نیکی کرنے والا انسان

 

ایک بلوچی شعر کا ترجمہ ہے کہ : میں نے زندگی ناپ کر دیکھی ہے ۔ اس کی کل لمبائی دو بالشت ہے ۔سی آر اسلم اپنی اسی دو بالشتی زندگانی بِتا کر وفات پاگیا ۔مگر وہ تاریک راہوں کی تاریکی میں کچھ کچھ روشنی گھول کر گیا۔ جاگیرداری جیسے بے فیض سماج میں وہ ایک آبرو مندانہ زندگی جیا۔وہ ایک نیک شخص تھا ، خاموش اور مستقل مزاجی کے ساتھ نیکی کرتارہا ۔ کبھی دیکھو تومظلوموں مجبوروں کی تنظیم بنا رہاہے،کسی کو جغرافیہ سمجھا رہاہے ‘کہیں علمِ معیشت پہ عام لوگوں کو لیکچرر دے رہاہے ۔ عام آدمی کے لئے اخبار نکال رہاہے ،کسی کی شادی کروارہاہے ، کسی کی ضمانت دلوارہا ہے ۔اورکسی مسافر کی رہائش کا بندوبست کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔پاکستان کے عوام بالعموم اور اُس کے واقف کار بالخصوص کسی نہ کسی شکل میں اس کے مقروض ہیں۔
پاکستان بالعموم اور صوبہ پنجاب بالخصوص سوشلسٹ نظریات کے پھیلانے اور تنظیم سازکے بطور اگر کسی ایک شخص کا مقروض ہے تو اس شخص کا نام سی آر اسلم ہے۔ ہزار مشکلات کے باوجود وہ اپنا پیغام اور تنظیم عملی طور پر ایک ایک سب تحصیل تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔ ایسی صبر آزمازہن سازی کہ اُس سرزمین پر عام انسانی معیار پہ اگر کوئی قابلِ بھروسہ شخص ڈھونڈنا ہو تو وہ سی آر اسلم کا شاگرد ہوگا۔
جنوبی ایشیا میں شعور کا یہ سفیرسب لکھاریوں سے زیادہ بولا اوراس نے سبھی ’’ابوالکلاموں‘‘ سے زیادہ لکھا ۔وہ بات زور زور سے کہتا اور بار بار دھرا کر کہتا۔ جیسے میں ہاؤس جاب کے وقت کسی قبائلی مری کو تین قسم کی گولیاں اور دو قسم کے شربت استعمال کرنا سکھا رہا ہوں۔ مگراس نے نہ کبھی تصنیف جتائی اور نہ تقریر پہ اترایا۔
سی آر اسلم نے جنوبی ایشیا کے سارے سیاستدانوں میں سب سے زیادہ سفر کیے، ملک کا کوئی ایسا گوشہ نہ ہوگا جہاں اس کی بنائی ہوئی پارٹی یا طبقاتی تنظیم موجود ہو اور سی آر وہاں نہ گیا ہو۔مگر نہ کبھی اس کے پیر جلے ،نہ دل پھپھولے ہوا۔ جیلوں ریلوں میں زندگی گزارنے والے اس شخص نے پاکستان،بنگلہ دیش اور ہندوستان میں کسی بھی سیاح،سیلانی ،جوگی اور سیاسی کارکن سے زیادہ سفر کیے۔ سوشلزم کی تبلیغ ،تنظیم اور نشوونما کی خاطر اس نے اس دھرتی کے چپے چپے کو سجدہ گاہ بنائے رکھا۔ اونٹ ،ٹرک،کشتی،بس ،کار ،ریل گاڑی اُس جام درک کے ’’سیاہ‘‘ نامی گھوڑی بنے رہے۔ پاکستان بھر میں سوشلزم کا ایک ایک غنچہ اس کی باغبانی کا حسین گواہ ہے۔
سی آر اسلم نے بیرونی ممالک کامحض ایک آدھ سفر ہی کیا تھا اور وہ بھی مشرقی یورپ کے ممالک کا۔ وہ سوشلزم کی خاطر ہی وہاں گیا ۔۔۔۔ قید خانے بھی سوشلزم کے نام سے ، تہہ خانے بھی اُسی کے نام پہ ۔ سی آر اور سوشلزم سفرو حضرکے ساتھی ، طعام و قیام کے بیلی اور ، دُکھ سکھ کے رفیق رہے ۔
ان دوروں اور لوگوں سے وسیع میل جول کے نتیجے میں اُسے ملک کے ہر حصہ کے لوگوں کے سماجی و معاشی حالات کا علم تھا۔ وہاں کی تاریخ، ادب اور موسیقی کی معلومات تھیں۔ وہ ہمیں اِن مقامات کے بارے میں اپنی گفتگو میں معلوم دار کرتا جاتا۔ ندی نالوں تک، فصل و اناج تک، منڈی مارکیٹ تک۔ اوروہ ایسا مجلسی شخص تھا کہ انہی علاقوں کے بارے بولتے بولتے ، سیاحت کراتے کراتے مارکسزم پر جاتا تھا۔
