ہوئے تمہاری آواز کیوں کانپنے لگتی ہے ؟ یاد رکھ موچھڑجمعہ سیٹی والا اپنی لاج رکھے گا اور عوام کے خلاف کسی قسم کا ظلم برداشت نہیں کرے گیا۔ تم نے کل میرے شہر کے معصوم لوگوں کو حق بات کرنے پر کوڑے مارے ؟ تم نے سوچا ہوگا جمعہ بھی ڈر جائے گا۔ حق کی بات نہیں کرے گا؟۔۔ مگر جمعہ نے فوج کی وردی پہنی ہے تو شہید بھی فوجی کی طرح سر اٹھا کر ہوگا نہ کہ تم بزدل کی طرح امریکہ سے ڈر کر افغانستان میں اُس کا ساتھ دے کرڈالر کمائے گا۔
’’کیا کہا۔۔۔۔وہ کم تولتے اور چیزیں مہنگی بیچتے تھے؟ ‘‘۔
’’کچھ شرم کرو موچھڑ۔ تم لوگوں کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے۔گاؤں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ تم نے لوگوں کو حق بات کہنے پر ذلیل کیا ہے۔۔ اِس ظلم کا حساب جمعہ تم سے ضرور لے گا۔‘‘ اور تم نے ابھی اپنے چمچے بھیج کر میرا منہ بند کروانے کو نقد پیسے کی پیشکش کی ہے؟‘‘ تم نے کیا مجھے بھی بکاؤ مال سمجھ رکھا ہے؟ تمہارے بندے کہتے ہیں کہ یہ قائداعظم کے فوٹو والے نوٹ رکھ لو اور خاموشی سے بازار سے نکل جاؤں ۔ ’’یہ دیکھو میرے دونوں جیب نوٹوں سے بھرے ہو ئے ہیں۔۔ جی ہاں قائد اعظم کے فوٹوں والے بڑے نوٹ ۔۔ اورتم مجھے اُن چھوٹے چھوٹے نو ٹوں کا لالچ دیتے ہو؟‘‘
’’سنو موچھڑ ،یہ سنو۔۔ ۔میری جیبوں میں کھنکتے سکوں کی آواز سنو۔ تم یہ روپے پیسے کا لالچ بکاؤ اور ضمیر فروش لوگوں کو دو۔ شاید اُن کے پاس غیرت کے ساتھ ساتھ روپے پیسے کی بھی کمی ہو ۔مگر جمعہ سیٹی والا تو تم جیسوں کو خرید سکتا ہے۔‘‘ جمعہ نے ناچتے ہوئے اپنی پینٹ کی جیب بجائی تو سکوں کی چھنچھناہٹ دور دور تک سنائی دی۔
’’ہاں ہاں اب تم یہی بولو گے کہ وہ تمہارے آدمی نہیں تھے ‘‘ ۔ او ظالم! یاد رکھ تم نے ملک پر قبضہ کیا ہے ہمارے دلوں اور ہماری سوچوں پر نہیں۔ جمعہ سیٹی والا نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کوئی ظالم اُس کی زبان کو حق بات کرنے سے روک سکتا ہے۔
’’ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔ ہیلو ۔۔ فون بند کر دیا ڈرپوک نے۔‘‘ لوگو تم جیت گئے تمہیں فتح مبارک ہو۔۔ اُس کے پاس کوئی جواب کوئی جواز نہ تھا تم پر ظلم کرنے کا ،اِس لیے بھاگ گیا۔ ’’بجاؤتالیاں اور خوشی خوشی اپنے گھروں کو جاؤ۔‘‘ جمعہ نے کان پر فون کی طرح لگاہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
عوام خود پرہوئے مظالم پر نہ کچھ بول سکتے اور نہ ہی احتجاج کر کے دل کی بھڑاس نکا ل سکتے تھے اس لیے جمعہ سیٹی والے کو اپنی ترجمانی کرتے دیکھ کر ان کا دل ہلکا ہوا ۔ لوگوں نے بھر پور تالیاں بجائیں اور اپنے اپنے گھروں کی راہ لی، پھر جس جس دیہات لوگ واپس گئے وہاں ساری رات جمعہ سیٹی والے کی بہادری اور امیری کے قصے ہوتے رہے۔
