کروپسکایا

پانچویں پارٹی کانگریس

اگست 1906میں بالشویکوں نے ایک غیر قانونی اخبار ”پرولتاری“ جاری کیا۔ لینن کی ایڈیٹری تھی اور نسبتاً محفوظ مقام وی بورگ اس کی جائے اشاعت تھی ۔ دسمبر1906میں جب شکست یقینی تھی ، لینن، ابھی تک یوںلکھ رہا تھا :
” ممکنات کو استعمال کریں گے ۔ ہم اس حقیقت پر فخر لیں گے کہ ہم بغاوت کا راستہ اختیار کرنے والے اولین لوگ تھے ،اور اُسے ترک کرنے میں آخری ہوں گے ( 1)
یہ اخبار”پرولتاری “تقریباً تین سال تک چلتا رہا ۔
لینن نے اٹل جدوجہد کے ذریعے پارٹی تنظیموں کو بالشویکوں کے گرد متحد کرنے میں کامیابی حاصل کر نے کا تہیہ کرلیا۔اُس کے بعد ہی اُس نے نئی پارٹی کانگرس منعقد کرنے اور اس کے لئے سرگرمی سے تیاری کرنے کا فریضہ سامنے رکھا ۔ چنانچہ فروری 1907 میں اس نے پارٹی کی پانچویں کانگریس کے لئے تجاویز کے مسودے تیار کئے ۔
اپریل 1907 کے آخر میں لینن لندن گیا جہاں روسی انقلابی پارٹی(سوشل ڈیمو کریٹک لیبر پارٹی )کی پانچویں کانگریس ہونے والی تھی ۔
یہ کانگریس 13مئی کو شروع ہوئی ۔اِس میں پارٹی کی کل 147000ممبر شپ کی نمائندگی کرنے 336ڈیلیگیٹ شریک ہوئے ۔اِن میں سے 105بال شویک تھے اور 97مان شویک ۔ بقیہ ڈیلیگیٹ محکوم اقوام کی انجمنوں کے نمائندے تھے ۔چونکہ بالشویکوں کو محکوم قوموں کے ڈیلیگیٹوں کی حمایت حاصل تھی اس لیے کانگریس میں ان کی ایک مستحکم نمائندگی تھی۔ ایجنڈے کا خاص سوال تھا!بورژوا پارٹیوں کی طرف رویہ۔میکسم گورکی ،جو اس کانگریس میں موجود تھانے اپنی یاد داشتوں میں لینن کی مقرر کی حیثیت سے واضح تصویر کشی کی :” لینن خوبصورت جملے بنانے کی کوشش نہیں کرتا تھا بلکہ ہر لفظ کو بہت صاف طور پر پیش کرتا تھاجس کے صحیح خیال کو سمجھنا حیرت انگریز طور پر آسان ہوتا تھا ۔۔۔۔ وقت کے لحا ظ سے تو وہ اُن مقرروں کے مقابلے میں کم بولا جو اُس سے پہلے تقریریں کر چکے تھے ۔ لیکن تاثر کے لحاظ سے اس کی تقریر کافی بڑی تھی“ ۔ (1)
بڑا زور دار بحث مباحثہ ہوا۔لینن کی تجویز پربلیک ہنڈرڈز پارٹیوں اور فیوڈل اور بورژوا پارٹیوں سے شدید جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ، اعتدال پرست بورژوازی کی پارٹی یعنی کیڈیٹوں کی جعلی جمہوریت کو بے نقاب کرتے رہنے کا بھی فیصلہ ہوا ۔(2)
اسی طرح کا نگریس میں ٹریڈ یونینوں کے موضوع پہ خاص تو جہ دی گئی۔ مانشویک ٹریڈ یونین ازم میں پارٹی کے رول کے مخالف تھے۔ مگر کانگریس نے ان کے موقف کو مسترد کردیا۔ فیصلہ ہوا کہ پارٹی کو ٹریڈ یونینوں میں نظریاتی اور سیاسی لیڈر شپ حاصل کرنے چاہییں۔
لینن نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ کانگرس کے مزدور ڈیلیگیٹوںسے بات چیت کی ۔ اپنی یاد داشتوں میں میکسم گورکی نے اُن مزدوروں کی ایک بات چیت کے بارے میں لکھا ہے جنہو ں نے لینن کو پہلی بار دیکھا تھا :©
” وہ ہمارا ہے!“
پھر کسی نے ٹوکتے ہوئے کہا
” اور پلیخانوف بھی ہمارا ہے“
اور پھر میں نے ایک چُست جواب دیا
