محبت کی آخری نظم

دم رخصت

تپے ہوئے لہجے میں خاموش رہنے والا

آنکھوں تک سلگ اٹھا ہوگا

اس کی سانسوں سے میرا دم رک گیا

اور میری ہتھیلیاں دھڑکنے لگیں

میرا مرد پورے چاند کی طرح مجھ پر چھا گیا

وہ آگ سے مرتب ہے

میرے انگ انگ میں پگھلنے کی آرزو ہے

اس کے لمس میں میرے خمیر کی خوشبو کہاں سے سما گئی

کہ میں اپنی تلاش میں اس تک آ پہنچی

اس کی آنکھوں میں میری آنکھیں تھیں

جب اسے مجھ سے جدا کیا گیا

وہ دروازے سے باہر بھی دروازے کے اندر تھا

اور میں دروازے کے اندر بھی دروازے سے باہر تھی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*