آسیب عشق کا

 

وہ بچپن سے ہی مرگی کا مریض نہیں تھا،کیوں کہ مرگی کوئی پیدائشی بیماری نہیں ہے۔وہ حال ہی میں مرگی کا شکار ہوا تھا۔لگ بھگ یہی کوئی پانچ ماہ قبل اُسے جب مرگی کا دورہ پڑا تو یہ اُس کی زندگی کا پہلا دورہ تھا۔

مرگی بھی عجیب قسم کا مرض ہے۔آدمی کو پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کس دن یا کس گھڑی اِس مرض کا حملہ ہونا ہے- مرض کی اِس پیشگی جانکاری کو Aura کہاجاتا ہے۔

اسے بھی کچھ دن قبل ایسی اطلاع ہوجاتی۔جب یہ وقت آتا تو وہ نیم بسمل جانور کی طرح تڑپتا۔اُس کے مرگی کے مرض میں مبتلا ہونے کے پس منظر میں ایک عجب کہانی ہے۔ اُس کے ساتھ ایسا واقعہ ہوا کہ وہ اِس مرض میں مبتلا ہوگیا۔

وہ کبھی خداداد صلاحیتوں کا مالک تھا،اسے پتہ چل جایاکرتا تھا کہ کچھ لمحوں کے اندر چوہا باورچی خانہ کے نچلے تختے سے نکل کر سنک کے سوراخ میں جانے والا ہے۔وہ راہ پکڑکر کھڑا ہوجاتا اور چوہا نکلتا تو اُس کا ہاتھ بڑی تیزی کے ساتھ اُس کی دُم میں ہوتا۔وہ چوہا پکڑکر بلی کو دیتا اور بلی مارے حیرت کے اُسے دیکھنے لگتی۔

وہ شہر میں سفر کرتے ہوئے اُس بس سے ایک سٹاپ پہلے اتر جایاکرتا،جس بس سے اگلے سٹاپ پر راہزنی ہونی ہوتی۔اُس نے اپنے قریبی رشتہ دار کے مرنے کی پیشگوئی کی تھی۔ اُس کے متعلق بتایا تھا کہ،”دو دنوں کے بعد زندہ نہیں رہے گا۔“جب کہ مذکورہ عزیز تندرست و توانا تھا۔تقریباََ دو دنوں کے بعد اُس کی موت واقع ہوگئی۔کسی نے اُس کی پیشگوئی کو نحوست تو کسی نے اتفاق اور کسی نے بدشگونی کہا تھا۔

نحیف بدن ہونے کے باعث اُس کا ایک کاندھا جھکا ہوا اور دوسرا اوپراٹھا نظرآتا تھا۔اُس کی پسلیاں باز کے پروں کی طرح تھیں۔وہ زردرُو جوان، عمر کے تیسویں عشرے میں تھا۔ اُس کے مرگی میں مبتلا ہونے کا واقعہ اِس طرح ہے کہ ایک برس پیشتر اُسے ایک ایسی عورت کے ساتھ عشق ہواجو کسی اور کے ساتھ عشق کرتی تھی۔وہ جنوری کی چاندنی رات تھی، جب اُس نے اُس عورت کو دیکھا تو اُسے نیم کے بُور کی خوشبو آئی۔اوپر کوئی نیم کا درخت نہیں تھا۔بُور کا موسم بھی نہیں تھا۔وہ ایک خوبصورت عورت تھی۔چاندنی اُس کے چہرے سے ٹکرا کر آسمان میں چاند کا عکس بنارہی تھی۔اُس باغ کے تمام پھول بے رنگ ہوکر اُس کے لباس میں سما چکے تھے۔اُس کا روشن چہرہ اتنا معصوم تھا کہ پاکیزگی چھوٹے بچے کی طرح اُس کی چھنگلیا پکڑکر کھڑی تھی۔

وہ آگے بڑھ کر اُس کے پاس گیا اور جھک کر سلام کیا۔

”میں خادم….نسل درنسل خادم۔“ اُس نے عقیدت سے کہا،”اِس کڑکتی چاندنی میں آ پ کا روپ جھلس نہ جائے،مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ آپ کو کہیں بیٹھنے کا کہا جائے۔“

عورت تاریکی سے ایک عجیب مخلوق کو اچانک نمودار ہوتے دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی۔اُس کا ہڈیالہ چہرہ دیکھ کر اسے یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ اس کے سامنے ایک زندہ انسان اُس سے مخاطب ہے۔

