کسان !

جھٹپٹے کا نرم رَ و دریا، شفق کا اضطراب
کھیتیاں، میدان ، خاموشی ، غروبِ آفتاب
دشت کے کام ودہن کو ، دن کی تلخی سے فراغ
دور دریا کے کنارے دُھندلے، دُھندلے سے چراغ
زیر لب ، ارض وسمامیں، باہمی گفت وشنود
مشعلِ گردوںکے بُجھ جانے سے اک ہلکا سا دود
وسعتیں میدان کی ، سورج کے چُھپ جانے سے تنگ
سبز ہِ افسردہ پر، خواب آفریں ہلکا سارنگ
خاموشی اور خاموشی میں سنسناہٹ کی صدا
شام کی خنکی سے گویا دن کی گرمی کا گِلا
اپنے دامن کو برابر قطع سا کرتا ہوا
تیرکی میں ، کھیتیوں کے درمیاں کا فاصلہ
خاروخس پر ایک دردانگیز افسانے کی شان
بامِ گردوں پر کسی کے روٹھ کر جانے کی شان
دُوب کی خوشبو میں شبنم کی نمی سے اک سرور
چرخ پر بادل ، زمیں پر تتلیاں ، سرپر طیور
پارہ پارہ ابر، سرخی ، سرخیوں میں کچھ دھواں
بھولی بھٹکی سی زمیں، کھویا ہوا سا آسماں

پتیاں مخمور ، کلیاں آنکھ جھپکاتی ہوئی
نرم جاں پودوں کو گویا نیند سے آتی ہوئی

یہ سماں، اور اک قوی انسان ، یعنی کاشتکار
ارتقا کا پیشوا ، تہذیب کا پروردگار
طفلِ باراں ، تاجدارِ خاک، امیرِ بوستاں
ماہرِ آئینِ قدرت، ناظمِ بزمِ جہاں
ناظرِ گل ، پاسبانِ رنگ وبو، گلشن پناہ
ناز پرورلہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ
وارثِ اسرارِ فطرت ، فاتحِ امید و ہیم
محرم ِآثار باراں ، واقف ِطبع نسیم
صبح کا فرزند، خورشید ِزرافشاں کا علم
محنت ِپیہم کا ”پیماں“ سخت کوشی کی ”قسم“
جلوہ ِقدرت کا شاہد ، حسن ِ فطرت کا گواہ
ماہ کا دل ، مہرِ عالم تاب کانورِ نگاہ
قلب پر جس کے نمایاں نورِ ظلمت کا نظام
مُنکشف جس کی فراست پر مزاج ِصبح وشام
خون ہے جس کی جوانی کا بہارِ روزگار
جس کے اشکوں پر ، فراغت کے تبسم کامدار
جس کی محنت کا فرق طیار کرتا ہے شراب
اُڑ کے جس کا رنگ بن جاتا ہے جاں پرورگلاب
قلبِ آہن جس کے نقشِ پا سے ہوتا ہے رقیق
شعلہ خو جھونکوں کا ہمدم تیز کرنوں کا رفیق
خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب
جس کے سرپر جگمگاتی ہے کلاہِ آفتاب
لہر کھاتا ہے رگِ خاشاک میں جس کا لہو
جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیلِ رنگ وبو
دوڑتی ہے رات کو جس کی نظر افلاک پر
دن کو جس کی انگلیاں رہتی ہیںنبضِ خاک پر
جس کی جانکاہی سے پٹکاتی ہے امرت نبض ِ تاک
جس کے دم سے لالہ وگل بن کے اتراتی ہے خاک
سازِ دولت کو عطا کرتی ہے نغمے جس کی آہ!
مانگتا ہے بھیک تابانی کی جس سے روئے شاہ
خون جس کا دوڑتا ہے نبضِ استقلال میں
لوچ بھردیتا ہے جو شہزادیوں کی چال میں
اس کے ماتھے کے پسینے سے پئے عزو وقار
کرتی ہے دریوزہِ تابش کلاہ ِ تاجدار
سرنگوں رہتی ہیں جس سے قوتیں تخریب کی
جس کے بوتے پر لچکتی ہے کمر تہذیب کی
اس کی محنت سے پھبکتا ہے تن آسانی کا باغ
جس کی ظلمت کی ہتیلی پر تمدن کا چراغ
جس کے بازو کی صلابت پر نزاکت کا مدار
جس کے کس بل پر اکڑتا ہے غرور شہریار
دھوپ کے جُھلسے ہوئے رخ پر مشقت کے نشاں
کھیت سے پھیرے ہوئے منہ، گھر کی جانب ہے رواں

