روس کا انقلاب نمبر ایک……..نیم کامیاب، نیم ناکام

 

پارٹی کے اندر مان شویک نامی موقع پرستوں کے ساتھ منا قشے کے اِن سارے جنگی لمحوں میں لینن کی صحت تباہ ہوگئی تھی۔ اس اعصابی جنگ میں اُس کی نیند اور بھوک دونوں اڑ گئی تھیں۔بس ایک اچھی بات تھی کہ خاندان ساتھ ہوتا تھا۔ اس کی باشعور اور سیاسی بہنیں ،اس کی ماں اور سیاست میں اُس کی ہم پلہ بیوی، کروپسکایا ۔ ایک غیر معمولی انقلابی فرد کا غیر معمولی انقلابی خاندان ۔یہ بہت زبردست طریقے سے باہم جڑا ہوا خاندان تھا۔مگراُس کی ساری جلاوطنیوںمیں تو نہ ماں ساتھ تھی نہ بہنیں تھیں، بڑے بھائی کوویسے ہی پھانسی کی رسی نے چاٹ لیا تھا۔ لہذا ایک واحد ہستی کروپسکایا تھی جو اُن سارے رشتوں کی نمائندہ تھی محبوبہ اضافی رشتہ تھا۔ وہی خاندان کے لوگوں سے رابطہ کا ذریعہ تھی اور وہی لینن کے فیصلہ ساز مگر فیصلہ زدہ دماغ کا سکون تھی۔
بہت ہی تھکا ہوا لینن کروپسکایا کی رفاقت میں سستانے اور خود کو بحال کرنے شہروں سے دور پہاڑی علاقے چلاگیا۔ کروپسکایا کہتی ہے کہ ” ارد گرد کی تبدیلی ، پہاڑ کی ہوا، تنہائی ،خود کو جسمانی طور پر خوب تھکا دینے اور اچھی نیند نے لینن پہ حیرت انگریز بحالی کا کام کیا۔ اس نے اپنی پرانی قوت اور وہی پرانی روح اور پرا نی خو ش مزاجی دوبارہ حاصل کی“۔
آہستہ آہستہ کروپسکایا اور لینن کا موقف نوجوانوں میں بڑھتا گیا۔دو کتابیں ”کیا کیا جائے ؟“ اور ” ایک قدم آگے دو قدم پیچھے “بالخصوص اُن کے خیالات کے بہترین ترجمان تھے۔روس میں کروپسکایا کے رابطے کے لوگوں اور کمیٹیوں نے اُن کی حمایت کرنا شروع کردی۔لینن اُس وقت محض 34سال کا تھا۔
ہمارے ہاں چونکہ انگریز سے لے کر آج تک انسانوں کی حکومت آئی ہی نہیں اس لیے جو کوئی بھی سرکار مخالف ہو ہم اُس کی عزت وغیرہ کرتے ہیں۔ یہ تمیز کیے بغیر کہ وہ شخص خود کیسا ہے ؟۔ہوبہو ویسا تو نہیں جس طرح کی کہ سرکار ہے ؟ ۔ کئی بار عوام دشمن لوگ بھی عوام دشمن حکومت سے جیل اور پھانسی پاتے رہتے ہیں۔ اس لیے ضروری نہیں کہ ہر جیل جانے والا، یا ہرپھانسی چڑھنے والا شخص انسان دوست ہو، روشن خیال ہو ،یا، انقلابی ہو۔
یہاں بھی تاریخ کا یہی مذاق ہوا۔ایک اور سیاسی پارٹی نمودار ہوئی تھی،سوشلسٹ ریولیو شنری پارٹی ۔ اُس کا لیڈر برِشکونسکی چھ بارجیل جا چکا تھا، اور اس نے بیس برس سائبیریا جلاوطنی جھیلی تھی۔حالانکہ یہ ایک ٹیٹررسٹ پارٹی تھی جو وزیروں گورنروں کو بھی قتل کرتی تھی ۔ اس کا جلاوطن اخبار بھی تھا اور روس کے اندر بھی پرنٹنگ پلانٹ تھے۔
لینن والوں کی پارٹی کانام اُس زمانے میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی ہوا کرتا تھا۔ یہ پارٹی اس نئی سوشلسٹ ریولیوشنری پارٹی کے سخت خلاف تھی جو کہ کسانوں کو انقلاب کا سربراہ سمجھتی تھی۔ لینن اس نئی پارٹی کے انفرادی دہشت گرد اقدامات کا بھی سخت مخالف تھا۔
