اے مری وادی بولان

اے مری وادی بولان
مرے پیارے وطن
میری امید و تمنا کے مہکتے گلشن
اے مرے پیارے وطن !

تیرے کہسار تری عظمت و ہیبت کے نشاں
دستِ قدرت کی عنایات کے خاموش امیں
سبزہ و آب سے محروم ، مگر
اہلِ عرفاں کے لےے روکشِ فردوسِ بریں
اے جیالوں کی زمیں
اے دلیروں کے جہاں
تیرے کہسار تری عظمت و ہیبت کے نشاں
اے مرے پیارے وطن
میری امید و تمنا کے مہکتے گلشن
تیرے سینے میں نہاں
ان گنت صدیوں کی یادوں کا جہاں
اولیں جلوہ¿ تہذیب کا پُر نور نشاں
باوجود اس کے یہ محرومی¿ قسمت کا گلہ
اہلِ الطاف و عنایت کے ستم کاشکوہ
غیر کے جبر کا اپنوں کے تغافل کا ملال
تیرے سینے میں نہاں
کتنے زخموں کے مہکتے گلزار
کتنے شعلوں کی لپکتی سوزش
کتنی ناکام امیدوں کا دھواں
تیرے فرزند
ترے عزم و عمل کے وارث
تیرے بیٹے
تری آغوش کے پالے وہ جری
جن کے ایثار نے ہر عہد کی تاریکی کو
اپنی تابندگی عزم سے رخشندہ رکھا
اپنی جاں دے کے تجھے زندہ رکھا
اپنی تابانی جاں سے تجھے تابند ہ رکھا

لیکن اس سلسلہ جہد و طلب کے باوصف
تیرے پہرے پہ جمی گندِ صعوبت نہ دھلی
تیری آنکھوں میں بسے درد کے سائے نہ ڈھلے
تیرے سینے میں بھڑکتے ہی رہے غم کے الاﺅ
تیرے پاﺅں سے نہ محرومی کی زنجیر کٹی
تجھ پہ چھائی ہوئی ظلمت کا نہ افسو ں ٹوٹا
تیرے سینے کے خزانوں نے کئی صدیوں تک
ان گنت نسلوں کو پروان چڑھایا ، پالا
اُن کی راحت کے بھی سامان کےے
خواہشِ زر کو بھی تسکیں بخشی
ان کے ہر جذبے کی تسکین ہوئی
تو مگر پیاسا تھا،پیاسا ہی رہا
تیری شادابی کے ساماں نہ ہوئے
تیرے زخموں کا مداوا نہ ہوا
کس نے دی آج مگر یہ درِ دل پر دستک
کون آیا ہے نئی صبح کا پیغام لےے
ان گنت صدیوں کی محرومی کا انعام لےے
افقِ تیرہ پہ آثارِ سحر ابھرے ہیں
دشت و کہسار کا ہر ذرہ و سنگ
اک نئی صبح کے پیغام سے بیدار ہوا
اے مری وادی بولان، مری ارضِ وطن!
میری امید و تمنا کے مہکتے گلشن
یہ نویدِ سحرِ تازہ مبارک ہو تجھے
یہ نئی صبح تجھے راس آئے
اے مرے پیارے وطن
میری امید و تمنا کے مہکتے گلشن!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*