بلوچستان میں کتاب کا ”مالی “۔ ۔۔ منصور بخاری

ضیاءالحق کا مارشل لا تھا ۔ سخت پابندیاں تھیں۔ جلسہ جلوس ، تقریر تحریر، اورتنظیم سیاست سب ضیا کے بوٹوں تلے۔ سارے سیاسی کارکن جیلوں میں ۔ کوڑے سرِ عام مارے جارہے تھے ۔اخبارات پہ بدترین سنسر شپ جاری تھا۔ ہر روز اخبار پہلے حاکم کو دکھایا جاتا، منظوری ہوتی تو ہی چھپ جاتا ۔ورنہ نا پسندہ ٹکڑے کاٹ کر صفحے کا وہ حصہ خالی چلاجاتا۔
کوئٹہ جناح روڈ کے کونے میں کتابوں کی دکان تھی ، گوشہِ ادب کے نام سے۔ منصور بخاری دکان کا مالک تھا ۔ سلجھا ہوا ،خوش پوش ،خوش وضع اور خوش کلام نوجوان آدمی۔ چونکہ کتابوں کی بڑی دکان تھی اس لیے ہر سیاسی کارکن وہاں کا چکر ضرور لگاتا ۔ منصور کی خیر مقدمی نگاہیں فوراً آشنائی پیدا کرتی تھیں۔ اور گاہک اور اس کے بیچ ایک طرح کا تعلق بن جاتا ۔
یوں، ہم بھی اس سے واقفیت حاصل کر گئے ۔ اور کچھ عرصہ بعد یہ ہونے لگا کہ ہم وہاں جاتے تو اپنی پسند کی کچھ کتابیں خریدتے، کچھ گپ شپ ہوجاتی اور پھر وہ کتابوں کے تھیلے میں خاکی لفافے میں کچھ صفحات ڈال دیتا۔ ہم سمجھ جاتے کہ امریکہ کے ٹائمز، نیوزویک یا کسی اور بین الاقوامی رسالے یا اخبار میں پاکستانی مارشل لاکی مخالفت میں کوئی مضمون یا خبر چھپ گئی۔ حکومت فی الفور ایسے تمام میگزین اور اخبارات بھی ضبط کرا لیتی ۔ مگر منصور بری پھرتی سے ، ضبطگی سے قبل ہی اعتبار والے سیاسی کارکنوں اور قارئین کے لیے اسے فوٹو کاپی کرالیتا ۔ یوں ایک طرح کی سیاسی تربیت ہوجاتی۔
اسی طرح وہ اپنے خریداراوں کے لیے کتابیں بھی منتخب کر کے بیچتا ۔ طریقے طریقے سے بتاتا کہ یہ کتاب نئی آئی ہے آپ کو پڑھنی چاہیے۔ یوں وہ شخص اور وہ دکان مارشل لا دشمن اور جمہوریت نواز ادارہ بن گئے۔
وہ ایک کامیاب بک سیلر اور پبلشر اس لیے تھاکہ اُسے بلوچستان کے سیاسی افق پہ موجود سارے شیڈزسے معاملہ کرنا آتا تھا۔ وہ سرکار میں بھی اثرور سوخ رکھتاتھا اور دوسری طرف پڑھنے کے شوقین سیاسی کارکنوں دانشوروں کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا تھا۔ اس طرح وہ کالجوں سکولوں اور یونیورسٹی میں اپنی کتابیں آسانی کے ساتھ فروخت کر لیتا تھا ۔۔۔ یوں وہ نصف صدی تک کوئٹہ بلکہ بلوچستان بھرمیں کتابوں کا کامیاب ترین بزنس میں رہا۔
ایک اور سلسلہ اس نے ضیا مارشل لا ہی کے دوران شروع کیا۔ وہ بلوچستان پر انگریز کی لکھی کتابوں کو دوبارہ چھاپنے لگا۔ اس نے بلوچستان گزیٹرز کی ساری بارہ جلدیں بھی دوبارہ چھاپیں۔یوں نہ صرف سول اور فوجی بیوروکریسی کو بلوچستان پہ اپنی حکمتِ عملی بنانے میں آسانی رہتی بلکہ سیاسی وادبی کارکنوں کو بھی انگریز کی حکمت عملی اور اپنی سر زمین کی تاریخ سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس کے علاوہ اس نے چیدہ چیدہ کتابوں کے اردو میں تر جمے کرا کے بھی شائع کیے۔ یوں ایک وسیع حلقہ مستفید ہوسکا۔
وہ کاروبار کے لیے ایسا کرتا تھا یاخواہ شعور بڑھانے اس میں شک ہی نہیں کہ اس نے عوام اور اس کے دانشورو سیاستدان کو اَن پڑھ رہنے نہ دیا۔ محض یہی نہیں ،اس نے عوام کے دانش وشعور کا ذائقہ اور معیار بھی بلند کردیا۔ آگہی بڑھائی ، کتاب کلچر کو فروغ دیا اور کتاب رسانی میں بلوچستان کو خود کفیل رکھا۔
اس بات کی گواہی ہر عام وخاص دے گا کہ باہر سے جو بھی عالم، دانشور اور لکھاری کوئٹہ آتا تو گوشہِ ادب کا چکر ضرور لگاتا۔ اور کبھی کبھی جو کتاب لاہور کراچی میں بھی نہ ملتی یہاں سے دستیاب ہوجاتی۔
کوئٹہ میں پائے کی یہ ”کتاب دکان “خوبصورت موسم کے اس شہر کو مکمل کرتی تھی۔