1904میں جاپان کے ساتھ تباہ کن جنگ ہوئی ۔ایک لاکھ سے زائد روسی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ اور بالآخر روسی فوجوں نے جاپان کے آگے ہتھیار ڈال دیے ۔ روس کو جاپان سے ایک شرمناک صلح کرنی بڑی ۔ یہیں پر لینن نے کہا تھا کہ ”یہ مطلق العنانی کی شکست کی ابتدا ہے“ ۔(2)
روس ،بادشاہ کی طرف سے احمق ترین جاہ پرستی کا اکھاڑہ بن چکا تھا۔نا امیدی کی تاریکی چہار اطراف چھا ئی ہوئی تھی ۔ وہیںایسے واقعات ہوجاتے ہیں جن سے پوری بشریت کی تقدیریں بدل جاتی ہےں۔ روس میں 1905کاانقلاب ایک ایسے ہی پس منظر میں برپا ہوا تھا ۔
دوسری طرف 1904 میں روسی بادشاہ نے مزدوروں کو مصروف رکھنے کے لیے ” یونین آف رشین ورکرز“بنوالی ۔اس نے بادشاہ کاوفادار ہوتے ہوئے مزدوروں کے معاشی حقوق کی بات کرنی تھی ۔ پادری ، گاپون کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ یہ خفیہ نہیں، بلکہ قانونی تنظیم تھی۔(1)
9جنوری 1905 میں پادری گاپون کی قیادت میں سینٹ پیٹرسبرگ کے فیکٹری مزدور بادشاہ کے محل تک ایک پرامن جلوس کی شکل میں گئے ۔اُن کے بال بچے بھی ساتھ تھے ۔ انہوں نے بادشاہ کی تصویریں ، علامات اور بینر اٹھارکھے تھے۔احتجاج نہیں، درخواست ، آہ، فریاد۔ ۔ اُن کے پاس بادشاہ کے نام ایک درخواست تھی ۔ پادری اور مزدوروں کا ارادہ تھا کہ وہ بادشاہ کو درخواست پیش کریں گے۔ وہ درخواست یوں تھی :
” اے ہمارے شنہشاہ ۔ ہم سینٹ پیٹرسبر گ کے مزدور ،ہماری عورتیں اور بچے ، ہمارے بوڑھے ماں باپ تیرے پاس حق اور اعانت کے طلب گار ہو کر آئے ہیں۔ ہم غریب اور مظلوم ہیں، ہم کو ناقابلِ برداشت سختیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے ، ہم طرح طرح کی ذلت سہتے ہیں۔ہم سے انسانوں کا برتاﺅ نہیں کیا جاتا۔۔۔ ہم نے یہ سب اب تک صبر سے برداشت کیا، لیکن ہم روز بروز مفلسی میں ڈوبتے جارہے ہیں، ہمارے نہ کچھ حقوق ہیں اور نہ ہم میں کچھ تعلیم ہے ۔ ہم مطلق العنانی اورظلم کے شکار ہیں۔ ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک رہا ہے ۔ وہ خوفناک وقت آچکا ہے جب کہ ہم ایسی مصیبت سہنے سے مرجانا بہتر سمجھتے ہیں“(3) ۔
اس جلوس میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد شامل تھے ۔اتوار کا دن تھا اور اِن غریب لوگوں نے اپنے پاس موجود بہترین لباس پہن رکھے تھے۔ جلوس کے آگے آگے پادری گاپون تھا۔
مگر بادشاہ نے اُن سے پیار نہیں کیا۔اُس نے اُن کی بات نہیں سنی ۔ بلکہ بغیر کسی اشتعال اور وجہ کے ، اُس نے اِن پُر امن ، غیر مسلح لوگوں کے جلوس پر گولی چلوادی ۔اس جلوس کے ہزاروں افراد نے سپاہیوں کی فائرنگ سے اپنی صفوں کو لاشوں میںبدلتے دیکھا۔ یک دم حیرانگی ۔70افراد ہلاک ہوئے اور پانچ ہزار زخمی ۔ (5) اسی لیے اسے ”خونی سنڈے “کہتے ہیں۔
”خونی سنڈے“ کی قصاب گیری نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ملک بھر میں غصہ اور غم پھیل گیا۔