لاکھوں لوگ کسی نہ کسی حوالے سے اس سے فیض یاب ہوچکے مگر وہ نہ تو’’ استاد‘‘ کہلایا، اور نہ ہی خود کو کسی سے ’’ استادوں کا استاد‘‘کہنے کا موقع دیا۔ ایک عبداللہ جان تھا جو چرانوے برس کی عمرکو پہنچ کر،خود پہ فالج لگاکر‘سی آر کو ’’استاد‘‘ کہنے کی گستاخی کرجاتا تھا۔ مگر اُسے کوئی ٹوکتا اس لئے نہیں تھاکہ سی آر اسلم یہاں تھا نہیں‘ سینکڑوں میل دور لاہور میں رہتا تھا۔ اُس کے وسائل کم تھے اورعبداللہ جان سے وابستہ لوگوں کے ساتھ اس کے وہ روابط نہیں رہے تھے جو ہوا کرتے تھے۔ اس لئے اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ جمالدینی صاحب اُسے استاد کا درجہ دینے کی کوشش کررہا تھا۔ ورنہ اُس نے ’’پیٹی بورژوا خود پرستی ‘‘ جیسی ایک دو مشکل اصطلاحات کے تحت اپنے ہفت روزہ ’’ عوامی جمہوریت‘‘ میں ٹکا کے د و تین مضمون لکھ مارنے تھے۔ پتہ نہیں اس دریا کو کس مست تو کلی نے مدھم چلتے رہنے کی دعا دی تھی۔کہ اس کی تعلیمات کے اثرات تو نظر آتے ہیں،وہ خود نہیں۔
یعنی، سی آر اسلم کی لغت میں ’’I am‘‘کا لفظ موجودہی نہیں تھا ۔اسے علم و فن والے غرور کا عام مرض کبھی نہ لگا۔اسی لیے تو اس آدمی نے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا اور برگزیدہ نہ سمجھا، کبھی سرپرستانہ انداز اختیار نہ کیا۔ اُس کے ہم عصر کبھی ’’ بزرگ راہنما‘‘بنتے، کبھی مرکزی لیڈر، کبھی استاد، اور کبھی عظیم لیڈر۔’’ میں، میں‘‘ کرتے تھکتے نہ تھے۔ ہر انٹرویو، جلسہ اور گفتگو میں’’ آئی ایم‘‘ کے جلوے ہوتے۔ مگرسی آر اسلم کبھی بھی اپنے بارے میں نہیں بولتا تھا ،وہ تو تحریک کی بات کرتا تھا ۔اس نے کوئی آٹو بائیوگرافی نہیں لکھی۔کبھی اپنے باپ دادا، اپنے بچپن اور ذات کے بارے میں کچھ نہ لکھا۔ اس نے اپنے کسی مضمون ،کسی انٹرویو میں اپنی نجی زندگی اور آل اولاد کے بارے میں کبھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔خود ستائش کا الٹ تھا وہ ۔
سی آر اور اس کے قریبی ساتھی ( محمو داحمد، خواجہ رفیق، ملک اسلم ، اسلم ریڈیو ، محمد علی بھارا،کنیز فاطمہ) سوشلزم میں سوئچ آن سوئچ آف نہیں کرتے تھے۔ انہیں عام انسان سے تھکاوٹ، کراہت نہ ہوتی تھی۔ ان کے اٹھک بیٹھک اور شکل و برتاؤ سے افسری، بڑائی نہیں نظر آتی تھی۔ اس قدر عام کہ عام آدمی اُن سے ملنے اور گفتگو کرنے میں کمفرٹ محسوس کرتاتھا۔وہ خود بھی قابلِ رسائی آدمی تھا اور اس نے اپنے ساتھیوں سنگتوں کو بھی اپائنٹمنٹ سے ملاقات دینے والا رہنے نہ دیا تھا۔ اپنی ساری مشکلات اور ذاتی پریشانیوں کے باوجود وہ ہمہ وقت افتادگانِ خاک کو سراٹھا کر چلنے کے قابل بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہا۔
سی آر اسلم چونکہ مڈل کلاس والی عام ضروریات سے بے نیا ز تھا اس لیے وہ ہمیشہ آرام سے رہ سکتا تھا۔ اُسے میں نے دھوبی سے گھنٹوں باتیں کرتے سنا جہاں کوئی فلسفہ، اصطلاح اور نازک خیالیاں نہ تھیں۔ اَن پڑھ دھوبی کی سطح کی عام دنیاوی باتیں تھیں۔وہ دوسروں کی بات نہایت تحمل اور دلچسپی سے سنتا ۔ پھر آرام آرام سے بات کرتا جاتا۔ عام آدمی عام آدمی سے موضوع فکس کرکے تو مجلس نہیں کرتا ناں!۔ عام آدمی کو تو تعارف کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ناں !۔
درماندہ اور پریشان انسانیت کی خدمت کے لئے سی آر اسلم نے اِن اوصاف کو اپنی عادت کا حصہ بنا ڈالا تھا۔ اس کے لئے یہ کوئی وقتی ، یا دکھاوا کرنے والا معاملہ نہ تھا۔
زندگی اس پہ صرف اس حد تک مہربان رہی کہ اسے جینے کو بہت سال عطا کردیے۔ اسی طویل عمری کی نعمت کی دستیابی کے سبب وہ ایک نہیں بلکہ دو تین نسلوں کا استاد رہا۔
