ڈاکٹر عبدالحئی ، ایک نادر سیاست دان

 

1945۔۔۔25فروری 2022

 

ڈاکٹر عبدالحئی نے اپنی 80سالہ زندگی میں سے نصف صدی سیاست کو دی تھی۔۔۔ سیاست بھی جُز وقتی نہیں بلکہ کُل وقتی سال بارہ ماہ والی وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھا ۔ مگر اُس نے ڈاکٹری کی اپنی اِس ڈگری سے کام نہیں لیا ۔ بلکہ وہ سیاست کی طرف چلا گیا۔ اور پھر سیاست کا ہی ہوگیا۔

اُس کی یہ سیاست اشرافیہ کے لیے نہ تھی۔ وہ کبھی سرداری نظام کے حق میں نہیں بولا، اس نے کبھی فیوڈل ازم کے حق کی بات نہ کی ۔ کسی بھی قسم کی آمریت سے اُس کی یاری نہ رہی ۔یہ عام کسان ، مزدور اور ضعیف و محکوم کے لیے وقف سیاست تھی۔

مگر بہت جلد سیاست کا سارا ماحول ، اس کی ضروریات اور تقاضے یکسر تبدیل ہونے والے تھے ۔ ہماری اچھی بھلی سیاست ایسی بدلی کہ ڈاکٹر حئی جیسے غریب اور عام آدمی کو اسمبلی انتخابات والے میدان ہی سے نکال باہر کیا گیا۔اب یہاں سیاست شرافت ، کمٹ منٹ ، اور محنت کے بجائے اسمبلی ممبری، وزیری ، پیسہ جائیداد ،بنگلہ اور کار موٹر سے ناپی جانے لگی ۔اور ان ساری چیزوں کا حصول بہت گرے ہوئے طریقوں سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حئی سیاست میں پیسہ کاری کے راستے پہ نہ چلا، لہذا زمانے کے چلن کے حساب سے وہ ایک ناکام سیاستدان رہا۔

مگر اُس نے مایوسی کو قریب آنے نہ دیا۔ عوامی سیاست میں ہی لگا رہا، زندگی بھر۔

صرف یہی نہیں بلکہ وہ تو اپنی ہی بنائی پارٹیوں کے ساتھ دیر تک ایڈجسٹ نہ کر سکا ۔ چنانچہ وہ اپنی زندگی میں کئی پارٹیاں بناتا رہا۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد اپنا تختہ الٹوا کر دوسری پارٹی قائم کرتا رہا اور اُس کی سربراہی کرتا رہا۔

ڈاکٹر حئی جیسے لوگ بہت عرصے تک بورژوا سیاست یعنی بورژوا پارلیمنٹ سے دور ہی رکھے جائیں گے ۔ وہ ناپید لوگوں کی نسل میں سے تھا،اُن چند معزز اور معتبر سیاستدانوں میں سے تھا جو قبائلی سربراہ نہ تھے ۔ اور نہ ہی وہ پٹ فیڈر کی نہری زمینوں کے فیوڈل لارڈ تھے۔ عوامی صفوں میں سے اُگا ہوا بااصول سیاستدان۔

ڈاکٹر صاحب فروری(1945) کو پیدا ہوا اور فروری ہی میں فوت ہوگیا(2022کی 25تاریخ )۔ اُس کا لوریوں بھرا پنگھوڑا بھی کچھی ضلع کا چلگری گاﺅں میں سجا تھا اور اس کی لحد بھی وہیں کُھدی ۔ہاں، البتہ بدصورت و بھیانک اجل سے اس کی ملاقات چلگری سے سینکڑوں میل دور بہاولپور کے علاقے میں روڈ ایکسیڈنٹ کی صورت ہوئی ! ۔

ایک غریب کسان (پیر بشک) کے اِس بیٹے کی ابتدائی تعلیم وہیں عام سکولوں میں ہوئی ۔ ایف ایس سی دور خضدار سے جا کر کی۔اورایم بی بی ایس کی ڈاکٹری ڈاﺅ میڈیکل کراچی سے کرلی۔

اور وہیں کراچی میں وہ سٹوڈنٹ پالٹیکس سے وابستہ ہوگیا ۔ بی ایس او کا بانی صدر۔ 1970کے الیکشنوںمیں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا ۔ اگر اُس کے مقابلے میں خان کلات کا بیٹا تھا تو اُس کی پشت پر نواب بگٹی اور نواب مری تھے ۔ اُس حلقہ ِ انتخاب میں اِن دونوں نوابوں کا اثرور سوخ بھی بہت زیادہ تھا ۔اس لیے وہ آسانی سے ،اور بھاری اکثریت سے ایم این اے بن گیا۔