ذبیحہ کے بعد کے شدید جذباتی ردعمل نے جلدہی پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ بادشاہ کے خلاف مقبول عام غصہ، دکھ ، اوربے عزتی کے وسیع اظہار ہونے لگے ۔صرف صنعتی مزدور نہیں بلکہ مڈل کلاسز، پروفیشنل تنظیمیں، دانشور ، الغرض پوری روسی سوسائٹی غصے سے بپھر گئی ۔ مزدوروں کے ان جلوسوں کا نعرہ تھا: آمریت مردہ باد۔ زار بادشاہ نے کچھ نہ کیا جب تک کہ اس کا انکل گرانڈ ڈیوک سرگئی فروری میں قتل ہوگیا۔ یہ ماسکو کا گورنرتھا ۔ اسے سوشلسٹ ریولیوشنری پارٹی نے قتل کردیا۔تب بادشاہ نے ایک فرمان کے ذریعے ایک مشاورتی اسمبلی کے الیکشن کا علان کیا(6)
اس ” خونی اتوار“ کی خبریں چوبیس گھنٹے کے اندر اندر جنیوا پہنچیںجہاں لینن جلاوطنی بھگت رہاتھا۔ لینن اس نتیجے پر پہنچا کہ زار شاہی کی چولیں ہلنے لگی ہیں۔ جنیوا میں موجودسارے انقلابی جلا وطن جمع ہوئے اوراس ابھار پہ تبادلہِ خیال کیا او رنتائج اخذکےے۔ لینن واضح خیالات کے ساتھ سامنے آیا۔اُس نے لکھا :” مزدور طبقے نے خانہ جنگی میں ایک زبردست سبق حاصل کی ۔ پرولتاریہ کی انقلابی تنظیم نے اس ایک دن میں اس قدر ترقی کی جو کہ وہ بد کاری‘ بے لطفی اور ذلت کی موجودگی میں مہینوں سالوں میں نہیں کر سکتی تھی ۔ یہاں سارے طبقات کھل کر سامنے آگئے اور پہلی بار ایک طبقاتی جدوجہد کے بڑے پیمانے کے اظہار کے درکھلے “۔
جلاوطن لینن کی ساری توجہ روس پر مرکوز تھی ۔ وہ براہِ راست پارٹی کمیٹیوں کی رہنمائی کر رہا تھا ، ان کو خطوط لکھتا تھا اور تفصیلی ہدایات دیتا تھاکہ شروع ہونے والے انقلاب کے حالات میں کس طرح کام کرنا چاہیے ۔ ” مجھے اکثر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانا پڑتا تھا “ بالشویکوں کی کمیٹیوں کے بیورو کے ایک ممبر م ۔ ن ۔ لیادوف نے ذکر کیا ۔ ” ہفتے بھر کے لئے جانا ، لینن کو ساری خبریں بتانا ، اس سے ہدایات، احکام اور مشورے لینا اور پھر واپس آ کر ” بالشویکوں کی کمیٹیوں کے بیورو “ کے کامریڈوں کو بتانا ۔ اور ہمیشہ ہم کو اس پر حیرت ہوتی تھی کہ کتنی صحت کے ساتھ جنیوا میں بیٹھ کر لینن ساری صورت حال کا اندازہ لگا لیتا تھا ۔۔۔۔“(7)
1907-1905 کے برسوں کو سالہائے انقلاب کہتے ہیں ۔لینن نے لکھا :”9 جنوری 1905 انقلابی پرولتاری توانائی کی عظیم الجثہ ذخائردکھاتا ہے ، اور بہ یک وقت تنظیم کی حتمی ناکافی پن ۔ بالشویکوں نے ہر ممکن طریقے سے ہتھیار روس بھیجے مگر یہ سب کچھ کم تھا ۔ لینن نے سینٹ پیٹرسبرگ کو لکھا :
” اس طرح کے کام میں جس سب سے آخری چیز کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ہے منصوبے ، اور لڑاکا کمیٹی کے فرائض اور حقوق کے بارے میں بحث و مباحثہ ۔ میں یہ سن کر دہشت زدہ ہو جاتا ہوں ، مکمل طور پر دہشت زدہ ہو جاتا ہوں کہ لوگ چھ ماہ سے زائد عرصے کے لئے بموں کی بات کرتے ہیں مگر ابھی تک ایک بھی بم نہ بنا ۔۔۔ اور یہ باتیں عالم لوگ کرتے ہیں ۔۔۔ نوجوانوں کی طرف جایئے حضرات! ۔وہ واحد بچاﺅ کی صورت ہے ۔ وگرنہ ، میری بات گرہ میں باندھیے ، آپ تاخیر کر جائیں گے ، اور خود کو ”سائنسی “ سمجھوتوں“ منصوبوں کے نقشوں ، منصوبوں اور عمدہ نسخوں سے ساتھ پائیں گے ، مگر کرنے کو کچھ نہ ہو گا ۔۔۔“
