فارم  اور  کانٹینٹ

 

ایک ماچس کے اندر موجود تیلیاں کانٹینٹ ہیں اور خود ماچس کی ڈبی فارم ہے۔ ماچس کی ڈبی اور تیلیاں ایک مخصوص شکل وصورت اور تعداد وترتیب میں بنی ہیں۔ ماچس کی ڈبی(فارم) کو محض اُس کی ظاہری شکل سے جانا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تیلیوں (کانٹنٹ) کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ تیلیاں (کانٹنٹ) فارم کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ اگر ماچس کی ڈبیہ چالیس تیلیوں کی گنجائش والی ہے اور اس میں 200تیلیاں ڈال دی جائیں تو ماچس یا تو پھٹ کر نئی شکل اختیار کر لے گی۔ اگر پھٹ نہ بھی جائے تو اُس کی صورت (فارم)بدل جائے گی۔

 

ماچس کی تو خیر ہے کہ اُس کی تیلیاں باہر سے ڈالی جاتی ہیں۔ مگر اگر انڈے کی بات کی جائے تو معاملہ ذرا پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے اُس کا چوزہ تو اندر سے بڑھتا رہتا ہے۔

 

انڈے کا شیل فارم ہوتا ہے اور اُس کے اندر چوزہ کانٹینٹ۔

 

انڈے کے شَیل کے اندر چوزے کے لیے آرام دِہ سپس اور خوراک موجود ہوتی ہے۔ چوزہ اُس کے اندر پلتا پھولتا جاتا ہے۔ اس لیے کہ پلنا پھولنا چوزے کی خصوصیت ہے۔ انڈے کے شیل کے اندر ہی یہ سب کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ مگر انڈہ بدقسمت ہے کہ کیلشیم کا ربونیٹ سے بنا اُس کا شیل عورت کے پیٹ کی طرح الاسٹک نہیں ہوتا۔ انڈہ اگر بڑا ہوتے ہوئے چوزے کے ساتھ ساتھ خود اپنے شیل کو بھی پُھلا دینے کے قابل ہوتا تو شَیل کی تباہی نہ آتی۔ مگر انڈے کی بدقسمتی ہے کہ اُس کا شیل یعنی یا فارم تو اٹل، جامد،ساکن، اور ناقابل تغیر ہے۔

 

چنانچہ ایک وقت ایسا آجا تا ہے کہ چوزے کے لیے جگہ کم پڑجاتی ہے۔ تو اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ چوزہ بڑھنا بند کردے۔ اُس (کانٹنٹ) نے تو بڑھنا ہی ہے۔ چنانچہ ایک مرحلے پر جا کر چوزہ (کانٹنٹ) شیل (فارم) کوتوڑ کر،اور اسے  برباد کر کے باہر نکل آتا ہے۔ مطلب فارم کو رضا کارانہ یا پھر بزورِ قوت کا نٹنٹ کی بڑھوتری کو Facilitateکرنا پڑتا ہے۔ صرف وہی فارم بچ سکے گی جو ابھرتے،بڑھتے، اور ارتقا کرتے کانٹنٹ کا ساتھ دے گی۔وگر نہ نشوونما کرتے کرتے کانٹینٹ فارم کو بدل ڈالتا ہے۔ یعنی کانٹینٹ فارم کا تعین کرتا ہے۔

 

دوسرے لفظوں میں کانٹنٹ اُن عناصر اور پراسیسوں کا کُل ہے جو چیزوں کی بنیاد بناتے ہیں اور جو اُن کے فارموں کے وجود، ڈولپمنٹ اور تواتر کو متعین کرتے ہیں۔

 

فارم تنظیم کا داخلی کنکشن اور میتھڈ بناتا ہے۔ یہ فناں مناں کے عناصر اور پراسیسوں کا آپس میں اور انوائرمنٹ کے ساتھ انٹرایکشن ظاہر کرتاہے۔ اسی لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف کانٹنٹ ہی اہم ہوتا ہے بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اگر فارم مطابقت والا ہو تو کانٹنٹ کی ترقی کو بھی زبردست مدد دیتا ہے۔