اس نے بقول اس کے بیٹے قیس اسلم کے :’’ تمام عمر ہماری والدہ، سوشلزم ،اور پارٹی سے بے حد پیار کیا ‘‘۔میرا اضافہ یہ کہ ’’ عام انسان‘‘ سے بھی۔
چنانچہ وہ ستر برس تک مسلسل اور ہمہ وقت انسانوں کی خدمت کرتا چلا آیا۔ استقامت کے ساتھ چلتا رہا،وہ کسی کو دھکا دیے بغیر ،کسی کا گِلہ اٹھائے بغیرآسمانِ انسانیت کی بلندیاں رینگتا رہا۔
چودھری رحمت اسلم ہمارے ماہنامہ سنگت کاسرپرست اعلیٰ تھا۔ سنگت اور اس سے قبل ماہ نامہ نوکیں دور کی اشاعت کو وہ بہت اہم سمجھتاتھا۔ وہ مرحوم ضمیر نیازی اورمحترم عبداللہ جان کی طرح نہ صرف رسالہ سنگت ورق بہ ورق پڑھتا تھا بلکہ اس میں لکھتا بھی تھا۔ ہمیشہ اس کی سرکولیشن،اس کی ترسیل اور گیٹ اپ کے بارے میں بحث کرتا تھا،اور تجاویز دیا کرتاتھا۔ایک بار اس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ خدمت خلق کے حوالے سے اس کے رفقاء کی بقیہ ساری سیاست اور دیگر انسان دوست سرگرمیوں کے مجموعے سے بھی سنگت کی اشاعت بڑھ کر ہے۔
سی آر اسلم کے پسندیدہ مضامین معاشیات،تاریخ اور فلسفہ تھے ۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کی ’’ مختصر تاریخ عالم‘‘ برسوں اس کے سرہانے کے نیچے رہی۔ اسی طرح ایچ جی ویلز کی ’’ تاریخ عالم‘‘ بھی اسے پسند تھی۔ کارل مارکس کی تحریروں کا تو وہ عاشق تھا ہی، وہ لینن سے بھی زندگی بھر راہنمائی لیتا رہا ۔ ڈارون کے نیچرل قوانین تو وہ ہر کسی کو پڑھوانا چاہتا تھا۔ ٹالسٹائی ،میکسم گور کی اور پشکن اُس کے پسندیدہ مصنف رہے ۔ اردو ادب میں وہ اقبال،کرشن چندر،فیض،اختر شیرانی،استاد دامن،ساحر لدھیانوی،ظہیر کاشمیری،سجاد ظہیر،سبطِ حسن ،ساغر صدیقی،امرتا پریتم،حبیب جالب اور احمد راہی کو پسند کرتا تھا۔ اس کی پسندیدہ شخصیات میں کارل مارکس،لینن،ہوچی منہ،فیڈل کاسٹرو،اوردادا فیروز الدین منصور شامل تھے۔
سی آر اسلم ایک فلاسفر تھا۔ وہ دنیا،سماج اور انسان کی فلاح کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ وہ مارکسسٹ نظریہ دان تھااور اپنے معاشرے پراس بڑی سائنس کے اطلاق کے طور طریقے وضع کرنے کا کام کرتا تھا۔ سی آر اسلم انقلابی تھا اور اپنے نظریات کی سچائی کو عمل کے میدان میں ثابت کرتا تھا۔
سی آر اسلم نے زندگی کا بڑا حصہ کھلی سیاست کی ، کھلی پارٹی چلائی ، قائل کرنے والے اجتماعی فیصلے لئے ۔وہ سازشوں کا ہمہ وقتی کافر رہا ۔ وہ چاپلوسی کرنے اور سننے سے بچا رہا ، تفرقہ بازی سے دور رہا ،اور بد اخلاق زبان سے بچا رہا ۔ اجتماع کی دانش کے اس حامی نے کسی بھی مخالف کی ذات پہ کوئی حملہ نہ کیا ۔ جسے اچھا سمجھا خوب زور زور سے اعلان کیا ، جسے برا جانا اس سے خاموشی کے ساتھ دور رہا ۔ جس پر بھی تبصرہ کیا ، اس کی سیاست کے حوالے سے کیا ۔ کبھی گالیوں کا جواب دشنام طرازی سے نہ دیا ۔
اس نے طلبا ء کی سیاست سے آغاز کیا۔ ٹریڈ یونین ،کسان کمیٹی اور سیاسی پارٹی تک اس کے سفر میں کہیں کاما،فل سٹاپ،اور سوالیہ نشان نہیں ملے گا۔ زیر دستوں کی سی زندگی، جہاں کوئی چھلانگ کوئی پھلانگ نہیں۔ ہموار چال ،ہم آہنگ رفتار۔ جیسا باہر ویسا اندر،جیسا آج ویسا دس برس بعد۔ضمیر کا پرسکون انسان ۔ اپنے مشن پہ ہی لگے رہنا۔ گرمی ہو یاسردی اس نے اپنا میدان کبھی نہ چھوڑا۔ وہ ایک بھاری پتھر کی طرح اپنی جگہ پہ جما رہا‘ اور روشنیاں بانٹتا رہا۔ سی آر اسلم نہ صرف خود نیکی کرتا رہتا تھا بلکہ وہ تبلیغ کرتا جاتا تھا نیکی کی‘ دوسروں کے کام آنے کی ،دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کی۔ وہ ایسا لیڈر تھا جو ہمیشہ اپنے رفقا کی مشکلات کی خبر رکھتا تھا ۔ وہ ہمہ وقت دوستوں کی مشکلات بانٹنے والا انتظام کار رہا ۔ بالواسطہ یا بلا واسطہ آج کی ساری سیاسی ،ادبی اور سماجی اکابرین والی نسل، اُس سے متاثر ہے ۔