اس زلزلہ ناک صورتحال میں روس کے اندر موجود ہر سیاسی مکتبہ فکر اپنی میٹنگیں ، کانفرنسیں اور کانگریس منعقد کرنے پہ مجبور ہوا۔ معاملات تھے: 1905کے انقلاب کی ناکامی کے اسباب ، بادشاہت کے خاتمے کے لیے لائحہِ عمل ، عارضی انقلابی حکومت کے قیام کی ضرورت ۔
چنانچہ کروپسکایا کی پارٹی نے (تیسری) پارٹی کانگریس بلانے کا فیصلہ کیا۔ 12اپریل 1905 میں روسی سوشل ڈیمو کریٹک لیبر پارٹی کی تیسری کانگریس لندن میں ہوئی ۔ اس میں20بال شویک کمیٹیوں کے 34نمائندوں نے شرکت کی۔دلچسپ ہے کہ 1905کی اس کانگریس میں ایک بھی ڈیلیگیٹ مزدور نہ تھا(8)۔
رازداری اس قدر تھی کہ آج تک اُس ہال کا نام کسی کو معلوم نہیں ہوسکا جس میں یہ کانگریس ہوئی تھی۔یہ بال شویکوں کی پہلی کانگریس تھی ۔ مان شویکوں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا حالانکہ اُن کو مدعو کیا گیا تھا ۔ انہوں نے اپنی الگ کانفرنس جنیوا میں منعقدکی ۔ لینن نے اس موقع پر کہا: ” دو کانگرسیں ۔۔۔ دو پارٹیاں “۔۔۔۔ (9)
بال شویکوں کی کانگرس نے پروان چڑھتے ہوئے انقلاب کے سارے بنیادی مسائل پر غور کیا ۔ لینن کو کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا اور اس نے براہ راست اس کی کارروائی کی رہنمائی کی ۔ اس نے کئی رپورٹیں پیش کیں ، تقریریں کیں اور بنیادی تجاویز تیار کیں ۔(10) اس نے مسلح بغاوت کی حمایت کی، ایک عبوری حکومت کا نعرہ دیا اور جاگیرداروں کی زمین چھیننے کی بات کی۔ وہ ساری زمین کسانوںکو دینا چاہتا تھا۔
اس کانگریس میں زبردست بحثیں ہوئیں۔ حتی کہ کروپسکایا کے بقول اس میں کچھ متشدد جھگڑے بھی ہوئے (11)۔
کانگرس نے پارٹی کے قواعد و ضوابط کی پہلی شِق منظور کر لی جو لینن نے پارٹی کی ممبری کے بارے میں تیار کی تھی ۔ اسی وقت سے یہ ایک اہم ترین لیننی تنظیمی اصول کے بطور پارٹی کے قواعد و ضوابط میں شامل ہو گیا ۔(12)
کانگریس میں پارٹی کے لیے نیا اخبار منظور کیا گیا۔ لینن کوپارٹی کے اس مرکزی ترجمان اخبار ” پرولتاری “ کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔(13)
یہ گویا موجود ہ طرز کی کمیونسٹ پارٹیوں کی بنیاد رکھنے والی اولین تاریخی میٹنگ تھی۔ اس میٹنگ میں پہلی بار لینن نے مشاہدہ کیا کہ آنے والے انقلاب میں ہم ایک بورژوا رپبلک قائم کرنے پہ رُک نہیں جائیں گے ۔(14)
لینن نے روسی سوشل ڈیموکریسی کے پرولتارینا ئزیشن کے معاملے پر مضبوط ترین مداخلتیں کیں۔ ایک ڈیلیگیٹ کی اِس بات پر لینن نے زور دار تالیاں بجائیں کہ کمیٹیوں میں داخلے کی شرائط ایسی تھیں کہ مزدور عملی طور پر اُن سے باہر ہوں۔(15)۔لینن نے کہا ”میں اپنی نشست پر بہ مشکل بیٹھ پاتا ہوں جب یہاں کہا جارہا تھا کہ کمیٹیوں میں بیٹھنے کے لیے کوئی مزدور فٹ نہیں ہے “(16) ۔
1905کی لندن کانگریس کے بعد لینن نے روس کے اندر اپنے حامیوں سے اپیلوں کو دگنا کردیا کہ وہ نئے حالات سے فائدہ اٹھا کر پارٹی تنظیموں کو وسیع کردیں۔(17)
