چندن راکھ

کتاب: چندن راکھ
مصنف: مصباح نوید
مبصر: زکریا خان

ہر گھر،گلی ، محلہ اور شہر میں کہانیاں اور ان کے کریکڑ بکھرے پڑے ہیں ۔اصل کام تو ان کو موضوعات عطا کرکے کہانی کے قالب میں ڈھالنا ہے اور قالب بھی ایسا کہ وہ کردار ہمیں کہانی میں سانس لیتے دکھائی دیں۔ اس تخلیق کا ملکہ ہر کسی کو حاصل نہیں۔
ہماری تخلیق کار کویہ ہنر خوب عطا ہوا ہے۔ان کی حال ہی میں افسانوں کی کتاب جس کا عنوان ہے چندن راکھ ہمارے سامنے ہے جس میں کل سولہ کہانیاں ہیں اور صفحات اس کے ایک سو اٹھائیس ہیں۔ نگارشات لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں اشاعت پذیر ہونے والی کہانیوں کو میں سانس لیتی کہانیاں کہنے میں کوئی تامل محسوس نہیں کرتا۔ ان کہانیوں کے موضوعات جدید اور اتنے متنوع ہیں کہ عہدحاظر میں اس کی مثال خال خال ہے۔
شاہ محمد مری نے اس بارے میں بڑے پائے کی بات کی ہے وہ لکھتے ہیں ”مصباح نوید کے افسانوں کے موضوعات انتہائی جدید، اچھوتے اور بے باک ہوتے ہیں۔ افسانہ شروع سے آخر تک حیران کن انداز میں سسپنس کا کمبل اوڑھے رکھتا ہے۔وہ بظاہر چھوٹے سے مشاہدے پہ قصہ بناسکنے کا ہنر جانتی ہے۔افسانے اپنے اندر مقصدیت کا عنصر لئے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ سماج اور سماجی معاملات اٹھاتی ہے ہے ،،
بحوالہ صفحہ 7.
وہ مزید لکھتے ہیں” الفاظ اس کی گرفت میں آنے سے قبل ہی لونگ کی لڑی کی طرح اپنی ترتیب بنا کر پیش ہوتے ہیں۔کچھ بھی مصنوعی نہیں لگتا،کچھ بھی سلیکٹڈ نہیںلگتا۔سب کچھ نیچرل،بےساختہ۔فطری۔
بحوالہ صفحہ 7 بشام کا بادل کتاب ہذا۔
وہ مزید رقم طراز ہیں اسی مضمون میں آگے چل کر”اس کے افسانوں میں زندگی سے بھر پور وابستگی ہے ،زندگی اور زندوں سے اس کا پیار بے انت ہے“۔بحوالہ صفحہ 8 کتاب ھذا
چند عنوانات دیکھیں رائیگانی ، ورچوئل لائف ، گھوم چرخڑا گھوم ,پچاس منٹ , عرش منور ملیاں بانگاں ،کونج ،ہپیی اولڈ ہوم، ہے تمنا کا کہاں دوسرا قدم یارب ۔
ان تمام افسانوں کے موضوعات میں معاشرت ، توہم پرستی ،انسان کی معاشی دوڑ دھوپ ، تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا کلچر ، فیملی سٹم کی توڑ پھوڑ ،انٹر نٹ سے جوڑے کلچر کو بڑی بے باکی سے افسانوں کا موضوع بنایا گیا ہے جو کہ افسانہ نگار کو باقی تمام سے منفرد حیثیت عطا کرتی ہے ۔
نجیب جمال کی رائے کے مطابق ”مصباح کی زبان پرگرفت کی وجہ سے افسانوں کا اختصار کسی بڑے کینوس کی ضرورت محسوس نہیں ہونے دیتا ۔اس کا افسانہ پہلی سطر سے آخری تک جاذب نظر رہتا ہے“۔
محمد اظہر رانا نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے وہ لکھتے ہیں ” جہاں زندگی چور چور ہو وہاں آرٹ برائے آرٹ بے حسی معلوم پڑتی ہے“
مزیدبرآں عہدِ حاضر کے عظیم شاعر ظفر اقبال نے دنیا نیوز پیر میں اپنے مورخہ 2مئی کے کالم میں چندن راکھ کو اپنے کالم کی سرخی بناتے ہوئے یہ رائے دی ہے کہ ” افسانوں کی زبان سلیس ، طرز اظہار دلچسپ اور یاد رہ جانے والا ہے ،،۔
یہ تو عہد حاضر کی چند نابغہ روز روزگار ہستیوں کی آرا ہیں۔
بطور قاری کے سانس لیتی کہانیاں کیوں کہا اور ظفر اقبال نے یاد رہ جانے والی ۔میں کچھ کہانیوں کا مین تھیم یہاں بیان کیے دتیا ہوں دیکھیں” نہ پرس کھلا نہ رقم نکلی بس دعا کے چند حروف اور لڑکی والوں کا گھر جنت میں کنفرم ہوتا رہا “۔ معاشرے کا دقیا نوسی پن کو کیسے تخلیقی جملے میں بیان کیا