 

اس کا مطلب ہے کہ فارم اور کانٹنٹ اشیا کے اتحاد، سا  لمیت اور نشوونما کے داخلی سرچشموں کو ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ فارم اور کانٹینٹ الگ الگ چیزیں ہوتے ہوئے بھی ایک وحدت ہوتے ہیں۔ کانٹینٹ کے بغیر فارم نہیں اور فارم کے بغیر کانٹینٹ نہیں۔ فارم کانٹینٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کانٹینٹ فیصلہ کن،مگر فارم بھی جب تک فعال رہتی ہے موثر ہی رہتی ہے۔

 

فارم گوکہ کانٹینٹ پہ انحصار کرتی ہے مگر یہ بہت سرگرمی کے ساتھ کانٹینٹ پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ وہ اس کی نشوونما میں مدد بھی دیتی ہے۔ انڈے کا شیل محض کانٹنٹ یعنی چوزے کا حفاظتی قلعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ اسے باہر سے ہوا اور نمی بھی مہیا کرتا رہتا ہے۔مگر یہ حتمی بات ہے کہ ایک جگہ جا کر فارم کانٹنٹ کی لامحدود ڈویلپمنٹ کے امکان کا ساتھ دینے سے قاصر ہوجاتی ہے۔ تب وہ اُس کی بڑھوتری کو روکنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔ پہلے کم کم مگر، پھر پورا تن من لگا کر۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر فارم کانٹینٹ سے مطابقت رکھتی ہوتو وہ اُس کی نشوونما اور پیش قدمی کو تقویت دیتی ہے۔ مگر جوں جوں فارم پرانی ہوتی جاتی ہے تو وہ کانٹینٹ سے مزید مطابقت رکھنے سے معذور ہوتی جاتی ہے۔ اُس کے سجدے طویل ہونے لگتے ہیں، رویے اور لوچ سخت ہونے لگتے ہیں۔ اور چونکہ خود کو بدلنے سے قاصر ہوتی ہے اس لیے اب وہ کانٹنٹ کی بڑھوتری پہ حسد کرنے لگتی ہے، اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے، اسے محدود کرنے کی تگ و دو کرتی ہے، اس کی رقیب بن جاتی ہے۔تب وہ کانٹنٹ کی ترقی میں رکاوٹ بن جا تی ہے۔۔ اور پھر ایک سٹیج پہ جا کردونوں کے بیچ بقا کی جہد شروع ہوجاتی ہے۔

 

یہ صرف کرسی کی جنگ نہیں ہے، یہ بقا کی جنگ ہے۔مضمحل شدہ فارم اور بھرپور و متحرک و نشوونماپاتے کانٹنٹ کے درمیان بقا کی جنگ۔ اور نتیجے میں بقا کس کی ہوگی؟۔ بقا کانٹنٹ کی، نشوونما کی اور ارتقا کی ہوگی۔ کانٹنٹ نشوونما کی بنیاد ہے۔ ارتقا کانٹنٹ کی خمیر میں گندھا ہوا ہوتا ہے۔ فارم بے چاری تو ہارنے والی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے۔

 

چنانچہ اِس مناقشے میں کاہل،بڈھااور لچک اور اکاموڈیٹ کرنے سے محروم شدہ فارم مرجاتی ہے۔یوں بھر پور نشوونما کرتا کانٹنٹ اپنی نشوونما کی راہ میں اب بنی ہوئی اُس رکاوٹ کو دو ر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ فارم اور کانٹنٹ کا اتحاد اضافی اور عبوری ہوتا ہے۔ دور سے، اور بظاہر یک جان و دو قالب نظر آتے اِن دونوں کا یہ اتحاد اِن دونوں کے درمیان تنازعات اور جدوجہد سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

 