ٹوکرا سر پر ، بغل میںپھاوڑا، تیوری پہ بل
سامنے بیلوں کی جوڑی ، دوش پر مضبوط ہل

کو ن ہل ؟ عظمت شکن قندیلِ بزم آب وگلِ
قصرِ گلشن کا دریچہ ، سینئہ گیتی کا دل
خوشنما شہروں کا بانی ، رازِ فطرت کا سراغ
خداندانِ تیغ ِجوہر دار کا چشم و چراغ
دھار پر جس کی چمن پر ور شگوفوں کا نظام
شام زیرِ ارض کو صبحِ درخشاں کا پیام
ڈوبتا ہے خاک میں جو روح دوڑاتا ہوا
مضمحل ذروں کی موسیقی کو چونکاتا ہوا
جس کے چھوجاتے ہی مثلِ نازنین مہ جبیں
کروٹوں پر کروٹیں لیتی ہے لیلا ئے زمیں
پردہ ہائے خواب ہوجاتے ہیں جس سے چاک چاک
مسکرا کر اپنی چادر کو ہٹا دیتی ہے خاک
جس کی تابش میں درخشانی ہلالِ عید کی
خاک کے مایوس مطلع پر کرن امید کی

جس کا مس خاشاک میں بُنتا ہے اک چادر مہین
جس کا لوہا مان کر، سونا اُگلتی ہے زمین

ہل پہ دہقاں کے چمکتی ہیں شفق کی سُرخیاں
اور دہقاں سر جُھکائے گھر کی جانب ہے رواں
اُس سیاسی رتھ کے پہیوں پر جمائے ہے نظر
جس میں آجاتی ہے تیزی کھیتیوں کو روند کر
اپنی دولت کو جگر پر تیرِ غم کھاتے ہوئے
دیکھتا ملکِ دشمن کی طرف جاتے ہوئے
قطع ہوتی ہی نہیں تاریکیِ حرماں سے راہ
فاقہ کش بچوں کے دُھندلے آنسوﺅں پر ہے نگاہ
پھر رہا ہے خونچکاں آنکھوں کے نیچے بار بار
گھر کی نا امید دیوی کا شبابِ سوگوار
سوچتا جاتا ہے کُن آنکھوں سے دیکھا جائے گا
بے ردا بیوی کا سر، بچوں کا منہ اُترا ہوا

سیم وزر ، نام ونمک ، آب و غذا، کچھ بھی نہیں
گھر میں اک خاموش ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں

ایک دل ، اور ہجومِ سوگواری ہائے ہائے
یہ ستم اے سنگدل سرمایہ داری ہائے ہائے
تیری آنکھوںمیں ہیں غلطاں وہ شقاوت کے شرار
جنکے آگے خنجرِ چنگیز کی مُڑتی ہے دھار
بیکسوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں تیرے بات
کیا چبا ڈالے گی اوکمبخت ! ساری کائنات
ظلم ، اور اتنا! کوئی حد بھی ہے اس طوفان کی
بوٹیاں ہیں تیرے جبڑوں میں غریب انسان کی
دیکھ کر تیرے ستم ، اے حامیِ امن واماں!
گرگ رہ جاتے ہیں دانتوں میں دبا کر انگلیاں
ادّعائے پیرویِ دین وایماں، اور تو!
دیکھ اپنی کہنیاں ،جن سے ٹپکتا ہے لہو

ہاں سنبھل جا اب کہ زہرے اہلِ دل کے آب ہیں
کتنے طوفاں تیری کشتی کے لیے بے تاب ہیں

ماہنامہ سنگت اپریل2021ء

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*