سی آر اسلم مستقل مزاج انقلابی رہا ۔وہ وقتی ابھار سے کبھی پھیلا نہیں ،اور ناکامیوں سے مرا کبھی نہیں۔ا س شخص کو کبھی بھی جلدی جلد بازی نہ ہوتی تھی۔ جھنجھلاہٹ، تڑاپ تڑوپ ، سراسیمگی اور ہیجان کبھی قریب نہ پھٹکتے۔ اپنی قربانیوں پہ اترایا نہیں اور تحریک کے زوال سے آہ و فریاد نہ کی ۔ وہ ہمارے خطے میں ذاتی زخم چھپانے کا سب سے بڑا سپیشلسٹ تھا ۔ کبھی غصے میں ،طیش میں ،جذبات میں نہیں آتا تھا ۔ اس کا چہرہ دکھ سکھ کا تھرما میٹر کبھی نہ رہا ۔ اس کا تن ، اس کا بدن ، اس کی مسرت ، اس کا دکھ ۔۔۔۔سب کچھ عوام الناس کی بھلائی سے وابستہ تھا ۔ سی آر اسلم نظریہ دانی ، انسان دوستی ، دانش ، سچائی اور دوام کاپتلا تھا۔
وفا کا نام سی آر اسلم تھا ۔ وہ سچائی کی زمین میں دھنسا ہواسر بہ فلک سرسبز درخت تھا ۔ اس کی تبلیغ میں ، اس کے داؤ پیچ میں ، اس کی حکمت عملی میں کبھی فریب ، دھوکہ شامل نہ رہا ۔آپ اگر اس کے ساتھ چاردن گزارتے تو زندگی بھر اس کے اقدامات کے بارے میں پیش گوئی کے اہل بن جاتے کہ وہ اس عالمی جدلیات کاگُر آپ کو سکھا ڈالتا تھا جس پہ وہ خود چلتا رہتا تھا ،جس پر دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیاں چلتی ہیں۔
اس کی تیسری خصوصیت اس کی استقامت تھی۔ تشبیہیں نہیں دوں گا مگر یہ دعویٰ ضرور کروں گا کہ وہ کوہِ گراں تھا۔ سنگِ میل ،جس سے سینکڑوں لوگوں نے سمت پائی۔ بھرپور وفا میں اپنے نظریے سے استقامت ۔ برے سے برا وقت اُس پہ آیا، اس کے نظریے پر آیا، اس کی تنظیم پر آیا مگر وہ اپنے مسلک پہ قائم دائم رہا۔ اس کا حوصلہ دیکھ کر اُس کے ساتھی حوصلہ پاتے۔ یوں بغیر تقریر و لیکچر کے بھی وہ سبق دیا کرتا تھا۔
سی آر جتنا سامراج دشمن شخص شاید ہی کوئی اور ہو ۔ لفاظی والی نہیں، نعرے بازی والی نہیں۔ بلکہ مستقل مزاجی اور سنجیدگی سے سامراج دشمنی اس کا طرہِ امتیاز رہی۔ وہ ہر وقت سامراج کی ہر شکل کی مخالفت کرتا تھا، معیشت میں، سیاست میں، کلچر میں۔ کسان کانفرنسوں میں تو اس قدر کہ ایک اجتماع میں ایک سادہ لوح کسان نے دوسرے سے کہا کہ اس کو جب بھی سنا وہ سامراج کے خلاف شکایت کرتا رہتا ہے۔ یہ سامراج پتہ نہیں کس طرح کی بیماری ہے جو اُسے لگ گئی ہے۔اس نے تو1968 کے پارس (شمارہ نمبر 1 ) میں لکھا تھا:’’ امریکی امداد کوئی ایسا راز نہیں ہے جس کی وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہو۔ جو بجائے امداد پانے والے ملکوں کے امریکی اجارہ داری کے ان ملکوں کے استحصال کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس امداد کے تحت دی جانے والی جنس اور مصنوعات کی قیمتیں ہمیشہ دنیا کی منڈیوں کے عام نرخ سے60-40 فیصد زیادہ رکھی جاتی ہیں۔ کرنسی کا فرق الگ ہے، سود الگ‘‘۔
مسلسل مارشل لاؤں ،ملاؤں اور فیوڈلوں کی حکمرانی کی انتظامی سیاسی سماجی اور اخلاقی حملوں، اورمحاصروں کے باوجودبشر دوستوں کے سرغنے سی آر کو گوشہ نشین نہ کرایا جاسکا۔وہ جیل میں بھی بولتا رہا اور مجمعے سے بھی فلاح کا خطاب کرتارہا ۔ اسے کوئی ترغیب تحریص چُپ نہ کرا سکی ۔
