مہکتی خوشبو ان کتابوں کی

 

ایک وقت تھا جب کتابوں کی اپنی ایک مہک ہوا کرتی تھی۔
گاؤں میں مولوی صاحب کے ساتھ پڑھتے ہوئے سی پارے اور کلام مجید سے اٹھتی ہوئی خوشبوں کو آج دل کھول کر سونگھنا چاہتے ہیں مگر افسوس آج وہ مہک، وہ خوشبوں کہی دور دور تک بھی میسر نہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب گاؤں میں ماسٹر صاحب کے ہاتھوں ملے دو چار کتابوں یا تو ابو جان کو ورثے میں ملے دو عدد کتابوں کی خوشبوں کو دور سے کمرے میں داخل ہوتے ہی محسوس کیا جا سکتا تھا جن سے اٹھتی ہوئی مہک اور خوشبو کو سونگھنے کے بعد انہیں چوئے اور پڑھے بغیر چھوڑ کر کوئی بھی اپنا چین و سکون گنوانا ہر گز گوارہ نہیں کرتا تھا۔
وہ مہک ہی تھی جو ایک ہی کتاب کو بار بار پڑھنے پہ اکساتی۔
وہ ہلکی اور دھیمی سی مہک ہی تھی جو انسان تو انسان دیمک کو بھی کتاب کے اندر گھسنے پہ مجبور کرتی تھی۔
شاید کتاب کی اپنی اہمیت بھی اجاگر کرنے میں اس مہک کی اپنی ایک الگ سا کردار تھا۔
اب نہ وہ مولوی استاد جی رہے جن کےلئے پورے محلے سے دو وقت کی روٹیاں، سالن جمع کرکے ہم بھی موٹے تازے ہوکر لال رنگت اختیار کیئے ہوئے تھے نہ گاؤں والے وہ ماسٹر صاحب رہے جن کو دیکھ کر کتابوں سے ڈر سا لگنے لگتا تھا۔
اور نا ہی وہ مہک رہی جو ماسٹر صاحب کا خوف یا کتابوں کی اپنی قدر و قیمت میں اضافہ کرکے ہر وقت جگائے رکھتی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ ماضی میں انسانوں کے ضمیر جاگے ہوئے اور انکھیں بمع قلب کھلے ہوئے ہوتے تھے۔
اور آج؛
آج وہ دیمک بھی تو نہیں رہے جو بارش کے موسم میں کتابوں کو چھوڑ کر پَر لگائے ایک دن کیلئے اڑان بھرتے تھے۔
وہ بھی تو چھوٹے مگر اثر و رسوخ رکھنے والے ننھے منھے باعلم حشریات تھے۔
وہ بھی تو کتابوں میں پل بڑھ کر اڑنے کے قابل ہوتے تھے۔
یہ فلسفہ آج کہی جاکے سمجھ آ چکا ہے کہ اونچی اڑانوں کیلئے کتابوں کے اندر کھستے رہنا چائیے تب ہی تو انسان کو پَر بھی لگا دئیے جائینگے اور اڑان بھی سکھایا جائے گا۔
وہ کیا زمانہ تھا!
ایک ہی کتاب پورے گاؤں میں گھوم پھر کر واپس ترے پاس آجایا کرتی تھی اور ہر بار اسکی آمد کا پہلے سے زیادہ بے چینی سے انتظار اور اس کو کھول کر پڑھنے کی ایک انتک تمنا اور خواہش سرایت کر جاتی تھی۔
کتنا فرق ہے ہمارے آج اور کل میں؛
مسئلہ یہ نہیں کہ ہم آج ماضی کی طرح کتاب پڑھنے سے ڈرتے ہیں یا ماسٹر صاحب کی یاد نے آکر ہمیں خوفزدہ کرنا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ میرے کتابوں سے وہ مہک غائب ہے آج!
