کانفرنس برائے انسانی حقوق

کانفرنس کا موضوع تھا
’’انسانی حقوق’’
’’ میرا شوق ہاتھ تھام کے لے اڑا ’’
انسانی حقوق ’’ کی محفل میں معززین کا ہجوم تھا
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی نشستوں پر بیٹھی میں
اور میری نادانی
ہر تقریر ہر مقالے میں
ا نہیں ڈھونڈتی رہی
جو انسان کی شکل کے تو ہوتے ہیں
مگردراصل انسان ہوتے ہی نہیں
لہذا ان میں سے کوءی بھی
اس محفل میں شریک نہیں تھا
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانفرنس انسانی حقوق کے موضوع پرتھی
کمبخت ذہن پھربھی
سوال پرسوال اٹھاتا رہا
کونسے انسانوں کے حقوق ؟
وہ جو ہماری سڑکوں پر
پیدا ہوتے ہیں اور
وہیں کسی کونے میں ٹھٹھرتے ہوئے مرجاتے ہیں؟
یا ان انسانوں کے حقوق
جو کوڑے پر کتے بلی کے ہمراہ
جسم کو بھنبھوڑتی
بھوک سے نڈھال
ایک ٹکڑا روٹی کا ڈھونڈتے ہیں؟
اوراگر
ایک ٹکڑا مل جائے تو
کوڑے کا شکرانہ ادا کرتے ہیں ؟
یا پھران انسانوں کے حقوق
جو ہمارے گھروں میں
ہمار ی ہر دھتکار پر
ہاتھ جوڑ کے زمیں پر دوزانو
ہماری اس دھتکار کو احترام پیش کرتے ہیں؟
یا پھر ان انسانوں کے حقوق
جو خود پر تالیا ں بجا کے
خدا کی حمد گائیں
تو ہم نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں ؟
یا پھر وہ نا پاک نیچ ذات انسان
جنکا ایک نام دراوڑی بھی ہے ؟
ہمار ے ارد گرد ان جیسے ہی
نجس نا پاک ان جانوروں کی بھیڑ ہے
جو دیکھنے میں انسان لگتے ہیں
اور انکے حقوق کا سات خون معاف ہے ہم پر
اس لئے کانفرنس میں انکا کوئ ذکرنہیں آیا
کانفرنس بہت بڑے حال میں
بہت بڑے بڑے لوگوں کے درمیاں
بڑی بڑی باتوں پرہوءی
جس میں بہت سمجھ دار
تالیاں بجانے والے حسب معمولا شریک ہوءے
اور انسانوں کے حقوق پرقرادادیں منظورہوءیں
لہذا کانفرنس بہت کا میاب رہی
تالیاں بجانے والوں نے
کھڑے ہوکے تادیر تالیاں بجائیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*