کورونا

کرونا وباء سے لڑنا ہے ڈرنا نہیں کرونا وباء سے لڑیں گے تو رہیں گے۔ہزاروں کرونا ئیں ہمارے ار گرد ہیں ان کا بھی تو کچھ کرنا ہے۔انسان کو اس کی کمزوری مار دیتی ہے۔زندگی خود ایک بڑی جنگ ہے جو جاری وساری ہے۔انسان اپنے آپ سے لڑ رہا ہوتا ہے اور ارد گرد کے ماحول سے لڑ رہا ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ لڑائی کس نوعیت کی ہے۔کرونا کی وجہ سے ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ ہر کوئی خوف زدہ نظر آرہا ہے۔خوف کا ماحول پیداکیاگیا ہے پورا سوشل میڈیا الیکٹرونک میڈیا ایسی خبروں سے بھری پڑی ہے ہمت اور حوصلہ کے بجائے لوگ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہورہے ہیں کوئی واضح پالیسی نہیں،روک تھام کے لئے کوئی میسر حکمت عملی نہیں۔اتنے لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ان حالات میں عوام کے لئے عملی معنوں میں کچھ کیا جائے بجائے اس کے روزانہ اتنے لوگوں میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی ہے لاک ڈاؤن کرو،لاک ڈاؤن مت کرو،سمارٹ لاک ڈاؤن،لارجر لاک ڈاؤن،ٹی وی شو میں بیٹھے حضرات کرونا کو بھی اپنی پارٹی پالیسیوں سے جوڑتے ہوئے گندی زبان استعمال کرتے تھکتے نہیں کوئی پروفیسر ڈاکٹر ان شوز میں کم نظر آتا ہے جو حقیقی معنوں میں لوگوں میں شعور اجاگرکرے۔لوگوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ورنہ یہ حالت نہیں ہوتی۔کہتے ہیں لوگ ان پڑھ نہیں لوگ جاہل نہیں جہاں قانون نہیں ہوگا فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوگا ہمارا نظام ٹریفک کے نظام کی طرح ہوگا تو ہاں عوام سے گلہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔وفاقی اور صوبوں کے جھگڑے ہوں یاں کہ عوام کی غفلت سب اپنا کردار احسن طریقے سے نبھارہے ہیں اور اس کا رزلٹ تو پھر ایسا ہی آئے گا۔ننگا تڑنگا بغیرہاتھ و پیر کے کانٹوں کاہار پہنے کرونا بھی اپنا کام کیا خوب کررہا ہے اور ہم اعداد وشمار گن رہے ہیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تجاویز پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے ڈاکٹرز کی تجاویز کو دوسری طرف رکھ دیا گیا ہے پارٹیوں کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ جاری ہے ہر کوئی اپنی اسکورنگ کررہا ہے اور ڈاکٹرز بنے بیٹھے ہیں ڈاکٹرز کا ماسک پہنے وہ لیکچر دے رہے ہیں جن سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں۔

افراتفری، نفسانفسی ہی نہیں بلکہ نفسیاتی بیماریوں نے بھی جنم لیا ہے جس ملک میں لوگ پہلے ہی سے بے روزگار ہوں، مہنگائی عروج پر ہو، ادویات کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہوں، اب تو بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگابیرون ملک مقیم لوگوں کی بڑی تعداد میں رخ کریں گی اب اُن کی عرب عمارات، سعودی عرب میں زمین تنگ کردی گئی۔ یہ کورونا کے دوران حالات کو مزید تکلیف بنانے کے لیے کافی ہے۔۔۔ بنیادی ضرورتوں کا فقدان جہاں ہوں وہاں ائیرایمبولینس کے لیے 25ارب روپے۔۔۔کیا معنی دارد۔۔ لیکن اس وقت ان حالات نے پوری دنیا کی معیشت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے ایک دو ممالک کو چھوڑ کر پوری دنیا اسی وائرس کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے خود سر مایہ داری کا بادشاہ امریکہ جدید اسلحہ سے لیس،ڈرون حملوں کی بھر مار مگر آج کہاں آکر کھڑا ہو گیا ہے پورا سسٹم جام ہے۔ کہاں گئی 21ویں صدی کی ٹیکنالوجی،اور جدید اسلحہ َ؟۔نہ سمجھا جائے اس وباء سے صرف عام طبقہ اثر انداز ہوگا۔عالمی سرمایہ داری،جدید سائنس،صنعت او رٹیکنالوجی کے باوجود کرونا وائرس کو ختم کرنے میں ابھی تک ناکام ہے کیونکہ اس نظام میں سائنس،صنعت اور ٹیکنالوجی کے ثمرات سے عام انسان بہرہ مند نہیں ہوسکتا بلکہ مٹھی بھر سرمایہ دار اسے اپنے منافع کو بڑھانے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے سائنس اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک عوامی نہیں ہوچکی ہے اگر وہ عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال ہوتو وہ تسخیر کائنات کے عمل کو بہتر کرسکتی ہے۔وباؤں،آفتوں اور دیگر گلوبل مسائل کو عوامی جدوجہد سے ختم کرسکتی ہے۔

فرنٹ لائن ڈاکٹرز جس طرح اس وباء کا شکار ہورہے ہیں یہ سب کے سامنے ہے،کوئی لائحہ عمل نہیں،حالیہ دنوں میں ایسے انجکشن کی بات معاشرے میں گردش کررہی ہے جس کی قیمت20ہزار سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔لاکھوں میں جاکر اس کا کورس مکمل ہوجاتا ہے کمپنیاں لگی ہوئی ہیں اربوں کھربوں روپے کمائے جائیں گے اور غریب کے حصے میں Resochin کی گولی ہوگی اور اب یہ بھی مارکیٹ میں غائب ہے۔ایسی گولی ہے جسے کبھی غائب نہیں کیا جاسکا ہے اس کے مضر اثرات دل پر ہیں جس سے کافی نقصان ہوتا ہے لیکن لوگوں کو اس طرف راغب کیا جارہا ہے،لہسن اور پیاز سے علاج کیا جارہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔دوائیوں اور انجکشنوں کی آڑ میں عام طبقہ متاثر ہورہا ہے۔

ہماری عوام سے گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹروں کی تجاویز کو سامنے رکھ کر ان پر عمل کریں اور اپنی مدد آپ کے تحت آگے آئیں اور ہمت وحوصلہ سے کام لیتے ہوئے اپنی حفاظت خود کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔صرف فرنٹ لائن پر ڈاکٹرز کچھ نہیں کرسکیں گے سوائے خالی خولی سلوٹ سے کام نہیں چلے گا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*