”دور کھڑے رہو،“ عورت نے کہا،”قریب مت آؤ۔“

اُس کی ایسی دھمکی پر وہ نیچے جھک گیا اور اُس کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکراہٹ آگئی۔

”میں نے حسن کا ایساجلوہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“ اُس نے بائیں باچھ پونچھتے ہوئے کہا۔عورت ہاتھ ملنے لگی تو اُس کے ہاتھوں سے جگنو سے اڑنے لگے۔

”میں پریشان ہوں۔“ عورت نے کہا،”مجھے زیادہ پریشان مت کرو۔“

اُس نے اپنے آپ کو گناہ گار محسوس کیا۔

”مجھے معاف کرنا،“ اُس نے خوشامدی انداز میں کہا،”میرا ارادہ آپ کو تنگ کرنے کا نہیں۔میں تو انسان ہوں،وہ بیس قدم کے فاصلے پر موجود گھنا برگد بھی آپ پر عاشق ہوسکتا ہے۔“

عورت غصہ میں آکر چلی گئی اور گھنے برگد سے دو آنکھیں نیچے اتر کر، باغ کے بیرونی دروازے تک اُس کے تعاقب میں چلی گئیں۔

وہ عورت کسی خوشبو کی طرح اُس کے وجود میں سماگئی۔ایک منفرد خوشبو جو دنیا میں کہیں بھی سمائی ہوئی نہیں تھی۔وہ چاندنی کی خوشبو کو محسوس کرتا،جس کے سبب اُس کا چہرہ زرد تھا، لیکن عورت کی خوشبو چاندنی کی خوشبو سے بڑھ کر اثرانگیز تھی۔پیار نے اُس پر آسیب کی طرح حملہ کیا-ایک دن اُس نے غسل کیا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ بھی پانی کے ساتھ پانی ہو گیا ہے- اسے اُس کے آنے کی خبر پیشگی ہوجاتی تھی۔ ایک مرتبہ اُس کے دماغ میں چنگاری جل اٹھی کہ وہ دو دن بعد سنگ مرمر کے مقبرے کی شمالی سیڑھیوں کے پاس آنی ہے،جہاں ایک بڑا باغ ہے اور اس باغ کے چیکُو کو کوّوں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔اس باغ میں دلکش فوارے ہیں،جن کے پانیوں میں خون کی بُو ہے۔

وہ وقت کا شدت سے انتظار کرنے لگا۔اُس کے لیے دو دن دو صدیوں کے مساوی تھے۔اسے انتظار کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوئی کہ محبوب کے انتظار میں عمر طویل ہوتی ہے۔

وہ دو دنوں کے بعد اُس مزار کے شمالی سیڑھیوں کے سامنے چیکُو کے درختوں کے نیچے بیٹھ گیا۔کچھ کوّے درختوں سے اتر کر اُس کے سامنے یوں بیٹھے تھے جیسے انہیں انتظار ہوکہ اُس کا تیز دھڑکتا ہوا دل سینے سے باہر نکل کر نیچے گرپڑے گا اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے سخت لڑائی لڑیں گے- وہ موت کا فرشتہ بن کر،وقت کی سانسیں گن کر،اُس کے مرنے کا انتظار کررہا تھا- جب وقت ہواتو اُس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔اُس نے آنکھوں میں تیرتے پانیوں میں عورت کو آتے دیکھا- وہ آئی اور مزار کی شمالی سیڑھیوں کے پاس ٹھہرکر کسی کا انتظار کرنے لگی- وہ اُس کی طرف بڑھا۔اسے آتا دیکھ کر عورت چونک اٹھی اور حیرت زدہ ہوئی کہ اِس کو میرے یہاں آنے کا پتہ کیسے چلا؟

وہ ادب کے ساتھ،اپنا کُب نکالے،کندھا جھکائے اُس کے سامنے آیا اور سلام کیا۔عورت اسے نظرانداز کرکے دور دیکھنے لگی،جہاں فواروں کا پانی سیاہ پڑچکا تھا۔

”تم میرے حواسوں پر چھاچکی ہو،“ اُس نے کہا،”میں تیرے رنگ میں ڈھل چکا ہوں – میری طرف دیکھو-مجھ سے منہ مت موڑو۔“

عورت نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کی طرف دیکھا اور وہ اسے اتنا قابلِ نفرت نظر نہیں آیا،جتنا وہ اسے سمجھ رہی تھی۔

