سنگت پوہ زانت

      سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی نشست ”پوہ و زانت“ اور بلوچستان سنڈے پارٹی کی مشترکہ نشست 4 جولائی 2021 ء کی صبح پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ پوہ و زانت کی صدارت مرکزی سیکریٹری جنرل پروفیسر جاوید اختر نے کی۔ جب کہ سیکریٹری پوہ زانت نجیب سائر کی رخصت کے باعث ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔

پوہ و زانت میں پہلا مضمون وحید زہیر نے پروفیسر عزیز بگٹی کی یاد میں پڑھا۔

اس کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی سے آئے ہوئے مہمان پروفیسر شاکر بلوچ نے بلوچستان کی آرکیالوجی پہ تفصیلی لیکچر دیا۔ جس پہ بعدازاں سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ انھوں نے اپنے لیکچر کا آغاز آرکیالوجی کی تعریف اور تاریخ سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ اور اینتھروپالوجی بائیک کے دو پہیوں کی طرح ہیں جو نہ صرف ساتھ ساتھ چلتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی ہیں۔ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں یہ برادر ڈپارٹمنٹ کے بطور کام کرتے ہیں۔ آرکیالوجی کے دو اہم حصے ہیں۔ بلوچستان ”بریڈ آرکیالوجی“ کا مرکز ہے۔ یعنی ایسے آثارِ قدیمہ جو اب تک مدفون ہیں اور غیردریافت شدہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مہرگڑھ کا تذکرہ تو ہم سب کرتے ہیں مگر اس سے بھی قدیم اور اہم آرکیالوجیکل سائٹ کلی گل محمد ہے، جو کوئٹہ میں ایئرپورٹ روڈ کی طرف موجود ہے، یہ یونیسکو کی جانب سے عالمی سطح پر ڈکلیئرڈ سائٹ ہے، مگر اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہاں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ فیئر سروس نے پہلی بار 1875ء میں کام کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں جان مارشل ٹیکسلا میں کام کر رہا تھا۔ وہاں ہڑپہ سے پورا شہر برآمد ہوا۔ اس زمانے میں بدھ مت کے آثار دریافت ہوئے تھے، جنھیں گندھارا سولائزیشن کہا جاتا تھا۔ تب یہاں جو بھی آثارِ قدیمہ دریافت ہوتے انھیں یہی نام دیا جاتا۔ پھر 1912ء میں موہن جو دڑو دریافت ہوا۔ جو اس سولائیزیشن سے مختلف تھا۔ کرنل ہارٹج اور دیگر ماہرین حیران تھے کہ یہ کون سی سولائیزیشن ہے، اسے کیا نام دیا جائے۔ تب پہلے اسے انڈس میسوپوٹیمیا سولائیزیشن کا نام دیا گیا۔ پھر میسوپوٹیمیا الگ ہوا، اور یہ انڈس سولائیزیشن کہلائی۔

