خودکش دھماکے کا رومانس

پچھلے ایک ماہ سے پاکستان میں جیسے ہی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد پیش ہوئی ہے ہر غیر اخلاقی لفظ حلال ہوگیا ہے نہ صرف حکمران جماعت کے کارکنان کے لیے بلکہ ان کے وزراء ، عہدیدران اور خود وزیراعظم اپنے غصے کے اظہار کے لیے ناشائستہ زبان کا استعمال جائز سمجھ رہے ہیں اور جذبات میں کئی دفعہ ایسے الفاظ بھی استعمال کر جاتے ہیں جو اردو زبان میں موجود نہیں لیکن یہ ان لوگوں کے لیے جو سیاست کی تاریخ اور خاص کر برصغیر کی سیاست سے واقف ہیں ان کے لیے کوئ اچھنبے کی بات نہیں ۔لیکن جب بات آپس کے اختلاف سے بڑھ کر قتل و غارت کی تعریف پر آ جاۓ تو سمجھ لینا چاہیے کہ معاشرے کے سب اچھا کی خوشنما چادر کے نیچے اخلاقیات کا جنازہ پڑا ہے ۔ سیاستدانوں کا کام سیاست کرنا ہے اس کو شطرنج سے تشبیہہ دی جاتی ہے .اس میں وہ ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کی کردار کشی بھی کرتے ہیں لیکن اس میں خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسی کوئی بھی مہم جوئ نہ کی جاۓ جو  قتل عام  کے جذبات بھڑکاۓ اور بڑے پیمانے پر قتل وغارت کا امکان ہو اور صرف وہی سیاستدان جن کو اپنی سیاست پر عبور نہیں ہوتا وہ اپنے چاہنے والوں کے جذبات کو اس حد تک بھڑکا دیں کہ وہ پوری قوم کا قتلِ عام شروع کر دیں کیونکہ ہنگامے بھی ایک حد تک سیاسدانوں کی اپنے مقاصد کے حصول میں مدد کرتے ہیں اس کے بعد ان کے پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے جو ان سیاستدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ہم نے کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ سیاست میں تشدد کا عنصر خاص کر برصغیر کی سیاست میں ذیادہ ہوتا جا رہا ہے ۔ مودوی گجرات کے قتل عام کے باوجود وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں اور ساتھ ہی ہم نے دیکھا کے سیکولر انڈیا کے پرخچے اڑر گۓ ۔ ہندوستان میں صرف مسلمانوں پہ زندگی کا دائرہ تنگ نہیں بلکہ دلتوں ، سیکولر اور دوسری اقلیتوں اور ہر اس شخص کا جینا حرام ہے جو انتہا پسندی سے دور ہے  چاہے وہ ان میں سے ہی کیوں نہ ہو ایک چھوٹا سا انکار پر بھی آپ جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں ۔اس طرح سے ہم نے دیکھا کہ امریکہ میں جہاں سیاست تقریروں اور سیاسی مہم تک محدود رہتی ہے اور ذاتی حملے بھی منہ زبانی نشتر زنی تک محدود رہتے تھے ڈونلڈ ٹرمپ کی بدولت باقاعدہ کپیٹل ہل پر حملے تک پہنچ گۓ جب امریکہ کی عوام نے ان کو ووٹ کی طاقت سے وائٹ ہاؤس سے باہر نکال دیا لیکن کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک اور دفعہ صدر رہنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اس جمہوری عمل کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ووٹر کو حکم دیا کہ وہ نئے صدر کے منتخب ہونے کے عمل میں رخنہ ڈالیں اور پارلیمنٹ پر حملہ کر دیں بہت مشکل سے اسیکورٹی اداروں کی بدولت عوامی نمائندگان کی بچت ہوئ لیکن ٹرمپ کو کسی قتل وغارت سے کوئ دلچسپی نہیں تھی چاہے اس میں ان کے اپنے چاہنے والوں کی جان چلی جاۓ ۔