آپ کو سینکڑوں سرکلز منظم کرنے ،منظم کرنے اور منظم کرنے کو یقینی بنانا چاہیے۔ آپ کو روایتی معنی خیز کمیٹی جیسی درجہ وار احمقیوں کو مکمل طور پر پس پشت دھکیلنا چاہیے۔ یہ جنگ کا وقت ہے ۔ یا تو آپ سارے پرتوں کے بیچ انقلابی سوشل ڈیموکریٹک کام کے لیے ہرجگہ نئی، جوان، تازہ ، توانا جنگی تنظیمیں بنائیں!!۔یاآپ کمیٹی بیوروکریٹوں کے نورانی تاج پہنے پستی میں جائیں گے۔(18)
روسی انقلاب کی تاریخ سے باخبر ہونے کے لیے یہ ذکر ضروری ہے کہ ستمبر1905میں ماسکو کے اندر روس کی اولین لبرل پارٹی قائم ہوئی۔ اس کا نام ”کانسٹی چیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی“ ہوا۔ جس کام خفف تھا”کاڈے “ یا ”کاڈیٹ“ (19) ۔اس کاڈٹ پارٹی کا آئندہ برسوں کے واقعات میں بار بار ذکر آئے گا۔
1905کی اسی بالشویک کانگریس کوجرمنی کے بزرگ کمیونسٹ بیبل نے ایک خط بھیجا: ”بچو! کیا تم صلح نہیں چاہتے ؟۔ میں یعنی بیبل آپ کوآپ اور مانشویکوں کے بیچ اپنی مصالحت کی پیشکش کرتا ہوں۔ یہ خط لینن کے نام تھا ۔ لینن وہ خط کانگریس میں لایا اور کانگریس نے اعلان کیا:” ہم اپنے کامریڈ بیبل کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مگر اس مسئلے پر کہ اپنے ملک میں بادشاہ اور بورژوازی کے خلاف کس طرح لڑائی کی جائے ، ہم اجازت چاہتے ہیں کہ اپنی رائے پر چلیں۔ ہمیں یہ اجازت بھی دیجیے کہ ہم مانشویکوں سے اسی طرح نمٹیں جس طرح کہ بورژوازی کے یہ ایجنٹ مستحق ہیں (20)۔
کمال ہے کہ فل ٹائم صحافی ہونے کے باوجود دنیا نے نہ مارکس کو صحافی کے بطور دیکھااور نہ لینن کو۔ اگر لینن کی جلاوطنی کے برسوں کو دیکھا جائے تو وہ سارے برس اخبارات یعنی اسکرا، اوپیریڈ ، پرولتاری او بالآخر پراودا پرہی خرچ ہوئے ۔
کروپسکایا 1905سے 1908تک پارٹی سنٹرل کمیٹی کی سیکریٹری رہی۔

ریفرنسز

1۔ڈیوڈشپ ۔ صفحہ94
2۔ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ۔ صفحہ 70
3۔ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ۔ صفحہ 74
4۔ فارگاٹن لائیوز۔ صفحہ48
5۔دیوڈ شپ۔ صفحہ95
6۔وولگونوف ۔ صفحہ32
-7 او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر65
-8 لیننز پارٹی ۔ صفحہ46
9۔او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر66
-10او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر66
-11 انڈر لینن۔ صفحہ84
12۔او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر67
-13 او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر67
14۔زینوویف ۔ این ۔ جی۔ Lenin His life and word۔ جنرل ورکرز یونٹ آف O.B.Uآف ٹورنٹو۔سال نہ دارد۔صفحہ 19
15۔ لینن ازم انڈر لینن ۔صفحہ85
16۔ لینن ازم انڈر لینن ۔صفحہ85
17۔لیننز پارٹی ۔ صفحہ49
18۔ اوبیچکن، لینن مختصر سوانح عمری۔صفحہ76
19۔۔ شرمپ۔ صفحہ نمبر95
20۔ N. lenin His life and word G.Zinovieff جنرل ورکرز یونٹ آف O.B.Uآف ٹورنٹو۔سال نہ دارد۔صفحہ 20

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*