عورتوں کے حقوق

 

عورت کی حقیقی آزادی اور اس کے مساوی حقوق کے حصول کے لئے مارکسزم کے سائنسی اصولوں کو بیان کرتے ہوئے اینگلز نے کہا تھا کہ عورتوں کی آزادی اور مردوں کے ساتھ ان کی مساوات اس وقت تک ناممکن ھے جب تک عورتوں کو سماجی پیداوار سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک محدود رکھا جائے گا ۔ عورتوں کی آزادی اس وقت ہی ممکن ھو گی جب عورتیں ایک بڑے سماجی پیمانے پر پیداوار میں حصہ لے سکیں گی ۔
عورتوں میں انسان دوستی ، امن عالم اور دنیا کو تمام مردوں اور عورتوں کا مشترک گھر سمجھنے کا یہ رویہ مارکسی بنیادیں رکھتا ھے جو عورتوں اور مردوں کو حقوقِ انسانی اور امن عالم کے لئے آواز بلند کرنے پر اکساتا ھے ۔
کارل مارکس اور اینگلز نے کیمونسٹ مینی فیسٹو میں کہا تھا کہ بورژوازی نے خاندان میں پائے جانے والے جذبوں کے نقاب کو اتار پھینکا ھے اور خاندانی تعلقات کو محض اقتصادی تعلقات میں بدل دیا ھے ۔ مارکسزم کے اس تجزیے کی صداقت ماضی اور حال کے تمام سرمایہ دارانہ معاشی سماجوں میں نظر آتی ھے ۔ زرائع پیداوار پر جب تک سرمایہ دار طبقے کا تسلط برقرار رھے گا انسانی سماج میں ہر رشتے اور ہر قدر کی تجارت ہوتی رہے گی ۔ منافع کا حصول جب اولین ترجیح بن جائے تو پھر عورت کا وقار اور سماج میں اس کے مساوی حقوق کی بات نعرہ بازی کی حیثیت اختیار کر لیتی ھے ۔
عورتوں کے انسانی حقوق کے لئے مارکسزم کی جدوجہد کے ثمرات محض ان ملکوں تک نہیں رھے جہاں سوشلسٹ انقلاب رونما ہوئے بلکہ مارکسزم نے یورپ کے دیگر ممالک ، امریکہ ، ایشیا ، افریقہ اور دوسری براعظموں میں بھی تحریک نسواں پر گہرے اور مثبت اثرات مرتب کئے ۔ فرانسیسی خواتین کی جدوجہد کو کیمونسٹ پارٹی آف فرانس کی مکمل حمایت حاصل رہی ھے اور اس حمایت نے انہیں متعدد مطالبات منوانے میں سہولت دی ۔ سابق مغربی جرمنی ، برطانیہ ، بلجیم ، اٹلی ، آسٹریلیا ، ڈنمارک ، سویڈن ، ناروے ، یونان اور امریکہ میں بھی خواتین کی تحریک پر مارکسی اور سوشلسٹ خیالات رکھنے والی خواتین کی اکثریت رہی ھے اور وہی تحریک نسواں کا ہراول دستہ ثابت ہوئی ہیں ۔ یورپ اور امریکہ کی ان عورتوں نے نہ صرف اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی ھے بلکہ مارکسی اور سوشلسٹ تنظیموں سے جڑی ان عورتوں نے امن عالم کے لئے بھی گراں قدر کام کیا ھے ۔ چنانچہ امن عالم کی حمایت میں اطالوی عورتوں کی انجمن کے علاوہ برطانوی عورتوں نے تخفیف اسلحہ کے لئے اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف زبردست مہم چلائی ۔ اسی طرح امریکی عورتوں کی تنظیموں نے عظیم الشان جنگ کے خلاف مظاہرے کئے اور اپنے ملک کی جانب سے ویت نام میں کئے جانے والے جنگی جرائم کے خلاف جد وجہد کی ۔