” پلیخانوف ہمارا معلم ، ہمارا آقا ہے اور لینن ہمارالیڈر اور کامریڈ ہے “۔(3)
اِس پانچویں کانگرس میں لینن پارٹی کی مرکزی کمیٹی کاممبر منتخب ہوگیا۔
ایک بار پھر جلاوطنی
جون 1907 کی ابتداءمیں لینن لندن سے روس آ گیا اور وہاں، نسبتاً محفوظ علاقہ فن لینڈ میں رہنے لگا ۔ اُس وقت تک یہ بات بالکل واضح ہو گئی تھی کہ 1905کے انقلاب کو شکست ہوئی ہے ۔ زار کی حکومت نے آخری زور لگا کر سیاست کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ۔اس نے اپنی ہی بنائی پارلیمنٹ یعنی (دوسری) ڈوما توڑ دی ۔ اس پارلیمنٹ میں موجود پارٹی سے وابستہ 65ممبر گرفتار کر کے سائبیریا میں قید کیے گئے ۔یہ رجعت پرستی کے کٹھن برسوں کی ابتداءتھی ۔
1905کا یہ پہلا روسی انقلاب تقریباً ڈھائی سال تک جاری رہا ، اورناکام ہوا۔ لیکن اس انقلاب نے روس کی آمریت میں دراڑ بہر حال ڈال دی ۔ اِس نے سامراجی دور کی انقلابی لڑائیوں کا آغاز کیا اور ساری دنیا کی تحاریکِ آزادی کی ترقی پر زبردست اثر ڈالا ۔ اُس انقلاب نے دکھادیا کہ روس عالمی انقلابی تحریک کا مرکز بن گیا ہے اور روسی پرولتاریہ بین الاقوامی پرولتاریہ کا ہر اول دستہ ہو گیا ہے ۔ 1905-07 کے انقلاب کااندازہ لینن نے اپنے مضامین ” ماسکو کی بغاوت کے سبق “ ” انقلاب کے سبق “ ، اور ”1905 کے انقلاب کے بارے میں رپورٹ “ وغیرہ میں پیش کیا ہے ۔(4)
پیٹرسبرگ صوبے کی خفیہ پولیس کے افسر اعلیٰ کو ہدایت دی گئی کہ وہ لینن کے بارے میں اطلاعات حاصل کرے اور یہ تجویز بھی دی کہ ” فن لینڈوالوںسے بات کر کے اُس کو روس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائے“۔
بادشاہ کے جاسوس ہر طرف اُس کی تلاش کرنے لگے ۔مجبور ہو کر لینن کو فن لینڈ کے دور افتادہ مقاموں کی طرف جانا پڑا۔ مگر پھر ،اس کا وہاں رہنا بھی خطرناک ہو گیا ۔ اسی لئے بالشویکوں کے مرکز نے یہ فیصلہ کیا کہ لینن بیرونِ ملک چلا جائے۔
فن لینڈ سے باہر جانا آسان نہیں تھا ۔چنانچہ گرفتاری سے بچنے کے لئے لینن اس بات پر مجبور ہواکہ بجائے بندرگاہ کے‘ وہ ایک جزیرے میں سٹیمرپر سوار ہو۔ لیکن جزیرے تک پہنچنے کے لئے اُسے رات کے وقت خلیج فن لینڈ کو پار کرنا پڑا جس پر منجمد برف ابھی پختہ نہیں ہوئی تھی ۔ لینن ڈوبتے ڈوبتے بچا کیونکہ پیروں کے نیچے برف ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی ۔ بعد میں لینن نے اس واقعہ کو یاد کر کے کہا کہ اُس وقت اُس نے سوچا تھا :” ارے ، کیسی احمقانہ موت مرنا پڑ رہی ہے “۔
اس طرح زبردست خطرہ مول لے کر وہ بیرون ملک جا سکا۔ اس مرتبہ لینن کو دس سال تک جلاوطن رہنا پڑا ۔(5)
کامو
یہاں ہم ایک بہت بڑے انقلابی کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیںجو اُس زمانے میں ایک لی جنڈری حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس کا نام تھا : کامو ۔
میں نے اسے دراصل گورکی کے سچے افسانے ”کامو“کو ترجمہ کرتے ہوئے پڑھا تھا :