فارم بذاتِ خود کبھی بھی بنا تبدیلی کے نہیں رہتی۔ فنا کی طرف تبدیلی جاری رہتی ہے۔مگر یہ تبدیلی، فارم کو ضائع کر کے پھینک دینے کی طرف یکدم نہیں چل پڑتی۔ تویہ فارم اور کانٹنٹ کے بیچ تضادات کے بتدریج تیز ہوتے رہنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ مزید برآں کانٹنٹ سے براہِ راست وابستہ ہونے والے بیرونی حالات، فیکٹرز اور کنکشنز بھی فارم کی تبدیلی پہ کچھ اثر ڈالتے ہیں۔

 

فارم کی آزادی ایک relativeآزادی ہوتی ہے۔ آزادی کی یہ اضافیت فارم کے بوڑھے ہوتے جانے سے زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ شروع میں فارم کی سٹیبلٹی ایک ایسا فیکٹر ہے جو کانٹنٹ کی بتدریج ڈولپمنٹ کو یقینی بناتا ہے۔ مگر وقت گزر نے کے ساتھ اب یہ کانٹنٹ کے لیے سٹیبلٹی نہیں رہتی بلکہ اب یہ ایک بوجھ، ایک جنجال اور سرگردانی بنتی جاتی ہے۔ حتی کہ یہ قدیم کے تحفظ کی رکھوالی بن جاتی ہے۔قدیم اور قدامت کی ر کھوالی بن جاتی ہے۔ کانٹنٹ اور فارم اب ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔

 

جیسے کہ ذکر ہوا کہ ایک کوالی ٹے ٹو حالت سے دوسرے میں عبور کے اندر پرانی فارم یا تو منسوخ ہوجاتی ہے۔ یا وہ اپنی صورت بدل دیتی ہے۔مگر پرانی فارم کو اُس وقت تک منسوخ نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ خود اُس کے اندر ضروری شرائط اور ایک زیادہ بہتر شدہ فارم کی طرف عبور کے لیے عناصر تیار نہ ہوئے  ہوں۔ یعنی فارم کی یہ موت، اور اُس کے ”اس  اخراج“ کا ایک ڈائلیکٹیکل پراسیس ہے جس میں پرانی فارم کومکمل طور پر ضائع کر کے پھینک نہیں دیا جاتا۔اور نئی فارم بھی یکدم مسلط نہیں ہوتی بلکہ بتدریج غالب آتی رہتی ہے۔

 

اور کبھی کبھار معاملہ الٹ بھی ہوجاتا ہے۔ فارم اور کانٹنٹ کے قانون کے بالکل برعکس۔ چنانچہ دشمنی کے اس کھیل میں کانٹنٹ کے لیے تباہ کردینے والا خدشہ موجود رہتا ہے۔پرانی فارم کی”بربادی“ کا یہ خدوخال پیچھے جانے کی ڈویلپمنٹ کے لیے امکانات بھی پیدا کرتا ہے۔یہ پرانی فارم کی بحالی کے لیے امکانات بھی پیدا کرتا ہے۔ہم نے کمیونسٹ سوویت یونین کو دوبارہ کپٹلسٹ روس بنتے دیکھا ہے۔

 

فارم اور کانٹنٹ والے اس قانون کا اطلاق سماج پہ بھی ہوتا ہے۔سماج کیا ہے؟۔ یہ پیداوار اور اس سے جڑے ہوئے طبقاتی رشتوں سے بنتا ہے۔یہاں پیداوار اور اُس سے جڑے ہوئے طبقاتی رشتے کانٹنٹ ہیں۔ اور سیاست، آرٹ، اورمذہب فارم۔ یہ فارم کسی بھی طرح سست اور غیر فعال نہیں ہوتی۔ انہی میں اور انہی کے راستے انسانیت کی شعوری زندگی چلتی ہے۔ مگر یہ سب کانٹنٹ کے محتاج ہیں۔

 

