اعلانِ وفا

 

مُجھے تو یہ لگتا تھا
کہ تم بے قیمت ہو
کہ ترے مہر و وفا کے
کوئی نہ دام بھر سکتا
معلوم نہ تھا کہ
کھنکھناتے سِکوں کے
دو ٹکوں میں بِک جاو گی
رُخساروں کی سُرخی
مدہوش جوانی
لبوں کی لالی
زلفوں کا سایہ
باہوں کا قاتل گھیرا
دو ٹکوں کے دام پہ
بکتے چلے جائیں گے

بولیاں کسی جائیں گی
یوں نہ سوچا تھا میں نے

میں توسمجھتا تھا کہ
میرے لہو کا ہر اک قطرہ
میری جاں کا ہر اک ذرہ
تیری پُرکیف بانہوں میں
اک مسکراہٹ پہ قربان ہو جائیں
چاہتا تھا کہ میری حیثیت میں
جو کُچھ ہے مری جان!
سب کُچھ تیرے ایک ہی
شیریں بول پہ قربان ہوں

لیکن

آج تم کتنی بے قدری سے
مسکراہٹ کے پُھول گرائے جاتی ہو
تیری مُسکراہٹ تیرے بول
دو ٹکوں میں بِک رہے ہیں
میں تو کہتا تھا تیری ناز اور ادائیں
میرے سر آنکھوں پہ رہیں
میں تو کہتا تھا کہ اے دوست
وفا سے تو آشناء نہیں
بے وفا کہتا تھا اسلئے کہ
شاید تجھ میں وفا آجائے
لیکن تجھ سے اب وفا کی
کیا اُمید رکھوں اے دلبر
کہ میری دوست نہ رہی تم
اب زمانے کی ہو دوست
تیری کھلکھلاتی ُمسکراہٹ
اب اس زمانے کےلئے ہیں

اب کے میں پشیمان نہیں
تو اب بے قدر ہوچکی ہے
اب کے میں تُجھے بے وفا نہیں کہتا
اب تو اتنی کم قیمت ہوچکی ہے
کہ کھنکتے سکوں کا دام دے کر
کوئی بھی تری دوستی و محبت
خرید سکتا ہے

ہے کوئی جو اشک و درد کے نالوں سے
تیری بولی دے ، تیرا خریدار بنے؟
اشک و درد کے نالوں سے بھلا
کب ایسے سودے ہوتے ہیں
کوئی تو ہو جوآہوں سے دامن بھر کے
سرِ بازار ترے دام بھرے؟
وہ دن بھی آئیگا لیکن
خبر نکلے گی یہ اعلان ہوگا
لوگ جیبیں بھر بھر کے
بولی لگانے آئے تھے
کوئی دام نہ دے پایا
کیونکہ اُس دن کو عطؔا
اشکوں و آہوں سے پاگیا
تیری بے دام مُحبت
تیرے رُخساروں کی سُرخی
مدہوش جوانی
لبوں کی لالی
زلفوں کا سایہ
اور تری باہوں کا
قاتل گھیرا ۔۔۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*