پروفیسر شاکر بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ جو بارہ ہزار سال کی معلوم تاریخ ہے، یہ ہسٹری کا صرف ون پرسنٹ ہے۔ کیوں کہ معلوم تاریخ 32 لاکھ سال تک ہے، جس کے آثارِ قدیمہ مل چکے ہیں۔ اور یہ سب پتھر کا دور ہے جو مختلف ادوار میں تقسیم ہے۔ کیوں کہ اس عہد میں تمام اوزار پتھر سے بنائے جاتے تھے، اس لیے اسے پتھر کا زمانہ کہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مہرگڑھ کے سات ادوار ہیں۔ فیئر سروس نے کلی گل محمد میں جو آثار دریافت کیے، انھیں تین ادوار میں تقسیم کیا۔ پہلا دور کلی گل محمد فیز ہے، دوسرا برج باسکٹ مارک کلچر کہلاتا ہے جس میں ساؤتھ ایشیا کا پہلا برتن بنایا گیا، تیسرا دور کلی گل محمد کلچر ہے جب باقاعدہ پوٹری کا رواج پڑا۔ فیئر سروس نے اس کے بعد اگلی سائٹ کوئٹہ میں ہی کیچی بیگ میں دریافت کی۔ اور یہ اسی تسلسل کا چوتھا دور ہے۔ پانچواں دور میاں غنڈی کے قرب دَم سادات کے نام سے ملتا ہے۔ جسے کوئٹہ کلچر، کوئٹہ ویلی یا کوئٹہ سیرامکس بھی کہا جاتا ہے۔ چھٹا دور اسی کے قریب فیض محمد فیز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ساتواں دور مہرگڑھ سے ذرا پہلے پیرک کے نام سے ہے، اس کے بعد مہرگڑھ دریافت ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ فرانسیسی ماہر جیرج اور ان کی ٹیم نے سن 70ء کی دَہائی میں اس پر کام کا آغاز کیا۔ 1995ء میں اس پر پہلی اور 2013ء میں دوسری رپورٹ شائع کی۔ یہاں 39 سائٹس دریافت ہوئیں۔ اور 33 ہزار اوبجیکٹس ملے۔ ان میں سے اب 21 ہزار موجود ہیں۔ جو سریاب روڈ کے میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ اب ان کی ازسر نو ترتیب ہو رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر شاکر بلوچ کا کہنا تھا کہ 1957ء میں پہلی بار بلوچستان کی آرکیالوجی پہ فیئر سروس کی رپورٹ شائع ہوئی، اس سے قبل بلوچستان بالکل ہی غیردریافت شدہ تھا۔ آج بھی اس کے آثارِ قدیمہ کا بمشکل دس فیصد دریافت شدہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کلی گل محمد واحد سائٹ ہے جو یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹج میں موجود ہے، مہرگڑھ اب تک نہیں ہے۔ یہ ہماری حکومتوں کا کام ہے کہ وہ اس کے لیے کوشش کریں۔ ورلڈ ہیریٹج میں آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سائٹ محفوظ ہو جاتی ہے، اس پہ میوزیم بنتا ہے، پارک بنتا ہے، ادارے بنتے ہیں، کالج یونیورسٹی بن سکتی ہے، وہ ایک مکمل ٹوئرسٹ پلیس بن جاتی ہے۔

نشست کے آخر میں مرکزی سیکریٹری جنرل پروفیسر جاوید اختر نے مہمان پروفیسر سمیت تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ نیز ان کی جانب سے اور اکثر شرکا کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس اہم موضوع پر ایک لیکچر کافی نہیں، اس پر لیکچر سیریز ہونی چاہیے تاکہ اس کی مختلف جہات پہ بات ہو اور اسے سمجھا جا سکے۔ مرکزی سیکریٹری جنرل نے اس پہ اتفاق کیا اور کہا کہ مستقبل میں مزید ایسے لیکچرز کا انعقاد کیا جائے گا۔

اس کے بعد قراردادیں پیش کی گئیں۔ جمیل بزدار نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں اور حاضرین سے منظوری لی۔ قراردادوں کا متن درج ذیل ہے:

آج کا یہ اجلاس…۔

۔1۔عثمان کاکڑ کی شہادت کو خراجِ تحسین اور سرخ سلام پیش کرتا ہے، نیز حکومت سے اس کے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔2۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے پرانے ہمدرد اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے سینئر ساتھی خان گل کی ناگہانی وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتا ہے۔

۔3۔بلوچستان گرینڈ ایمپلائیز الائنس کے مطالبات کی تائید کرتا ہے اور اس سلسلے میں حکومت ِبلوچستان کے وعدہ فردا پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔۔

۔4۔موجودہ عوام دشمن بجٹ کو پاکستان کی کھوکھلی معیشت کا عکاس سمجھتا ہے اور اسے رد کرتا ہے۔

۔5۔بلوچستان کے مسئلے کے سنجیدہ اور ٹھوس سیاسی حل کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔6۔مسنگ پرسنز کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔7۔بے روزگاری کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، نیز اجلاس یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تک کوئی تعلیم یافتہ شہری بے روزگار ہے اسے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔

۔8۔اجلاس روز افزوں مہنگائی کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس پر کنٹرول کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔9۔عام محنت کش ملازم کی تنخواہ کو کم از کم ایک تولہ سونا کی قیمت کے برابر بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

۔10۔کسانوں کو مفت کھاد، زرعی ادویات اور بیج کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*