ایک پرانا مضمون۔۔۔فیوڈل نفسیات

طاقت اور دولت کے لحاظ سے ہر ملک کی طرح دنیا بھی دو انتہاؤں میں بٹی ہوئی ہے۔ایک طرف تصور سے بڑھ کر دو لتمندی اور طاقت ہے اور دوسری جانب قیاس سے بھی زیادہ غربت۔

ابھی حال ہی میں قیاس سے بڑھ کرغریب ملک کا سربراہ تصور سے بڑھ کر امیر اور طاقتور ملک کے سربراہ سے اُس کے ملک میں جا کر ملا۔

یہ دورہ حیران کن تھا۔سپر پاور کی طرف سے غریب کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت ہی غریب ترین ملک کو سر خوشی کا سرسام دے دیتا ہے۔اُس کے ڈھولچی یعنی ریڈیو، ٹی وی، سیل فون پہ موجود میڈیا،اور اخبارات مسرت کا وحشیانہ رقص کرنے لگ جاتے ہیں۔ کئی دن تک اس شرفِ بازیابی کی تصوراتی نقشہ کشیاں دکھائی سنائی جاتی رہتی ہیں۔ آواز اونچی کر کر کے، اور بالواسطہ بلاواسطہ مخاطب کر کر کے پڑوسیوں کو مرعوب کیا جاتا رہتا ہے۔قیاس اور تصور پہ مبنی بے پر،کی امیدیں خواہشیں جاگی اور جگائی جاتی رہتی ہیں۔جسے انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ میزبان کی کچھ توقعات ہوں گی۔ یااُس کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی۔

یہ دنیا ایک ہی معاشی نظام یعنی کپٹلزم پہ چل رہی ہے۔ اس لیے اُسے چلانے کا نظام بھی قریب قریب یکساں ہے۔ اس میں ہر ملک کے اندر ہزاروں ہاتھ رکھنے والا حکمرانی کا ادارہ ہوتا ہے۔ وہ ادارہ ہر زاویہ اور سمت سے اور ہمہ وقت فاقہ زدہ گھروں کے وسیع قصبوں کو دیکھتا اور کنٹرول کرتارہتا ہے۔یہ فارمولا ایک ملک اور اُس کے حکمران کا بھی ہے اور دنیا کے سپر پاور کا پوری دنیا کے لیے بھی ہے۔ سپر پاور کا کنٹرول اس لیے ہے کہ بقیہ دنیا کے اکثر ممالک میں سخت بھوک ہے۔

فاقہ زدگی اس لیے عام ہے کہ دولت چند افراد کے پاس مرکوز ہے۔ ملکی دولت عام آدمی کے لیے نہیں ہے۔ عام آدمی نظام سے بیگانہ ہے۔ ترقی پذیر کپٹلسٹ ممالک زیادہ درامد کرتے ہیں، کم برامد کرتے ہیں۔ وہاں زرعی پیداوار کم ہورہی ہے، مزدور کی پیداواریت گھٹ رہی ہے اور سر پہ بھاری غیر ملکی قرضے سوار ہیں۔افراطِ زر رکنے کانام نہیں لیتا، ڈالر کی اڑان کم رفتار ہوتی ہی نہیں۔

زندگیاں مختصر تر ہوتی جارہی ہیں۔ بچہ پیدا کرتے وقت ماؤں کی ہلاکت، اوراطفال کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی تصور تک کے تھرمامیٹر کے پرخچے اڑا چکی۔ ایسا انتظام ہے کہ امیر امیر تر ہوتا جائے اور غریب غریب تر ہوتا جائے۔کپٹلزم کی خاصیت ہے کہ وہ فطرت کو کماڈٹیوں میں بدل دیتا ہے اور کماڈٹیوں کو سرمایہ میں۔ زندہ سرسبز زمین کو مردہ سونے کی اینٹوں میں ڈھال دیا جاتا ہے۔آخری نتیجہ یہ ہے کہ چند کے لیے تو لگژری آئیٹم بنائے جاتے ہیں اور اکثریت کے لیے زہر کے ڈھیرلگا دیے جاتے ہیں۔