”دیکھو،بزرگ!“ عورت نے کہا،”کچھ میری عزت کا بھی خیال کرو- اس سے قبل کہ میرا پریمی یہاں پہنچے،تم یہاں سے چلے جاؤ۔“

اُس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا- وہ جیسے اپنے بس میں ہی نہ ہو۔

”میں بوڑھا نہیں ہوں،“ اُس نے کہا،”لیکن تمہارے رخساروں کی طرح ہوں،جن پر وقت کی کسی کروٹ کی کوئی شکن نہیں۔تم کس پریمی کے انتظار میں ہو- میں بھی تمہارا پریمی ہوں۔“

عورت نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ مزید بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔اُس نے اپنامنہ پھیرلیا۔وہ اسے دیکھتا رہا۔جب کافی وقت گزرگیا اور عورت کا محبوب نہیں آیا،تب وہ وہاں سے چلی گئی۔وہ اسے جاتے ہوئے یوں دیکھنے لگا جیسے روح کو اوجھل ہوتے دیکھ رہا ہو،جیسے اسے کچھ پتہ نہ ہو۔ روح کا راستہ دوزخ کی طرف ہے یا جنت کی طرف- یا پھر دونوں کے درمیان،جہاں اسے فیصلہ کا انتظار ہے۔

وہ واپس ہوا تو مایوس تھا۔لیٹا تو اُس کے ساتھ ایک اور شخص بھی لیٹ گیا،جسے اُس نے پہچاننے کی کوشش کی، لیکن پہچان نہیں پایا۔وہ دوسر ا ہنس رہا تھا،ہاں اتنا ضرور محسوس کیا کہ اُس کی ہنسی نفرت آمیزتھی۔

بہت دن ہوگئے،اُس کے ذہن پر یہ منکشف نہیں ہوا کہ وہ دوبارہ کب آنے والی ہے؟اور خوشبو کس مکان پر ہے- وہ پریشان ہوگیا اور سمجھا کہ وہ سپنے اچھے ہوتے ہیں جو سوتے میں دیکھے جائیں اور وہ نیند خراب ہوتی ہے جو سپنے میں کی جائے- آسیب کے سوپاؤں ہوتے ہیں۔عشق دل میں سوراخ کی طرح ہے- چاندنی میں رات کی رانی کی خوشبو نے اُس کے دماغ کو بیدار کردیا- اُس کے دماغ میں ڈوری کو جھٹکا لگا،اُس کا وجود ہِل کر رہ گیا۔اُس نے ہونٹوں میں کہا،”ہاں،وہ ایک دن کے بعد آنی ہے۔“

اُس نے پھر اپنے آپ سے سوال کیا،”کہاں؟“

اُس نے تصور میں دیکھا۔بندر اچھل رہے تھے۔شیر دھاڑرہے تھے۔زرافے کی گردن اتنی لمبی تھی کہ اُس نے منہ مار کر چاند کا ایک طرف کھالیا۔ست رنگی طوطے بول رہے تھے۔زیبرا کے پٹّوں پر خیال راستہ پار کررہے تھے- ہاتھی نے سونڈ اٹھاکراُس کے محبوب کو سلام کیا اور بند پنجرے سے چمپانزی نے بالٹی پانی کی بھر کراُس کے منہ پر دے ماری۔اُس کی آنکھیں کھل گئیں۔

وہ ایک دن کے بعد چڑیاگھر پہنچا۔لوگوں کے ہجوم میں اسے ڈھونڈنے لگا۔وہ اس قدیم برگد کے نیچے بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی جو دوسوبرس پرانا تھا۔اس کاتنا اس کی لٹکتی جڑوں سے مل کر ایک ہوچکا تھا۔اُس نے دور سے عورت کو دیکھا اور ٹھہر گیا۔اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی، ٹانگیں لرزنے لگیں۔وہ اُس کے سامنے جانے کی ہمت ہار بیٹھا۔اپنے دل کو تسلی دینے لگا۔ زندگی کی منزل یہی ہے،جو سامنے نظر آرہی ہے- منزل پر موت بھی واجب ہے- گھبرانا کیا؟- یہی سوچ کر وہ بڑی عاجزی اور نیازمندی کے ساتھ کُب نکالے،کندھا نیچے اوپر کرتے ہوئے،اُس کے سامنے جاکر کھڑاہوگیا۔عورت اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور مارے حیرت کے بُت بن گئی۔ جب اُس کی پیشانی پر پسینہ آیا،تب دُور سے دیکھنے والے ہاتھی کو اعتبار آیا کہ وہ پتھر کی نہیں ہے۔