سی آر اسلم طویل عمری کے سبب ظاہر ہے بیماریوں کا شکار ہوا ہوگا۔ آنکھ کا آپریشن، نظام پیشاب کے آپریشن، پھر اُس آپریشن پہ انسثرنل ہر نیا کا آپریشن اور اس طرح کی کئی بیماریاں بھگتیں۔اُس کو کوئی بیماری ہوتی تو سمجھو سارے پاکستان کو معلوم ہوجاتا۔ وہ ڈاکٹر امیر الدین کی طرح دہائی اور سراسیمگی نہ پھیلاتا۔بلکہ وہ تواپنی بیماری کی تفصیلات ، اُس کے اسباب ،اُس کی تکالیف، تشخیص کی سہولیات، علاج اور نتائج کے بارے میں اپنے ڈاکٹروں سے طویل باتیں کرتا۔ یہ مکمل معلومات وہ اپنے سارے دوستوں ، جاننے والوں یا برسرِ راہ ملنے والوں کو زبانی یا تحریری طور پر تفصیل سے بتاتا۔ یوں وہ خود بھی آدھا ڈاکٹر بن جاتا اور اپنے احباب کو بھی زبردست سائنسی معلومات پہنچاتا۔
سی آر اسلم بہت اچھا استاد تھا۔ بغیر اعلان کیے بغیر اشتہار بانٹے وہ ہر وقت‘ اپنے ہر ملنے والے کو کچھ نہ کچھ بتارہا ہوتا ۔سی آر اسلم علم کاایک مہربان اور بانٹنے والا دریا تھا،پیہم بہتا دریا۔ نہ کبھی اس کے سوتے خشک ہوئے اور نہ ہی کبھی اِس قدر تند وتیزکہ لوگوں کو اپنے اطراف سے ،ماحول اور معروض سے اکھاڑ پھینکیں۔وہ علم کی مدھم آنچ سے اپنے شاگردوں کے تفکر کو مستقل طور پر ابھارے رکھتا تھا۔ مکر ان کے آم کا باغ جہاں کوئی خاردار باڑھ نہیں،کوئی کانجی ہاؤس نہیں،کوئی دربان نہیں ۔ اور پھر‘ وہ یہ تکبر بھی نہیں کرتا تھا کہ لشکرِ عظیم جمع ہو تو تبھی شامِ غریباں سجائے۔ ہر نفس غنیمت تھا،ہر عقل فرقان تھی۔ ہم نے’’ ایک‘‘ مخاطب پہ مشتمل اُس کے کئی سٹڈی سرکل اٹنڈ کیے۔وہ اِن ایک ایک دو دو آدمیوں کے جلسہ ہائے عام سے تین تین گھنٹے خطاب کرتا تھا ۔ اس عقیدہ کے تحت کہ جو کچھ آج وہ تنہا کررہاہے وہ کل کا نقارہ ہوگا جسے لاکھوں کروڑوں انسان بجائیں گے۔
سی آر اسلم باقاعدہ سمو کرنہ تھا، بس کسی سے سگریٹ لیتا تھا، بغیر برانڈ اور فلٹر دیکھے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ دیہاتیوں کی طرح سگریٹ سے انتہائی بدسلوکی میں تمباکونوشی کرتا تھا۔ بھئی اُس کے ایک ڈیڑھ کش میں ہی سگریٹ کا انتقال ہوجاتا ۔ اس کی دوسری عادت یہ تھی کہ سگریٹ نہ ہوتا تو ہفتوں نہ پیتا مگر اگر ڈبی ساتھ پڑی ہو تو سمجھو چین سموکر بن جاتا۔ کش لگاتا جاتا اور بولتا جاتا تھا۔ چائے پیتا جاتا تھا، اور بولتا جاتا تھا۔۔۔۔۔ نئی نئی باتیں،نئے نئے زاویے۔ وہ سوال کرتا تھا‘جواب دیتا تھا،ماضی بتاتا تھا،مستقبل سنوارتا تھا، پرجوش بن جاتا تھا،پرنم ہوجاتا تھا،ضر ب المثل بولتا تھا،شعر کا سہارا لیتا تھا،کسانوں کی حکایتیں سناتا تھا ،انقلابیوں کے ترانے دھراتا تھا،ضرب المثل سناتا، مثالیں دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ اوریوں مخاطب کا علم و واقفیت بڑھاتا جاتا تھا۔
سی آر اسلم بہت خوش طبعیت انسان تھا۔ وہ اپنی باتوں میں زبردست چاشنی پیدا کرتا تھا ۔ خود اپنی جدوجہد میں سے لطیفے نکال نکال کر سناتا۔خوش خلق و ملنسار انسان تھا۔ ہنس مکھ ایسا کہ جیسے ذاتی زندگی میں کوئی مسئلہ کوئی تکلیف ہو ہی نہیں۔ ایک سچے مارکسسٹ کی سی خوش مزاجی تھی اُس میں۔
بلا مبالغہ سی آر اسلم نے ہزاروں شاگر د پیدا کئے ۔ ۔۔۔شاگرد جو جدوجہد کرتے کرتے وطن چھوڑ گئے ، شاگرد جو جدوجہد کرتے کرتے مر گئے ، جیلوں میں سڑ گئے ۔ شاگرد جو اُس کی پارٹی چھوڑ گئے ، شاگرد جو اُس کے ساتھ رہے ۔شاگر د جو اُس کی چغلیاں بولتے لکھتے اپنی لیڈری کا جواز دیتے رہے، شاگرد جو بن بتائے اُس کے عطا کردہ شعور کو پھیلاتے ہیں۔شاگرد جو اُس کی پیرویاں کرتے ہیں، شاگرد جو اُس کے مخالف بنے مگر اسی کی تعلیمات اور فقرے دہراتے رہے۔
