فاصلوں سے ماورا

ڈاکٹر فاطمہ حسن کی زیرِ نظر کتاب کے تین حصے ہیں، نظمیں، غزلیں اور عقیدتیں۔ ان کی نظمیں مجسم احساس ہیں اور غزلیں مجسم فکر جب کہ عقیدتیں مجسم توسل۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن کا طرزِ احساس اضطراب کو جنم دیتا ہے جبکہ ان کی فکر اس اضطراب کا تجزیہ کرتی ہے اور ان کا توسل اس اضطراب کا حل خود سپردگی میں تلاش کرتا ہے۔ وہ خود سپردگی جس کا مقصود قربِ حقیقتِ اول ہے اور حاصلِ جستجو ئے خود سپردگی، تسکینِ فکر و نظرہے۔

فاصلے ہمیشہ دو مقامات یا دو افراد کے درمیان ہو تے ہیں۔ کیونکہ فاصلے جدائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس لیے ”فاصلوں سے ماورا“ کا عنوان خیال کا رخ قر بتوں کی طرف موڑ دیتا ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ایک دوسرے کی طرف بڑھنے سے فاصلے کم تو ہو سکتے ہیں مگر قربت نصیب ہو نا ضروری نہیں۔ اسی لیے وصل کے لیے فاصلے کم کرنے کے بجائے فاصلوں سے اوپر اٹھنا یعنی ”فاصلوں سے ماورا“ ہو نا پڑتا ہے۔ علم ِ طبیعات کی رو سے ایک شے جب ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہو تی ہے تو جتنا دور وہ پہنچتی ہے اسے displacement یا دوری کہتے ہیں، اور جس راستے سے جتنا سفر کر کے پہنچتی ہے اسے distance یا فاصلہ کہتے ہیں۔

اگر ڈاکٹر فاطمہ حسن کے زیرِ نظر شعری مجموعے کا عنوان ”منزلوں سے ماورا“ ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ چاہے کسی بھی منزل پر پہنچیں راستے پر چلتے رہنا شرط ہے۔ Incidentallyاس مجموعے کا عنوان ہے ”فاصلوں سے ماورا“ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر فاطمہ حسن کا طرزِ احساس انہیں کچھ ایسے مقامات سے آشنا کر رہا ہے، جہاں فاصلے Irrelevant ہو جاتے ہیں یعنی کوئی کتنا ہی دور ہواور اس تک پہنچنے میں چاہے کتنی ہی دیر لگے چاہے کتنا ہی فاصلہ طے کرنا پڑے، شرط ہے قربت کی جستجو۔ اک طرف غالب کا کہنا ہے۔

”ملنا ترا اگر نہ ہو آساں تو سہل ہے ‘ دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں‘‘ یعنی غالب حصولِ قربت کی د شواری کی تفہیم کر رہا ہے اور دوسری طرف فاطمہ حسن قربت کے حصول کے بعد قربت کی نوعیت کا تجزیہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ساتھ ہوتے ہوئے بھی جدائی کا دکھ

نارسائی کا دکھ

ایسی قربت ہے یہ

جس میں فرقت بھی ہے

فاطمہ حسن جب فاصلوں سے ماورا ہونے کا ذکر کر رہی ہوتی ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی منزل مجسم نہیں مجرد ہے، کسی کی جسمانی موجودگی نہیں بلکہ احساسِ قربت ہے۔ ان کا سفر جاری ہے مگر اس سفر کے ہر اک لمحے پر انہیں اپنا راستہ خود بنانا ہے۔ اب کیونکہ کوئی راستہ پہلے سے موجود نہیں لہذا اپنے مقصود تک پہنچنے کے لیے کتنا فاصلہ طے کرنا پڑے گا معلوم نہیں۔ لا محالا فاصلوں سے ماورا ہو کر جستجو کر نی ہو گی۔ ہو سکتا ہے فا صلہ عرش سے فرش تک کا ہو اور عشق کی ایک جست قصہ تمام کر دے اور ہو سکتا ہے کوئی شہہ رگ سے بھی قریب ہو اور عمر بھر کی ریا ضت بھی نا کا فی ہو۔ بہر صورت یہ کام آسان نہیں۔ کیونکہ پیشِ نظر ہے ظرفِ مکاں کی شش جہات اور ظرفِ زماں کی فورتھ ڈائمینشن سے ماورا مکمل سکون، مکمل اطمینان، مکمل قربت اور مکمل وصل، کہ جہاں بقول فاطمہ حسن،