۔۔۔ اور پھر الیکشن لڑنے کے معیار بدل گئے ۔ اب پیسہ ، ایجنٹی اور ”دنیا داری “ ضروری قرار پائے ۔ یوں اسمبلی الیکشن عام سیاسی ورکر کے بس سے باہر ہوگیا۔ اسی لیے ڈاکٹر صاحب بعد میں جنرل الیکشن میں جاہی نہ سکا ۔ اپنی پارٹی کی جانب سے سینٹ کے ایک ٹرم پہ منتخب ہوسکا ۔ اُس کے بعد وہ دروازہ بھی بند۔

آج پاکستان میں عام سیاسی ورکر کے لیے پارلیمانی جمہوری سیاست پر سمجھو پابندی ہے ۔ یہ پابندی صرف سخت ریاستی شرائط کی وجہ سے ہی نہیں ہے ۔ بلکہ اب یہاں صرف وہی شخص سیاست کرسکتا ہے جس کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ سیاسی آدمی سیاست نہیں کرسکتا ، اور جس ساہوکار نے دیوار پہ ایک بار بھی چاکنگ نہیں کیا ہوتا وہ وزیر و صدر بنتا ہے ۔ عبدالحئی جتنا بڑا آدمی جمہوری سیاست کرنا چاہتا ہو مگر عوامی نمائندگی کے اہل اس لیے نہ ہو کہ اُس کے پاس مطلوبہ دولت نہیں ہے ۔

آج کے بلوچستان میں جمہوریت والی سیاست کے لیے ضروری سارے شرائط نارمل نہیں ہیں۔ ہم سیاست میں موقع پرست ماحول کا شکار ہیں۔ پیسہ اور ڈنڈا ضمیروں کا ہیڈ ماسٹر بن چکے ہیں۔ ثابت قدمی پگھل اور لوگ کرسی کی خاطر بار بار پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب دلیل کا آدمی تھا۔ گفت و شنید کا ۔ اجتماع کا، تقریر کا ۔ وہ ایک پراگریسو بلوچ نیشنلسٹ تھا ۔ اُس کے نیشنلزم کے اندر ”مظلوم و محکوم طبقہ “والا فقرہ ہمہ وقت موجود رہتا ۔ اور یہی بلوچستان میں اچھی سیاست کا معیار ہے ۔ یعنی بلوچ قومی حقوق کی جدوجہد ،اور طبقاتی جدوجہد دونوں کا ساتھ لے کر چلنا ۔ یہ دونوں باتیں سینکڑوں سالوں سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہیں۔

ڈاکٹر عبدالحئی اپنے دوسرے سیاسی رفقا کی طرح آمریت کا سخت مخالف رہا۔ اُس کی سیاست میں میکسی مم جمہوریت اہم مقام رکھتی تھی۔ میر غوث بخش بزنجو کی تربیت ہی بھر پور جمہوری پارلیمانی سیاست کی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ میر صاحب کے دیگر پیروکاروں کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی مارشل لا کے ہمیشہ خلاف رہا۔

وہ اپنے نظریے اور سیاست کو ڈنڈے کے ذریعے مسلط نہیں کرتا تھا۔ وہ دوسروں کے جھنڈے اتارنے ، مخالف سیاسی ورکر کو مارنے پیٹنے اور اُس پر فتوے لگانے سے دور ہی رہا۔ سیاست میں فاشسٹ طریقے اُس نے کبھی نہیں اپنائے ۔ اُس کی سیاست میں گالی ، دھمکی اور تلخی نہ تھی ۔ وہ ذہن بناتا تھا، ذہنی وابستگی ڈھونڈتا تھا۔ سوال جواب والی سیاست کرتا تھا۔

مگر، جیسے کہ ذکر ہوا کہ ہمارے ہاں پارلیمانی سیاست اب فارمل انسانی سیاست نہ رہی۔

چالیس پچاس سال قبل کے بلوچستان میں تو سارے سیاسی کارکن صاف ستھرے کردار کے مالک ہوا کرتے تھے ۔ اُس وقت ہمارے سارے سیاستدان یہیں کوئٹہ کی سڑکوں پہ پیدل چلتے ہوئے مل جاتے ۔ آسانی سے رابطہ میںآتے ۔ سٹیٹس دکھانے کے لیے نہیں بلکہ عام روایت کے مطابق لوگوں کے غم شادی میں موجود ہوتے ۔کرپشن اور دیگر ٹیڑھی حرکتوں کا شبہ بھی گالی تصور ہوتا تھا۔ سماج رکھ رکھاﺅ والا تھا ۔ آنکھیں جیبوں پہ نہیں لگی ہوتی تھیں۔ ایک دوسرے سے نظریں ملا کر بات کرنے کی فضا تھی ۔

