سوچوں کے مضافات

 

روح رقصاں ہے

یوں

جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے

یا

دائرہ وار

صوفی بھنور خواب کے۔

گلابوں کے گلدستے

بالکل وہی

جیسے

سانسوں کے ریشم میں سمٹے ہوئے چند لمحے۔

مرادوں کی

مستانی الہڑ مہک

تال دیتی ہے

دھڑکن کی ہر تال پر۔

بادلوں کی روپہلی فضاؤں سے

چاندی کے گھنگھرو کی

سرگوشیوں جیسا لہجہ

بتا!

یار جانی،

دل زار

تو ہی بتا

کیا ہے یہ؟

یہ جو ہے!

عود کے دود میں

کس کی پرچھائیں ہے؟

کس کے چہرے کا مہتاب ہے؟

یہ جو پہلو میں ہے

کوئی لمحہ یا

یہ

مضافات سے

میری سوچوں کے آواز دیتی

کوئی یاد ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*