فلیسہ

ٹِن ن ن۔۔
نوٹیفیکشن کی گھنٹی اور وائبریشن پر میں نے فون ایپ میں موجود میسیج بنا چشمے کے بدقت پڑھنے کی کوشش کی۔
اوبر کا میسیج تھا
آپ کو کہاں جانا ہے؟
شالیمار ٹائون۔
میں آپ کی دی لوکیشن پر موجود ہوں۔ آ جائیے
اچھا۔
میں سب کو خدا حافظ کہتی اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لیے گیٹ سے باہر نکلی اور رکشے کا نمبر دیکھنے لگی۔ بھابھی ٹھہریں میں بھی آپ کے ساتھ ہی چلتی ہوں۔ مجھے لنک روڈ پر ڈراپ کر دینا۔ میری دیورانی کی پیچھے سے آواز آئی
اچھا میں انتظار کر رہی ہوں۔ میں نے بلند آواز سے کہا اور آٹو میں بیٹھ گئی
۔ ڈرائیور بیک مرر میں سے میری طرف بغور دیکھتے ہوئے کہنے لگا
آپ نے تو مجھے شالیمار ٹائون کا کہا تھا اور اب آپ کی لوکیشن کسی اور جگہ کی آ رہی ہے۔
آپ نے یہ غلط کیوں کہا۔
بھئی مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔مجھے شالیمار ٹائون ہی جانا ہے۔
لیکن شالیمار ٹائون تو گجومتہ کے پاس ہے۔
خدا کا خوف کرو کہاں گجومتہ اور کہاں شالیمار ٹاون۔ گجومتہ تو کاہنہ نو کے پاس ہے
۔
جی ی ی اور شالیمار ٹائون بھی وہیں ہے۔
پتا نہیں کونسا ٹائون ہوگا ادھر۔ میرا خیال ہے شالیمار ٹائون شالیمار باغ کے آس پاس ہی ہونا چاہیے۔
کیوں جی۔ ایک شالیمار ٹاو¿ن تو ٹاو¿ن شپ کے پاس بھی ہے۔ ڈرائیور نے چڑانے والے انداز میں کہا۔ آپ نے مجھے مس گائیڈ کیا۔ کیا تھا آپ ٹھیک ایڈریس بتا دیتیں۔
یہ تو پرانا علاقہ ہے مغلوں کے دور کا۔ گجومتہ ٹائون شپ تب کہاں آباد ہوئے تھے۔
او بھائی اوبر ایپ میں جی پی ایس کو فالو کرو اور چلتے جائو۔ سواری پہلے سے ایڈریس بتانے کی پابند نہیں۔
دیکھیں بات یہ نہیں کہ آپ نے کہاں کی لوکیشن سیٹ کی ہے۔ بس آپ کا علاقہ شالیمار ٹائون نہیں۔ آپ کو گوگل میپ پر دیکھنا چاہیے یا شاید آپ کو میپ دیکھنا نہیں آتا۔ آپ کی لوکیشن پر جے پورہ لکھا ہے۔
ارے بابا میرے شناختی کارڈ پوسٹل ایڈریس اور بجلی کے بل پر بھی یہی شالیمار ٹائون لکھا ہے۔ کسی نے اوبر میپ پر محلے کا غلط نام لکھ دیا ہوگا۔
آپ کو گوگل میپ نہیں دیکھنا آتا۔ اپنے فون میں ذرا چیک کر کے دکھائیں۔
شناختی کارڈ دکھائوں کیا۔
میں زِچ ہوتے ہوئے کارڈ کی فوٹو کاپی اسکی طرف بڑھائی۔ وہ کارڈ پڑھ کر مسکرایا اور واپس کر دیا۔
مجھے لگا چڑا رہا ہے۔ اتنے میں بیٹے نے اپنے فون میں گوگل میپ کھول کر شالیمار ٹائون لکھا دکھا کر کہا اب بحث بند کرو۔ اور میری طرف غصیلی نظروں سے دیکھنے ہوئے کہنے لگا ماما بس کردیں بحث۔
اور میں سوچنے لگی یہ ڈرائیور کتنی تکرار کرتا ہے۔۔۔ حد ہے۔۔۔ میں اوبر کو اسکی ریٹنگ کم دے کر یہ کمنٹس لکھوں گی۔ پھر سوچا لو بھلا۔ اکثر اوبر ڈرائیورز کو فائیو سٹار ریٹنگ دے دیتی ہوں۔ اس کو بھی کیا کہنا ہے۔
سڑک پر ٹریفک کا ازدھام تھا۔ میں خاموش ہو گئی تھی۔
مگر اسے شاید زبان بند رکھنے کی عادت نہ تھی۔ پھر کہنے لگا آپ دروازے کے ساتھ محتاط ہو کر بیٹھیں ٹریفک بہت ہے کہیں آپ چوٹ نہ لگوا لینا۔
میں خاموش رہی۔
لنک روڈ پر اسے کہا روکو ادھر اترنا ہے۔
نہیں نہیں۔ پلیز مت اتریں۔ میں آپ کو آپ کے گھر تک پہنچا دوں گا۔ آپ رائیڈ کیوں ختم کر رہی ہیں۔
سائیڈ پر روکو۔ میں نے دوبارہ کہا۔
اس نے رکشہ فٹ پاتھ کے قریب روکا اور کہنے لگا آپ رائیڈ ختم مت کریں میں آپ کو پہنچا آتا ہوں۔