اس استاد نے نہ توساتھ رہنے والو ں کی بے جا تعریفیں کیں، نہ مخالف کیمپ میں جانے والے اپنے شاگردوں کو کبھی دھتکارا تھا۔ کسی بھی وقت کفارہ ہوسکتا تھا ۔ سی آر اپنی سیاست الگ کرتا تھا مگر بگڑے بچھڑے شاگردوں سے تعلق نہ توڑتا تھا۔
کمال صبر تھا اس شخص میں۔ اسے معلوم ہوتا تھا کہ جو شخص اِس گھڑی اُس سے لیکچر سن رہا ہے وہی چوبیس گھنٹے قبل اِس لیکچرار کے خلاف انگریزی سے آلودہ ہرزہ سرائیاں فرما کر اب اُس کے خلاف نیا مواد مصالحہ لینے آیا ہے۔ مگر وہ بڑا انسان تھا، چھوٹے انسانوں سے حسنِ سلوک کرتا جاتا تھا۔ سی آر اسلم اپنی صدی بھر کی زندگانی میں سوشلزم کا طالب علم رہا ،اُسی کا استاد ،اسی کا ساتھی رہا ۔ وہ پیرانہ سالی کے سبب اپنی سیا سی پارٹی کی سربراہی سے رضا کارانہ طورپر ریٹائرمنٹ لے کرعوام اور عوامی دانش پہ بھروسہ کیے،بہت پر امید رہتا تھا ۔ بڑھاپے کو جوانوں کی تعلیم میں ڈبو تا رہا ، تنہائی کو سٹڈی سرکل نما محفلوں میں مارتارہا، یادوں کے انبارکو نوخیزوں کی معلومات کے ریوڑوں میں رواں کرتا رہا ۔نوخیز سامعین جواب ناپید ہوتے جارہے تھے۔
سی آر کڑھتا نہیں پڑھتا تھا ، غیبت نہیں محبت کرتاتھا، تحکم نہیں تربیت کرتا تھا ، شک نہیں اعتماد کرتا تھا ۔ وہ تالیوں کے لئے نہیں سماجی بہبود کے لئے بولتا تھا ۔ ماضی میں نہیں مستقبل میں رہتا تھا ۔ سی آر اسلم امید و اعتماد کے گلستان کا مالک تھا ۔ مال کے بدلے مال والا تاجر تھا۔ آپ اپنی مایوسیاں اُسے دے دو ، پر امیدی اُس سے لے لو ۔ بلا احسان ، بلا قدرِ زائد ۔
سی آر قوت فیصلہ عطیہ کرتا تھا ۔سی آر کبھی بھی امید کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ بڑی سے بڑی ناکامی نے بھی اسے مایوس نہیں کیا۔ سیاسی کارکن ڈھارس لینے بھی اس کے پاس جاتے تھے۔وہ کوئی ہوائی آسرا اور خیالی امید نہیں دیتا تھا بلکہ یہ حقیقی، مدلل اور جدلیاتی پرامیدی ہوتی تھی۔ اس سے مل کر ساری ناامیدی،ساری مایوسی امید میں بدل جاتی تھی اور ایک نیا جذبہ لے کر پھر جدوجہد کے میدان میں کودنے کا انتظام ہوجاتا تھا۔

سماجی انقلاب کا یہ داعی ہر شخص کا بھلا چاہتا تھا، ہر شخص کا بھلا کرتاتھا ۔ دوستوں کی نجی زندگی تک کے مسائل میں ساتھ دیتاتھا ۔وہ انقلاب کے نام پر تباہ کن مہم جوئی کو کبھی اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ نعرے بازی ، طفلانہ مہم جوئی ، شعلے ، شہادتیں ،اورخفیہ گیری سے دور بھاگتا تھا ۔
اس سب کا اجرا سے اس طرح نصیب ہوا کہ وہ کبھی اقتدار کے قریب نہ گیا۔
اُس کی ایک بڑی خوبی اس کا تقوی تھی ۔ یہ شخص ایک صدی کی زندگی گزار کر بھی بے دھبہ ، بے الزام،رہا ۔ پاک ۔ صاف ۔سُچا ۔۔۔۔۔۔ اس کا نامہِ اعمال غیبت،جھوٹ،سازش ،لالچ،مردم آزاری اور بے وفائی سے مبرا ہے۔ ایک مثالی خاکی انسان۔ نہ لیڈری جتائی،نہ بزرگ العمری،نہ ولایت و تصوف،نہ عالمی معلمی۔۔۔۔۔۔ایک مکمل انسان تھا وہ ۔