کپٹلسٹ دنیا کی سیاست کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اور آج کی جمہوریت اوپری طبقات کی مسلسل حکمرانی کی بقا اور اُس کے تسلسل کا ایک بس حربہ ہے۔ اس کے باوجود کہ جمہوریت مارشل لازدہ اور بادشاہت کی ماری تیسری دنیا کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ مگر بنیادی طور پر جمہوریت اور سماجی انصاف باہم ضد والے عناصربن کر سامنے آئے ہیں۔ آج کی جمہوریت کا مطلب ہے کہ دولت ہر حال میں اوپری طبقات کے ہاتھوں مرکوز رہے گی۔ اکثریت کے لیے خودکُشیاں، شراب اور منشیات نجات کے واحد راستے تصور کیے جارہے ہیں۔یعنی کپٹلزم کے اندر ہیجان بھری اور شکستہ حوصلوں والی انسانیت کو منشیات، ٹی وی، سوشل میڈیا، ادبی میلوں،عدالتوں،اور مسلح افواج کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا ہے۔

یوں ہم جیسے ممالک میں عوا م کے ذہنوں کو اِس طرح گھیرکر رکھا گیا کہ انہیں بچوں کے فاقے تک کی خبر نہ ہو۔ بڑھکوں میں پلے بڑھے معاشرے کو بڑھکوں ہی کے ڈوز دیے جاتے ہیں۔ ”ہزار سال تک لڑیں گے، گھاس کھائیں گے“ جیسے فقروں سے چرواہے ہی نہیں پی ایچ ڈی تک بہل جاتے ہیں۔ جی ہاں۔ یہاں کی مڈل کلاس نعرے باز اور نعرے نواز کلاس ہے۔ اپر مڈل کلاس خاص کر۔ وہ مڈل کلاس جس کے ملک میں سٹیل مل بندہے۔ ریل کا نظام تباہ ہے۔ عوام کا لباس پھٹا پرانا ہے۔ مگر دکھاوے کی دلدادہ اس کلاس کے نعرے دیکھیے۔ تو آپ پکار اٹھیں گے کہ بلاشبہ یہ دکھاوے کا معاشرہ ہے۔ ڈینگوں بڑھکوں کا۔

اورایسا نہیں کہ حکمران صرف عوام کو بے وقوف بنا رہے ہوتے ہوں، سچ یہ کہ حکمران خود بھی دل کی گہرائیوں سے اس عارضے میں مبتلا ہیں۔وہ واقعی سوچتے ہیں کہ فلاں کے آنے سے ”ایسا ہوگا،ویسا ہوگا، نوکریاں ملیں گی، مہنگائی ختم ہوگی،تبدیلی آگئی، چیچنیا سے لے کر چنا ئے تک اپنے جھنڈے گڑیں گے۔۔۔“

چنانچہ وزیراعظم کے دورہِ امریکہ سے قبل کے پروپیگنڈے کی تو تشریح تک نہیں کی سکتی۔لگتا تھا کہ اس ملک کا مقدر ہے کہ شیخ چلّی یہیں پیدا ہوتے رہیں۔ چنانچہ طبلچیوں نے جھوٹ اتنے مرغن و پرکشش بولے کہ لوگوں نے جوتے ہوئے ہل کو کھیت میں چھوڑا، چرواہے نے ریوڑ کو بھیڑیا ؤں کے جنگل میں لاوارث ترک کیا، ہوٹل والے نے ابلتی کیتلی وہیں ابلنے دی۔۔۔اور دنیا کے سب بڑے سردار کے دربار میں اپنے وڈیرے کی حاضری کے مناظر سوچنے بحثنے لگے۔

یہ عام بات توسب کو پتہ ہے کہ بادشاہ،افسر، اور صاحب ہر چیڑا سی کو انعام دینے ہی دفتر نہیں بلایا کرتا، کچھ سے تو اس نے اپنی مالش پالش بھی کروانی ہوتی ہے۔کچھ مفادات حاصل کرنے ہوتے ہیں۔ اورکپٹلزم میں (جی ہاں، صرف کپٹلزم میں)کوئی پائیدار دوست اور اتحادی نہیں ہوتے۔ وہاں وفاکیش پارٹنرز بھی نہیں ہوتے۔ کپٹلزم شیطان تک کو پوجنے کے لیے تیار ملے گا اگر وہ اُس کی تجوری میں کچھ ڈالنے کی سکت رکھتا ہو۔ یادوسروں کو ہانک ہانک کر اس کام تک لاسکتا ہو۔کپٹلزم کا مذہب، اُس کا اخلاق، بیٹا، بھائی اور محبوبہ سوائے پیسہ کے اور کچھ نہیں۔

اور پیسہ کا یہ سفریک طرفہ ہوتا ہے: غریب سے امیر کی جیب کی طرف۔اُس ”شاہراہ“میں ڈبل روڈ کا کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا۔ اِس نظام کے انجن میں اس یک طرفہ ٹریفک کو روکنے یا کم کرنے کے لیے بریکیں نہیں ہیں۔ استحصال کے سفر کے طاقتور ٹرک میں ریورس گیر موجود ہی نہیں ہوتا۔