سوشل سائنس میں فیوڈلزم پر بھی فارم اور کانٹینٹ کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔اگر آلاتِ پیداوار نامی کانٹنٹ ترقی کرتے جائیں گے تو پیداواری رشتے یعنی فارم ایک جگہ تک تو اُن کی مدد کرتے ہیں۔ پھر فارم اُن کی یہ مدد جاری نہیں رکھ پاتی،رک جاتی ہے۔ او رآخر کار یہ فارم یعنی پیداواری رشتے اپنے کانٹنٹ یعنی پیداواری قوتوں (قوتِ محنت اور آلاتِ پیداوار) کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ تب آلات پیداوار اور قوتِ محنت ترقی کی اپنی صفت کے ہاتھوں مجبور، اپنی ترقی جاری رکھنے کے لیے فارم ہی کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔

 

بلوچستان میں صدیوں سے فیوڈل نظام قائم ہے۔اور صدیوں ہی سے بھوتار اور راہک پہ مشتمل پیداواری رشتے (فارم)پیداواری قوتوں یعنی آلاتِ محنت اور قوتِ محنت نامی (کانٹنٹ)کی ترقی کوروکے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ فارم (فیوڈلزم) کافی عرصے سے کانٹینٹ (آلات اور قوتِ محنت) کی نشوونما کا  ساتھ نہیں دے سک رہا۔ وہ (فیوڈلزم)بوڑھا ہوتا جارہا ہے، اور بلوچستان میں اپنی نشوونما پاتے ہوئے کانٹنٹ (آلاتِ پیداوار، اور قوتِ محنت) کے مزید ارتقا اور نشوو نما میں رکاوٹ بن رہا ہے۔کانٹینٹ تو نشوونما کی اپنی خصوصیت ترک نہیں کرسکتا۔ اور نشوونما کے نتیجے میں تو وہ ترقی کرتا جاتا ہے۔ اب آلاتِ پیداوار اور قوتِ محنت کی ترقی (یعنی کانٹنٹ) کی ترقی نے تور کنا نہیں لہٰذا لازمی ہے کہ رکاوٹ یعنی فارم یعنی فیوڈلزم ٹوٹے۔اس کے بغیر سماجی ترقی ممکن ہی نہیں۔

 

بلوچستان میں حتماً ایک نئی فارم نے وجود میں آناہے جو کانٹینٹ کی نشوونما کا کافی عرصہ تک ساتھ دے۔ یعنی فیوڈلزم والی فارم نے ٹوٹنا ہے۔ ایک نئی فارم قائم ہوگی جسے کپٹلزم کہیں گے۔ مگر کپٹلزم کی نئی فارم بھی رفتہ رفتہ بے کار ہوتی جائے گی اور پھر وہ بھی برباد ہوکر نئی فارم کو جگہ دے گی ۔ سوشلزم نامی فارم۔

 

کمیونسٹ پارٹی بھی فارم اور کانٹنٹ کے فارمولا پر چلتی ہے۔ پارٹی، اُس کا شعوری لیول،اور اُس کا ڈسپلن فارم ہیں۔”انقلابی تقاضے“ اُس کا کانٹنٹ ہیں۔ سماج میں دونوں یعنی فارم (پارٹی) اور کانٹنٹ (انقلابی رکوائرمنٹ)ضروری ہیں۔۔۔اور انقلابی پارٹی (فارم) خواہ جتنی بھی نعرے بازی کرے، خواہ جتنے اجلے جھنڈے اور بینر لہرائے اور خواہ جتنے میٹھے ترانے گانے گائے  مگر ایک بات حتمی ہے۔ وہ یہ کہ پارٹی اپنے کانٹنٹ کی خوشنودی کے لیے کام کرتی رہے گی، خود کو اس کے ساتھ ہی ایڈجسٹ کرتی رہے گی۔ یہی اُس کی تقدیر ہے۔ پارٹی اول نہیں ہے، اُس کا ڈسپلن اول نہیں ہے، اُس کا شعور اول نہیں ہے۔ اول تو ”انقلابی ضرورت“ ہے۔ پارٹی پابند ہے کہ اسی ضرورت کی مطابقت میں خود کو بدلتی سنوارتی رہے گی۔

 

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*