خیمہئ برف میں

حدتِ عشق سے

پر سکوں ہو سکوں

اتنی قربت ملے

اتنی شدت ملے

کیسی خواہش ہے یہ

کیسی بارش ہے یہ

جو بجھاتی نہیں پیاس کی آگ کو

خیمہٗ برف میں

تیری قربت بھی ہے

میری وحشت بھی ہے

ماورا خوف سے

دیر تک دور تک

جاتے رستوں پہ چلنے کی حسرت بھی ہے

فاصلوں سے ماورا ہو کر اپنا راستہ خود بنانے کی کیفیت ِ احساس آپ کو اس شعری مجموے کے پہلے حصے یعنی تمام نظموں میں تسلسل سے نظر آئے گی۔ حمد ملا حضہ کریں،

بھلا کس طرح تجھے پا سکوں

تو کہاں اسیرِ مقام ہے

یہ شعور بھی ہے عطا تری

مگر اضطراب جو دل میں ہے

وہ طلب ہے راہِ وصال کی

کہیں رائیگاں یہ سفر نہ ہو

جو فاصلہ من و تو کا ہے ‘ یہ ازل ابد کا ہے سلسلہ

فاطمہ حسن کی نظمیں چاہے اس کا محرک باطنی تجربہ ہو یا خارجی، احساس کی شدت سے لبریز محسوس ہوتی ہیں ان نظموں میں وہ اپنے لفظوں کی انگلیوں سے آپ کے احساس کے تار چھیڑتی چلی جائیں گی اور ایسا ساز جگاتی چلی جائیں گی جسے کوئی نام دینا ممکن نہیں بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ احساس سے بھر پور یہ نظمیں ہزاروں سوال پیدا کریں گی‘ متحیر کریں گی‘ متجسس کریں گی اور تلاش پہ آمادہ کریں گی۔ مگر ان نظموں میں نہ آپ کو سوالوں کے جواب ملیں گے نہ منزلوں کا پتہ بلکہ آپ کو ایسی Spaceملے گا جس میں ان کے جواب آپ خود لکھیں گے اور اپنی سر زمینِ احساس میں اپنے تجربات کے اجزائے ترکیبی یعنی ہوا، روشنی اور پانی لے کر اپنے امکانات کے شجر کولگائیں گے فاصلوں سے ماورا ہو کر۔

فاطمہ حسن کی نظموں کی دنیا سے نکل کر جب آپ ان کے شعری مجموعے کے دوسرے حصے یعنی غزلوں کی دنیا میں قدم رکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ یک بیک احساس کی فضا سے نکل کر آپ فکر کی فضا میں داخل ہو گئے ہیں۔ وہ سوال جو فاطمہ حسن کے طرزِ احساس نے اپنی نظموں میں اٹھا ئے تھے ان سوالوں کا فکری تجزیہ آپ کو ان کی غزلوں میں نظر آئے گا۔ یہاں آپ کو ڈاکٹر فاطمہ حسن اپنا تعارف کراتی ہوئی بھی نظر آئیں گی اور انسانی طبیعت کی متنوع کیفیات کا برملا اظہار کرتی ہوئی بھی، جیسے ،