اُس نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور اُس کے قریب بینچ پر بیٹھ گیا۔

”تم یہاں بھی پہنچ گئے؟“ عورت نے سوال کیا،”کیا تم نے میرے پیچھے آدمی چھوڑرکھے ہیں؟ جومیری ہر حرکت کی اطلاع تجھے دیتے ہیں۔“

وہ اُس کی اِس بات پر مسکرایا۔اُس کی مسکان اتنی پھیل گئی کہ وہ اس عورت کو مسکان محسوس نہیں ہوئی۔

”پیاری!“ اُس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا،”ہوسکتا ہے تمہارا وہ پریمی میں ہی ہوں،جس کا تم ہر بار انتظار کیاکرتی ہو؟“

عورت کو محبوب کے نہ آنے کا احساس شدت کے ساتھ ہوا،لیکن اُس کی گردن جھک گئی،تاکہ اُس کی پلکوں تک آنے والے آنسو وہ نہ دیکھ پائے۔

”اُس کا انتظار قیامت تک کروں گی،“ عورت نے اعتماد سے کہا،”وہ آئے گا،ضرور آئے گا۔“

”پرچھائیوں کا انتظار شامیں کیا کرتی ہیں،مغرب کا جھٹ پٹا انہیں ا پنے اندر سمولیتا ہے۔تم ڈوبتا سورج نہیں ہو- تم صبح ہو،جس سے سائے جنم لیتے ہیں۔“

عورت کو اُس کی باتیں اچھی لگ رہی تھیں،وہ اچھا نہیں لگ رہاتھا۔

”تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا،“ عورت نے کہا،”تم وقت ضایع کررہے ہو۔“

اُس نے ایک بار پھر مسکرانے کی کوشش کی۔اُس کی مسکراہٹ مٹّی میں دفن اُس سکے کی مانند تھی،جس پر نقش بادشاہ کی تصویر زنگ آلود ہوتی ہے۔

”مجھے کچھ نہیں چاہیے،“ اُس نے کہا،”لیکن میرے اندر کوئی ہے جو تمہیں دیکھے بنا بے چین ہے- میں وقت ضایع نہیں کررہا،بلکہ حاصل کررہا ہوں۔“

عورت سمجھ گئی کہ وہ کوئی دیوانہ ہے،جو دل کی گہرائیوں سے اسے پیار کرتا ہے- وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

”لیکن تم یہ بتاؤ؟“ عورت نے سوال کیا،”تمہیں یہ پتہ کیسے چل جاتا ہے کہ میں فلاں دن کو فلاں جگہ پر موجود ہوں گی؟“

اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔وہ گردن جھکائے کچھ دیر تک سوچتا رہا۔

”عشق شاید آسیب ہے،“ اُس نے کہا،”چمٹ جاتا ہے،جب ہاتھ پکڑکر چلتا ہے تب بے خود ہوکر اُس کے پیچھے چلنا پڑتا ہے۔“

عورت کو اُس کا جواب سمجھ میں نہیں آیا،اِس سے پہلے کہ وہ دوبارہ کچھ کہے،وہ گویا ہوا،

”پتہ نہیں ہے تم کس محبوب کا انتظار کیاکرتی ہو؟جسے تمہارے راستوں کا بھی پتہ نہیں ہے۔“

اُس کے اِس جملے پر عورت کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے،لیکن اُس نے گردن نہیں جھکائی۔وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتی رہی- جب کافی وقت گزر گیا اور عورت کا چاہنے والا نہیں آیا،تب وہ چلی گئی- اُس نے اپنی مکڑی ایسی پتلی انگلیاں چومتے ہوئے اُسے بڑی حسرت سے وداع کہا۔

اُس کی اُس عورت کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں۔اُس کے دماغ میں پیشگی بجلیاں چمک اٹھتیں اور پھر وہ بھورے بادل کا انتظار کیا کرتا۔وہ عورت کے پہنچنے سے قبل پہنچ کر اسے اپنے دل کا حال سناتا۔عورت کے دل میں اُس کے لیے ہم دردی پیدا ہوچکی تھی۔ہم دردی عشق کی ضد ہے۔کسی بھی دل میں عشق اور ہم دردی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