سوشلسٹوں نے صنفی مساوات کے جس آدرش کو سامنے رکھا ، وہ ایک دن میں حاصل نہیں کئے جاسکتے تھے ، اس لئے کہ مردوں کی بات تو ایک طرف رہی ، ہزارہا برس کی محکومی نے بہت ہی کم عورتوں کے ذہنوں میں اپنی تیسرے درجے کی حیثیت کے بارے میں سوال اٹھائے ہیں یا اس صورت حال کے خلاف انھوں نے احتجاج اور جدوجہد کی ہمت کی ھے ۔
یہ حقیقت ھے کہ ریاستی سطح پر سوشلسٹ ممالک میں سوشلزم کی پسپائی نے ان ملکوں میں عورتوں کی حثیت اور مرتبے پر خراب اثرات مرتب کئے ہیں ۔ اس کے باوجود عورتوں کی آزادی کی تمام تحریکیں سوشلسٹ فلسفے سے طاقت کشید کرتی ہیں ۔
مرد ہزارہا برس سے نفسیاتی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی طور پر احساسِ برتری اور بالادستی کے غرور میں مبتلا رہے ہیں ۔ عورت کے سماجی مقام میں تبدیلی ، پیداواری عمل میں اس کی شرکت اور معاشی خود مختاری ، مردوں کی بالا دستی کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ھے ۔ یہ صورت حال ان پر اپنا دباؤ بڑھا رہی ھے جن پران کا شدید ردعمل سامنے آ رہا ھے ۔ دنیا کے مختلف ملک خواہ وہ ترقی یافتہ یا کم ترقی یافتہ ھوں دونوں حالتوں میں عورتوں کے خلاف تشدد اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات اس کا ایک مظہر ہیں ۔
عورت اور مرد کے درمیان معاشی ، سیاسی ، سماجی ، اور صنفی مساوات کی بات کرتے ہوئے اگر ہم تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ بات سامنے آتی ھے کہ سماج میں ہمیشہ اسی طبقے کو بالا دستی حاصل ہوئی ھے جو آلات پیداوار اور ذرائع معاش پر قابض ہو جاتا ھے ۔ تاریخ کے ارتقائی عمل میں جسمانی طاقت اور بعض مخصوص اسباب اور وجوہ کی بنیاد پر مردوں کے ایک طبقے کو پیداواری عمل پر بالادستی حاصل ہوئی چنانچہ سماج پر اس کی حاکمیت قائم ہو گئی ۔ اس عمل کے نتیجے میں صنفی عدم مساوات کا دور شروع ہوا ۔ مردوں کی عظیم اکثریت خود بالا دست طبقات کے استحصال کا شکار تھی لیکن صنفی اعتبار سے وہ خود کو عورت سے بالاتر محسوس کرنے لگی ۔ ہزاروں برس بعد سوشلسٹ سماج کی معاشی آزادیوں اور سرمایہ دارانہ سماج کی جمہوری آزادیوں نے عورت میں یہ شعور اور احساس کو تیز تر کر دیا کہ ایک ایسا نظام جہاں یہ دونوں آزادیاں یک جاں ہوں ، اس کی آزادی کی جد و جہد میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ھے ۔ اس نے یہ بھی جانا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث معاشی ترقی کے عمل میں جسمانی قوت کی اہمیت کم اور ذہن کی طاقت کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ھے ۔ سماجی ارتقاء کا وہ مرحلہ اب شروع ہو چکا ھے جس میں آگے چل کر مردوں کی وہ سبقت ختم ہو جائے گی جو انھیں جسمانی طاقت کے اعتبار سے اب تک ج
حاصل رہی ھے ۔ مذکورہ صورت حال اگرچہ مثبت ھے لیکن ایک بڑی کمیاتی تبدیلی کے عبوری دور میں فطری طور پر بعض منفی رحجانات کا پیدا ہونا بھی نا گزیر ھے ۔ 

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*