”باکوکے ایک سٹیشن پر ‘ جہاں فلیروف نے اپنے کسی دوست سے ملنا تھا، اُسے ایک مزدور نے زور سے دھکا دیا۔
” براہ کرم مجھے برا بھلا کہہ دیں“۔ اس نے کھسر پھسر کی۔
فلیروف نے اندازہ کرلیا کہ ِاس درخواست کے پیچھے ضرور کوئی اچھی وجہ ہوگی ، اور جب اُس نے تعمیل کی تو مزدور معذرت کے اندا زمیں کھڑا ،اپنی ٹوپی اُٹھائے آہستگی سے کہنے لگا۔
”میں آپ کو جانتا ہوں ۔ آپ فلیروف ہیں۔ میرا پیچھا کیا جارہا ہے ۔ ابھی ایک شخص آئے گا جس کے جبڑے پہ پٹی بندھی ہوگی۔ اس نے چیک کا ایک اوور کوٹ پہن رکھا ہے ۔ اُسے بتائیں کہ محفوظ گھر اب محفوظ نہیں رہا۔ وہاں فائرنگ ہوگئی ہے۔ اُسے آپ اپنے گھر لے جائیں‘ سمجھے؟“۔
مزدور اپنی ٹوپی پہن کر روانہ ہوا اور بدتمیزی سے چیخنے لگا۔” زیادہ باتیں نہ کرو۔ میں نے تمہاری پسلی توڑی ہے کیا؟“۔
فلیروف ہنس پڑا۔
” کیسی خوبصورت اداکاری تھی۔ میں بہت عرصہ تک حیران رہا کہ مجھے شک ہی نہیں ہواتھا اور میں نے کتنی آسانی سے اُس کے احکامات کی تعمیل کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میں اُس کی اتھارٹی کے جھونکے سے متاثر ہوا تھا۔ وہ اگر کوئی سرکاری ایجنٹ ہوتا تو مجھ سے نرمی کے ساتھ بولتا، مجھے حکم دینے کی جرا¿ت نہیں کرسکتا تھا۔ میں اُس کے بعد بھی ا س سے دو تین بار ملا تھا اور ایک رات وہ میرا مہمان بھی ٹھہرا تھا۔ تب ہم نے دیر تک باتیں کی تھیں۔ نظریاتی طور پر وہ بہت زیادہ مسلح نہیں ہے۔اِس کا اُسے خود بھی پتہ ہے اور اس پہ وہ شرمندہ بھی ہے ۔ مگر اُس کے پاس پڑھنے کا وقت بھی نہیں ہے۔ اور اسے دراصل اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ دیکھو نا‘ وہ تو گہرائی تک انقلابی ہے، وہ اپنے سارے جذبات میں انقلابی ہے ، اسے ہلایا نہیں جاسکتا ، طبعی طور پر اس کے لئے انقلابی کام اسی قدر ضروری تھا جس طرح کہ روٹی اور ہوا“۔
گورکی نے لکھا کہ تقریباً دو برس بعد کیپری کے جزیرے پر مجھے کامو کے بارے میں ایک اور جھلک لیوند کراسن نے دکھلائی۔ ہم پرانے کامریڈوں کو یاد کررہے تھے کہ وہ اچانک ہنس پڑا۔
” تمہیں یاد ہے جب میں نے گلی میں اُس بھڑکیلے کا کیشیائی افسرکو آنکھ ماری تھی تو تم کتنے حیران ہوگئے تھے؟ ۔تم نے حیران ہوکر پوچھا تھا کہ ” کون ہے یہ ؟“ ۔میں نے تمہیں بتایا تھا کہ وہ تفلس کا رہنے والا میرا شناسا ہے ‘شہزادہ داد لیشکی لیانی۔ یا د آیا؟“۔ مجھے یقین تھا کہ تمہیں اس بات پہ یقین نہیں آیا تھا کہ میں اس طرح کے ایک بانکے کو جان سکتا ہوں۔ تمہیں شک ہوا تھا کہ میں تمہارا مذاق اُڑا رہا ہوں ۔ دراصل وہ کامو تھا ۔ اس نے یہ اداکاری کس قدر خوبصورتی سے کی تھی! “۔(6)
کاموایک ”جنگی گروپ “ کا لیڈر تھا اور کچھ خصوصی شاندار اقدامات کا ذمہ دار ۔اسے ستمبر1907میں جرمن پولیس نے برلن میں گرفتار کر لیا ۔ جرمنی کی پارٹی نے ایک بہترین وکیل اُسے دیا۔اندیشہ تھا کہ وہ اُسے روسی حکام کے حوالے کریں گے۔ اُس سے بچنے کے لیے اُس نے پاگل بننے کا ناٹک کیا۔ اس کے مصمم ارادے اور ناقابلِ یقین قوتِ برداشت کے ساتھ ایک متشدد پاگل کی یہ ادا کاری چار سال تک جاری رہی ۔
