غزل

صُبحدَم سب چَلے گئے نہ رہے
کوئی گھر میں رہے بَھلے نہ رہے

مُسکرائے تھے ہم کِسی غم میں
رو پَڑے ہیں وہ مشغلے نہ رہے

جَلنے بُجھنے میں اَب مزا نہ رہا
آئینے بُجھ گئے دئیے نہ رہے

حَبس ہے ‘ شور ہے ‘ تماشا ہے
شعر کہنے کے حوصلے نہ رہے

چار اَطراف رائیگانی ہے
کُچھ بَچا کر رکھو ‘ رہے نہ رہے

آبلوں کا جہان پُھوٹ پَڑا
چَل پڑے ہم تو راستے نہ رہے

اُڑ گئے سَب پَرند پیڑوں سے
گھاس باقی ہے گُھونسلے نہ رہے

میرساگر

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*