روئی کے گالے سے دھاگے کا سفر میرا ہی تھا

او ر مٹی سے بنا چھوٹا سا گھر میرا ہی تھا

ان غزلوں میں ہدایات بھی شامل ہیں، جیسے ،

آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں

مجھ کو مری دانش، مرے افکار میں دیکھیں

ان غزلوں میں گزارشات بھی شامل ہیں، جیسے،

گِرد رکھنا تم اپنے بھیڑ مگر

مجھ کو رکھنا شمار میں تنہا

اس میں اطلاعات بھی شامل ہیں، جیسے،

نظر کے سامنے ہر دم وہی ہے شکل پیاری رے

عجب انداز سے اب کے ہوا ہے عشق طاری رے

کیا ڈھونڈتے ہو آنکھ کی تحریر میں کیا ہے

اک خواب ہے بس خواب کی تعبیر میں کیا ہے

اس میں بے بسی بھی ہے ، جیسے،

روح کی مانگ ہے وہ جسم کا سامان نہیں

اس کا ملنا مجھے مشکل نہ ہو، آسان نہیں

گزرا ہے سانحہ اسے تحریر کیا کریں

اپنے دکھوں کی آپ ہی تشہیر کیا کریں

اس میں بے ثباتی بھی ہے، جیسے،

کوئی دم اور ہے بس خاک ہوئے جانے میں

خاک بھی ایسی کہ جس کی کوئی پہچان نہ ہو

جھاڑی انا کی دھول تو خاشاک ہو گئی

جس خاک سے بنی تھی وہی خاک ہو گئی

الغرض ڈاکٹر فاطمہ حسن کی نظموں میں احساسات کے چمکتے ہوئے ستاروں کی کہکشاں اور غزلوں میں دمکتا ہوا تجزیاتی فکر کا ماہتاب ان کی شعورِ ذات و کائنات کی تیرگی کو مسلسل روشن رکھے ہوئے ہیں۔ اور آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ فراہم کرتے ہیں فاصلوں سے ماورا ہو کر، ان منزلوں کی طرف جو قر بتوں کی منزل ہے۔ اور یہ قربتوں کی منزل وہ منزل ہے جس کا پتہ ہمیں اس شعری مجموعے کے تیسرے حصے میں چلتا ہے جہاں فاطمہ حسن کی عقیدتیں جلوہ افروز ہیں جہاں کوئی confusionنہیں کہ یہ روحانیت کی دنیا ہے اور یہ دنیا ہی ان کا مقامِ مقصود ہے۔ یہ مقام ہے تعلق کا اور توسل کا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن کی روحانیت کا تعلق ہے خداوندِ قدوس کی ذاتِ واحدہ سے اور توسل ہے محمدؐ وآلِ محمد سے۔ یہ وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر انسان کہہ اٹھتا ہے

گرتے سنبھلتے جھومتے دار و رسن کو چومتے

اہلِ جنوں ترے حضور آ ہی گئے کشاں کشاں

اور پھرایک مرحلہ ایسا بھی آجاتا ہے جب

من توشدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی

تا کس نہ گوید بعد از ایں من دیگرم تو دیگری

نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں

طلب ہو میری بھی اک روز ان کی چوکھٹ پر

یہ خوش گمانی سہی پر اسی کی خواہش ہے

جو ان کے روضے کی جالی کو چھو کے آئی ہو

اسی ہوا کی اسی روشنی کی خواہش ہے

ڈاکٹر فاطمہ حسن محمد مصطفےٰ ؐسے عقیدت کا اظہار اس طرح کرتی ہیں۔

شبنم بھی آپ ابر کا سایہ بھی آپ ہیں

بڑھتی گھٹن میں لمس ہوا کا بھی آپ ہیں

مولا علی کی منقبت میں لکھتی ہیں

جب بھی موسم سے شکوہ ہوا ہے مجھے

میں نے ما نگی مدد یا علی یا علی

اک کلی شاخ پر ایک دل میں کھلی

میرے مولا علی میرے مولا علی

ڈاکٹر فاطمہ حسن کی نظموں میں ہویدا شدتِ احساس اور ان کی غزلوں میں نمایاں ان کی فکر کی گیرائی اور گہرائی‘ ان کی عقیدتوں کی منزل پر جب فاصلوں سے ماورا ہو کر پہنچتی ہے تو اس مقام پر مکمل سکون ہے‘ مکمل اطمینان ہے‘ مکمل قربت ہے اور مکمل وصال ہے

اور فاطمہ حسن کو یہ کہنا پڑتا ہے،

وہ اور لوگ ہیں منزل کا جن کو علم نہیں

مرے سفر کا ہے بس ایک ا ختتام حسینؑ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*