دل پتھر کے ہو جاتے ہیں

جہاں تک تشدد کی نفسیات کا تعلق ہے انسانوں نے پچھلے چند ہزار سالوں میں اپنی حیوانی جبلتوں پر قابو پانے اور ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے کے تین راستے بنائے ہیں۔

پہلا راستہ مذہب کا ہے۔ہر مذہب کی ایک روایت ایسی ہے جو امن کا پرچار کرتی ہے اور دوسرے انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ اس روایت پر چلنے والے سنت ’سادھو اور صوفی کہلاتے ہیں۔امن پسند مذہبی لوگ خدا سے اور جہنم کی آگ سے ڈرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے اعمال کا حساب ہوگا۔ ایسے لوگ امن سے رہتے ہیں اور دوسرے انسانوں سے ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ تعصب کرنا گناہ ہے اور ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔

دوسرا راستہ قانون کا ہے۔ انسان قانون کا احترام کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قانون کی نگاہ میں سب شہری برابر ہیں اور جو انسان قانون کا احترام نہیں کریں گے اور دوسرے انسانوں سے تشدد کا مظاہرہ کریں گے وہ مجرم کہلائیں گے۔ ’پولیس انہیں گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرے گی اور اور اس جرم کی سزا کاٹنے جیل جائیں گے۔

تیسرا راستہ انسان دوستی کا ہے۔ ایسے لوگ اپنے روشن ضمیر کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔

بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں دنیا کے بعض معاشروں میں تشدد کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات بے شمار ہیں جن پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میری نگاہ میں کسی قوم اور معاشرے میں جب

مذہبی رہنما منافق بن جائیں

سیاسی لیڈر کرپٹ ہوجائیں

پولیس اور عدلیہ کا کردار مشکوک ہو جائے

اور لوگوں کا ضمیر مردہ ہو جائے

تو انسانوں کے دل پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ ایسے انسان جانور بن جاتے ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔

امریکی فلسفی ’ماہرِ نفسیات اور دانشور ایرک فرام لکھتے ہیں کہ جانوروں کی جارحیت BENIGN AGGRESSIONہے۔شیر صرف اس وقت بکری پر حملہ کرتا ہے جب وہ بھوکا ہوتا ہے۔ بھوکا نہ ہو تو شیر اور بکری دوستانہ طور پر ایک ہی دریا سے پانی پی سکتے ہیں۔

انسانوں کی جارحیت جانوروں سے زیادہ خطرناک ہے وہMALIGNANT AGGRESSION ہے کیونکہ وہ اپنی جارحیت اور اپنے تشدد کو کسی اعلیٰ آدرش’کسی مذہب ’کسی مسلک اور کسی روایت سے جوڑ لیتا ہے اور اس تشدد کو مقدس بنا لیتا ہے۔جب کوئی نظریہ تشدد کا جواز بن جاتا ہے اور انسان سمجھنے لگتا ہے کہ میرا سچ ا?خری اور حتمی سچ ہے ’دوسرے نظریے اور روایت کے لوگ جھوٹے ہیں اور ان کا قتل نیکی ہے تو وہ نظریہ انسانیت کے لیے خطرناک بن جاتا ہے چاہے وہ نظریہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی روحانی ہو۔۔ایسے انسانوں کو

نہ خدا کا خوف ہوتا ہے

نہ قانون کا ڈر

نہ ہی ضمیر کا خیال

ایسے لوگ کسی آدرش کے لیے نہ صرف انسانی خون بہاتے ہیں بلکہ اس خون بہانے کو نیکی سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ دوسرے رنگ ’نسل ’زبان اور مذہب کے لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور ان سے غیر انسانی سلوک کر کے انہیں زندہ جلا دیتے ہیں۔سب کے سامنے جارحانہ طور پر قتل کر دیتے ہیں اور اس پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں اور ان جیسی سوچ رکھنے والے انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیان جاتا رہا

ہم اکیسویں صدی میں اس مقام پر آ گئے ہیں جہاں معاشرے میں ایسے مذہبی لیڈر ایسے سیاسی رہنما اور ان لیڈروں اور رہنماؤں کے ایسے پیروکار موجود ہیں جو جارحیت اور تشدد کوفروغ دیتے ہیں کیونکہ ان کے ضمیر مر چکے ہیں اور ان کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔

اب انفرادی نہیں اجتماعی احتساب کا وقت آ گیا ہے۔جب کسی معاشرے میں قتل اور تشدد نیکی ’بہادری اور حب الوطی کا استعارہ بن جائے تو ہمیں جان جانا چاہیے کہ اس قوم کا اخلاقی دیوالیہ ہو گیا ہے اور وہ قوم اجتماعی خود کشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*