پاکستان میں سیاست کبھی بھی اخلاقیات کے دائرے میں نہیں رہی جہاں پہلے ہی وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی ہو، فاطمہ جناح کو غدار کالقب ملا ہو ، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا ہو ، بے نظیر بھٹو کو بم دھماکے میں موت کے حوالے کر دیا گیا ہو ، وہاں کی سیاست کتنی خونی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس چیز کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اب میڈیا کی وجہ سے عوام میں پہلے سے زیادہ بیداری پائ جاتی ہے اور کوئ بھی خبر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور اس صورتحال میں پاکستان کی سیاست میں جو رومانس خودکش دھماکوں کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ افسوسناک ہے ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کو طالبان کے خلاف جنگ میں دی جانے والی حمایت کے بعد خودکش دھماکوں میں شدت آئ اور ان دھماکوں کا نشانہ سکیورٹی ادارے اور اہل تشیع کی عبادت گاہیں بنیں ابھی حال میں ہی پشاور کی امام بارگاہ کا دھماکہ اس افسوسناک امر کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے نظریہ کو ہی اٹل حقیقت ماننے والے اور اس کے علاوہ ہر ایک کو کافر سمجھنے والے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو سانس لینے کا بھی حق دار نہیں سمجھتے اور ان کے جسم سے زندگی کو نچوڑ دیتے ہیں ۔ خودکش دھماکہ انتہائی خوفناک قسم ہے دہشت گردی کی کیونکہ اس میں دہشتگردی کے لیے آنے والا موت کا فرشتہ ہے اور وہ خود بم ہے اور اس سے پھیلنے والی تباہی کوئی بھی انسان جس نے وہ منظر نہ دیکھا ہو اس کے تصور سے باہر ہے کہ اس جگہ پر جانوروں کی طرح لوگ ذیبح ہوۓ ہوتے ہیں اور اس جگہ پر اتنا خون موجود ہوتا کہ اس کو باقاعدہ حوض لگا کر دھویا جاتا ہے لوگ اپنے پیاروں کی خیریت جاننے کے لیے تڑپتے ہیں جو بچ جاتے ہیں وہ مردوں سے بدتر حالت میں ہوتے ہیں اور جو مر جاتے ہیں ان کی لاشوں کا کوئی حصہ نہیں مل رہا ہوتا ایسے میں ایسا ملک جس میں اب تک پچاس ہزار افراد اپنی جان ان دھماکوں میں کھو چکے ہوں اس میں سو کالڈ عوامی نمائندگان وہ بھی جو حکومت سے تعلق رکھتے ہوں ان کا خودکش دھماکوں کی خواہش کا اظہار اس امر کا اظہار ہے کہ یہ دولتمند گدھ عوام کے بارے میں اصل میں کیا راۓ رکھتے ہیں ۔ غلام سرور خان کے وزیر ہوابازی  جنہوں نے پہلے پاکستان کی ہوابازی کی صنعت کو ڈبویا وہ بہت فخر سے تقریر میں فرما رہے تھے کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ جدھر اپوزیشن والے بیٹھے ملیں وہاں خودکش دھماکہ کر دیں ۔پھر شہریارآفریدی جو بظاہر کشمیر کمیٹی کے سر برا ہ مقررہوۓ ان کو بھی یہ بہت من بھایا اور انہوں نے بھی اپنی تقریر میں یہی فرمایا اور ان کے ورکرز کو وہ پیغام مل گیا جو وہ دینا چاہتے تھے عمران خان کے جلسے میں شریک خاتون مولانا فضل الرحمان پر خوکش حملہ کرنا چاہتی تھیں تین اپریل کو اجلاس کے بعد ایاز سید نمائندہ جیو نیوز نے غلام سرور سے پوچھا کہ ابھی بھی خودکش حملے کی خواہش باقی ہے تو انہوں نے فرمایا نہیں یہی خودکش دھماکہ تھا ۔جس ملک میں ایک پورا فرقہ اس کی وجہ سے اجڑ گیا ہو اس ملک کی افواج اور پولیس کو اس دہشت گردی کا سامنا رہا ہو وہاں اس قسم کی سوچ وہ بھی حکومت وقت کے پاک صاف دودھ سے دھلے نمائندگان کی طرف سے انتہائ شرمناک ہے اور اس سے زیادہ شرمناک پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن ، انسانی حقوق کے نمائندگان اور صحافیوں کی خاموشی اس اخلاقی انحطاط کی عکاس ہے جس کا پاکستان شکار ہے ۔یہ سب لوگ جو ان دھماکوں کو کرنے کے خواہشمند ہیں وہ ان تمام دہشتگردوں کو سند بخش رہے ہیں کہ جو آپ سے اختلاف کرے اس کو مارنا جائز ہے اور آپ شہید اور جو مر گۓ وہ اسی کے حقدار تھے ۔خودکش دھماکوں سے اتنا پیار کرنے والوں نے کبھی خود کوئ ایسی لاش نہیں اٹھائ جس کا سر نہ ہو کبھی اپنے پیارے کو اس دھماکے کے بعد زندگی موت کی ایسی کشمکش میں نہیں دیکھا کہ خود اس کے پیاروں نے اس کی موت کی دعا کی ہو کہ اس کی تکلیف کم ہوجاۓ اور نہ ہی اس ماں کی تکلیف دیکھی ہے جو ننگے پاؤں اس دھماکے کی اطلاع کے بعد جاۓوقوع کی طرف بھاگتی ہیں کیونکہ ان کا جگر کا ٹکڑا وہاں گیا تھا ۔

اختلاف راۓ سیاست کا حسن ہے پہلے حکمران اپنی حکومت بچانے کے لیے غداری اور توہین مذہب کے سریٹیفکیٹ بانٹتے تھے اب خودکش دھماکوں کے خواہشمند ہیں کیونکہ وہ ہمارا خون تھا جو خاک نشین ہوا جب تک یہ پورا ملک قبرستان میں نہیں بدل جاۓ گا ان Vampires کو سکون نہیں آنا لیکن صحافی اور انسانی حقوق کے نمائندگان ان کی زبان بندی کیوں کرنے سے قاصر ہیں ؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*