وہ بھگدڑ مچاتا، چیختا، اپنے کپڑے پھاڑتا ، خوراک سے انکار کرتا اور اپنے گارڈ پر حملہ کرتا۔ اسے برف جیسی ٹھنڈی کو ٹھڑی میں نو دن تک ننگا بند کیا گیا، مگر وہ نرم نہ ہوا۔۔
وہ چار ماہ تک دن رات مسلسل پیروں پہ کھڑا رہا ، خوراک سے انکاری رہا ۔اسے زبردستی کھلانے کی کوشش کی گئی تو اس دوران اُس کے کچھ دانت ٹوٹ گئے ۔ ایک مرحلہ تو ایسا آیا کہ اس نے اپنے سر کے آدھے بال نوچ نکالے اور انہیں ایک کمبل پہ بچھا دیا (7)۔ آخری گھڑی میں خود کو لٹکادیا ، ہڈی کے ایک تیز ٹکڑے سے اپنے خون کی رگیں کاٹ دیں۔۔ اس کی ناٹکی بے حسی کو ٹیسٹ کرنے کی خاطر اس کے ناخنوںکے نیچے سوئیاں چھبودی جاتیں، اسے آگ میں سرخ کیے ہوئے لوہے کی سلاخوں سے داغا جاتا ۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ بالآخر پروفیسروں نے فیصلہ دیا کہ اُس کا پاگل پن حقیقی تھا۔
اس کے باوجود جرمنوں نے اسے روسی بادشاہی پولیس کے حوالے کر ہی دیا۔ ایک بار پھر اس نے پاگل پن کا ناٹک کیا۔ ایک پاگل خانے میں بند، وہ اگست 1911میں اپنی زنجیروں اور کھڑکی کی سلاخوں سے بندھے ہوئے تین ماہ گزارنے کے بعد وہ چُھوٹنے میں کامیاب ہوگیا۔
اُس نے یہ سب کچھ گورکی کو بتایا : پھر وہ آہستگی سے کہنے لگا” میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ ۔وہ میرا معائنہ کرتے رہے، میرے گھٹنوں کو کھٹکھٹاتے رہے، مجھے کریدتے رہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ مگر وہ اپنی انگلیوں سے میری روح کو محسوس نہیں کرسکتے تھے ، ممکن ہی نہ تھا۔ انہوں نے مجھے آئینہ کے سامنے کھڑا کردیا اور میں نے اس میں عجیب چہرہ دیکھا۔ وہ میرا اپنا چہرہ تھا ہی نہیں ۔ کوئی بہت ہی لاغر چہرہ تھا، لمبے اور باہم جکڑے بال تھے اور جنگلی آنکھیں …….. بد صورت چہرہ،شیطان جیسا خوفناک“۔
”میں نے اپنے دانت بھینچے اور سوچا کہ شاید میں واقعی پاگل ہوں۔ وہ ایک خوفناک لمحہ تھا ۔ مگر میں نے صحیح کام کرنے کا سوچا اور آئینہ پر تھوک دیا۔ ان دونوں نے مکاروں کے جوڑے کی طرح ایک دوسرے کو آنکھ ماردی۔ ہاں ، انہیں یہی پسند تھا۔ ایک ایسا شخص جسے اپنا چہرہ یاد نہیں رہا“۔
وہ ایک لمحہ کے لئے چپ ہوگیا اور پھر آہستگی سے کہنے لگا۔
” مجھے فکر یہ تھی کہ کیا میں خودکو روک سکوں گا؟، یا واقعی پاگل ہوجا¶ں گا؟ ۔میں خود پہ بھروسہ نہیںکرسکتا تھا“۔
ایک اور وقفے کے بعد وہ کھل کر مسکرایا اور کہنے لگا۔
” یقیناً وہ اپنا کام جانتے تھے ، اپنی سائنس میں ماہر تھے ۔ مگر وہ کاکیشیائیوں کو نہیں جانتے ۔ ہوسکتا ہے کہ کا کیشیائی انہیں پاگل لگتے ہوں اور میں تو کاکیشیائی بھی تھا اور بالشویک بھی۔ ہاں ، ہاں میں نے یہ بھی سوچا تھا۔ بہر حال میں نے فیصلہ کرلیاکہ میں اسے برقرار رکھوںاور دیکھوں کہ کون کس کو پہلے پاگل بنا لیتا ہے ۔ وہ بھی جیسے تھے ویسے ہی رہے اور میں بھی جیسا تھا ویسا ہی رہا۔ تفلس میں انہوں نے میرے زیادہ ٹیسٹ نہیں لئے اس لئے کہ انہیں یقین تھا کہ جرمنوں کو کوئی دھوکہ دے ہی نہیں سکتا“۔(8)