کل ماسٹر صاحب کو سوچ کر رونا آجاتا تھا اور آج۔۔۔ آج ماسٹر صاحب بمعہ اس مہک کے غائب ہونے پہ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
ہر کسی کا کچھ نہ کچھ، کہی نہ کہی اس مہک سے ایک گہرا رشتہ قائم اور ہزاروں یادیں وابستہ ہیں مگر اب وہ رشتہ رہا نا وہ نبھانے والی۔۔۔مہک۔
رہہ گئی تو بس یادیں۔
یادیں بھی کس کی!
ورثے میں ملی کتابوں کے پیلے رنگ والے صفحات کی۔
اسکول سے ملے کتابوں کی مہک کی جو معلوم نہیں کب کا روٹھ کر ہم سے ہماری بچپن بھی چھین کر لے گئی۔
آج تو ڈیجیٹل دور ہے؛ کتابیں بھی نئے صفحے بھی نئے۔
بلکہ کتابوں کی جگہ موبائل اور پی سی نے لے لی ہے جن میں ہزاروں کتابیں ڈال کر انسان کہی سے کہی لے جاسکنے کے قابل ہوگیا ہے۔
مگر رہہ گئی تو ایک وہ خوشبو جو ہر کتاب کے کھولنے سے اسکی سالِ تالیف و اشاعت اور مصنف کے زمانے میں لے جاتی تھی جہاں پڑھنے والا اسی زمانے میں جاکر خود ہی ماضی کے دریچوں میں غوتے لگا کر سیکھتا تھا۔
کچھ سیکھنے کا وقت بھی تو وہی تھا نا؟ اب تو بس پڑھنے والے رہہ گئے سیکھنے والے نہیں۔ سیکھنے کی وہ تڑپ بھی تو وہی کے وہی رہہ گئی۔ اک بار پھر یہ کہنا بجا ہوگا کہ
نہ مہک رہی
نہ تڑپ رہی
نہ ہی دم رہی۔
بجز اسکے کہ ہم کتابوں کے ساتھ دوستی نبھائے، ہم تو زمانہ بدلنے کی طعنے دے کر پرانے محنت کش، کتاب اور علم دوست حضرات پر ہنسی مزاق کر بیٹھتے ہیں کہ زمانہ کہا سے کہاں پہنچ گیا اور دنیا میں موجود چند چیدہ چیدہ افراد کتاب پڑھنے کی جسارت کرتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی زمانہ ہے کتابوں میں سر کھپانے کی۔
یہ اور ایسی تمام الجھی ہوئی باتوں سے عثمانی صاحب کے وہ قیمتی الفاظ یاد آجاتے ہے۔ کیا خوب لکھا ہے انہوں نے کہ
"کاغذ کی مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابو سے عشق کی”
واقعی کاغذ کی وہ مہک روٹھ کے اپنے ساتھ کتاب دوستی اور روباط کو توڑ کر جا چکی ہے۔ لوگ جہاں کتابوں سے استفادہ حاصل کئے بنا ڈیجیٹلائزڈ ہو چکے ہیں تو وہی کتابوں نے بھی اپنے مثبت اثرات چھوڑنا چھوڑ چکے ہیں۔
نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب نشانی بتائی ہے کہ "قرب قیامت میں علم تو رہے گا مگر اسکی اہمیت نہیں رہے گی”۔
اہمیت تو کھو گئی مگر اب
کتابوں اور علوم سے کس طرح افادیت حاصل کی جائے یہ اثرات بھی زائل ہوچکے ہیں۔ ڈھیر ساری کتابوں، پی ڈی ایف اور لکھت پڑھت کے باوجود نا علم رہی نا شعور۔
ہائے روز کتاب پڑھنے والے حضرات کی تعداد میں کمی واقع ہوجانا ایک اہمیہ ہے۔
ہائے دن وہ مہک ہم سے دور ہوتی جارہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ وہی مہک تھی جو کتاب طڑھنے پہ اکسایا کرتی تھی اور اب اپنے ساتھ سب کچھ اڑا کے لے گیا۔ شوق جنون، بچپن اور شعور۔ سب کچھ۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*