شدید گرمی کی وجہ سے بازار خالی ہو گیا۔ دیہاتیوں اور دروازوں پر ٹنگی خواتین نے جب جمعہ سیٹی والے کو وقت کے آمر کی بے عزتی کرتے سنا تو سب کے چہروں پر مسکرائٹ پھیل گئی اور سب خوشی خوشی اپنے کاموں پر روانہ ہوئے۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے دکانداروں نے اپنی دوکانیں بند کرناشروع کر دیں کیونکہ اب شام تک کسی گاہک نے بازار کا رخ نہیں کرنا تھا۔
جمعہ سیٹی والے کے بارے میں اِس شہر کے لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے ۔ کچھ کا خیال تھا کہ وہ سی آئی ڈی ہے ۔جب ہی ہمیشہ فوجی وردی پہنتا ہے، اوراِس دور میں جب کسی سیاست دان یا دانشور کی ہمت نہیں کہ حکمرانوں کے خلاف کچھ بول یا لکھ سکے تو آخر وہ کیسے اُن کے منصوبوں اور احکامات کے خلاف اتنی کھل کر گفتگو کر تا ہے۔؟ توکچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ نصیرآبادکی زرخیر زمینوں کا مالک ہے اُس کے خاندان والے بڑی بڑی پوسٹوں پر ہیں ۔ روپے پیسے کا اُسے کوئی مسئلہ نہیں، ہر وقت جیب نوٹوں سے بھرے رہتے ہیں اِس لیے وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔مگر حقیقت جو بھی تھی اِس جبر اور زبان بندی کے دور میں لوگ جمعہ سیٹی والے کو اپنے احساسات اور جذبا ت کی ترجمانی کرتے دیکھ کر خوش ہوتے اور اِس ظلمت کی تاریک رات سے نجات دہندہ سمجھتے ۔
جمعہ فوجی یونیفارم پہنے سر پر ہیٹ لگائے پروقار انداز میں چلتے ہوئے ماما دلشاد کی دوکان کے برآمدے میں جابیٹھا۔ چھانگا داس نے سگریٹ جلا کر پیش کی ،سگریٹ دیکھتے ہی جمعہ کی آنکھوں میں ایسی چمک ابھری جیسے کسی بھوکے نے کئی دنوں بعد روٹی دیکھی ہو۔ اُس نے فوراً سگریٹ پکڑی اور ایک لمبا کش لیا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ سگریٹ کا دھوا ں پھیپھڑوں سے معدے تک پہنچانا چاہتاہو۔ وہ ایک کے بعد ایک بھرپور کش لیتا رہا۔
جمعہ عام حالات میں نہایت کم گو بردبار اور سنجیدہ طبیعت کا انسان ہے۔ اِس پورے گاؤں میں جمعہ سیٹی والے کا اگر کوئی دوست یا غمخوار ہے تو وہ ہے ماما دلشاد ۔وہ ہر روز اپنے لگائے تماشے کے بعد ماما دلشاد کی دوکان پر آتا اور اکیلے میں ماما سے گفتگو کرتا۔ماما دلشا د نے جمعہ کو اکیلے بیٹھے دیکھا تو اندر اپنی دکان میں بلوا لیا۔
’’کیا بات ہے جمعہ پریشان لگ رہے ہو؟‘‘۔ماما نے آہستہ سے پوچھا۔
’’یار دلشاد دو دن ہو گئے گھر میں۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘جمعہ سیٹی والے کی آواز بھرا گئی اور وہ آگے کچھ نہ بول پایا۔
’’ارے میرے یار پریشان کیوں ہوتا ہے۔ میں ہوں نا‘‘۔مامانے جمعہ کے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’تُو جانتا ہے دلشاد ۔ میں تیرے علاوہ اِس پورے گاؤں میں کبھی کسی سے یہ بات نہیں کہتا‘‘۔
’’بس کر یار۔ میں تیری خودداری جانتا ہوں ‘‘۔ ماما دلشاد نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے گودام میں کام کرتے اپنے بیٹے کو آواز لگائی۔