1912میں وہ دوبارہ گرفتار ہوا ۔ چار بار موت کی سزا ہوئی ، مگر اس کی زندگی اس لیے بچ گئی کہ زار بادشاہ نے 1913میں رومانوف سلطنت کے تین سو سالہ جشن کے موقع پر عام معافی کا اعلان کیا۔ وہ بالشویک تحریک میںایک لی جنڈری شخصیت تھی ۔ اپنی جسامت میں بھی اور اپنے دردناک تقدیر میں بھی ۔ اس کے باوجود وہ ایسا انقلابی تھا جو لیننسٹ تنظیم میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے ۔ ایسے لوگوں کوانقلاب کے مطالبات کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہ تھی۔ (9)
گورکی نے لکھا:”اس نے ایک بار مجھے بتایا کہ جب اُسے ایک بم پھینکنا تھا تو اُسے شک گزرا کہ دو جاسوس اس کا پیچھا کررہے ہیں ۔ بم پھینکنے میں صرف ایک منٹ رہ گیا تھا۔ وہ سیدھا جاسوسوں کے پاس گیا اور ان سے کہا” دور ہٹو۔ میں یہاں بم پھینکنے والا ہوں!“۔
” تو کیا وہ ہٹ گئے؟“۔ میں نے پوچھا۔
” ہاں بالکل“۔
” مگر تم نے انہیں ایسا کیوں کہا؟“۔
” کیوں نہ کہتا؟۔ میرا خیال تھا کہ میں ٹھیک کررہا تھا، اس لئے میں نے کہہ دیا“۔
” مگر اس کا اصل سبب کیا تھا؟ کیا تمہیں ان سے ہمدردی تھی؟“۔
اس بات پہ اُسے غصہ آگیا اور وہ لال پیلا ہوکر کہنے لگا۔” ہمدردی وغیرہ کیا ہونی تھی؟۔ وہ عام غریب آدمی تھے۔ اُن پہ کیا بیتتی ۔ انہیں وہاں مر جانے سے کیا فائدہ ہونا تھا“۔
اس واقعے میں اس کے روےے کی تشریح ایک اور واقعہ سے ہوسکتی ہے ۔ ایک بار اُسے خیال آیا کہ ایک جاسوس اس کا تعاقب کررہا ہے۔ تب اُس نے اُسے دبوچ لیا اور دیوار کے ساتھ لگا کر اس سے کہنے لگا۔” تم غریب آدمی ہو‘ ہے ناں؟ ۔تو پھر تم غریبوں کے خلاف کیوں کام کرتے ہو؟ ۔کیا امیر لوگ تمہارے دوست ہیں؟۔تم کیوں بد معاشی کرتے ہو؟ ۔کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں قتل کردوں؟“۔
اُ س شخص نے کہا کہ ” وہ قتل ہونا نہیں چاہتا“۔دراصل وہ باٹومی گروپ کا ایک ورکر تھا اور انقلابی لٹریچر حاصل کرنے آیا تھا مگر جس کامریڈ کے ساتھ وہ رہتا تھا ، اُس کا پتہ اُس سے کھوگیا اور وہ یادداشت سے اُس جگہ کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ تھا کھرا اور اصل کامو۔(10)
گورکی نے ہی لکھا:”اُس کی حرکات میں ایک خاص قسم کی احتیاط ، ایک خاص قسم کی بندش تھی جس سے لگتا تھا کہ ناواقف ماحول نے اُسے کسی قدر شرمیلا سا کررکھا ہے ۔ میں نے فوراً ہی اندازہ کرلیا کہ اس کے انقلابی کارناموں سے متعلق سوالات نے اُسے تھکا دیا تھا اور اب وہ کسی اور کام میں مکمل طور پر غرق تھا۔ وہ ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لینے کے لئے تیاری کررہا تھا۔
