"ہوا باسی نہیں ہوتی”

ہوا باسی نہیں ہوتی
تری خواہش کی خوشبو،تیری یادوں کی فضا
باسی نہیں ہوتی

کبھی تپتے بگولوں میں ترا، رقص رواں دیکھوں
کبھی برسات کی بوندوں میں عکس جاوداں دیکھوں
یہ خاک دشت ہے آب آشنا، باسی نہیں۔ ہوتی

کبھی مہتاب کی صورت، مری سانسوں کو مہکائے
کبھی شبنم کا دل بن کر ، دھڑکتا نور بن جاۓ

شفق کے رنگ،سورج کی ضیاء،باسی نہیں۔ہوتی
محبت،پربتوں پہ نقش، قرنوں کی کہانی ہے

طلب، دریا ہی دریا ہے،روانی ہی روانی ہے
وفا، تاب زمانہ ہے وفا، باسی نہیں ہوتی

 

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے