ہڑپہ

چناں نے سوچا یہ جو بالی کو چاءبسکٹ اور کوکے کولے پلاتے ہیں کتنے گندے کالے بھتے، باآواز گندی ڈکاریں مارنے والے، دھوتیوں میں کھجانے والے، جن کے جسموں کی بدبو اور سانسوں کے تعفن میں بالی نجانے کیسے کھایا پیا ہضم کر لیتی ہے۔ ایک وہ آریا جس کی آنکھوں سے شہتوت کی گولہوں سا رنگ رس ٹپکتا ہے۔ جس کی گردن شیش ناگ کے پھن سی اکڑی ہے۔ جس کے قدم مشکی گھوڑے کی ٹاپوں سے پڑتے اور چنگاریاں اُڑاتے ہیں۔

جس کا نام رشید خان ہے۔ یہ سارے ماہنے، چھبے، بگے، کالے بھتے، نیچ اور حقیر مخلوق۔ مٹی کی دراڑوں میں سے لقمے چننے والے۔
وہ تو پورا رشید خان جسے افسر بھی خان نیازی کہتے ۔ گورے مسٹر کہہ کر بلاتے ہیں۔ اگر یہاں کوئی دوسرا رشید ہوتا تو وہ کب کا شیدا بن چکا ہوتا۔ شیدا پہرے دار۔ چھیدا ماچھی، شیدی نائی، چھیدو موچی۔
یہ تو رشید خان صاحب ہے، آریا صاحب، آریا خان صاحب۔ اگر وہ بھاگی بھی تو لوگ کہیں گے خان نیازی چنی کو بھگا لے گیا۔ بالی کی طرح کوما منیاری والا نہیں۔
اُس کے ساتھی پہرے دار تو سارے چھبے، ماہنے، کالے، بگے لیکن یہ سارے کالے بگے اسے خان نیازی کہہ کر پکارتے تو چنی کی گردن فخر سے اکڑ جاتی جیسے اُس کا نام چنی سے چاند بی بی ہو گیا ہو۔ بلکہ چاند نیازی ہو گیا ہو۔ اتنے سارے پہرے داروں میں سے یہ عزت صرف اسی کو کیوں ملتی تھی۔
نجانے اُس میں ایسا کیا تھا کہ اس کے نام کو بگاڑنے یا تصغیر کرنے کی جرا¿ت کسی بڑے افسر کو بھی نہ ہو پائی تھی۔ بالی تک کو نہ ہو پاتی، وہ بھی چھیدو شیدا کی بجائے نیازی ہی کہتی۔
جو دن بھر آوازے لگاتی رہتی تھی۔
اوئے چھوٹے کو کے کولے پلا پلا کر نرا ٹھنڈا ٹھار کر دیا ذرا کڑک سا دودھ پتی لا۔ ساتھ میں نائیس بسکٹ بھی ۔بل چاچے چھبے کے کھاتے میں ڈال دے۔
چھبا تیورا کو اُٹھتا۔ دھوتی کے بل کھل کھل جاتے۔ وہ دونوں ڈب اُڑستے ہوئے غصے اور خوشی سے جھولتا۔
”نہ میری ماں تو میرے باپ کے گھر میں بستی ہے۔“
”نہ تیرا باپ مجھے بسانے کے قابل ہے کیا۔“
کینٹین سے اُٹھنے والے قہقہوں کی گولیوں سے کینٹین پر سایہ فگن صدیوں پرانے ون کی ہر ہر شاخ سے پرندوں کے پرے ساں ساں کی آوازوں سے اُڑتے۔
اچھا ماہنے کے حساب میں ڈال دے۔
جھنڈ کے چھتناروں سے کوئل کوکنے لگتی، جو کبھی نظر نہ آتی شاید اُس کی آواز کا سحر اسی پوشیدگی میں ہے۔ بالی سیاہ ناگن گت کمر پریوں پٹختی جیسے ماہنے کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو۔
”رجتی ہی نہیں بچھڑی چار پہر چرتی ہے جیسے گھوڑی چرتی ہے۔“ ماہنے نے گت کے سیاہ ناگ کو ہاتھوں سے تھپتھپایا۔ درختوں کی گپھا میں لال گانی والے طوطے چونچیں لڑانے لگے۔ ساون کا پہلا پہلا بادل کڑکا اور چھینٹوں کا پہلا جل ترنگ جھنڈ نے سہارا۔ بالی نے گھوم کر گت کا تازیانہ ماہنے کے چہرے پر برسایا وہ چوٹ کھا کر آنکھ سہلانے لگا۔ ”اللہ کی قسم لگی ہے۔ اچھی بھلی لگی ہے۔“ دس روپے کا خرچہ نہیں اور ہزاروں کی بات لگا گیا کنجر۔ رکھ اپنا سب کچھ اپنے پاس۔
جھنڈ پر کن من تیز ہو گئی پرندے ڈالوں پر اُترنے لگے۔ گھونسلوں میں بوٹ چہکنے لگے۔
” چل کالے کے حساب میں ڈال دے۔ بگے کے حساب میں یا نیامتے کے حساب میں اپنے حساب میں ہی ڈال دے“۔ جھنڈ تلے رات پڑ گئی تھی چولہوں کے کوئلے اور لانبے لشکنے لگے۔ کالے نے راجامنو ٹپکنے لگے۔ آسمان نے پورا منہ کھول کر کھنڈروں کے جلتے بدن پر ٹھنڈے پاہے رکھ دیے۔ بوندیں پتوں سے چھن چھن چھتنار میں ٹپکنے لگیں۔ بالی نے لَے اُٹھائی۔ نکی کنی نکی اور کنی کیوں لائی او بدلا نکی کنی۔ مردوں نے میز بجا کر تال دی۔ تبھی شرابور وردی میں خان نیازی چھتنارے میں داخل ہوا۔ پورا ماحول ساکت ہو گیا۔ بس بارش کی کن من اور گیلے بالوں سے جھانکتی کشادہ پیشانی پر چمکتے بارش کے قطرے۔
بالی سر ڈھک کر بیٹھ گئی اور وہ جوتے جو سارا دن اچھال اچھال کر مردوں کی کمر کا نشانہ لینے کے لیے ہی شاید وہ ساتھ رکھتی تھی وہ دونوں پیروں میں اڑوس کر بی بی بن کر بیٹھ گئی۔ را طوطے گانے لگے۔ ہدہد پھدکنے لگا۔ بیا اپنے محل سے جھانکنے لگی۔ درختوں کے تنوں کے گرد بیربہوٹیوں کے ڈھیر لگ گئے۔ پتوں کے جھنڈ میں کہیں کوکتی کوئل دیوانی سی ہو گئی۔ بارش سے نہاتا جھنڈ۔ شرابور خان نیازی کسی کرشنا سا چند ثانیے ماحول کا جائزہ لیتا رہا۔ چند لمحے پہلے پڑی کھچکلی سہم گئی تھی۔
چھوٹا ،ہاتھ دھو کر دھجی سے پونچھتا بھاگتا ہوا چلا آیا۔ جیسے اُس سے ہاتھ ملا کر وہ معتبر ہو جائے گا۔
خان صاحب سوڈا کہ چائے۔
کینٹین کا مالک سلام کرنے کو اپنی نشست سے نیچے اُتر آیا۔ جیسے نیازی نے کچھ نہ چکھاتو اُس کا ڈھابا بند کر دیا جائے گا۔
”خان صاحب آج تو چائے پکوڑوں کا موسم ہے۔ کبھی ہمیں بھی عزت بخشیں۔“ وہ بس سلام کا جواب دیتا۔ اپنی گمبھیر چپ کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پر لوٹ گیا۔
سارا ماحول اُس کے وجود سے یکبارگی تبدیل ہو گیا تھا۔ اب واپس اپنے قالب میں لوٹنے لگا۔
سب سے پہلے بالی کے حلق میں پھنسا ہوا قہقہہ ابلا۔
”اری چنی تو تو ماری گئی۔ وہ مجھ اونچی لمبی گوری چٹی کو مڑ کر نہیں دیکھتا۔ تو تو ویسے ہی اُس کی پنڈلی کی سیدھ تک ہے۔ تو تو اس کی نظروں کے لیول پر بھی نہیں آتی۔ اتنا سر جھکا کر دیکھنے کی تو اسے عادت بھی نہیں لگتی۔ تو تڑپ چوھیا کتنا اچھلے اُس کے سینے تک نہیں پہنچ سکتی۔
لیکن چنی تو آریا خان کے کھرے پر کھرا دھرتی دھوتی کا ٹوٹا کمر سے کستی ہوئی نجانے کب کی نکل گئی تھی۔ شاید ماحول کے واپس اپنی جون میں آنے سے بھی پہلے۔ پتھروں میں جان پڑنے سے پہلے کیونکہ وہ پتھرانے والے مرحلے کو شکست دے چکی تھی۔ وہ سوچتی تو مرد ہے اور میں عورت اس کے درمیان کچھ حائل نہیں ہوتا۔ نہ شکل نہ قد کاٹھ، نہ عقل نہ حیثیت اہمیت ۔ عورت اور مرد خود سب سے بڑی وجہ اور ایک حقیقت۔
جڑی ہوئی بھنویں اور دھوپ میں جل جل رنگ اُڑی جٹائیں، گڈوں بھری چندھی آنکھیں اور سنک ابلتی پھینی ناک، راب میں سنی باچھیں، میل کی مروڑیاں چڑھی انگلیاں، جن کے بڑھے ہوئے ناخن میل سے اَٹے، ماس میں دھنسے راکھ رنگے ناخن ۔ کریری جمے دانتوں کی تیز نوکیں جن سے وہ سب کتر ڈالتی تھیں۔ وہ جو شروع دنوں میں آریا کی خاطر خود کو سک سرمہ کر کے رکھتی تھی۔ شاید وہ حربہ ناکام ہونے پر خود سے ہی بدلہ چکارہی تھی اور اپنی بھا اُڑا رہی تھی۔
کھرے پر کھرا دھرتی چلی جاتی تھی کہ شاید ابھی کوئی سیاح خان نیازی سے سوال کرے۔
کیا ہڑپہ کی پرانی مخلوق کی باقیات ابھی بھی۔۔۔
تو پھر آریا خان کو اس کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ وہ منہ موڑ کر دیکھے گا تو وہ مثال پیش کرنے کو موجود ہو گی۔
کھنڈروں سے بہت نیچے ہل بیل روک کر کسان کھاناکھا رہے تھے۔ موٹی موٹی تنوری روٹیوں پر مکھن کی گولیاں پگھل رہی تھیں۔ کٹی ہوئی لال مرچ گڑ کی بھیلیاں اور پیاز کے گنڈے پوٹلی میں بندھے ہوئے، ٹھنڈی کچی لسی سے بھری ہوئی کجیاں جن پر اُسی طرح کے نقش لکھے تھے جیسے ظروف ہڑپہ کی الماریوں میں سجے ہیں۔
چناں کو معلوم تھا کہ یہ جو لال نیلی کنی والی لنگی اور پیلے زرد بھوچھن والیاں چاندی کے چوڑے کھنکھناتی ہالیوں کے گرد مورنی سی پیلیں ڈالتی ہیں تو یہ ابھی پٹیں گی۔ نو عمری کا تازہ خون اور گوشت سے بھرے چہرے جو سانولی جلد میں سے سلفے کی طرح بھخ رہے ہیں ابھی نیلو نیل ہو جائیں گے۔ ٹاہلی کے انگارے کی طرح لاٹیں مارتے بدن ابھی لاتوں گھونسوں سے سوج پوج جائیں گے۔
پیلیوں میں روٹی لے کر جانے والی یہ نوبیاہتا چہرے بازوو¿ں پر اگر تھپڑوں کے نیل، گھونسوں، لاتوں کی سوجن لے کر واپس نہ لوٹیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا مرد نامرد ہے۔ ان کے درمیان میاں بیوی والا رشتہ قائم ہی نہیں ہوا۔ یہ سوجنیں اور نیل نوبیاہتا کو شادی کے پہلے پہلے تحفے کے طور پر ملنے ضروری ہیں اور وہ بھی فخر سے ایک ایک کو دکھاتی تھی ورنہ کسی کو یقین آتا کہ وہ روز نہانے والی ہوتی ہے۔ بیوی کا شوہر سے پٹنا اس معاشرت میں اتنا ہی ضروری تھا جتنا ضروری مباشرت۔ پندرہ سولہ برس کا دولہا اُٹھارہ انیس برس کی دلہن کو اگلے روز کھیت سے اگر سوجا پوجا کر واپس نہ بھیجے تو وہ جوان ہی نہ سمجھا جائے گا۔ جس کی ابھی مسیں ہی بھیگ رہی ہوتیں، کم خوراک اور کمزور جینز کے تسلسل میں داڑھی تو بہت دیر بعد آتی۔ لیکن شہوت بچپن سے ہی جاگ اُٹھتی اور ساتھ کھیلنے والی بچیوں پر سارے تجربات وہ پہلے ہی کر چکا ہوتا۔
بالی انہیں پٹتے ہوئے دیکھتی تو سوڈے کی خالی بوتلیں ٹھرکی بوڑھوں کی پیٹھ میں نشانہ کر کر کے قہقہے لگاتی۔ جیسے سامنے پٹتی ہوئی کا بدلہ لے کر عجب طمانیت محسوس کرتی ہو۔
بوڑھے مرد کراہتے جیسے بوتل نہیں خود بالی اُن کی پیٹھ کے بیچوں بیچ آن ٹھکی ہو۔ اس چوٹ کے بدلے میں بالی کو بھرپور نظروں سے گھورنے کا جواز وہ حاصل کر لیتے اور بنا مباشرت ہی فراغت پا لیتے۔
ہرروز بالی ایک نئی چھب لے کر نکلتی تھی۔ کبھی لاچا کرتا ، کبھی شلوار قمیض اور کبھی کبھی تو شہری طرز کا پتلون نما پائجامہ شرٹ پہنے ہوتی۔ کبھی سرخ پیلے پھندنوں والا لمبا پراندہ۔ کبھی کھلے بال کبھی اونچا پونی ٹیل۔ کبھی بالوں کی گھٹائیں۔
جن میں شانوں سے گھٹنوں کے بغلی گڑھے تک چھپ جاتے اور دیکھنے والے یوں تڑپنے لگتے کہ جیسے سانپ کا ڈسا پانی مانگتا ہو۔
ان کی بیویاں، بدبودار تہ بند اور مہینوں کے ان دھوئے چیکٹ بال۔ پائیریا زدہ دانتوں سے چھٹی تیورا دینے والی بدبو، کبھی مسواک نہ کیے ہوئے بیمار مسوڑھے۔ خوراک کی قلت سے چہرے کا سوکھا ہوا چمڑا، مسوڑھوں کو ڈھانپنے سے بھی قاصر رہتا ۔ سامنے کے دو دانت کتلیوں کی طرح زرد بے جان ہونٹوں سے باہر نکلے ہوئے اور باقی کرچیوں اور ٹوٹوں کی صورت مسوڑھوں میں دھنسے کریڑے اور سیاہ میل سے اَٹے ہوئے۔ قبل از وقت جھریوں سے چڑمڑ چہرے، باریک لکیروں سے اَٹے ہوئے کہ موٹی سلوٹوں کے لیے گوشت ہی ناپید تھا۔ سپاٹ سینے مردوں کو بھی شرمندہ کرتے درمیانی ہڈی کہان کی طرح باہر کو ابھری ہوئی۔ سارا ماس گوشت جو چھلک چھلک پڑتا تھا کبھی جیسے چیلوں نے نوچ کھایا ہو۔ ہونٹوں کی قوس مسمار ہو چکی تھی۔ ڈیلے سیاہ حلقوں کے کنویں میں اُترے ہوئے یہ وہی تھیں کہ چلتیں تو بلیاں ان کی ریس کرتیں۔ ٹھہرتیں تو مورنیاں مڑ مڑ کر دیکھتیں۔ تپ دق کا دیہی مرض دو چار بچوں کی پیدائش کے دورانیہ میں پھیپھڑے ہی چھلنی نہ کرتا پورا وجود بھی کھوکھلا کر دیتا ۔بالی نے نہ جنا تھا نہ کھری تھی۔
لیکن یہ اگلے سات آٹھ برس مزید سات آٹھ پیدا کرتیں اور ختم ہو جاتی۔ جیسے چیلوں کوو¿ں نے نوچ نوچ سب اُڑا لیا ہو اور خالی ہڈیاں کڑ کڑنے کو چھوڑ دیں ہوں۔ بھرویں ہونٹوں کی قوسیں مسمار ہو چکی ہوتیں۔ منہ کھولتیں تو پتہ چلتا کہ پائیریا زدہ دانتوں کی کرچیوں پر ہونٹوں کا غلاف چڑھا ہے۔ لگتا رخساروں کی ہڈیاں سیاہ مردہ جلد کو پھاڑ کر باہر نکل جائیں گی۔ ڈیلے سیاہ حلقوں کے کنوو¿ں میں خالی بوکوں سے اُتر جاتے۔ سینے اتنے سپاٹ کہ مردوں کو شرمائیں۔ بس نپل ڈھلکے رہ جاتے جنہیں ہر وقت کوئی کتورا چوستا رہتا۔ پتہ نہیں اس سوکھے ہوئے مردہ چمڑے سے دودھ کی نہر کیسے بہتی تھی۔
شدید کمزوری سے سینے کی ہڈی بیچ میں سے ابھر کر آگے بڑھ آتی۔ سینے کے ابھار کہیں پیچھے دفن ہو گئے تھے۔ غلیظ بچوں کے پیشاب اور پاخانوں میں لپٹی ہوئیں بدبودار۔
اگر یہ سارے مرد بالی کو دیکھ دیکھ خوش ہوتے تو بالی کتنا نیکی کاکام کر رہی تھی کہ آنکھیں اور ناک بند کرکے اپنی بیویوں کی ننگی ہڈیوں پر جسم کی مجبوری کو موت کر بھاگ نکلنے والوں کو دیکھنے اور سونگھنے کی تسکین فراہم کرتی تھی۔ وہ صرف دیکھتے رہنے کی طمانیت میں بالی کے بل ادا کرتے تھے۔ اگر بالی یہ نیک کام نہ کرتی تووہ ایک دوسرے کو وڈ ڈالتے اور بیویوں کو روز طلاقیں تھوکتے۔ بالی کتنے آتش دانوں کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا نیک کام کررہی تھی۔
بالی اُنہیں جانور سے انسان بننے کا موقع فراہم کرتی تھی کہ وہ صرف جسم کی بجائے آنکھیں، ناک، کان اور دل کا اعتبار بھی حاصل کر سکتے تھے۔ وہ دیکھ سونگھ کر مسحور ہو سکتے تھے۔ ایک صحت مند صاف ستھری خوبصورت عورت اُن کے دل میں خوشی کی طرح پھوٹتی تھی۔ اگر بالی نہ ہوتی تو یہ سب اجڈ وحشی پاگل ہو جاتے۔ یہ بالی ہی تھی جو انہیں اپنی حد میں رکھتی تھی۔کتنا نیکی کا کام کررہی تھی بالی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*