” سائنس کو سمجھنا بہت مشکل ہے“۔ اس نے ناراض ہوکر ایک کتاب کو بیزاری سے بند کرتے ہوئے کہا۔” اس میں تصویریں زیادہ نہیں ہوتیں۔ کتابوںمیں تصویریں زیادہ ہونی چاہئیں“۔ وہ مجھ سے سمجھنا چاہتا تھا مگر مجھے اس بارے میں زیادہ معلوم نہ تھا ۔ کامو نے مجھے ایک شرمیلی سی مسکراہٹ پیش کی۔ وہ مُسکان بچوں جیسی تھی،نااُمید مسکراہٹ ۔ میں اس قسم کی بے بسی سے اچھی طرح واقف تھا اس لئے کہ میں نے اپنی جوانی میں اُس وقت اس کا سامنا کیا تھا جب کتابوں کی بصیرت سے میرا واسطہ پڑتا تھا۔ اور مجھے خوب اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایسے نڈر شخص کے لئے کتابوں کی مزاحمت کو قابو کرنا کس قدر مشکل ہے جس کی خدمات انقلاب کے لئے نئی نئی تدابیر کو دریافت کرنے پر مشتمل ہوں۔
اُس کی اس بات نے مجھے اس کا گرویدہ بنالیا تھا۔ اور جتنا زیادہ ہم ایک دوسرے کو جاننے لگے، اُسی قدر اس نے مجھے اپنے انقلابی احساس کی گہرائی اور سچائی سے متاثر کیا۔
میں حیران تھا کہ وہ شخص جو میرے سامنے کتابوں سے بھرے ہوئے ڈیسک پر بیٹھا تھا، وہ کامو تھا۔ بہادر، سپر مین ارادے اور حیران کن خود اعتماد ی کا پیکر، کامو۔ اس قدر زیادہ اور مستقل جدوجہد کے بعد وہ اس قدر شریف سا اور عام سا آدمی نظر آتا تھا ۔ دل کا جوان ، تازہ اور مضبوط ۔(11)
گورکی نے کامو کے ساتھ ایک اور گفتگو درج کی : ” میں نے ایک روز ایک پولیس والے کو شراب پلا پلا کر دھت کردیا اور پھر اس کا سر اور داڑھی رنگ دئیے۔ ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے اور اس نے مجھ سے پوچھا:” کل تم اس ٹوکری میں کیا لے جارہے تھے“۔ ”انڈے“ میں نے کہا ۔
” اور ان کے نیچے کاغذات کیسے تھے؟“۔
”کوئی کاغذات نہ تھے“۔
”تم جھوٹ بول رہے ہو“ ۔ اس نے کہا ۔”میں نے کاغذات دیکھے تھے“۔
”اچھا! تو پھر تم نے میری تلاشی کیوں نہ لی؟“
” میں غسل کرکے آرہا تھا“۔ اس نے کہا ۔
” بیوقوف کہیں کا ۔ مجھے اس پہ غصہ آیا کہ وہ مجھے جھوٹ بولنے پر مجبور کررہا تھا ۔ اس لئے میں اُسے ایک ہوٹل لے گیا۔ وہ نواب کی طرح شراب پیتا رہا اور میں نے اچھی طرح سے اس کا منہ کالا کردیا۔ میں اُن دنوں جوان تھا اور بیوقوفوں سے کھیلنا پسند کرتا تھا“۔ اس نے اپنا چہرہ بگاڑ دیا ، جیسے کوئی تلخ چیز چکھی ہو۔(12)

ریفرنسز
-1او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر83
-2او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر83
-3او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر85
-4او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر86
-5او بیچکین اور دوسرے ۔لینن مختصر سوانح عمری۔1971 ۔دارالاشاعت ترقی۔ ماسکو صفحہ نمبر86
6۔گورکی /شاہ محمد ۔کامو۔منتخب سوویت افسانے 2021 ۔سیوا پبلشرز کوئٹہ ۔صفحہ314-302
7۔شرمپ ۔ صفحہ 125
8۔منتخب سوویت افسانے ۔صفحہ314-302
9۔ ٹرپٹرو سیان، سائمن۔ لینن ازم انڈر لینن ۔ صفحہ106۔
10۔گورکی /شاہ محمد ۔کامو۔منتخب سوویت افسانے 2021 ۔سیوا پبلشرز کوئٹہ ۔صفحہ314-302
11۔ایضاً۔
12۔ایضاً۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*