عالمگیر صداقتوں کیلئے کفن کندھے پہ رکھے وہ کام کرتا رہا۔ لُوٹ مار کے خلاف ،استحصال کے خلاف،پابندیوں کے خلاف ،جبر کے خلاف ،نسل پرستی کے خلاف، فرقہ پرستی کے خلاف،ون یونٹ کے خلاف ،سامراجیت کے خلاف ۔۔۔۔۔۔ وہ ضعیف کا ساتھ دیتا تھا ۔ بے یاروں کا یار تھا، وہ مدد خواہ کی مدد، اُسے شعور کی دولت عطا کر کے کرتاتھا ۔ کسان کو جاگیرداریت کی اصلیت بتا تا تھا ، مزدور کو اس کی غربت کے اصل اسباب سمجھاتا تھا ، عورتوں پہ ناروا ظلم کے ذمہ دار فیوڈل مردانہ سماج کی اصلیت واضح کرتاتھا ۔ اور پھر اِن انقلابی طبقات یعنی مزدوروں کسانوں اور عورتوں کی تنظیمیں بنوا کر فیوڈل مخالف سیاست میں ان کی قیادت کرتا تھا ۔سی آر اسلم انسانی آزادیوں کی بڑی عمارت کا بنیادی اینٹ بھی ہے اور اس عمارت کا بالائی ڈھانچہ بھی۔۔۔۔۔ ۔ اس جدوجہد میں جتنے بھی لوگ کام کررہے ہیں ۔ وہ سب کے سب کسی نہ کسی شکل میں سی آر اسلم کے فکر ، اس کے علم کے متاثرین ہیں۔سب کے سب اُس کے برخوردار ہیں‘شاگرد ہیں‘احسان مند ہیں۔ سب اسی کے رفیق ہیں۔ سب اُس کے بچھڑنے سے مغموم ہیں۔ اور یہی بڑے انسان کی نشانی ہوتی ہے۔
سی آر نے خوب خوب غلطیاں کیں ،مگر خود پہ ہنس کے غلطیاں تسلیم بھی کیں ، اور انہیں دہرانے سے سختی کے ساتھ پرہیزبھی کیا ۔ وہ آپ کو لطیفے کے انداز میں اپنی غلطیاں بتاتا جاتا تا کہ آپ انہیں نہ دہرائیں ۔ مگرجو لوگ اُس کی اپنی ہی سنائی ہوئی غلطیوں کو اُس ہی کے خلاف استعمال کرتے تھے وہ انہی غلطیوں کے شکار لازماً بن جاتے تھے۔جی ہاں،سی آر کی یہ کرامت میں نے بہت جگہ دیکھی!!
سی آر اسلم ہر وقت پڑھتا رہتا تھا۔ اُس کے زمانے میں انٹرنیٹ وغیرہ نہ تھا۔وہ انگریزی اخبارڈان، فرنٹیئر پوسٹ، دی نیشن،اور دی نیوز ریگولر پڑھتا تھا۔ یہ اخبار اسے اعزازی طور پر بھیجے جاتے تھے۔ نوائے وقت تو اس کا اپنا کھڑا کیا ہوا دشمن اخبار تھا جسے وہ پڑھتا تھا۔ آل انڈیا ریڈیو کی شام چار بجے والی خبریں اور تبصرہ ضرور سنتا۔ ریڈیوبی بی سی اردو ، اس کے روٹین میں شامل تھا۔
ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کا ہفت روزہ ’’ پیپلز ڈیموکریسی‘‘ ،کیوبا کا ہفت روزہ ’’گرانما‘‘ بھی اس کے پاس آتے تھے۔ اس کے علاوہ تمام سوشلسٹ ملکوں کے سفارتخانوں کے بلٹن اس کو ڈاک کے ذریعے ملتے تھے۔ دنیا کی کئی ٹریڈ یونینیں اپنے ترجمان اخبار اُسے بھیجتے تھے۔
جو نئی کتاب قابلِ ذکر کتاب مارکیٹ میں آتی وہ ضرور خریدتا ۔ پڑھنے میں کوئی نستعلیقیت نہ تھی، بس ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ اور اگر وہ کتاب عوام یا رفیقوں کے لیے مفید ہوتی تو بس ہر ایک کو پڑھنے کی تلقین کرتا۔ وہ پنجاب پبلک لائبریری کا باقاعدہ ممبر تھا۔
انہی اوصاف کی بدولت وہ نصف صدی تک پاکستان میں کمیونسٹوں کی اکثریت کا لیڈر رہا۔ اور کمیونسٹ تو بے شعور قطعاً نہیں ہوسکتا۔مطلب یہ کہ وہ ایسے لوگوں کا لیڈ ر رہا جو اپنے نظریے کی علمی بنیادوں پر دسترس رکھتے تھے، تحقیق، اور بحث اور مطالعہ کرتے تھے۔ ایسے باشعور انسانوں کی قیادت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ سی آر اسلم اس لیے طویل قیادت کرسکا کہ وہ مطالعہ ، کمٹ منٹ اور قوت فیصلہ میں اپنے تمام رفقا سے بڑھ کر تھا۔ اس نے ذاتی مفاد ،اور پسند سب کچھ اپنے ساتھیوں کی تربیت پر تیاگ رکھا تھا۔ چوبیس گھنٹے کا انقلابی۔ انقلاب کے علاو ہ کوئی موضوع نہیں، کوئی اور کام نہیں۔
سی آر اسلم کو خوب علم تھا کہ دھائیوں سے سوشلزم کے نظریات کی بدنامی کی زبردست مہم کامیابی سے چلا ئی جارہی تھی ۔ اِن نظرت کے بارے میں عوام کے دلوں میں بہت سی کنفیوژنیں ڈال دی گئی تھیں۔ اسی لیے وہ ساری زندگی سوشلسٹ نظریات کی ترویج و مقبولیت میں لگا رہا۔اور کمیونزم یا کمیونسٹوں پر تنقید کے سامنے کوئی اور ٹھہرتا یا نہیں، سی آر اسلم دلیل و دماغ کے لیے میدان میں یقینی موجود ہوتا۔
