انسانیت کے سیاہ اور سرخ دائرے

نہ ہی یہ رسم نئی ہے
نہ ہی یہ اَن لکھا دستور پُرانا ہوا ہے
سینوں میں صدیوں کی منزلیں مارتا
یہ سفر
نسل در نسل منتقل ہوا ہے
جیون دان کرنے والوں کو
زندگی مانگنے کی اجازت نہیں ہے
گھنے سبز پیڑوں کی چھاؤں میں
گھاس اُگتی نہیں ہے
ناخداؤں نے
ہمیشہ خُداؤں کا روپ دھارن کیا ہے
شہر کی دیواروں پہ
مُجرم کی تصویر چھپ چُکی ہے
تذلیل کا سندیسہ
ہر ایک چہرے پہ لکھا ہوا ہے
یہ سُرخ اور سیاہ دائرے
جو میرے نام پہ کھنچے ہیں
بتا رہے ہیں کہ
میری صنف کے لیئے
محبت بھی اِک سزا ہے
ہواؤں کو حُکم ہے کہ مجرم
سانس لینے نہ پائے
کنول کا پھول کیچڑ میں کیوں اُگا ہے؟
جُرم تو بہت بڑا ہے
اور دستور کی کسی شق میں
اس کی معافی نہیں ہے
برہم فِضا کہہ رہی ہے
کہ بنا اجازت
میری زمیں پہ رات کی کوکھ سے
نیا سورج کیونکر طلوع ہوا ہے
میں نے صدیوں کا جبر سہا ہے
قید تنہائی
میرے لیئے کوئی نئی نہیں ہے
میرے نصیبوں کے زائیچے میں
شامِ اَلم ہی لکھی ہے
میری پیشرو کہہ گئی ہے
پیروں میں پہنی کی عزت
کہیں بھی نہیں ہے
پر
کیا کروں کہ یہ سر
کسی آستانے پہ جُھکتا نہیں ہے
زمیں تنگ ہو جائے تو سانسیں گُھٹنے لگتی ہیں
گُھٹی سانسوں کے سنگ
میں کب تک جیوں گی؟
اَنمِٹ سیاہی سے کھنچے دائرے
شایدکبھی نہ مٹیں گے
میرے نام کوئی زمیں ہو نہ ہو
دو گز زمیں تو کہیں نا کہیں پہ لکھی ہوئی ہے
اب میری خوشبو وہیں پہ ملے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

September 29 2020
اُن تمام عورتوں کے نام جو وقت کا جبر سہتی ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*