الیکٹڈ سیلیکٹڈ کی بات چھوڑیے۔ تیسری دنیا میں ہر لیڈر سلیکٹڈ ہی ہوتا ہے، خواہ داخلی طاقتور گرہوں کی طرف سے ہویا عالمی اداروں کی طرف سے۔ ادارے جو دنیا بھر میں قدامت پسندی اور رجعت کے گڑھ ہیں۔عجوبہ لگتا ہے کہ تقریباً ایک ہی وقت پہ امریکہ، برطانیہ،ہندوستان، ترکی، افغانستان اور ایران میں الٹرا رائیٹ اشخاص کی حکمرانی ہے،ڈنڈے مار رائٹسٹس کی حکمرانی۔ یہ ذرا نیا نیا سا لگتا ہے مگر حتمی، پرانی اور مستقل بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے سارے ادارے رائٹسٹ اور بنیاد پرست ہیں۔ یوں لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ایک آدھ ممالک کو چھوڑ کر دنیا بھر میں سلیکٹڈ رائٹسٹس کی حکمرانی ہے۔

چنانچہ دنیا بھر میں بظاہر جو سربراہان ِ مملکت ملتے ہیں تووہ دراصل سلیکٹڈ سلیکٹڈ سے مل رہا ہوتا ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے سربراہان کی ملاقات عام حالات کی ایک ملاقات نہیں تھی۔ یہ بہت سپیشل صورتحال میں ایک ملاقات تھی۔اس میں جنوبی ایشیا، مشرق وسطی،ایران بشمول سنٹرل ایشیا، اور افغانستان خصوصی معاملات تھے۔تیل تانبا،اور گیس گوادرجیسے اہم معاملات تھے۔

تواس بات میں حیرانگی نہیں ہونی چاہیے کہ ”تو دیگری من دیگرم“کا معاملہ ختم دکھائی دے رہا تھا۔ ”صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا، رلا دوں گا، نہیں چھوڑوں گا“کے نعروں کے پیچھے واقعی بڑے معاملات تھے جنھیں کبھی مشترکہ اعلامیوں میں بیان نہیں کیا جاتا۔گوکہ امریکہ کانسل پرست اور فاشسٹ دا داگیر،شاہی رعونت اور تکبرکے مارے کبھی کبھی ڈائریکٹ بات بھی کرتا ہے۔اس لیے کہ فاشسٹ فاشزم سے پردہ نہیں کرتا۔سامراج کا سردار سامراجی ذہنیت وعزائم کے اظہار سے اجتناب کرے بھی تو کیوں کرے؟۔سو، وہ رعونت گھمنڈ اور تکبر ہم نے ٹرمپ کی ایک ایک ادا میں دیکھی۔

مگر اس کے مقابلے میں فیوڈل معاشرے کاسربراہ لگتا تھاجیسے اپنے ملک کے مسائل، مطالبات اور مذاکرات بھول بیٹھا ہو۔ وہ ہمہ وقت یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ گویا ہیبت زدہ نہیں ہے، مرعوب نہیں ہے۔ حد ہوگئی کہ سوپر پاور ملک اور اُس کا آئی ایم ایف،غریب اور استحصال زدہ سارے ممالک کے خزانے اور سٹیٹ بنکوں پر قبضہ کیے بیٹھا ہے،اور یوں اُن ممالک کی ساری خارجہ داخلی پالیسی کنٹرول کرتا ہے۔ مگر ہماری غلامانہ ذہنیت میں گوندھے ہوئے اپر مڈل کلاس کا نمائندہ طرہ کو اس طرح مایہ دے کر اِٹھلاتا رہا جیسے وہ لینے نہیں دینے گیا ہو! ۔

فیوڈل نفسیات میں مبتلا غریب ممالک کے سربراہان امریکہ جا کر اپنے ملکوں کو انڈسٹریلائزیشن کی طرف جانے کی بات نہیں کریں گے، ہائرایجوکیشن اور ٹکنالوجی ٹرانسفر کرنے کی بات نہیں کریں گے۔ بلکہ اس کے بجائے وہ امریکی دورے میں اوسان بحال رکھنے میں ہی اپنا پورا زور لگاتے ہیں۔ کیمرہ کے سامنے تن کے بیٹھناحالانکہ تن کے کپڑے بھی قرض یا بھیک وامداد کے پہنے ہوتے ہیں۔

ہمیں سو سال قبل خان ِ قلات محمود خان کی برٹش وائسرائے کے دربار میں حاضری کے قصے یاد آتے ہیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*