وہ خزاں کے دن تھے،جب عورت نے اسے ملاقات کا وقت دیا۔”ایک دن چھوڑکر دوسرے دن- ہفتہ کی شام کو۔جہاں شہر کا تاریخی قبرستان ہے اور پتھر کا پرانا چبوترہ ہے، میں اُس کے نیچے تم سے ملوں گی۔“

عورت نے جوں ہی یہ الفاظ کہے توں ہی وہ خوشی کے مارے سیدھا ہوگیا،اُس کا کُب ڈھیتے پہاڑ کی طرح زمین سے مل ایک ہوگیا۔ کندھے ترازو کے پلڑوں کی مانندتوازن میں آگئے اور اُس کی رنگت سمرقندی سیب جیسی ہوگئی۔

”تمہارے آنے کی دیر ہے،“اُس نے کہا،”میں تو ہر وقت حاضر ہوں گا۔“

خزاں کے دن،دھوپ میں کمبل اوڑھ کر بیٹھے فقیر کی طرح ہوتے ہیں۔چاند آسمان پر بہت اوپر کھلتا ہے۔چلتی میلی ہوا میں اشجار کے زردپتے ملیریا کے مریض کی طرح کانپتے رہتے ہیں۔

اُس عورت نے سوچا،اُس نے اپنے محبوب کی راہوں میں انتظار کی اذیتیں اٹھائی ہیں۔دنیا کا کوئی بھی مرد وفادار نہیں ہے- سب موقعہ پرست ہیں۔وہ اِس رویہ کا بدلہ اُس شخص سے لے گی جو آج تاریخی قبرستان پہنچ کر اُس کا انتظار کرے گا۔

وہ ایک دن چھوڑکر اگلے دن عورت کے کہے مطابق شہر سے دور اس تاریخی قبرستان پہنچا،جہاں فلیٹوں ایسی قبروں پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔کچھ دوری پر ایک سنگی چبوترہ تھا اور اُس کے فرش کی اینٹیں وقت کی ستم ظریفی کے نتیجے میں گَل چکی تھیں۔وہ چبوترے کے نیچے کھڑا ہوکر اُس کا انتظار کرنے لگا۔جب کافی وقت گزر چکا اور سورج مغرب کی طرف ہوچلا،تب دھوپ چبوترے کی کمان سے ہوکر اُس کے وجود پر پڑنے لگی اور اُس کا سایہ طویل ہوکر عورت کو ڈھونڈتا ہوا اُن راستوں تک چلاگیا،جہاں سے اُس نے آنا تھا۔

اُس نے سوچا،وہ وہاں دل کے کہنے پر نہیں بلکہ عورت کے کہنے پر آیا تھا۔یہ سوچ کر وہ بجھ گیا اور مایوس ہوکر چبوترے کے ناہموار فرش پر بیٹھ گیا اور سر کودونوں ہاتھوں میں پکڑلیا۔

اچانک اُس کے دماغ میں چنگاری جل اٹھی۔وہ آرہی ہے،اُس کے جسم سے نکلنے والی رات کی رانی کی خوشبو تاریکی سے مل کر ایک ہوگئی ہے۔اُس کے جسم سے اُبھرنے والے پسینے کے بخارات ذہن کو بیدار کرنے والے بام کی مانند ہوگئے ہیں۔اُس نے محسوس کیا۔وہ قبرستان کے دروازے سے گزر کر اُس قبر کے پاس پہنچی ہے، جس میں شہید، باپ اور بیٹا،دفن ہیں۔اُس نے دیکھا کہ عورت کے گلابی کپڑے گیروے ہوچکے ہیں۔وہ چلتی چلتی اُس نَلکے کے پاس پہنچی ہے،جہاں سے لوگ پانی بھرکر قبروں پر چھڑکاؤ کرتے ہیں۔اُس کے پاؤں مور کے پیروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔بیدمشک کے جھڑے ہوئے زردپتوں کو آگ لگ گئی اور دھواں پھیل گیا۔اُس نے دیکھا کہ ہرنی کی پچھلی ٹانگوں پر شیر کے پنجوں کے نشان ہیں،وہ لڑکھڑارہی ہے۔اداس ہرن کی ناف سے مشک کی بُوآرہی ہے۔اُس نے سوچا،وہ سنگی چبوترے میں اُس کے پاس پہنچ گئی ہے- اُس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اُسے مرگی کا دورہ پڑگیا۔

وہ اُس کی زندگی کا مرگی کا پہلا دورہ تھا،پھر اسے دوچار دن پہلے ہی پتہ چل جاتا کہ مرگی کا اگلا دورہ کب پڑنے والا ہے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*