یہی نہیں اس نے صوبے کے ریلوے سٹیشنوں پر بھی اپنی کتابیں رکھوانے کا انتظام بھی کیا تھا۔ تاکہ کوئٹہ کی سڑکوں فٹ پاتھوں پہ بیٹھے کتاب خوانوں کی طرح آتے جاتے مسافر بھی کتاب پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ یہ شخص شخصیتیں تعمیر کرنے والوں سے ایک تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا اور بلوچستان عالمی سامراجی ریشہ دوانیوںکا مرکز بنا تو کتاب وقلم آزمائش کے سنگین دور میںداخل ہوئے۔ افغانستان کا بم و بارود سرحدیں ملیامیٹ کرتے ہر شہر اورصوبے کو نشانہ بنانے لگے۔ کتاب چوائس نہ رہی۔ کتاب سکرات میںڈالی گئی۔ کتابوں کی دکانیں بند ہونے لگیں۔ وہاں کڑھائی گوشت ، بندوقوںاور جوتوںنے اپنا بسیرا کر لیا۔ بقیہ کتاب دکانوں کے ریکس لاغراور گنجے بھی ہونے لگے اور ان میں کتابوں کے علاوہ دیگر چیزیں بھی رکھی جانے لگیں۔
مگر اس فضا میں بھی منصور بخاری ”گوشہ ادب“ سے آگے بڑھ کر سیلز اینڈ سروسز نامی وسیع دکان میں شفٹ ہوگیا۔ ایک اضافی تہہ خانہ بھی اس نے کتاب سٹور کرنے کے لیے حاصل کیا۔ ہم بار بار اس تہہ خانہ گئے۔ وہ وہاں تازہ چائے ، تازہ کیک اور تازہ کتب مہیا کرتا۔ ہم گھنٹہ دو خوب باتیں کرتے ۔۔۔ اورباتیں ہوتی ہی کتابوں کے بارے میں تھیں۔
اگر کوئی شخص یہ سنجیدہ دعوی کر ے کہ بلوچستان سنجیدہ کتابیں پڑھتا ہے تو آپ اُس کی بات پر یقین کرلیں۔ اور یہ بھی کہ اس سنجیدگی خوانی کو رواج دینے میں منصور بخاری کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ شخص اپنی منتخب کردہ کتاب کسی بھی صورت قاری کو بیچتا۔۔۔ قرض پہ ، یانصف قیمت پہ۔ آپ بے شک بادلِ ناخواستہ اور تکلف میں آکر ہی خرید لیتے لیکن بعد میں پڑھتے ہوئے بخاری کے انتخاب کی داد دیتے ۔ اور بعد میں تو فون کرتے یا وہاں چکر لگاتے وقت اس سے صرف یہ کہنا پڑتا تھا، میرے لیے کتابیں ہیں؟ ۔اور آپ کے لیے کتابیں ہوتیں۔ کبھی کبھی تو خود ہی فون کر کے نئی اچھی کتاب اٹھانے کا کہتا۔
وہ اپنی دکان سے کتاب چوری کا بھی زیادہ برا نہیں مانتا تھا ۔” کتاب ہی تو لے گیا، پستول تو نہیں “۔ مگر کمال بات یہ تھی کہ چوری کرنے والا خواہ تیس سال بعد بھی ضمیر جاگنے پہ پیسے دینے کے قابل ہوتا تو آکر اپنی ”گناہ“ مانتا بھی اور پیسے بھی دے جاتا ۔ وہ شخص ہکا بکا رہ جاتا جب بخاری اُسے بتاتا کہ اُس نے کتاب چوری کر کے اپنے نیفے میںڈالتے ہوئے اُسے دیکھا بھی تھا۔
جب نیشنل بک فاﺅنڈیشن نے طالب علموں کو کارڈ سسٹم سے کتاب بار عایت خریدنے کی سہولت دے دی تو بخاری کا کتاب گھر مزید مہر بان گیا ۔ اسے خریدار کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی بے بسی سے معلوم ہوجاتا کہ وہ اور کئی کتابیں خریدنا چاہتاہے مگر اُس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تب وہ اُس کی منتخب کردہ کتابیں واپس نہ کرتا ۔ کتابیں دے دیتا اور ”جب پیسے ہوں تو دے دینا “ کہہ کر منہ دوسری طرف کرلیتا۔اسی طرح اس نے بیشمار لوگوں کے فارم خود بھر بھر کر انہیں نیشنل بک فاﺅنڈیشن کا ممبر بنوایا اور کتاب دوست بنایا۔
زندگی کے ہر شعبے میں کچھ لوگ ”مالی“ کے بطور یاد کیے جاتے ہیں۔ کتاب شعبے کا بلوچستان میں ایک ”مالی“ منصور بخاری بھی تھا۔ اس کی موت سے سال ڈیڑھ سال قبل ہم نے کتاب کومقبول بنانے کی ایک تحریک چلانے پہ بہت بحثیں کیں۔ایک بات یہ طے پائی کہ ہم میںسے ہر شخص ہاتھ میں کتاب ضرور اٹھائے گا ۔ کہیں بھی آتے جاتے ہوئے اس کے ہاتھ میں کتاب ہوگی ۔ یوں شاید راہ چلتے لوگوں میں کتاب رکھنے کا فیشن پھیلے۔
کتاب کا یہ مالی ساٹھ برس تک اپنے سخت مورچے پہ موجود رہا۔ اور پھر کورونا نامی عزرائیل نے اس کتاب شناس کو قتل کردیا۔ کتاب طلب شخص کے سامنے کتابوں کا ڈھیر لگا نے والا بخاری مٹی کے ڈھیر کے نیچے سوچ رہا ہے کہ اسے کیسے یاد رکھا جائے گا؟۔

بھئی، کتاب خرید کر!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*