کہانی کے اندر بھی کہانی چلتی ہے زاہدہ جو کہ کسی ہسپتال میں نرس ہے کبھی رات کبھی دن کی ڈیوٹی ۔کم تنخواہ گھر بچوں کے لئے کبھی فروٹ کیا لوں کیا نہ لوں۔ پھر ہمارے معاشرے میں عورت کو لوگوں کا سر سے پاو¿ں تک دیکھنا کہانی میں بڑی سرت سے بیان کر جانا افسانہ نگار کا کمال ہے ،، افسانہ بچاس منٹ۔
تخلیق کی جولانی دیکھیں ”فاطمہ سوچتی رہی کہ غلط کیا ہے : جوان ہونا ہونا یا پھر سکوٹی چلانا،؟جملے کی معنویت کمال ۔افسانہ رائیگانی۔
موضوع کی جدت دیکھیں ”صبح نماز پڑھتا ہوں،تلاوت، پھر مکروہات دنیا “پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم ملک نے مسیج ٹائپ کیا۔
لحمہ موجود میں موجود صفیہ نے رپیلائی میں سبز دل بھجتے ہوئے سوچا۔ ”تو مکروہات دنیا کی ابتدا مجھ سے ہوتی ہے “۔ مکروہات دنیا جملے کی معنی خیزی دیکھیں موضوع کی جدت دیکھیں ۔افسانہ ورچوئل لائف ”اب تو انسان کی پوری زندگی ہی جس طرح اون لائن ہوگئی کرونا وبا میں حالانکہ یہ افسانہ وبا سے بہت پہلے کا یہاں آپ افسانہ نگار کی تخلیل کی داد دئے بغیر نہی رہ سکتے۔ کیا جدید ترین موضوع ہے۔
اسی افسانہ میں جدید ٹیکنالوجی کی جدت ملاحظہ فرمائیں ”صفیہ سیل فون ہاتھوں میں لئے دریچہ کے سامنے آرام کرسی پر بیٹھ کر فیس بک پر اکاو¿نٹ بنانے لگی۔
منظر کشی دیکھیں،، بلندوبالاعمارت کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی وسیع کھڑکیوں سے باہر جھانکتے ہوئے پروفیسر کو ہمیشہ پاکستان میں سٹرک کے کنارے بھٹے پر رکھی ہوئی قصاب کی دوکان یاد آجاتی۔ جہاں اوپر نیچے رکھے ہوئے جالی کے ڈبوں میں سے مضمحل مرغیاں اپنی باری کے انتظار میں جھانکتی رہتی تھیں “۔ افسانہ ورچوئل لائف
علامت وہی چیز بنتی ہے جو توانا ہو مگر اہم سوال اس علامت کو ہنر کاری سے تخلیق میں سمونا ہے ۔ یہ ہنر افسانہ ،،کونج،، میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں دو درخت شہتوت ، اور نیم کا درخت اور ان کے نیچے پنپتی ہنسی خوشی سے زندگی بسر کرتی انسانی زندگیاں۔
جس طرح زندگی کے مصنوعی پن اور جدید ٹیکنالوجی نے فیملی سسٹم کو ٹور پھوڑ کر رکھ دیا ہے اور بظاہر دنیا گوبل ولیج بن چکی ہے مگر اس کے ساتھ ہی انسان کی تنہائی میں بے حد اضافہ بھی ہوا ہے ۔عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ اک ہی گھر میں رہتے بچے کئی کئی دن ماں باپ کی شکل نہیں دیکھتے ۔یہ سادہ میسج افسانہ “عریش منور ملیاں بانگاں میں دیا گیا ہے ،،
جیسے بیسویں صدی میں منشی جی نے اردو کے افسانوی ادب کو کفن جیسی لازوال کہانی سے مالا مال کیا، اس عہد میں افسانہ ”گھوم چڑخڑاگھوم “آج کے موجودہ افسانوی ادب کو تابندگی بخشتا رہے گا مزکورہ افسانہ میں ہمیں افسانہ نگار کی تخلیقی ہنر کاری بام عروج پر نظر آتی ہے۔
افسانوی مجموعہ”چندن راکھ“ میں شامل کہانیاں اپنے موضوعات کی جدت ،متنوع پن ،سلیس اسلوب ، اپنے اردگرد کے ماحول،مٹی کی مہک میں گندھی یاد رہ جانے والی سانس لیتی کہانیاں ہیں۔ قاری خود کو ان میں Live کرتا محسوس کرتا ہے۔
یہ افسانوی مجموعہ آنے والے کہانی کاروں کے لئے نئی راہوں کی نشاندہی کرے گا اور ان کو انسانیت سے مزید قریب بھی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*