’’بیٹاکشمیر خان، پانچ کلو آٹا،دو کلو گڑ، دو کلو دال مونگ تولو اور بوری میں باندھ کر لڑکے کو دو کہ سائیکل پر ابھی جمعہ سیٹی والے کے گھر دے آئے۔
’’اچھا ابا جی‘‘ کشمیر خان نے آٹا تولتے ہوئے کہا۔ ہوٹل سے چائے منگوائی گئی۔جب تک چائے ختم ہوئی کشمیر خان سارا سامان بوری میں باندھ کر لے آیا۔
’’ایک سو بیس روپے ہو گئے، لاؤ پیسے دو‘‘۔ کشمیر خان نے میز کی دراز کھولتے ہوئے کہا۔جمعہ نے ماما دلشاد کی طرف حیرت سے دیکھا۔
’’ارے چاچا سے پیسے مانگتا ہے؟ بدتمیز ۔۔۔ پیسے نصیرآبادسے اِس کے بھائی بھیج دیتے ہیں تُو اِس سے کیوں تقاضا کرتا ہے؟‘‘ ماما دلشاد نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا۔
’’ارے ابا اِن کے جیب نوٹوں اور سکوں سے بھرے ہیں، ابھی مجمع کو دیکھا رہے تھے ، جب پیسے ہیں تو ہم کیوں دو چار مہینے انتظار کریں؟ ویسے بھی کاروبار مند ا چل رہا ہے۔‘‘کشمیر خان نے بدتمیزی سے کہا۔
’’تو اپنے کام سے کام رکھ میں جانو جمعہ جانے۔‘‘ ماما دلشاد نے بیٹے کو دوبارہ ڈانٹا۔
’’ابا یہ دیکھو ، جمعہ چاچا کے جیب نوٹوں سے بھرے ہیں‘‘۔یہ کہتے ہوئے اچانک کشمیر خان نے جمعہ کی پھولی ہوئی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔
جمعہ تڑپ کر اٹھا اور کشمیر خان کا جیب میں ڈلا ہاتھ تھام کر پوری قوت لگانے لگاکہ وہ جیب میں موجود نوٹ باہر نہ نکال سکے۔ اسی اثنا میں کشمیر خان نے دوسرا ہاتھ بھی اُس کی پینٹ کی جیب میں ڈال کر اندر موجود سکے دبوچ لیے۔ جمعہ پوری کوشش کر رہا تھا کہ کشمیر خان کسی طرح اُس کی جیب میں موجود نوٹ اور سکے نہ نکال پائے، مگر طاقت ور نوجوان کے سامنے اُس بوڑھے کی ایک نہ چلی اور اِس کھنچا تانی میں اُس کی خاکی وردی کی جیبیں پھٹ گئیں اور دوکان میں ہر طرف سوڈا واٹر کے قائداعظم کی فوٹو والے ڈھکن اور اخباررسالوں سے کاٹے قائداعظم کی تصاویر کے تراشے بکھر گئے۔ جمعے نے ایک چیخ ماری اور اپنی پھٹی قمیض سنبھالتے ہوئے نہر والے جنگل کی طرف دوڑ لگادی۔ ماما دلشاد نے لپک کر دوکان سے اُس کا فوجی ہیٹ اٹھایا اور کشمیر خان کو برا بھلا کہتے ہوئے اُس کے پیچھے جنگل کی طرف بھاگا ۔ شدید گرمی کی وجہ سے بازار میں مکمل سناٹا تھا۔ سب دوکانیں بند تھیں اِس لیے یہ ساری کاروائی دیکھنے والا اُن تینوں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ماما دلشاد نے جنگل میں جمعہ کو ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر وہ کہیں نظرنہ آیا۔ شدید گرمی سے جلد ہی ماما دلشاد کا برا حال ہو گا ۔ ہیٹ اُس کے ہاتھ سے نہ جانے کہاں گر گیااور وہ خود گرتا پڑتا بہ مشکل دوکان پہنچا اور آتے ہی لگا اپنے بیٹے کشمیر خان کو سنانے۔
’’ابا مجھے کیا معلوم تھا ،میں تو چاچا جمعہ سے مذاق کر رہا تھا‘‘۔ کشمیر خان حیرت سے منمنایا۔
’’جمعہ بڑا خودار انسان ہے اگر اُسے کچھ ہوا تو میں تجھے زندگی بھر معاف نہیں کروں گا۔‘‘ ماما دلشاد نے پانی کا دوسرا گلاس پیتے ہوئے کہا۔