ہماری پارلیمانی جمہوری سیاست یورپ والی بھی نہیں ہے ۔ حالانکہ وہاں بھی سیاست میں سرمایہ کا بہت استعمال ہوتا ہے مگر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی کافی توانا ہے ۔ عام طور پر وہاں سیاست دان کرپشن کے سکینڈلوں سے بہت کتراتا ہے ۔ عوام سے سفید جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ اور الیکشنوں میں غیر قانونی ذرائع کے استعمال پہ سخت پابندیوں سے گزرنا ہوتا ہے ۔

مگر یہ سب کچھ اکیسویں صدی کے بلوچستان میں موجود نہیں ہے ۔ یہاں سیاست سمیت جمہوریت کی ساری چیزیں نارمل نہیں ہیں۔ہم ایک ابنارمل سماج میں ابنارمل سیاست کے شکار کیے گئے ہیں۔

یہاں کی ابنارملٹی یہ ہے کہ فیوڈل ازم کا ادارہ سڑگل کر چکا ہے ۔ سیاست و معیشت میں ایک ایسا طبقہ ابھر کر آگیا ہے جس کے پاﺅں اپنے وطن کی مضبوط زمین پہ نہیں ہیں۔ یہ collaboratorsکا طبقہ ہے ۔اس طبقے نے اخلاقیات ، وابستگی اور وفا کو مارکیٹ کی کماڈٹی بنا دیا ہے ۔ یہ طبقہ پیسہ کھلا کر اسمبلی تک پہنچتا ہے ۔ پھر پیسہ دے کر وزارت اور وزارت اعلیٰ خریدتا ہے ۔ اُس کے بعد وہ چپٹر اسی سے لے کر، سکول ٹیچری اور کلرکی کی نوکریاں تک منڈی میں رکھ دیتا ہے ۔ ٹھیکے ، سرکاری ملازموں کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ وزیروں کے ہاں بکتے ہیں۔ یوں وہ ایک سال کے اندر اندر اسمبلی ممبری اور وزیری پہ خرچ کیے ہوئے اپنے پیسے بھی پورے کر لیتے ہیں اور منافع بھی خوب کماتے ہیں۔

یہ قے آور دھندا خوبصورت بلوچ روایات اور اخلاقیات کو کچل کر ہی جاری و ساری رہ سکتا ہے ۔ مگر ڈھٹائی دیکھیں کہ ہر دم بلوچ روایات و اخلاقیات کو روندنے والے یہی لیڈر لوگ ”بلوچستان کی روایات “ کہتے نہیں تھکتے۔

نصف صدی سے جاری اس بے ننگ و غیر مستحسن کھیل نے ہر چیز کو منڈی کا دنبہ بنا کر رکھ دیا ۔ سفارش و رشوت سے چھینا ہوا عہدہ اورناجائز ذرائع سے بٹورا ہوا پیسہ سماجی مقام حاصل کرنے کے لیے کافی تصور کیے جاتے ہیں۔ پھر، حرام والا کا یہ عمل صرف اسمبلیوں اور کابینہ تک محدود نہ رہابلکہ اب تو عدالتی فیصلے ، ڈاکٹری نسخے ،ملّا کے فتوے، اور سٹوڈنٹ کا امتحانی رزلٹ سب کچھ برائے فروخت ہے ۔

اس ابنارمل اور پست سماج کے پس منظر میں ڈاکٹر عبدالحئی کو دیکھیے تو وہ بہت بڑا انسان لگے گا۔ نایاب شخص ، بلند کردار، انسان دوست، مستقل مزاج اور سراسر سیاسی انسان ۔

ہمارے ممدوح، ڈاکٹر حئی نے پوری زندگی خود کو عام سا آدمی رکھا۔ بہت سے میسر مواقع کے باوجود اُس نے اپنی آبائی طبقاتی سادگی نہ چھوڑی ۔ نچلے طبقے والی عام زندگی گزاری۔اس نے خود کو ہر طرح کے کروفر کی بھنبھناہٹ سے دور رکھا، اُس کے دائیں بائیں ، باڈی گارڈوں کا کوئی پھٹکار بھرا لشکر نہ تھا۔اُس کے پاس مہیب گاڑیوں کی کوئی فِلیٹ نہیں تھی ۔

اور یہ بہت مشکل کام ہے ۔ عام عوام بن کر جینا واقعی مشکل کام ہے ۔ اور وہ بھی ایک آدھ گھنٹہ کے لیے نہیں، بلکہ زندگی بھر کے لیے خود کو عام عوام سا رکھنا کمال ریاضت مانگتا ہے ۔

وہ ایک اچھا سیاستدان تھا!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*