غزل

براہِ دشتِ  خرد  دل  کہیں بھٹکتا ہے

گماں کے شہر سے آگے یقیں بھٹکتا ہے

 

جہاں خاک پہ دم ہورہا تھا کْن فَیکْن

شبِ الست کا وعدہ وہیں بھٹکتا ہے

 

زمانہ واقفِ خوئے گریز ہے لیکن

کبھی کبھی دلِ گوشہ نشیں بھٹکتا ہے

 

ہمارے سر پہ رہا عشق زاد کا سایہ

دل اِ س مکان سے آگے نہیں بھٹکتا ہے

 

ادب کے کوچہ میں منزل کبھی نہیں آتی

تمام عمر سخنور یہیں بھٹکتا ہے

 

کبھی جو بابِ تحّیّر میں کوئی داخل ہو

تو رقص کرتا ہے اور اوّلیں بھٹکتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*