اگلی صبح ماما دلشاد نے سب سے پہلے آ کر اپنی دوکان کھولی کیونکہ وہ کل کے واقعہ کی وجہ سے ساری رات سو نہ پایا تھا۔ اُسے امید تھی کہ کچھ دیر بعد جمعہ سیٹی بجاتا ہوا بازار میں داخل ہو گا ،مگر انتظار کی گھڑیا ں طویل سے طویل ہوتی گئیں مگر جمعہ نہ آیا۔۔ ۔۔ پھر دوپہرکو اچانک سبزل کے ہوٹل سے جمعہ کی سیٹی سنائی دی ۔ ماما دلشاد سب چھوڑ چھاڑ کر ہوٹل کی جانب لپکا۔ سیٹی کی آواز تو آ رہی تھی مگر جمعہ کہیں دکھائی نہیں د ے رہا تھا۔ ماما دلشا دنے اُسے ہر جگہ تلاش کیا، ہوٹل کا ہر کمرہ چھان مارا مگر جمعہ نہ ملا۔۔ باآخروہ تھک ہار کر ہوٹل کی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
ویٹرنے اُس کے سامنے چائے کاکپ لا کر رکھ دیا۔ ماما دلشاد نے کپ منہ سے لگایا ، تب ہی اُس کی نظر سامنے چارپائی پر بیٹھے دو پولیس والوں کے درمیان رکھی جمعہ کی سیٹی پر پڑی۔
’’رات نہر سے جمعہ سیٹی والے کی لاش ملی ہے۔ شرٹ اور پتلون کی جیبیں پھٹی ہو ئی اور گلے میں سیٹی لٹک رہی تھی۔ کچھ دور جنگل سے اُس کا فوجی ہیٹ بھی ملا ہے۔‘‘ ایک پولیس والے نے دوسرے کو بتایا۔
’’یار حالات بہت خراب ہیں مہاجرین کے بھیس میں نئے نئے لوگ آ بسے ہیں قصبے میں، اور یہ جمعہ بھی تو ہر روز مجمع میں اپنے نوٹوں اور سکوں سے بھری جیبوں کی نمائش کیا کرتا تھا۔ بدمعاشوں نے لوٹ کر نہر میں دھکا دے دیا ہوگا۔‘‘
’’ مگر یار تھا بڑاجی دار اور ضدی ،آرام سے پیسے نہیں دیے اُس نے ۔کپڑوں سے تو لگتا ہے کافی مقابلہ کیا تھا اُس نے ڈاکوؤں کا۔‘‘پہلے پولیس والے نے بتایا۔۔
’’اومیرے بھائی پیسے بھی توکم نہیں ہوتے تھے اُس کے پاس، دونوں جیبیں نوٹوں سے بھری رہتیں ہر وقت، اور پینٹ میں سکے کھنکھناتے رہتے ۔ کم از کم بھی ہزار پندرہ سو تو ہوتا ہو گا ہر وقت اُس کے پاس۔‘‘
ماما دلشاد کی دوسری طرف چارپائی پر بیٹھے دو اساتذہ نے جب یہ سنا تو ایک دوسرے سے سرگوشی کی۔
’’کل ہی اُسے سفید کپڑ وں والوں نے سمجھایا تھا کہ حکو مت کے خلاف بولنا بند کر دے مگر جمعہ سیٹی والا تھامرد کا بچہ ۔ جب وہ اُسے نہ ڈراسکے اور نہ پیسے سے خرید سکے تو اُس کی زبان بند کر دی۔‘‘
’’ارے یار تمہیں کب انسانوں کی پہچان ہو گی،یہ جمعہ سیٹی والا دراصل سی آئی ڈی کا آدمی تھا۔جان بوجھ کر ہمارے سامنے حکمرانوں کو گالیاں دیتا کہ ہم بھی کچھ کہہ دیں اور وہ بنا دے ہماری رپورٹ۔مجھے تو لگتا ہے اُسے انڈین یا روسی ایجنٹوں نے قتل کیا ہوگا کیونکہ آج کل پاکستان کی حکومت افغانستان میں روس کے خلاف امریکہ کی مدد کر رہی ہے جبکہ انڈیا روس کی ۔‘‘ دوسرے استاد نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے جھک کر سرگوشی کی۔
ماما دلشاد کی آنکھوں سے آنسو اور منہ سے لگے کپ سے چائے بہہ بہہ کر اُس کا دامن داغدار کر رہی تھی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جمعہ سیٹی والے کا قاتل کون ہے؟۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*