تو آیا تھا

بھور کرن
نوبت باجی تھی
دھوپ شگن
گھنگھرو چھنکے تھے
انگنائی میں
اسِ کو نے سے اسُ کونے تک
پون کی پا ئل چہک رہی تھی
تو آیا تھا
تو آیا تو
بھوبل میں دبکی چنگاری
سرک کے تھو ڑا با ہر آئی
ہم دونوں کے ہو نٹو ں پر
سرشار سی چپ کو
جوڑ جوڑ کے
چنگاری نے آ گ بنائی
آ گ کی ترچھی سی بوچھار میں
بھیگتی خوشیاں
پنکھ چھپکتی نا چ رہی تھیں
تو آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توآ یا تو
عشق کی گبرو چھاؤں سے ٹک کے
خوابوں کے سوندھے کلہڑ میں
ہم دونوں نے
گھونٹ گھونٹ اپنے کو پیا تھا
اپنا جیون ذائقه
ہونٹوں نے چکھا تھا
وقت کی اک چھوٹی سی موج نے
موج میں آ کے، ایک سانس میں
ہم دونوں کا
سارا جیون جی ڈالا تھا
تو آیا تھا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*