میں رائیڈ ختم نہیں کر رہی۔ انہیں یہاں اتارنا ہے۔ یہ کہہ کر میں رکشے سے اتری اور اپنی دیورانی کو اترنے کے لیے رستہ دیا۔
اسے ڈراپ کر کے میں دوبارہ رکشہ میں بیٹھ گئی۔ جی ٹی روڈ پر شالیمار باغ کے آگے سے یو ٹرن لیتے ہوئے جونہی وہ شالیمار ٹائون کی جانب مڑا تو کہنے لگا مجھے آپ کے گھر کا پتا ہے۔
آپ مجھے راستہ مت بتائیں میں آپ کو گھر تک ٹھیک راستے سے پہنچا آئوں گا۔
او بھائی! میں نے لوکیشن بالکل ٹھیک دی ہے۔ جی پی ایس کو فالو کرو رستہ پتا چلتا جائے گا۔
مگر میں نے تو جی پی ایس بند کر رکھا یہ دیکھیں۔
اس نے مسکراتے ہوئے پیچھے مڑ کر فون دکھاتے ہوئے کہا۔ پھر کہنے لگا کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟
نہیں۔۔۔ کون ہیں آپ؟
انسان
انسان تو ہم سب ہیں۔
آپ نے کئی سال قبل میرے ساتھ اسی روٹ پر رکشے میں سفر کیا تھا۔
مجھے نہیں یاد۔
کیا نام ہے آپ کا ؟
محمد علی
وہ بنا جی پی ایس بالکل ٹھیک راستے پر جا رہا تھا۔
مجھے کیسے جانتے ہو؟
آپ تب بالکل نوجوان تھیں۔
اچھا
آپ نے مجھے بہت ڈانٹا تھا۔ بہت کچھ کہا تھا
مجھے نہیں یاد۔
آپ غصے والی ہیں اس نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
مجھے اس پر واقعی غصہ آ رہا تھا۔
بھئی میں نہیں جانتی آپ کو۔۔۔
اِسی گلی میں گھر ہے نا آپ کا؟
اس نے ٹرن لیتے ہوئے کہا۔
نہیں یہ گلی اب سرے سے بند ہو چکی ہے اگلی گلی سے موڑو۔
تب بند نہیں تھی۔ ہاں تب مکانات نہیں بنے تھے۔
میں اس وقت چھ سال کا تھا
رکشہ چلاتا تھا۔
آپ میرے رکشے میں بیٹھیں اور آپ نے مجھے بہت ڈانٹا کہ میں سکول کیوں نہیں جاتا۔ پڑھتا کیوں نہیں ہوں۔اور یہ کہ میں سکول میں داخلہ لوں۔ پڑھنا شروع کروں۔ چھ سال کے بچے کے لیے رکشہ چلانا بہت خطرناک ہے۔ اور بھی بہت کچھ
مجھے یاد تو نہیں مگر الفاظ تو میرے ہی لگتے ہیں۔ میں ایسی باتیں کئی بچوں سے کہتی ہوں جنہیں چائلڈ لیبر کرتے دیکھوں یا وہ چھوٹے جن پر ان کے مالک یا والدین ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالیں۔ مجھے بچے بہت عزیز ہیں۔ شاید کہا ہو۔
میں نے یادداشت کھروچنے کی کوشش مگر یاد نہ آیا۔
میں نے میٹرک تک پڑھا آپ کے کہنے پر
نویں جماعت پاس کر گیا تھا سائنس رکھی تھی مگر دسویں میں تین سپلیاں آ گئیں۔ پڑھائی چھوڑ دی۔ رکشہ تو ہمیشہ چلاتا ہی رہا پڑھائی کے دوران بھی۔
یہ کہہ کر اس نے ہمارے گیٹ کے سامنے رکشہ روک دیا۔
میں آپ کو کبھی بھول نہیں پایا۔
یہ دیکھیں میرے فون میں آج بھی کتنی کتابیں ڈائون لوڈ کی ہوئی ہیں۔
دیکھو علم ڈگریوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ پڑھتے رہو۔ میٹرک کے امتحان دوبارہ دو گورنمنٹ نوکری کے لیے اپلائی کرو۔
یہ دیکھیں فارم یہ وزرات دفاع میں نائب قاصد کی پوسٹ کے لیے میں نے اپلائی کیا ہے۔ یہ کتاب جنرل نالج کی۔ یہ سنہری باتیں یہ اقوال زریں اور یہ کتاب اور یہ کتاب۔۔۔۔
وہ فون سکرول کرتا چلا جا رہا تھا اسکی آنکھوں میں تمکنت اور سرخوشی تھی۔
میں بہت عرصے سے انتظار کر رہا تھا آپ کبھی میرے رکشے میں دوبارہ بیٹھیں گی اور میں آپ کو اپنی کتابیں دکھائوں گا۔
اور پتا ہے کیا۔ میں آپ کو کبھی بھول نہیں پایا۔
اور میں حیران کھڑی شعور کے فلیتے سے فلیتہ جلتے دیکھ رہی تھی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*