اور جب آپ اُس سے زندگی کی حاصلات کا پوچھتے تو وہ پہلے کامیاب ؍ ناکام زندگی کے بارے میں آپ کا concept بدل دیتا۔ یہ جو عام دنیاوی طور پر سیاست کو مال و متال، جاہ و حشمت اور عہدہ و منصب سے نتھی کرلیا جاتا ہے، سی آر اُس غلط تصورکو کھرچ کے دماغوں سے نکال پھینکتا ۔ اس کے ہاں سیاست انسان کے صدیوں کے شعوری تصورات کی نمائندہ ہوتی ہے۔ سی آر کامیابی کو، سماجی انصاف اور انسانی برابری کی جدوجہد میں کامیابیوں ناکامیوں سے جوڑتا تھا۔ وہ سیاست کو جدلیاتی انداز میں حرکت پہ مجبور قرار دیتا تھا۔ وہ جوش کو ہوش کے تابع رکھتا تھا۔ ایسا روحانی قدر جو انسان کو صلہ و ستائش سے بے نیاز کردیتا ہے۔ مایوسی اس کے ہاں اجنبی چیز تھی۔ وہ رجائیت، کمٹ منٹ اور جہدِ مسلسل کا نمونہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ مہذب انسان ۔
لیڈر کی حیثیت سے وہ تنظیم میں آہنی ڈسپلن استعمال نہیں کرتا تھا۔ عمر بھر اس پہ دوستوں کی طرف سے بھی ( اور مخالفین کی جانب سے بھی) یہ تنقید رہی کہ اس نے پارٹی ڈسپلن کو بہت ڈھیلا رکھا۔ مگر عجیب ہے کہ اس کی موت کے بعد عابد منٹو نے اس پہ تنقید کی کہ وہ ’’ ڈکٹیٹر‘‘ تھا۔
سی آر اسلم کبھی بھی معاشی طور پر خوشحال نہ رہا۔ ہمیشہ تنگدستی میں رہا۔ اچھی وکالت کرتا تھا، مگر اُس کے پاس آتے ہی غریب غربا تھے جنہوں نے فیس کیا دینی تھی۔اکثر جب اس کے پاس جو خاندانی جھگڑوں کے کیس آجاتے تو وہ ہر ممکن کوشش کرتا کہ عدالت تک جانے کی نوبت نہ آئے۔ اور خانگی فیصلہ ہو۔ کبھی کبھی تو وہ خود درمیان میں کود جاتا اور ثالث ضامن بن کر صلح صفائی کروالیتا۔ جس کے پاس عوام دوست سائنسی نظریہ ہو وہ ذاتی کمائی سے زیادہ انسانی بہبود کے ہی کام کرے گا۔
1980 کے وسط میں اس کے بہت سارے ساتھی راہیِ ملک عدم ہوچکے تھے اور بعض رفقا اُس کا ساتھ چھوڑ گئے ، پھر بھی پیرا نہ سالی کے باوجود وہ اپنی راہ پر پورے عزم کے ساتھ گامزن رہا۔ یہ صرف بے وفائی کی بات نہ تھی۔ یاروں کے مغلظات بھرے الفاظ و فقرے، بے تکریم رویے اور غیر سیاسی گھٹیا گیری کا عروج تھا۔ مگر اس کے باوجود سی آرسلم ڈٹا ہوا تھا۔ اسی طرح سوویت یونین کے سیاسی انہدام کے بعد محکوموں مظلوموں کی سیاسی شناخت برقرر رکھنے کے لیے اُس بوڑھے شخص نے سر توڑ کوششیں جاری رکھیں۔
تدفین کے روز سی آر اسلم کی قبر پر پھول نچھاور کرنے والوں میں شامل، میں یہ سوچ رہا تھا:سی آر اسلم کی قبر پر یوں توانسانوں کی فلاح کے بے شمار پھول کھلیں گے ۔ مگر سب سے اونچا ، خوبصورت اور معطر پھول تو ایک ہو گا ۔۔۔امید کا پھول۔وہ حوصلہ بانٹنے والا انسان تھا۔ امید دینے والا۔
کسی نے بھی اس دنیا میں ابد تک نہیں رہنا۔ اس چہار روزہ زندگی میں اپنے انسان بھائی کی خدمت ہی کرتے رہنا چاہیے۔ انسان کے راستے کے کانٹے روڑے ہٹاتے رہنا چاہئے۔ اندھیروں میں روشنی بن کر‘ مصیبت میں ساتھی بن کر ،ضرورت مند کا ساتھ دے کر،ظالم سے مصالحت نہ کرکے ‘جنگوں وباؤں اور آفات کی صورت انسان کے دشمنوں سے نبرد آزما ہوکر،معاشی ناہمواریوں ،صنفی امتیازات،نسلی لسانی تعصبات سے چھٹکارے کی راہیں تلاش کرکرکے اور مظلوم انسانوں اور قوموں کیلئے وسیع تر آزادیوں کے حصول کو ممکن بناتے زندگی گزارنی چاہیے۔
سی آر اسلم انہی اوصاف کا مجسم نمونہ تھا۔ اسے کروٹ کروٹ آرام نصیب ہو۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*