زبان دراز عورت

فتح مندی کے نشے میں سرشار
وہ بولا
اب تُم میری ملکیت ہو!
تمہارے شناختی کارڈ پر اب میرا نام ہو گا
میرے نام سے پہچانی جاؤ گی
وہ بولی
کوئی کاغذ کوئی پتّر
کوئی لکھت پڑھت
یہ ملکیت کس دستاویز کی رُو سے ہے؟
دکھا دو مان لوں گی
وہ اِک کاغذ اُٹھا کے لایا
وہ ہنس پڑی
اس کی رُو سے ہم زندگی کے ساتھی ہیں
اور وہ سر کُجھانے لگا
پھر وہ بولی
روز جزا
کیا میں تمہارے نام سے پُکاری جاؤں گی؟
وہ جُھنجھلا گیا
وہ بولی
میرا اور تمہارا رشتہ
سانس کی ڈوری سے بندھا ہے
یہ ڈوری ٹوٹی تو رشتہ ختم
پھر ہم نا محرم ہوں گے
ان رگوں میں دوڑتا خون تمہارا نہیں ہے
تو میں نام کیوں بدلوں؟
غُصّے سے پیر پٹخ کے بولا
زبان دراز عورت!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*