سوال تو اٹھیں گے

ادب، سائنس، فلسفے اور فکر سے محض تعلق کسی کو دانشور نہیں بناتا۔ دانشوری مسلسل سوال اٹھانے، ہر صورت حال کے تمام ممکنہ پہلووں پر نظر ڈالنے، ہر مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرنے، مقبول آرا پر سوالیہ نشان لگانے، اور سب سے بڑھ کر ہر نئے مسئلے کو اس کے اپنے تناظر میں سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔

ہمارا وجود سوالوں پر ہی قائم ہے۔ ہم سوالوں کے گہوارے میں ہی سانس لیتے ہیں۔ پوری تہذیبِ انسانی سوال پر کھڑی ہے۔ سوال وہ پیمانہ ہے جس سے ہماری ذہانت، سوچ کی گہرائی یا اس کی سطحیت کو فورا ناپا جا سکتا ہے۔ ان معاشروں کو دیکھ لیں، جنہوں نے سوالوں کو افیم چٹا کر سلا دیا ہے۔ اور ‘مستند ہے میرا فرمایا ہوا’ کے گرد کولہو کے بیل کی طرح گھومنے کو ارتقا سمجھ رہے ہیں۔ وہاں کس طرح نسل در نسل تابعداری، ذہنی غلامی کی سپلائی جاری ہے۔ تاکہ پنڈتوں، عالموں اور حکمرانوں کا کر و فر برقرار رہے۔ ان معاشروں میں دوسروں کا علم کرائے پر لے کر اپنا علم ثابت کرنے کا بازار گرم ہے۔ دراصل ایسا معاشرہ سوالوں سے ڈرتا ہے۔ سوال ایٹم بم سے زیادہ طاقت ور ہے۔ اسی لئے بادشاہ سوال سے ڈرتا ہے۔ ریاست سوال سے کانپتی ہے۔ سوال تقدس اور دبدبے کو خاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی لئے سوال پوچھنے والے طالب علم کو بدتمیز، پراگندہ ذہن، گمراہ اور جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ تبھی تو سوال کو توہین اور گستاخی کے زمرے میں ڈال کر سوال کنندہ کو گولی ماری جا سکتی ہے۔

رسل کا کہنا تھا، دنیا کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ناسمجھوں اور انتہا پسندوں کا ضرورت سے زیادہ پراعتماد اور دانش مندوں کا شکوک میں مبتلا ہونا ہے۔ تشکیک بتاتی رہتی ہے کہ ایک کے علاوہ متبادل زاویئے اور جوابات موجود ہیں۔ بے لچک لوگ ہاتھا پائی، دشنام گوئی اور جدال و قتال میں تو مشاق ہوتے ہیں، لیکن علمی و فکری میدانوں میں کسی چیز کا دفاع نہیں کر سکتے۔

جو نظریہ یا تصور روحِ عصر سے ہم آہنگ نہ ہو، اجتماعی شعور اس کا وہی حشر کرتا ہے جو سمندر مردہ مچھلی کا کرتا ہے۔ عیسائیت نے تاریخ سے سبق سیکھ لیا، کہ مذہب اپنی ابتدائی بنیاد کو زیادہ دیر قائم نہیں رکھ سکتا۔ زمانے کی تبدیلی، معاشرے کی خواہشات، ضروریات اور تقاضے اسے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ جو مذاہب بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں لاتے، وہ جامد ہو کر مردہ ہو جاتے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*